ابن شہاب کہتے ہیں مجھ کو ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے یہ روایت نقل کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے رک جانے کے زمانے کے حالات بیان فرماتے ہوئے کہا کہ ایک روز میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک میں نے آسمان کی طرف ایک آواز سنی اور میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے بیچ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں اس سے ڈر گیا اور گھر آنے پر میں نے پھر کمبل اوڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس وقت اللہ پاک کی طرف سے یہ آیات نازل ہوئیں۔ «يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ * قُمْ فَأَنذِرْ * وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ * وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ * وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ *»”اے لحاف اوڑھ کر لیٹنے والے! اٹھ کھڑا ہو اور لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑوں کو پاک صاف رکھ اور گندگی سے دور رہ۔“ اس کے بعد وحی تیزی کے ساتھ پے در پے آنے لگی۔ اس حدیث کو یحییٰ بن بکیر کے علاوہ لیث بن سعد سے عبداللہ بن یوسف اور ابوصالح نے بھی روایت کیا ہے۔ اور عقیل کے علاوہ زہری سے ھلال بن رداد نے بھی روایت کیا ہے۔ یونس اور معمر نے اپنی روایت میں لفظ «فُؤَادُهُ» کی جگہ «بَوَادِرُهُ» نقل کیا ہے۔
Ibn-e-Shihaab kehte hain mujh ko Abu Salamah bin Abdur Rahman ne Jabir bin Abdullah Ansari Radhiallahu Anhuma se yeh riwayat naql ki ke Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne Wahi ke ruk jaane ke zamaane ke halaat bayan farmaate huwe kaha ke ek roz main chala jaa raha tha ke achaanak main ne aasman ki taraf ek aawaaz suni aur main ne apna sar aasman ki taraf uthaaya kya dekhta hun ke wahi farishta jo mere paas Ghaar-e-Hira mein aaya tha woh aasman-o-zameen ke beech mein ek kursi par baitha huwa hai. Main us se darr gaya aur ghar aane par main ne phir kambal odhne ki khwahish zahir ki. Us waqt Allah paak ki taraf se yeh aayaat naazil huen. Aye lihaaf odh kar letne waale! Uth khada ho aur logon ko azaab-e-ilaahi se dara aur apne Rabb ki badaayi bayan kar aur apne kapdon ko paak saaf rakh aur gandagi se door reh. Us ke baad Wahi tezi ke saath pe-dar-pe aane lagi. Is Hadees ko Yahya bin Bukair ke alawah Laith bin Sa’d se Abdullah bin Yousuf aur Abu Saleh ne bhi riwayat kiya hai. Aur Uqail ke alawah Zohri se Hilal bin Raddad ne bhi riwayat kiya hai. Younus aur Ma’mar ne apni riwayat mein lafz «فُؤَادُهُ» ki jagah «بَوَادِرُهُ» naql kiya hai.
Narrated Jabir bin 'Abdullah Al-Ansari while talking about the period of pause in revelation reporting the speech of the Prophet "While I was walking, all of a sudden I heard a voice from the sky. I looked up and saw the same angel who had visited me at the cave of Hira' sitting on a chair between the sky and the earth. I got afraid of him and came back home and said, 'Wrap me (in blankets).' And then Allah revealed the following Holy Verses (of Quran): 'O you (i.e. Muhammad)! wrapped up in garments!' Arise and warn (the people against Allah's Punishment),... up to 'and desert the idols.' (74.1-5) After this the revelation started coming strongly, frequently and regularly."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 1, Number 3
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4
´ وحی کی ابتداء ` «. . . أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ، قَالَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ، فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ: بَيْنَا أَنَا أَمْشِي إِذْ سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ بَصَرِي، فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَرُعِبْتُ مِنْهُ فَرَجَعْتُ، فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: " يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ [1] قُمْ فَأَنْذِرْ [2] " [سورة المدثر آية 1-2] . . .» ”. . . جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے یہ روایت نقل کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے رک جانے کے زمانے کے حالات بیان فرماتے ہوئے کہا کہ ایک روز میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک میں نے آسمان کی طرف ایک آواز سنی اور میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے بیچ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں اس سے ڈر گیا اور گھر آنے پر میں نے پھر کمبل اوڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس وقت اللہ پاک کی طرف سے یہ آیات نازل ہوئیں۔ اے لحاف اوڑھ کر لیٹنے والے! اٹھ کھڑا ہو اور لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرا اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر . . .“[صحيح البخاري/كِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ/(بَابٌ:): 4]
لغوی توضیح: «فَتْرَةِ الْوَحْيِ» وحی کا انقطاع، رک جانا۔ «فَرُعِبْتُ» میں گھبرا گیا۔ «الْمُدَّثِّرُ» چادر اڑھنے والا۔ «فَحَمِيَ» تیز ہو گئی، زیادہ ہو گئی۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 100
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4
´ابتدائے وحی کے متعلق` «. . . قَالَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ، فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ: بَيْنَا أَنَا أَمْشِي إِذْ سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ بَصَرِي . . .» ”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کے رک جانے کے زمانے کے حالات بیان فرماتے ہوئے کہا کہ ایک روز میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک میں نے آسمان کی طرف ایک آواز سنی اور میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے بیچ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے . . .“[صحيح البخاري/كِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ: 4]
تشریح: «بوادر»، «بادرة» کی جمع ہے۔ جو گردن اور مونڈھے کے درمیانی حصہ جسم پر بولا جاتا ہے۔ کسی دہشت انگیز منظر کو دیکھ کر بسا اوقات یہ حصہ بھی پھڑکنے لگتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ اس حیرت انگیز واقعہ سے آپ کے کاندھے کا گوشت تیزی سے پھڑکنے لگا۔
ابتدائے وحی کے متعلق اس حدیث سے بہت سے امور پر روشنی پڑتی ہے۔ اوّل منامات صادقہ (سچے خوابوں) کے ذریعہ آپ کا رابطہ عالم مثال سے قائم کرایا گیا، ساتھ ہی آپ نے غار حرا میں خلوت اختیار کی۔ یہ غار مکہ مکرمہ سے تقریباً تین میل کے فاصلہ پر ہے۔ آپ نے وہاں «تحنث» اختیار فرمایا۔ لفظ «تحنث» زمانہ جاہلیت کی اصطلاح ہے۔ اس زمانہ میں عبادت کا اہم طریقہ یہی سمجھا جاتا تھا کہ آدمی کسی گوشے میں دنیا و مافیہا سے الگ ہو کر کچھ راتیں یادِ خدا میں بسر کرے۔ چونکہ آپ کے پاس اس وقت تک وحی الٰہی نہیں آئی تھی، اس لیے آپ نے یہ عمل اختیار فرمایا اور یادِ الٰہی، ذکر و فکر و مراقبہ نفس میں بالقائے ربانی وہاں وقت گزارا۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو تین مرتبہ اپنے سینے سے آپ کا سینہ ملا کر زور سے اس لیے بھینچا کہ بحکم خدا آپ کا سینہ کھل جائے اور ایک خاکی و مادی مخلوق کو نورانی مخلوق سے فوری رابطہ حاصل ہو جائے۔ یہی ہوا کہ آپ بعد میں وحی الٰہی «اقرا باسم ربك» کو فرفر ادا کرنے لگے۔ پہلی وحی میں یہ سلسلہ علوم معرفت حق و خلقت انسانی و اہمیت قلم و آداب تعلیم اور علم و جہل کے فرق پر جو جو لطیف اشارات کئے گئے ہیں، ان کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، نہ یہاں گنجائش ہے۔ ورقہ بن نوفل عہد جاہلیت میں بت پرستی سے متنفر ہو کر نصرانی ہو گئے تھے اور ان کو سریانی و عبرانی علوم حاصل تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی وفات پر ان کو جنتی لباس میں دیکھا اس لیے کہ یہ شروع ہی میں آپ پر ایمان لا چکے تھے۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے آپ کی ہمت افزائی کے لیے جو کچھ فرمایا وہ آپ کے اخلاق فاضلہ کی ایک بہترین تصویر ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے عرف عام کے پیش نظر فرمایا کہ آپ جیسے ہمدرد انسانیت بااخلاق ہرگز ذلیل و خوار نہیں ہوا کرتے۔ بلکہ آپ کا مستقبل تو بےحد شاندار ہے۔ ورقہ نے حالات سن کر حضرت جبرئیل علیہ السلام کو لفظ ”ناموس اکبر“ سے یاد فرمایا۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ شرح بخاری میں فرماتے ہیں: «هو صاحب سرالوحي والمراد به جبرئيل عليه الصلوة والسلام واهل الكتاب يسمونه الناموس الاكبر» یعنی یہ وحی کے رازداں حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں جن کو اہل کتاب ”ناموس اکبر“ کے نام سے موسوم کیا کرتے تھے۔ حضرت ورقہ نے باوجودیکہ وہ عیسائی تھے مگر یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام لیا، اس لیے کہ حضرت موسیٰ ہی صاحب شریعت ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام شریعت موسوی ہی کے مبلغ تھے۔ اس کے بعد تین یا اڑھائی سال تک وحی کا سلسلہ بند رہا کہ اچانک مدثر کا نزول ہوا۔ پھر برابر پے در پے وحی آنے لگی۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو دبایا۔ اس کے متعلق علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ «وهذا الغط ليفرغه من النظر الي امور الدنيا ويقبل بكلية الي مايلقي اليه وكرره للمبالغة واستدل به على ان المودب لايضرب صبيا اكثر من ثلاث ضربات وقيل الغطة الاوليٰ ليتخليٰ عن الدنيا والثانية ليتفرغ لما يوحي اليه والثالثة للموانسة»[ارشاد الساری 63/1] یعنی یہ دبانا اس لیے تھا کہ آپ کو دنیاوی امور کی طرف نظر ڈالنے سے فارغ کر کے جو وحی و بار رسالت آپ پر ڈالا جا رہا ہے، اس کے کلی طور پر قبول کرنے کے لیے آپ کو تیار کر دیا جائے۔ اس واقعہ سے دلیل پکڑی گئی ہے کہ معلّم کے لیے مناسب ہے کہ بوقت ضرورت اگرمتعلّم کو مارنا ہی ہو تو تین دفعہ سے زیادہ نہ مارے۔ بعض لوگوں نے اس واقعہ ”غطہ“ کو آنحضرت کے خصائص میں شمار کیا ہے۔ اس لیے کہ دیگر انبیاء کی ابتداء وحی کے وقت ایسا واقعہ کہیں منقول نہیں ہوا۔ حضرت ورقہ بن نوفل نے آپ کے حالات سن کر جو کچھ خوشی کا اظہار کیا۔ اس کی مزید تفصیل علامہ قسطلانی یوں نقل فرماتے ہیں: «فقال له ورقة ابشرثم ابشر فانااشهدانك الدي بشربه ابن مريم وانك على مثل ناموس موسيٰ وانك نبي مرسل» یعنی ورقہ نے کہا کہ خوش ہو جائیے، خوش ہو جائیے، میں یقیناً گواہی دیتا ہوں کہ آپ وہی نبی و رسول ہیں جن کی بشارت حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نے دی تھی اور آپ پر وہی ناموس نازل ہوا ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا کرتا تھا اور آپ بے شک اللہ کے فرستادہ سچے رسول ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ورقہ بن نوفل کو مرنے کے بعدجنتی لباس میں دیکھا تھا۔ اس لیے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور آپ کی تصدیق کی، اس لیے جنتی ہوا۔ ورقہ بن نوفل کے اس واقعہ سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے اور اس کو دوسرے اسلامی فرائض ادا کرنے کا موقع نہ ملے، اس سے پہلے ہی وہ انتقال کر جائے، اللہ پاک ایمانی برکت سے اسے جنت میں داخل کرے گا۔
حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ: بذیل تفسیر سورۃ مدثر «وثيابك فطهر» فرماتے ہیں کہ عرب کے شعراء «ثياب» سے مراد دل لیا کرتے ہیں۔ امرالقیس کہتا ہے: «وان كنت قد ساتك مني خليقة فسلي ثيابي من ثيابك تنسلي» اس شعر میں «ثياب» سے مراد دل ہے۔ یہاں مناسب یہی ہے کیونکہ کپڑوں کا پاک رکھنا صحت صلوٰۃ کے لیے ضروری ہے مگر دل کا پاک صاف رکھنا ہر حال میں لازمی ہے۔
حدیث شریف میں وارد ہے «ان فى الجسد مضغة اذا صلحت صلح الجسد كله واذا فسدت فسدالجسد كله الا وهى القلب» یعنی انسان کے جسم میں ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے، سو وہ دل ہے۔ «اللهم اصلح قلبي وقلب كل ناظر») [تفسير ثنائي]
عجیب لطیفہ: قرآن کی کون سی سورۃ پہلے نازل ہوئی، اس بارے میں قدرے اختلاف ہے مگر سورۃ «اقراءباسم ربك الذي» پر تقریباً اکثر کا اتفاق ہے، اس کے بعد فترۃ وحی کا زمانہ اڑھائی تین سال رہا اور پہلی سورۃ «ياايها المدثر» نازل ہوئی۔ مسلکی تعصب کا حال ملاحظہ ہو کہ اس مقام پر ایک صاحب نے جو بخاری شریف کا تر
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4