الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2074
´نکاح شغار کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار سے منع فرمایا۔ مسدد نے اپنی حدیث میں اتنا اضافہ کیا ہے: میں نے نافع سے پوچھا: شغار ۱؎ کیا ہے؟ انہوں نے کہا آدمی کسی کی بیٹی سے نکاح (بغیر مہر کے) کرے، اور اپنی بیٹی کا نکاح اس سے بغیر مہر کے کر دے اسی طرح کسی کی بہن سے (بغیر مہر کے) نکاح کرے اور اپنی بہن کا نکاح اس سے بغیر مہر کے کر دے ۲؎۔ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2074]
فوائد ومسائل:
دورجاہلیت میں یہ نکاح شغار کے نام سے رائج تھا، اس صورت یہ تھی کہ ایک شخص اپنی بہن، بیٹی کی اس شرط پر دوسرے شخص سے شادی کرتا کہ وہ شخص بھی اپنی بہن یا بیٹی کی اس شخص سے شادی کرے اور ایک کا مہر دوسرے کا نکاح ہوتا،علیحدہ سے مہر ادا نہ کیا جاتا۔
گویا یہ نکاح ایسا تھا کہ جیسا کہ آج کل بٹے یا ادلے بدلے (بٹاسٹا) کے طور پر بعض جگہ نکاح کیے جاتے ہیں ایسا نکاح جس میں مہر نہ ہو تو یہ بالکل ناجائز اور حرام ہے اگر ہر لڑکی کا حق مہر الگ سے مقرر کیا گیا ہو تو نکاح کے صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں مگر بدلے کی یہ شرط اور اس طرح کے نکاح بالعموم خاندانوں میں فساد کا ذریعہ بنتے ہیں اس لیے کچھ علما متشدد ہیں اور کہتے ہیں کہ خواہ حق مہر بھی کر لیا گیا ہو تو ناجائز ہے مگر یہ فتوی محل نظر ہے۔
درج ذیل حدیث کے واقعہ میں آرہا ہے کہ عباس بن عبداللہ بن عباس اورعبدالرحمن بن حکم نے اس قسم کا نکاح (شغار) کیا اور اس نکاح ہی کو حق مہر قرار دیا تو حضرت معاویہ رضی اللہ نے ان میں تفریق کروا دی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2074