الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
The Book of The Stories of The Prophets
44. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا} :
44. باب: (عیسیٰ علیہ السلام اور مریم علیہا السلام کا بیان) اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ مریم میں) ارشاد ”اور اس کتاب میں مریم کا ذکر کر جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر ایک شرقی مکان میں چلی گئیں“۔
(44) Chapter. The Statement of Allah: “And mention in the Book (the Quran, O Muhammad (p.b.u.h), the story of) Maryam (Mary), when she withdrew in seclusion from her family to a place facing east." (V.19:16).
حدیث نمبر: Q3431
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
{إذ قالت الملائكة يا مريم إن الله يبشرك بكلمة}. {إن الله اصطفى آدم ونوحا وآل إبراهيم وآل عمران على العالمين} إلى قوله: {يرزق من يشاء بغير حساب}. قال ابن عباس: وآل عمران المؤمنون من آل إبراهيم وآل عمران وآل ياسين وآل محمد صلى الله عليه وسلم، يقول إن اولى الناس بإبراهيم للذين اتبعوه سورة آل عمران آية 68 وهم المؤمنون ويقال آل يعقوب اهل يعقوب فإذا صغروا آل ثم ردوه إلى الاصل، قالوا: اهيل.{إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ}. {إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ} إِلَى قَوْلِهِ: {يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ}. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَآلُ عِمْرَانَ الْمُؤْمِنُونَ مِنْ آلِ إِبْرَاهِيمَ وَآلِ عِمْرَانَ وَآلِ يَاسِينَ وَآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ سورة آل عمران آية 68 وَهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَيُقَالُ آلُ يَعْقُوبَ أَهْلُ يَعْقُوبَ فَإِذَا صَغَّرُوا آلَ ثُمَّ رَدُّوهُ إِلَى الْأَصْلِ، قَالُوا: أُهَيْلٌ.
‏‏‏‏ (اور فرمایا) «إذ قالت الملائكة يا مريم إن الله يبشرك بكلمة‏» (اور وہ وقت یاد کر) جب فرشتوں نے کہا کہ اے مریم! اللہ تجھ کو خوشخبری دے رہا ہے، اپنی طرف ایک کلمہ کی۔ (اور فرمایا) «إن الله اصطفى آدم ونوحا وآل إبراهيم وآل عمران على العالمين» بیشک اللہ نے آدم اور نوح اور آل عمران کو تمام جہاں پر برگزیدہ بنایا۔ آیت «يرزق من يشاء بغير حساب‏» تک۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «آل عمران» سے مراد ایماندار لوگ مراد ہیں جو عمران کی اولاد میں ہوں جیسے «آل إبراهيم» اور «آل ياسين» اور «آل محمد صلى الله عليه وسلم» سے وہی لوگ مراد ہیں جو مومن ہوں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ابراہیم علیہ السلام کے نزدیک والے وہی لوگ ہیں جو ان کی راہ پر چلتے ہیں یعنی جو مومن موحد ہیں۔ «آل» کا لفظ اصل میں «أهل‏.» تھا۔ «آل يعقوب» یعنی «أهل يعقوب‏.‏» (ھ کو ہمزہ سے بدل دیا) تصغیر میں پھر اصل کی طرف لے جاتے ہیں تب «أهيل‏.» کہتے ہیں۔

حدیث نمبر: 3431
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب عن الزهري، قال: حدثني سعيد بن المسيب، قال: قال ابو هريرة رضي الله عنه، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" ما من بني آدم مولود إلا يمسه الشيطان حين يولد فيستهل صارخا من مس الشيطان غير مريم وابنها ثم، يقول:ابو هريرة وإني اعيذها بك وذريتها من الشيطان الرجيم سورة آل عمران آية 36".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَا مِنْ بَنِي آدَمَ مَوْلُودٌ إِلَّا يَمَسُّهُ الشَّيْطَانُ حِينَ يُولَدُ فَيَسْتَهِلُّ صَارِخًا مِنْ مَسِّ الشَّيْطَانِ غَيْرَ مَرْيَمَ وَابْنِهَا ثُمَّ، يَقُولُ:أَبُو هُرَيْرَةَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ سورة آل عمران آية 36".
ہم سے ابولیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا انہوں نے کہا کہ مجھ سے سعید بن مسیب نے بیان کیا، کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر ایک بنی آدم جب پیدا ہوتا ہے تو پیدائش کے وقت شیطان اسے چھوتا ہے اور بچہ شیطان کے چھونے سے زور سے چیختا ہے۔ سوائے مریم اور ان کے بیٹے عیسیٰ علیہما السلام کے۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (اس کی وجہ مریم علیہما السلام کی والدہ کی دعا ہے کہ اے اللہ!) میں اسے (مریم کو) اور اس کی اولاد کو شیطان رجیم سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔

Narrated Sa`id bin Al-Musaiyab: Abu Huraira said, "I heard Allah's Apostle saying, 'There is none born among the off-spring of Adam, but Satan touches it. A child therefore, cries loudly at the time of birth because of the touch of Satan, except Mary and her child." Then Abu Huraira recited: "And I seek refuge with You for her and for her offspring from the outcast Satan" (3.36)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 641


   صحيح البخاري4548عبد الرحمن بن صخرما من مولود يولد إلا والشيطان يمسه حين يولد فيستهل صارخا من مس الشيطان إياه إلا مريم وابنها
   صحيح البخاري3431عبد الرحمن بن صخرما من بني آدم مولود إلا يمسه الشيطان حين يولد فيستهل صارخا من مس الشيطان غير مريم وابنها ثم يقول أبو هريرة وإني أعيذها بك وذريتها من الشيطان الرجيم
   صحيح البخاري3286عبد الرحمن بن صخركل بني آدم يطعن الشيطان في جنبيه بإصبعه حين يولد غير عيسى ابن مريم ذهب يطعن فطعن في الحجاب
   صحيح مسلم6136عبد الرحمن بن صخرصياح المولود حين يقع نزغة من الشيطان
   صحيح مسلم6135عبد الرحمن بن صخركل بني آدم يمسه الشيطان يوم ولدته أمه إلا مريم وابنها
   صحيح مسلم6133عبد الرحمن بن صخرما من مولود يولد إلا نخسه الشيطان فيستهل صارخا من نخسة الشيطان إلا ابن مريم وأمه
   المعجم الصغير للطبراني826عبد الرحمن بن صخرصياح المولود حين يولد نزغة من الشيطان
   مشكوة المصابيح69عبد الرحمن بن صخرما من بني آدم مولود إلا يمسه الشيطان حين يولد فيستهل صارخا من مس الشيطان غير مريم وابنها
   مشكوة المصابيح70عبد الرحمن بن صخرصياح المولود حين يقع نزغة من الشيطان
   مسندالحميدي1072عبد الرحمن بن صخر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4548  
´مریم علیہا السلام کی ماں نے کہا اے رب! میں اس (مریم) کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَا مِنْ مَوْلُودٍ يُولَدُ إِلَّا وَالشَّيْطَانُ يَمَسُّهُ حِينَ يُولَدُ، فَيَسْتَهِلُّ صَارِخًا مِنْ مَسِّ الشَّيْطَانِ إِيَّاهُ إِلَّا مَرْيَمَ وَابْنَهَا"، ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ سورة آل عمران آية 36 . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے پیدا ہوتے ہی چھوتا ہے، جس سے وہ بچہ چلاتا ہے، سوا مریم اور ان کے بیٹے (عیسیٰ علیہ السلام) کے۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو «وإني أعيذها بك وذريتها من الشيطان الرجيم» یہ کلمہ مریم علیہ السلام کی ماں نے کہا تھا، اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور مریم اور عیسیٰ علیہما السلام کو شیطان کے ہاتھ لگانے سے بچا لیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: 4548]

صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 4548 کا باب: «بَابُ: وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت
ترجمۃ الباب اور حدیث کی مناسبت پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے جسے حل کرنا انتہائی ضروری ہے:
مریم علیہاالسلام کی جس دعا کا ذکر آل عمران کی آیت مبارکہ میں ہے کہ:
«وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ» [3-آل عمران:36]
یہ دعا تو مریم علیہا السلام کی والدہ نے مریم علیہا السلام کی پیدائش کے بعد کی تھی، لہٰذا وقت ولادت مریم علیہا السلام اور ان کی اولاد کو «مسس الشيطان» سے محفوظ رکھنا کیا معنی رکھتا ہے؟ جبکہ حدیث کا متن وقت ولادت پر دلالت کرتا ہے اور آیت مبارکہ ولادت کے بعد دعا کرنے پر دلالت کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
اس کے جواب میں علامہ ابوالفضل الالوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
یعنی ممکن ہو کہ ولادت سے قبل یا ولادت کے وقت آپ کی والدہ نے دعا کی ہو اور اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کر کے سیدہ مریم علیہا السلام کو «مس الشيطان» سے محفوظ کر لیا۔ [روح المعاني: 132/2]
آلوسی صاحب کے بیان کے مطابق مریم علیہاالسلام کی والدہ نے ولادت سے قبل بھی دعا کی تھی اور ولادت کے بعد بھی لہٰذا اس تطبیق میں قرآن اور حدیث دونوں سے اعتراض رفع ہو جاتا ہے ترجمۃ الباب سے حدیث کی مطابقت واضح طور پر قائم ہو جاتی ہے۔

علامہ زمحشری کا اعتراض حدیث پر اور اس کا جواب:
صاحب کشاف ابوالقاسم الزمخشری نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پر ایک طعن وارد کیا ہے جسے یہاں نقل کرنا ضروری ہے، کیونکہ ہمارے اکثر علماء اور بسا اوقات یہ جانے بغیر کہ زمحشری کا مقام اہل علم کے نزدیک کیا ہے ان کے حوالے بغیر تحقیق کے نقل کرتے نظر آتے ہیں، علامہ زمخشری اپنی تفسیر میں حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«ما من مولود يولد الا والشيطان يمسه حين يولد فيستهل صارخا من مس الشيطان اياه الا مريم وابنها فالله اعلم لصحته فان صح فمعناه أن كل مولود يطمع الشيطان فى اغوائه الا مريم و ابنها، فانها كانا معصومين، وكذالك كل من كان......» [تفسير الكشاف: 385/1]
زمحشری صاحب کے ان بیانات سے واضح پتا چلتا ہے کہ آپ حدیث کے حقیقی معنی نہیں اخذ کر رہے ہیں، اسی لئے آپ نے روایت کی صحت میں توقف اختیار کیا ہے، (حالانکہ جو حدیث بخاری و مسلم میں اصول میں بیان ہو گی، وہ تمام غبار سے پاک ہو گی، یہ قاعدہ ضرور یاد رکھنا چاہیے) اور کہا ہے کہ یہ روایت صحیح اس وقت مانی جائے گی جب اس کے حقیقی معنی مراد نہ ہوں، لہٰذا انہوں نے معنی اخذ کرتے ہوئے اپنی رائے یوں دی کہ «مس الشيطان» سے انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش مراد ہے پیدائش کے وقت شیطان جب یہ کوشش کرتا ہے تو بچہ رونے لگتا ہے، بچہ اس وقت شیطانی وسواوس سے مانوس نہیں ہوتا، حالانکہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس میں گمراہی قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی نہ عقائد کے اعتبار سے اور نہ ہی قول و عمل کے اعتبار سے۔
علامہ زمحشری نے حدیث کے حقیقی معنی کو اخذ کرنے سے پہلو تہی برتی ہے، جو حقیقتاً حدیث کے مفہوم سے روگردانی کے مترادف ہے اور مزید یہ کہ یہ عبارت بھی ان کے معتزلی ہونے کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ «فانهم! ولا تكن من الغافلين.»

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ زمحشری کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
«والذي يقتضيه لفظ الحديث لا اشكال فى معناه ولا مخالفة لما ثبت من عصمة الانبياء بل ظاهر الخبر ان ابليس ممكن من مس كل مولود عند ولادته» [فتح الباري لابن حجر: 180/8]
یعنی حدیث جس لفظ کی طرف تقاضا کرتی ہے اس پر کسی قسم کا کوئی اشکال وارد نہیں ہوتا، نہ ہی اس کے مطالب پر اور نہ ہی یہ مخالف ہے ان احادیث کے جس میں عصمت انبیاء ثابت ہے بلکہ ظاہری خبر یہ ہے کہ ابلیس ہر پیدا ہونے والے بچہ کوچھوتا ہے، جو حقیقی معنوں میں اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے ہوتے ہیں انہیں شیطان کا مس کرنا کوئی نقصان نہیں پہنچاتا، اسی طرح مریم علیہاالسلام اور ان کی اولاد بھی اس کے مس سے محفوظ رہے، پس یہ توجیہ ہے خاص ہونے کی اور یہ بھی لازم نہیں ہے کہ مریم علیہاالسلام اور ان کے بیٹے کے علاوہ مخلصین پر شیطان کا تسلط ہو سکتا ہو۔

مزید حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
زمحشری کا اعتراض فضول ہے، کیونکہ روایت میں یہ تصریح موجود ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے اس وقت شیطان چوکا مارتا ہے، اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ شیطان پوری عمر انسان کے چوکے مارتا ہے اور یہ مشاہدہ ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو روتا ہے۔ [فتح الباري لابن حجر: 180/8]

امام قسطلانی رحمہ اللہ زمحشری کے اس اعتراض کے جواب پر فرماتے ہیں کہ:
شیطان کا مس کرنا ہمیشہ نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ مس کرنا گمراہ کرنے کے لیے ہے، (بلکہ اس سے حقیقی معنی مراد لئے جائیں گے) اور اس حدیث کی صحت کے لئے یہی کافی ہے کہ اس روایت کی تصحیح بخاری و مسلم نے کی ہے بغیر کسی قدح کے۔ [ارشاد الساري: 4233/8]
لہٰذا علامہ زمخشری نے حدیث کی تاویل کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ دراصل فلاسفروں کا کام ہوتا ہے جس سے اجتناب کرنا انتہائی ضروری ہے، کیوں کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم وہی مطالب و معانی اخذ کریں گے جونصومي شریہ کے مطابق ہوں گے۔
قائدہ یاد رکھیں! قرآن مجید کی تفسیر قرآن مجید اور احادیث کے ذریعے کی جائے گی، اس میں پہلے اور دوسرے نمبر کا کوئی چکر نہیں ہے، دوسرے نمبر پر قرآن کی تفسیر صحابہ کے اقوال کے ذریعے ہو گی، یہی سب سے مفید قاعدہ ہے، بعد میں الفاظوں کی سمجھ اور معنی کے لغت کی طرف التفات کیا جائے، کیونکہ قرآن مجید کی تفسیر کے لئے احادیث کافی و شافی کی حیثیت رکھتی ہیں، لہٰذا علامہ زمحشری یا پھر ان کی طرح دوسرے معتزلی کی تفاسیر دراصل فلاسفروں سے متاثر ہوا کرتی ہیں۔

امام قسطلانی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں،
مذکورہ حدیث صحاح میں مدون کی گئی ہے، لہٰذا (اس کے بعد) کسی فلاسفر کی طرف میلان اختیار کرنا درست نہیں اور ابن رومی کے قول سے اجتناب بھی واجب ہے۔ [ارشاد الساري: 4233/8]

محترم قارئین! ہر وہ تفسیر کی کتاب جس میں اہل سنت کے موقف کے خلاف لکھا گیا ہو اس سے بچنا ضروری ہے، معتزلہ ایک گمراہ کن فرقہ گزرا ہے، اس نے عقیدہ توحید، آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ میں کئی ایک تاویلات پیش کی ہیں، معتزلی عقائد کی تفصیل جاننے کے لیے ان حضرات کی تفاسیر معروف ہیں۔
➊ تفسیر عبدالرحمن بن کیسان الاصم شیخ ابراھیم بن اسماعیل بن علیّۃ، متوفی سنۃ 218 ھ۔ ھو: ابراھیم بن اسماعیل بن ابراھیم بن مقسم ابواسحاق البصری معروف علیہ احد المتکلمین [انظر تاريخ بغداد للخطيب: 22/6]
اسی طرح ایک اور صاحب ہیں:
➋ ابوعلی الجبائی ھو: محمد بن عبد الوہاب، ابوعلی الجبائی شیخ المعتزلہ (توفی: 303 ھ) [انظر البدايه والنهايه لابن كثير: 125/11]
التفسیر الکبیر للقاضی عبد الجبار الھمزانی: ھو: عبد الجبار بن احمد الھمزانی القاضی ابوالحسن۔ (المعتزلی، متوفی: 410ھ) [انظر: العبر فى من غبر: 121/3]
➍ علی بن عیسىٰ الرمانی: ھو علی بن عیسى الدمانی النحوی المعتزلی ابوالحسن (متوفی 384 ھ) [انظر: سير اعلام النبلاء: 534/16]
الکشاف ابوالقاسم الزمحشری: ھو: محمود بن عمر الزمحشری المفسر النحوی (متوفی: 538ھ۔)

علامہ زمحشری کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دوٹوک الفاظ میں لکھا ہے کہ:
«صالح، لكنه داعية الي الا عتزال أجارنا الله، فكن حزرا من كشافة» [لسان الميزان: 651/6]
صالح تھا، لیکن اعتزال کی طرف داعی تھا، اللہ تعالیٰ ہمیں بچائے اور (اے قاری) آپ بچو ان کی تفسیر کشاف (کے پڑھنے) سے۔

لہٰذا یہ چند حضرات ہیں، جنہوں نے اعتزال کو فروغ دیا ہے اور ان کا کام اکثر و بیشتر تفسیری حوالوں سے نقل کیا جاتا ہے چنانچہ گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ان گمراہ کرنے والے لوگوں کی تفاسیر سے اجتناب کیا جائے اور صحیح العقیدہ مفسرین خصوصاً سلف میں جو صحیح العقیدہ مفسر گزرے ہیں، ان کی تفاسیر سے استفادہ کیا جائے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 65   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 69  
´ابن آدم پر پیدائش کے وقت شیطانی حملہ`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ بَنِي آدَمَ مَوْلُودٌ إِلَّا يَمَسُّهُ الشَّيْطَانُ حِينَ يُولَدُ فَيَسْتَهِلُّ صَارِخًا مِنْ مَسِّ الشَّيْطَانِ غَيْرَ مَرْيَمَ وَابْنِهَا» . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام کے ہر ایک بچے کی پیدائش کے وقت شیطان اسے ضرور چھوتا اور چوکا مارتا ہے جس سے بچہ رونے اور چیخنے لگتا ہے۔ مگر مریم علیہ السلام اور ان کے صاحبزادے عیسٰی علیہ السلام کو شیطان ہاتھ نہیں لگا سکا اور نہ ان کو ایذا پہنچا سکا۔ اس کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 69]

تخریج:
[صحيح بخاري 3431]،
[صحيح مسلم 6135]

فقہ الحدیث:
➊ پیدائش کے وقت (پیدا ہونے والے پر مکلف) شیطان اسے چھوتا ہے جس کی وجہ سے عام طور پر بچہ چیخ اٹھتا ہے۔
➋ عمران کی بیوی اور مریم کی والدہ نے دعا کی تھی:
«وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ»
اور اے اللہ! میں اسے (مریم کو) اور اس کی ذریت کو شیطان رجیم سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ [آل عمران: 36]
اس دعا کی برکت سے اللہ نے مریم اور ان کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کو شیطان کے لمس (چھونے) سے محفوظ رکھا۔ اسی طرح انبیاء اور اللہ کے برگزیدہ بندے اللہ کے فضل و کرم سے شیطان کے لمس سے محفوظ رہتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ»
سوائے ان میں سے تیرے مخلص بندے۔ [الحجر: 40]
یعنی اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے اللہ کے فضل وکرم سے شیطان کے چھونے سے محفوظ رہتے ہیں۔ «والحمد لله»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 69   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 70  
´ابن آدم پر پیدائش کے وقت شیطانی حملہ`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صِيَاحُ الْمَوْلُودِ حِينَ يَقَعُ نَزْغَةٌ من الشَّيْطَان» . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بچے کا پیدا ہونے کے وقت چلانا شیطان کے چوکا مارنے کے سبب سے ہے۔ اس کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 70]

تخریج:
[صحيح مسلم 6136]

فقہ الحدیث:
➊ اس روایت کی تشریح کے لیے دیکھئے مشكوة المصابيح حدیث 69۔
➋ یہ روایت صحیح بخاری میں نہیں ملی، بلکہ ہمارے علم کے مطابق صحیحین میں سے صحیح مسلم ہی میں موجود ہے۔ «والله اعلم»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 70   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3431  
3431. حضرت ابوہریرۃ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا: بنو آدم میں سے جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے۔ تو پیدائش کے وقت اسے شیطان چھوتا ہے اور بچہ شیطان کے مس کرنے کی وجہ سے چیخنے لگتاہے۔ مریم ؑ اور ان کے بیتے حضرت عیسیٰ ؑ کے علاوہ۔ پھر ابوہریرہ ؓنے بیان کیا (اس کی وجہ یہ دعا ہے:)میں اسے (مریم ؑ) اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3431]
حدیث حاشیہ:

ایک حدیث میں ہے کہ جب بھی بچہ پیدا ہوتا ہے شیطان اس کے پہلو میں اپنی انگلی مارتا ہے لیکن حضرت عیسیٰ ؑ اس سے محفوظ ر ہے۔
(صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3286)

اس حدیث میں حضرت مریم ؑ کو بھی شامل کیاگیا ہے۔
دراصل پہلی حدیث میں بچے کے پہلو میں انگلی مارنے کے اعتبار سے حصر تھا اور اس حدیث میں مس کے لحاظ سے حصر ہے اور یہ دونوں حکم مختلف اورالگ الگ ہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3431   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.