الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيفه همام بن منبه کل احادیث 139 :حدیث نمبر
صحيفه همام بن منبه
متفرق
विभिन्न हदीसें
34. اللہ عزوجل کے اسمائے حسنیٰ
३४. “ अल्लाह तआला के अच्छे नाम ”
حدیث نمبر: 34
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
((حديث مرفوع) (حديث موقوف)) قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لله تسعة وتسعون اسما مائة إلا واحدا، من احصاها دخل الجنة، إنه وتر يحب الوتر"((حديث مرفوع) (حديث موقوف)) قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِلَّهِ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ اسْمًا مِائَةٌ إِلا وَاحِدًا، مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ، إِنَّهُ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ"
اور ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ایک کم سو ننانوے نام ہیں جو شخص انہیں یاد کر لے گا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ اور یقیناً وہ (ذات باری تعالیٰ) طاق ہے اور طاق (عدد) کو محبوب رکھتا ہے۔
अबु अल-क़ासिम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “अल्लाह तआला के एक कम सौ यानी निन्यानवे (99) नाम हैं जो व्यक्ति इन्हें याद कर लेगा, वह जन्नत में जाए गा। और बेशक वह यानि अल्लाह तअला बेजोड़ है और बेजोड़ को पसंद करता है।”

تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب التوحيد، رقم: 73921 وكتاب الدعوات، رقم: 6410 وكتاب الشروط، باب ما يجوز من الاشتراط والثنيا فى الإقرار، رقم: 2736 - صحيح مسلم، كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار، باب فى أسماء الله تعالىٰ وفضل من أحصاها، رقم: 2677/6، حدثنا محمد بن رافع: حدثنا معمر عن أيوب، عن ابن سيرين عن أبى هريرة وعن همام بن منبه، عن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال:.... وزاد همام بن منبه عن النبى صلى الله عليه وسلم ”انه وتر يحب الوتر“ - مسند أحمد: 4/16 - مصنف عبدالرزاق، كتاب الجامع، أسماء الله تعالٰى: 445/10، 446 - شرح السنة، باب أسماء الله الحسنٰى: 30/5، ثم قال: هذا حديث متفق على صحته.»

   صحيح البخاري7392عبد الرحمن بن صخرلله تسعة وتسعين اسما مائة إلا واحدا من أحصاها دخل الجنة
   صحيح البخاري6410عبد الرحمن بن صخرلله تسعة وتسعون اسما مائة إلا واحدا لا يحفظها أحد إلا دخل الجنة وتر يحب الوتر
   صحيح البخاري2736عبد الرحمن بن صخرلله تسعة وتسعين اسما مائة إلا واحدا من أحصاها دخل الجنة
   صحيح مسلم6810عبد الرحمن بن صخرلله تسعة وتسعين اسما مائة إلا واحدا من أحصاها دخل الجنة
   صحيح مسلم6810عبد الرحمن بن صخرلله تسعة وتسعون اسما من حفظها دخل الجنة الله وتر يحب الوتر
   جامع الترمذي3507عبد الرحمن بن صخرلله تسعة وتسعين اسما مائة غير واحدة من أحصاها دخل الجنة هو الله الذي لا إله إلا هو الرحمن الرحيم الملك القدوس السلام المؤمن المهيمن العزيز الجبار المتكبر الخالق البارئ المصور الغفار القهار الوهاب الرزاق الفتاح العليم القابض الباسط الخافض الرافع
   جامع الترمذي3508عبد الرحمن بن صخرلله تسعة وتسعين اسما من أحصاها دخل الجنة
   جامع الترمذي3506عبد الرحمن بن صخرلله تسعة وتسعين اسما مائة غير واحد من أحصاها دخل الجنة
   سنن ابن ماجه3860عبد الرحمن بن صخرلله تسعة وتسعين اسما مائة إلا واحدا من أحصاها دخل الجنة
   سنن ابن ماجه3861عبد الرحمن بن صخرلله تسعة وتسعين اسما مائة إلا واحدا وتر يحب الوتر من حفظها دخل الجنة الله الواحد الصمد الأول الآخر الظاهر الباطن الخالق البارئ المصور الملك الحق السلام المؤمن المهيمن العزيز الجبار المتكبر الرحمن الرحيم اللطيف الخبير السميع البصير العليم العظيم البا
   صحيفة همام بن منبه34عبد الرحمن بن صخرلله تسعة وتسعون اسما مائة إلا واحدا من أحصاها دخل الجنة وتر يحب الوتر
   بلوغ المرام1178عبد الرحمن بن صخر إن لله تسعة وتسعين اسما من أحصاها دخل الجنة
   مسندالحميدي1164عبد الرحمن بن صخرإن لله تسعة وتسعين اسما، مائة غير واحد، من حفظها دخل الجنة، وهو وتر يحب الوتر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه   34  
´اللہ عزوجل کے اسمائے حسنیٰ`
اور ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ایک کم سو ننانوے نام ہیں جو شخص انہیں یاد کر لے گا، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ اور یقیناً وہ (ذات باری تعالیٰ) طاق ہے اور طاق (عدد) کو محبوب رکھتا ہے۔ [صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 34]
شرح الحديث:
امام نووی فرماتے ہیں: یہ حدیث اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ الله سبحانہ و تعالیٰ کے اسمائے گرامی میں سے مشہور تریں نام "الله" ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ بقیہ تمام ناموں کی اضافت و نسبت اسی نام (الله) کی طرف مرکوز ہوتی ہے۔
ایک قول یہ بھی مروی ہے کہ تمام اسمائے الہٰی میں اسم اعظم "الله" ہی ہے۔
امام ابو القاسم الطبری رقم طراز ہیں:
الله تعالیٰ کے سارے اسماء کی نسبت فقط اسم الله کی طرف ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر یوں کہا جا سکتا ہے کہ "الکریم" اور "الرؤف" وغیرہ الله کے اسماء میں سے ایک اسم ہیں، لیکن یوں نہیں کہا جا سکتا کہ "الکریم" اور "الرؤف" کے اسماء میں سے ایک اسم "الله" (بھی) ہے۔ بہرحال مقصود و مطلوب یہ ہے کہ اسماء میں ذاتی اسم "الله" ہے۔ [شرح مسلم، للنووي: 535/5، 536]

الله تعالیٰ کے ننانوے اسمائے حسنی:
الله تعالیٰ کے تمام نام "حسنیٰ" غایت درجہ اچھے اور پیارے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سارے کے سارے نام اپنے اندر کوئی نہ کوئی صفت کاملہ لیے ہوئے ہیں، اور ان تمام صفات میں سے کسی بھی صفت میں کسی بھی قسم کا کوئی نقص اور عیب نہیں ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
«قُلِ ادْعُوا اللَّـهَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمَـٰنَ ۖ أَيًّا مَّا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ» [بني اسرائيل: 110]
"آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ الله کو الله کے نام سے پکارو یا رحمٰن کے نام سے پکارو، جس نام سے چاہو اسے پکارو، تمام بہترین اور اچھے نام اسی کے لیے ہیں۔ "
مذکورہ آیت کریمہ میں الله عزوجل کے پیارے اسماء میں سے "الرحمٰن" وارد ہوا ہے، جو ایک انتہائی پیاری صفت "وسیع رحمت" پر مشتمل ہے۔
الله تعالیٰ کے اسماء کسی معین عدد میں محصور نہیں ہیں، اس کی دلیل رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا وہ فرمان ہے، جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے:
«أَسْئَلُكَ اللهُمَّ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ، سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِيْ كِتَابِكَ أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدً مِّنْ خَلْقِكَ أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِيْ عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ .» [مسند احمد: 394/1، 452 - صحيح ابن حبان، رقم: 2372 - مستدرك حاكم: 519/1 - سلسلة الصحيحة، رقم: 199]
"اے الله! میں تجھ سے تیرے ہر نام کے واسطے سے سوال کرتا ہوں، جو بھی نام تو نے اپنی ذات کے رکھے، یا جو نام تو نے اپنی کتاب میں اتارے، یا جو نام تو نے اپنی کسی مخلوق کو تعلیم فرما دیئے، یا جو نام تو نے اپنے خزانہ غیب میں محفوظ فرما دیئے ہیں۔ "
اور یاد رہے کہ جو اسماء الله، اس کے خزانہ غیب میں ہیں، ان کا ہمارے لیے حصر و احاطہ ناممکن ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ایک اور فرمان ملاحظہ فرمائیے گا، چناچہ سیدنا ابو ہریرة رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّ لِلَّهِ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ اسْمًا، مِائَةٌ إِلَّا وَاحِدًا لَا يَحْفَظُهَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ» [صحيح بخاري، كتاب الشروط، رقم: 2736 و كتاب الدعوات، رقم: 6410 - صحيح مسلم، كتاب الذكر و الدعاء، رقم: 2676/6]
"یقیناً الله تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، یعنی ایک کم سو (100) جس نے ان کا احصاء کیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔ "

فائدہ: حدیث میں وارد کلمہ "احصاء" کا معنی پڑھنا سمجھنا، یاد کرنا اور ان کے مطابق عقیدہ بنانا ہے۔ یہ روایت مذکورہ روایت کے متعارض نہیں ہے، جیسا کہ ظاہر سے معلوم ہے، کیونکہ اس حدیث کا معنی ہے کہ " الله تعالیٰ کے جملہ ناموں میں سے صرف ننانوے (99) نام یاد کرنے والا اور ان کا احصاء کرنے والا جنتی ہے۔ "
یہ معنی نہیں کہ الله تعالیٰ کے کل ننانوے (99) نام ہی ہیں، اور ان کے علاوہ اس کا کوئی نام نہیں۔
الله تعالیٰ کے اسماء میں سے ننانوے (99) نام ذکر کر دیتے ہیں، جو ہمیں کتاب الله اور سنت رسول صلی الله علیہ وسلم سے ملے ہیں۔ تاکہ قارئین ان کو یاد کرکے، ان کے ذریعے اپنے رب تعالیٰ سے تعلق مضبوط کر لیں۔

کتاب الله سے:
اَللهُ (البقرہ: 128) معبود برحق
اَلْاَعْلٰی (الاعلی: 1) بلند و برتر
وَالْآخِرُ (الحدید: 3) آخر (وہ تب بھی ہوگا جب سب ختم ہو جائیں گے.)
اَلْبَرُّ (الطور: 28) بڑا محسن
اَلتَّوَّابُ (الحجرات: 12) توبہ قبول فرمانے والا
اَلْحَفِيْظُ (ھود: 57) حفاظت و نگہبانی کرنے والا
اَلْحَكِيْمُ (الحشر: 1) حکمت والا
اَلْحَمِيْدُ (الشوری: 28) حمد و تعریف والا
اَلْخَالِقُ (الحشر: 24) پیدا کرنے والا
اَلرَّحِيْمُ (الفاتحہ: 2) نہایت مہربان اور نرمی کرنے والا
اَلرَّقِيْبُ (الاحزاب: 53) تاک میں رہنے والا
اَلشَّكُوْرُ (فاطر: 34) بہت قدر دان
اَلْعَزِيْزُ (الحشر: 24) زبردست و غالب
اَلْعَفُوُّ (المجادلہ: 2) معاف کرنے والا
اَلْغَفُوْرُ (الزمر: 53) گناہ بخشنے والا
اَلْقَاهِرُ (الانعام: 18) غالب و زبردست و طاقتور
اَلْاَحَدُ (الاخلاص: 1) ایک یعنی تنہا
اَلْاَوَّلُ (الحدید: 3) پہلا (سب سے پہلے)
وَالظَّاهِرُ (الحدید: 3) ظاہر و عیاں اور غالب
اَلْبَصِيْرُ (الشوری: 11) دیکھنے والا
اَلْحَسِيْبُ (النساء: 6) حساب لینے والا
اَلْحَفِىُّ (مریم: 47) بڑا مہربان
اَلْحَلِيْمُ (البقرہ: 225) بردبار (دوراندیش)
اَلْخَبِيْرُ (التحریم: 3) خبر رکھنے والا
اَلْخَلَّاقُ (الحجر: 86) بہترین پیدا کرنے والا
اَلرَّزَّاقُ (الذاریات: 58) رزق دینے والا
اَلشَّاكِرُ (النساء: 147) قدردان
اَلشَّهِيْدُ (حم السجدہ: 53) گواہ
اَلْعَظِيْمُ (البقرہ: 255) بڑی عظمت والا
اَلْغَفَّارُ (نوح: 10) بڑا بخشنے والا
اَلْغَنِىُّ (محمد: 38) خود مختار و بے پرواہ
اَلْقُدُّوْسُ (الجمعہ: 1) عیوب و نقائص سے پاک
اَلْقَدِيْرُ (الملک: 1) بڑا با صلاحیت، طاقتور
اَلْكَبِيْرُ (الحج: 62) سب سے بڑا
اَلْمُتَعَالُ (الرعد: 9) بہت بلند
اَلْمَتِيْنُ (الذاریات: 58) مضبوط و طاقتور
اَلْمُصَوِّرُ (الحشر: 24) تصویر بنانے والا
اَلْمَلِيْكُ (القمر: 55) قدرت والا بادشاہ
اَلْمُهَيْمِنُ (الحشر: 23) نگہبان و محافظ
اَلْوَاسِعُ (البقرہ: 115) وسعتوں و فراخیوں والا
اَلْوَهَّابُ (آل عمران: 8) سب سے زیادہ عطاء کرنے والا
الْاِلٰهُ (النحل: 51) معبود برحق
اَلْجَبَّارُ (الحشر 23) زبردست قابو کرنے والا
اَلْحَقُّ (الحج: 62) سچا مالک
اَلْحَافِظُ (یوسف: 64) حفاظت کرنے والا، نگہبان
اَلْعَلِيْمُ (التحریم: 2) سب سے زیادہ علم والا
اَلصَّمَدُ (الاخلاص: 2) بے نیاز
اَلْقَيُّوْمُ (البقرہ: 255) بذات خود قائم و دائم اور ہر چیز پر محافظ و نگران
اَلْمُجِيْبُ (ھود: 61) قبول کرنے والا
اَلْلَّطِيْفُ (الملک: 14) باریک بیں
اَلسَّمِيْعُ (المجادلة: 1) سب سننے والا
اَلْوَكِيْلُ (آل عمران: 173) کارساز (کام بنانے والا)
اَلْعَلِىُّ (الانعام: 65) سب سے بلند و بالا
اَلْقَادِرُ (الشوری: 19) قدرت، اختیار والا
اَلْمَلِكُ (ھود: 73) حقیقی بادشاہ
اَلْوَاحِدُ (الرعد: 16) اکیلا
اَلْقَهَّارُ (ابراہیم: 48) بڑا عذاب دینے والا
اَلْكَرِيْمُ (الانفطار: 6) مہربان و سخی
اَلْمُتَكَبِّرُ (الحشر: 23) غرور و تکبر کرنے والا
اَلْمُحِيْطُ (حم السجدہ: 54) گھیراؤ کرنے والا
اَلْمُقْتَدِرُ (الکہف: 45) قدرت والا
اَلْمَوْلٰی (الانفال: 40) کارساز و مالک و آقا
اَلْوَارِثُ (الحجر: 23) وارث (حامی و مددگار)
اَلْوَدُودُ (البروج: 14) بہت محبت کرنے والا
اَلْاَكْرَمُ (العلق: 3) بے پایاں کرم والا
وَالْبَاطِنُ (الحدید: 3) پوشیدہ
اَلْبَارِئُ (الحشر: 24) پیدا کرنے والا
اَلسَّلَامُ (الحشر: 23) سلامتی والا
اَلرَّءُوْفُ (النحل: 7) نرمی کرنے والا
اَلْمُبِيْنُ (النور: 25) واضح کرنے والا
اَلْقَرِيْبُ (البقرة: 186) (بندوں کے) نزدیک
اَلْفَتَّاحُ (سبا: 26) رحمت و رزق کے دروازے کھولنے والا
اَلرَّحْمٰنُ (الفاتحہ: 2) نہایت مہربان
اَلْمُقِيْتُ (النساء: 85) ہر جاندار کو خوراک دینے والا
اَلنَّصِيْرُ (النساء: 45) مددگار (مدد کرنے والا)
اَلْعَالِمُ (الشوری: 51) علم والا
اَلْقَوِىُّ (الشوری: 19) سب سے زیادہ قوت والا
اَلْمُؤْمِنُ (الحشر: 23) امن دینے والا
اَلْمَجِيْدُ (الحشر: 23) بزرگی والا بڑی شان والا
اَلْوَلِىُّ (الشوری: 9) مددگار، دوست

وه اسماء جو سنت رسول صلى الله عليه وسلم میں وارد ہوئے ہیں:
اَلْجَمِيْلُ (مسلم: 147) سب سے زیادہ خوبصورت
اَلْحَكَمُ (ابوداؤد: 4955) فیصلہ کرنے والا
اَلسُّبُّوحُ (مسلم: 487) ہر برائی اور عیب سے پاک
اَلْقَابِضُ (ترمذى: 3007) تنگ کرنے والا
اَلْمُقَدِّمُ (بخارى: 1120) آگے لانے والا
اَلْمَنَّانُ (ابوداؤد: 1495) احسان کرنے والا
اَلْحَىُّ (ابوداؤد: 4012) ہمیشہ زندہ
اَلْمُؤَخِّرُ (بخارى: 1120) پیچھے ہٹانے والا
اَلطَّيِّبُ (مسلم: 1015) پاک
اَلْجَوَّادُ (ترمذى: 2495) سب سے زیادہ نوازنے والا
اَلرَّفِيْقُ (بخارى: 6927) مہربان دوست
اَلسَّيِّدُ (ابوداؤد: 4806) سردار
اَلْبَاسِطُ (ترمذى: 3507) کشادہ کرنے والا
اَلْمُعْطِيُ (بخارى: 3116) دینے والا
اَلْوِتْرُ (بخارى: 6410) تنہا و یکتا
اَلشَّافِىُ (بخارى: 5742) شفاء عطا کرنے والا
اَلرَّبُّ (النسائى: 572) پالنے والا
اَلْمُحْسِنُ (صحيح الجامع: 1819) احسان کرنے والا

یہ الله تعالىٰ کے اسماء حسنیٰ ہیں جنہیں ہم نے کتاب الله اور سنت رسول صلی الله علیہ وسلم سے اختیار کیا ہے، تفصیل کچھ یوں ہے کہ ان اسماء میں سے اکیاسی (81) نام کتاب الله میں اور اٹھارہ (18) نام حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم میں آئے ہیں، اگرچہ صفت "حفی" کو ان ناموں میں شمار کرنے میں تردد واقع ہوا ہے، کیونکہ کلام الله میں یہ صفت مقید وارد ہوئی ہے، ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ آزر کو سلام کہتے ہیں، اور فرماتے ہیں میں اپنے رب سے آپ کے لیے مغفرت طلب کروں گا: (اِنَّهُ کَانَ بِيْ حَفِیًّا) "وہ بے شک مجھ پر بڑا مہربان ہے۔ "

جملہ معترضہ:
ابراہیم علیہ السلام اپنے کافر باپ کا انتہائی شدید جواب سن کر بھی حد ادب سے نہیں نکلے اور اس کے لیے سلامتی کی دعا کی، گویا یہ کہنا چاہا کہ اگرچہ آپ مجھے سنگسار کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں، لیکن مجھ سے آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی، میں اپنے رب سے آپ کی مغفرت کی دعا کروں گا، وہ مجھ پر بہت ہی کرم فرما ہے، مجھے مایوس نہیں کرے گا۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام نے برائی کا جواب بھلائی سے دیا، جیسا کہ الله رب العزت نے مومنین کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ایک وصف یہ بھی بیان کیا کہ جب جاہل لوگ ان سے گفتگو کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہو۔ یعنی میں تم سے جگھڑنا نہیں چاہتا ہوں۔
«وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا» [الفرقان: 63]
"اور جب نادان لوگ ان کے منہ لگتے ہیں تو (رحمٰن کے نیک بندے) سلام کرکے گزر جاتے ہیں۔ "
مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا اپنے باپ سے یہ وعدہ کہ وہ الله سے اس کے لیے مغفرت طلب کریں گے، اس توقع کی بنیاد پر تھا کہ وہ اسلام لے آئے گا اور کفر پر نہیں مرے گا، چناچہ ایک طویل مدت تک وہ اس کے لیے استغفار کرتے رہے، شام کی طرف ہجرت کر جانے، مسجد حرام بنانے اور اسحاق و اسماعیل کی ولادت کے بعد بھی اس کے لیے دعا کرتے رہے، جیسا کہ سورة ابراہیم آیت (41) میں ارشاد ہے:
«رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ»
"اے ہمارے رب! قیامت کے دن مجھے معاف کر دینا، اور میرے ماں باپ کو اور تمام مومنوں کو بھی۔ "
لیکن جب انہیں یقین ہو گیا کہ وہ الله کا دشمن ہے تو اس سے اپنی براءت کا اعلان کر دیا، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
«وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّـهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚإِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ» [التوبة: 114]
"اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت مانگنا صرف اس وعدے کے سبب تھا جو انہوں نے اس سے کر رکھا تھا۔ پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہو گئی کہ وہ الله کا دشمن ہے تو انہوں نے اس سے اظہار براءت کر دیا، واقعی ابراہیم بڑے نرم دل اور بردبار تھے۔ "

یقیناً وہ الله باری تعالیٰ طاق ہے اور طاق عدد کو محبوب رکھتا ہے:
«وِتْرٌ:» ‏‏‏‏ وتر کے معنی ہیں مفرد یعنی ایک ہونا، اور عمومی طور پر اس کا استعمال جفت کے مقابل ہوتا ہے۔
معلوم ہوا کہ الله تعالیٰ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک اور نظیر و مماثل نہیں ہے۔
«يُحِبُّ الْوِتْرَ:» ‏‏‏‏ طاق کو پسند فرماتا ہے تو اس سے اعمال اور اکثر اطاعت کے کاموں میں عددِ طاق کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ جیسے وتر نماز کی تعداد ایک، تین، پانچ، سات، نو، وغیرہ اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا عید کے روز طاق کھجوریں کھانا وغیرہ۔
مذکورہ حدیث کی رو سے بھی نماز جنازہ میں تین (طاق) صفیں بنانا مستحب عمل ہے۔ [احكام الجنائز، للالباني، ص: 99]
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث\صفحہ نمبر: 34   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3860  
´اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نناوے نام ہیں ایک کم سو، جو انہیں یاد (حفظ) کرے ۱؎ تو وہ شخص جنت میں داخل ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3860]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
شمار کرنے کی تشریح مختلف انداز میں کی گئی ہے، مثلاً:
اللہ سےدعا کرتے وقت سب نام لیے جائیں یا ان ناموں کے مطابق عملی زندگی اختیار کی جائے، مثلاً:
اللہ کا نام رزاق ہے تو بندے کو چاہیے کہ رزق کے لیے اسی پر اعتماد کرے اور رزق حلال پر اکتفا کرے۔
ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات پر ایمان رکھنا مراد ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے:  (فتح الباري: 11/ 270)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3860   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1178  
´(قسموں اور نذروں کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ کے ایک کم سو (ننانویں) نام ہیں۔ جس نے ان کو ضبط (یاد) رکھا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ (بخاری و مسلم) ترمذی اور ابن حبان نے وہ نام بھی بیان کئے ہیں اور تحقیق سے یہ ثابت ہے کہ اصل حدیث میں اسماء کی تفصیل نہیں ہے بلکہ کسی راوی نے اپنی طرف سے ان کو درج کر دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1178»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الشروط، باب ما يجوز من الاشتراط...، حديث:2736، ومسلم، الذكر والدعاء، باب في أسماء الله تعالي...، حديث:2677، سردالأسماء عند الترمذي، الدعوات، حديث:3507، وابن حبان (الإحسان)"2 /88، 89، حديث:805، وسنده ضعيف، الوليد بن مسلم لم يصرح بالسماع المسلسل.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو انھیں شمار کرے گا یا یاد کرے گا جنت میں داخل ہو جائے گا۔
لیکن ان ننانوے ناموں کی تفصیل کسی ایک ہی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے جو نام قرآن مجید اور صحیح احادیث سے ثابت ہیں ان کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے۔
واللّٰہ أعلم۔
اسمائے حسنیٰ کی مکمل تفصیل اور تحقیق کے لیے دیکھیے: (قرآنی و اسلامی ناموں کی ڈکشنری اور نومولود کے احکام و مسائل‘ طبع دارالسلام) 2.مذکورہ حدیث کو اس باب میں ذکر کرنے سے مقصود یہ بتانا ہے کہ جس کسی نے ان اسماء کے ساتھ قسم کھائی تو وہ قسم منعقد ہو جائے گی اور درست ہو گی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1178   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3506  
´باب:۔۔۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ننانوے ۱؎ نام ہیں، سو میں ایک کم، جو انہیں یاد رکھے وہ جنت میں داخل ہو گا ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3506]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہاں نناوے کا لفظ حصر کے لیے نہیں ہے کیونکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث (جو مسنداحمد کی ہے اورابن حبان نے اس کی تصحیح کی ہے) میں ہے کہ آپﷺ دعا میں کہا کرتے تھے: اے اللہ میں ہر اس نام سے تجھ سے مانگتا ہوں جو تو نے اپنے لیے رکھا ہے اور جو ابھی پردۂ غیب میں ہے،
اس معنی کی بنا پراس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مذکور بالا ان ننانوے ناموں کوجو یاد کر لے گا...نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کا اصل نام اللہ ہے باقی نام صفاتی ہیں۔

2؎:
یعنی جوان کو یاد کر لے اور صرف بسردالأسماء معرفت اسے حاصل ہو جائے اور ان میں پائے جانے والے معنی و مفہوم کے تقاضوں کو پورا کرکے ان کے مطابق اپنی زندگی گذارے گا وہ جنت کا مستحق ہو گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3506   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.