الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حیض کے احکام و مسائل
The Book of Menses (Menstrual Periods)
11. بَابُ هَلْ تُصَلِّي الْمَرْأَةُ فِي ثَوْبٍ حَاضَتْ فِيهِ:
11. باب: کیا عورت اسی کپڑے میں نماز پڑھ سکتی ہے جس میں اسے حیض آیا ہو؟
(11) Chapter. Can a woman offer her Salat (prayers) in the clothes in which she has her menses?
حدیث نمبر: 312
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(موقوف) حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا إبراهيم بن نافع، عن ابن ابي نجيح، عن مجاهد، قال: قالت عائشة" ما كان لإحدانا إلا ثوب واحد تحيض فيه، فإذا اصابه شيء من دم، قالت: بريقها فقصعته بظفرها".(موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ" مَا كَانَ لِإِحْدَانَا إِلَّا ثَوْبٌ وَاحِدٌ تَحِيضُ فِيهِ، فَإِذَا أَصَابَهُ شَيْءٌ مِنْ دَمٍ، قَالَتْ: بِرِيقِهَا فَقَصَعَتْهُ بِظُفْرِهَا".
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ ابن ابی نجیح سے، انہوں نے مجاہد سے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہمارے پاس صرف ایک کپڑا ہوتا تھا، جسے ہم حیض کے وقت پہنتی تھیں۔ جب اس میں خون لگ جاتا تو اس پر تھوک ڈال لیتیں اور پھر اسے ناخنوں سے مسل دیتیں۔


Hum se Abu Nu’aim Fazl bin Dukain ne bayan kiya, unhon ne kaha hum se Ibrahim bin Nafe’ ne bayan kiya, unhon ne Abdullah bin Abi Najeeh se, unhon ne Mujahid se ke Aisha Radhiallahu Anha ne farmaaya ke hamaare paas sirf ek kapda hota tha, jise hum haiz ke waqt pahenti thien. Jab us mein khoon lag jaata to us par thook daal letien aur phir use nakhunon se masal detien.

Narrated `Aisha: None of us had more than a single garment and we used to have our menses while wearing it. Whenever it got soiled with blood of menses we used to apply saliva to the blood spot and rub off the blood with our nails.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 6, Number 309



تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 312  
´کیا عورت اسی کپڑے میں نماز پڑھ سکتی ہے جس میں اسے حیض آیا ہو؟`
«. . . قَالَتْ عَائِشَةُ " مَا كَانَ لِإِحْدَانَا إِلَّا ثَوْبٌ وَاحِدٌ تَحِيضُ فِيهِ، فَإِذَا أَصَابَهُ شَيْءٌ مِنْ دَمٍ، قَالَتْ: بِرِيقِهَا فَقَصَعَتْهُ بِظُفْرِهَا " . . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہمارے پاس صرف ایک کپڑا ہوتا تھا، جسے ہم حیض کے وقت پہنتی تھیں۔ جب اس میں خون لگ جاتا تو اس پر تھوک ڈال لیتیں اور پھر اسے ناخنوں سے مسل دیتیں۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ هَلْ تُصَلِّي الْمَرْأَةُ فِي ثَوْبٍ حَاضَتْ فِيهِ:: 312]

تشریح:
عورت جب حیض کا غسل کرے تو مقام مخصوص پر بدبو کو دور کرنے کے لیے ضرور کچھ خوشبو کا استعمال کرے، اس کی یہاں تک تاکید ہے کہ سوگ والی عورت کو بھی اس کی اجازت دی گئی بشرطیکہ وہ احرام میں نہ ہو۔ کست یااظفار کست عود کو کہتے ہیں۔ بعض نے اظفار سے وہ شہر مراد لیا ہے جو یمن میں تھا۔ وہاں سے عود ہندی عربی ممالک میں آیا کرتا تھا۔ ہشام کی روایت خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الطلاق میں بھی نقل کی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 312   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:312  
312. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہمارے پاس صرف ایک ہی لباس ہوتا تھا۔ اسی میں ایام حیض گزارتیں۔ اگر اس میں حیض کا کچھ خون لگ جاتا تو اس پر تھوک ڈال دیتیں اور اسے اپنے ناخنوں سے رگڑ دیتیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:312]
حدیث حاشیہ:

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم ابواب میں لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں یہ ثابت کیا ہے کہ حائضہ عورت انھی کپڑوں میں نماز پڑھ سکتی ہے جن میں اس نے ایام حیض گزارے ہوں۔
اور اس مسئلے کی ضروریات اس لیے محسوس ہوئی کہ قبل از اسلام عورتیں ایام حیض میں استعمال شدہ کپڑوں کو طہر کے وقت تبدیل کرناضروری خیال کرتی تھیں۔
لیکن شریعت نے بتلایا کہ جو کپڑا ایام حیض میں بدن پر تھا اگر وہ خون سے آلودہ نہیں ہوا تو اسے دھونے کی ضرورت نہیں، بلکہ اسی میں نماز ادا کی جاسکتی ہے۔
اگر کہیں خون لگا ہوتو اسی آلودہ حصے کو دھو لیا جائے، پھر اس میں میں نماز پڑھی جاسکتی ہے۔
ناخنوں سے رگڑنے کے بعد اسے پانی سے دھو لیتی تھیں۔
ظاہر پر اعتماد کرتے ہوئے اختصار کے پیش نظر دھونے کا ذکرحدیث میں نہیں ہے۔
کپڑے کو دھونے کی وضاحت حدیث (308)
میں گزرچکی ہے کہ جب ہم میں سے کسی کو حیض آتا تو طہر کے وقت اپنے کپڑے سے خون کو کھرچ ڈالتی اور سے دھودیتی، پھر باقی ماندہ کپڑے پر پانی بہا کر اس میں نماز پڑھ لیتیں۔

بعض حضرات کے نزدیک پانی کے علاوہ ہر مائع چیز سے ازالہ نجاست ہوسکتا ہے۔
انھوں نے اس حدیث کو بطور دلیل پیش کیا ہے، کیونکہ اس میں پانی کے بغیر ازالہ نجاست کی صراحت ہے، لیکن یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ دوسری احادیث میں وضاحت ہے کہ صرف ناخن سے رگڑنے پر ہی اکتفا نہ کیا جاتا، بلکہ اسے دھویا جاتا، پھر اس میں نماز ادا کی جاتی تھوک کا استعمال اس لیے ہوتا تھا کہ لعاب دہن میں شوریت (نمکینی)
ہوتی ہے، اس کی وجہ سے خون کا دھبہ آسانی سے دور کیا جاسکتا ہے۔
گویا لعاب دہن کا استعمال کلی طور پر ازالہ نجاست کے لیے نہیں، بلکہ بلکہ ازالہ نجاست میں سہولت پیدا کرنے کے لیے تھا۔

دوسری احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کے پاس ایام حیض اور حالت طہارت کے لیے الگ الگ لباس ہوتا تھا۔
جیسا کہ حضرت ام سلمہ ؒ سے مروی حدیث میں ہے۔
جبکہ اس روایت میں ہے کہ ہم ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کے پاس حیض وطہر کے لیے ایک ہی لباس ہوتا تھا۔
بظاہران روایات میں تعارض ہے۔
ان میں تطبیق بایں طور ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان اسلام کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتا ہے، جبکہ تنگی کا زمانہ تھا،پھر جب فتوحات کا دورآیا اور اللہ تعالیٰ نے فراخی عطا فرمائی توحیض وطہر کا لباس الگ الگ کرلیا گیا، نیز حضرت ام سلمہ ؓ کا بیان ایام حیض میں الگ لباس کے متعلق نص نہیں، کیونکہ ممکن ہے حیض کے لباس سے ان کی مراد وہ کرسف وغیرہ ہو جسے حیض سے احتیاط کے پیش نظرعورتیں استعمال کرتی ہیں، مستقل لباس مراد نہ ہو۔
اسی طرح حضرت عائشہ ؓ کا بیان اس بارے میں نص نہیں کہ ایک ہی لباس میں طہر اور حیض کے ایام گزرتے تھے۔
ان کے بیان کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ معمولی لباس کے علاوہ اور کوئی مخصوص قسم کا کپڑا ہمارے پاس نہیں ہوتا تھا جس کی ضرورت داخل فرض کا خون روکنے کے لیے پڑتی تھی۔
الغرض حضرت ام سلمہ ؓ اورحضرت عائشہ ؓ کے بیانات میں کوئی تعارض نہیں، بلکہ دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حائضہ کا پسینہ پاک ہے، کیونکہ اگربحالت حیض عورت کا پسینہ ناپاک ہوتا تو حیض کے ختم ہونے کے بعد بہرصورت اس کے بدن کا کپڑا ناپاک قراردیاجاتا، جسے دھونا ضروری ہوتا، خواہ اس پر خون کا دھبا نہ ہو، حالانکہ حدیث میں ہے کہ اگرکپڑے پر خون کا دھبا نہیں ہے تو اسے دھونے کی بھی ضرورت نہیں۔
اس لیے معلوم ہوا کہ جنبی آدمی کی طرح حائضہ عورت کا پسینہ بھی پاک ہے۔
ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ کا اس عنوان سے یہی مقصد ہو۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 312   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.