الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: تیمم کے احکام و مسائل
The Book of Tayammum (Rubbing Hands and Feet with Dust)
حدیث نمبر: 348
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبدان، قال: اخبرنا عبد الله، قال: اخبرنا عوف، عن ابي رجاء، قال: حدثنا عمران بن حصين الخزاعي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راى رجلا معتزلا لم يصل في القوم، فقال:" يا فلان، ما منعك ان تصلي في القوم؟ فقال: يا رسول الله اصابتني جنابة ولا ماء، قال: عليك بالصعيد فإنه يكفيك".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ الْخُزَاعِيُّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا مُعْتَزِلًا لَمْ يُصَلِّ فِي الْقَوْمِ، فَقَالَ:" يَا فُلَانُ، مَا مَنَعَكَ أَنْ تُصَلِّيَ فِي الْقَوْمِ؟ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ وَلَا مَاءَ، قَالَ: عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ فَإِنَّهُ يَكْفِيكَ".
ہم سے عبدان نے حدیث بیان کی، کہا ہمیں عبداللہ نے خبر دی، کہا ہمیں عوف نے ابورجاء سے خبر دی، کہا کہ ہم سے کہا عمران بن حصین خزاعی نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ الگ کھڑا ہوا ہے اور لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک نہیں ہو رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے فلاں! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روک دیا۔ اس نے عرض کی یا رسول اللہ! مجھے غسل کی ضرورت ہو گئی اور پانی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تم کو پاک مٹی سے تیمم کرنا ضروری تھا، بس وہ تمہارے لیے کافی ہوتا۔

Narrated `Imran bin Husain Al-Khuza`i: Allah's Apostle saw a person sitting aloof and not praying with the people. He asked him, "O so and so! What prevented you from offering the prayer with the people?" He replied, "O Allah's Apostle! I am Junub and there is no water." The Prophet said, "Perform Tayammum with clean earth and that will be sufficient for you."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 7, Number 344


   صحيح البخاري348عمران بن الحصينعليك بالصعيد فإنه يكفيك
   صحيح البخاري3571عمران بن الحصينأمره أن يتيمم بالصعيد ثم صلى أمر بمزادتيها فمسح في العزلاوين فشربنا عطاشا أربعين رجلا حتى روينا فملأنا كل قربة معنا وإداوة غير أنه لم نسق بعيرا وهي تكاد تنض من الملء هاتوا ما عندكم فجمع لها من الكسر والتمر حتى أتت أهلها قالت لقيت أسحر الناس أو هو نبي كما
   صحيح مسلم1563عمران بن الحصينأمره رسول الله فتيمم بالصعيد فصلى
   سنن النسائى الصغرى322عمران بن الحصينعليك بالصعيد فإنه يكفيك
   بلوغ المرام110عمران بن الحصين‏‏‏‏إنما يكفيك ان تقول بيديك هكذا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 110  
´تیمّم کے لیے ایک ہی ضرب کافی ہے `
«. . . فقال: «‏‏‏‏إنما يكفيك ان تقول بيديك هكذا» ‏‏‏‏،‏‏‏‏ ثم ضرب بيديه الارض ضربة واحدة ثم مسح الشمال على اليمين وظاهر كفيه ووجهه . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے اپنے ہاتھ سے اس طرح کر لینا ہی کافی تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک مرتبہ زمین پر مارا پھر بائیں کو دائیں پر ملا اپنے ہاتھوں کی پشت اور چہرے پر . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 110]

لغوی تشریح:
«فَأَجْنَبْتُ» میں جنبی ہو گیا۔
«فَتَمَرَّغْتُ» لوٹ پوٹ ہوا۔

فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث قول و فعل دونوں اعتبار سے یہ فائدہ دے رہی ہے کہ تیمّم کے لیے ایک ہی ضرب کافی ہے اور صرف ہتھیلیوں کی اندرونی و بیرونی سطح پر مسح کرنا ہے، کہنیوں تک نہیں، اس مسئلے میں یہ حدیث صحیح ترین ہے۔ اس کے مقابلے میں جو دوسری روایات ہیں وہ یا تو ضعیف ہیں یا پھر موقوف، جو اس حدیث کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ [سبل السلام]
➋ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تیمّم میں چہرے اور ہاتھوں کے لیے ایک ہی ضرب کافی ہے۔ جمہور محدثین و فقہاء کا یہی مذہب ہے، البتہ احناف اور شوافع دو ضربوں کے قائل ہیں۔ ایک ضرب چہرے کے لیے اور دوسری ہاتھوں کے لیے۔
➌ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے مروی مذکورہ حدیث جمہور کی دلیل ہے۔ اس مسئلے میں صحیح ترین روایت ہونے کے اعتبار سے اسی پر عمل ہے۔
➍ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے پانی نہ ملنے پر اپنی عقل و دانش سے زمین پر لوٹ پوٹ ہونے کا عمل اختیار کیا کہ جب پانی سے غسل کیا جاتا ہے تو سارا بدن دھویا جاتا ہے اور مٹی بھی چونکہ پانی کے قائم مقام ہے، اس لیے سارے جسم پر مٹی لگنی چاہیے۔
➎ نص کا علم نہ ہونے کی بنا پر انہوں نے ایسا عمل کیا ورنہ نص کی موجودگی میں مجتہد کے قیاس کی کوئی حیثیت نہیں، لہٰذا جب قیاس، نص کے مخالف ہو تو اس صورت میں کسی کے لیے بھی یہ روا نہیں کہ وہ نص کو چھوڑ کر قیاس پر عمل کرے۔
➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے زمین پر اپنی ہتھیلیاں ماریں اور ان پر پھونک ماری، لہٰذا ضرب لگانے کے بعد پھونک مارنا بھی مسنون ہے۔
➐ ایک جنبی کے لیے پانی کی عدم موجودگی میں اتنا تیمّم کر لینا کفایت کر جاتا ہے۔

راویٔ حدیث:
(سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما) عین پر فتحہ اور میم پر فتحہ اور تشدید ہے۔ ان کی کنیت ابویقظان تھی۔ سابقین اولین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شمار ہوتے ہیں۔ مکہ میں انہیں طرح طرح کی اذیتیں دی گئیں مگر ان کے پایہ ثبات میں ذرہ بھر لرزش نہ آئی۔ دونوں ہجرتیں، یعنی ہجرت حبشہ اور ہجرت مدینہ کیں۔ غزوہ بدر سمیت سارے معرکوں میں شمولیت کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا تھا: افسوس، اے عمار! تجھے باغی گروہ قتل کرے گا۔ 36 ہجری میں معرکہ صفین میں یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے طرف داروں میں سے تھے تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکریوں میں سے ایک باغی اور سرکش گروہ نے ان کو قتل کر دیا۔ اس وقت ان کی عمر 73 برس تھی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 110   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 322  
´مٹی سے تیمم کرنے کا بیان۔`
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو الگ تھلگ بیٹھا دیکھا، اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں ادا کی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے فلاں! کس چیز نے تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے روکا؟ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے جنابت لاحق ہو گئی ہے اور پانی نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پانی نہ ملنے پر) مٹی کو لازم پکڑو کیونکہ یہ تمہارے لیے کافی ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 322]
322۔ اردو حاشیہ: تیمم کن چیزوں سے کیا جا سکتا ہے؟ اس مسئلے کی تفصیل کے لیے کتاب الغسل و التیمم کا ابتدائیہ دیکھیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 322   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:348  
348. حضرت عمران بن حصین خزاعی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو الگ کھڑا تھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ نے فرمایا: اے فلاں! تجھے لوگوں کے ساتھ نماز ادا کرنے میں کون سا عذر مانع تھا؟ اس نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے جنابت لاحق ہو گئی ہے اور میرے پاس پانی نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو مٹی استعمال کر لیتا، وہ تیری ضرورت کے لیے کافی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:348]
حدیث حاشیہ:

صحیح بخاری ؒ کے متعدد نسخوں میں یہاں لفظ باب نہیں ہے۔
چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں کہ اکثر صحیح نسخوں میں لفظ باب نہیں ہے اور ایسا ہی صحیح معلوم ہو تا ہے، اس بنا پر حدیث کی مناسبت باب سابق سے بایں طور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے حق میں فرمایا کہ تو مٹی کو استعمال کر لیتا وہ تیرے لیے کافی تھی۔
جس طرح یہ جملہ مٹی کی تمام انواع کے لیے عام ہے، اسی طرح اس کا عموم تیمم کی کیفیت کے لحاظ سے بھی ہے کہ وہ ایک ضرب کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور دو کے ساتھ بھی (شرح تراجم بخاري)
لیکن یہ توجیہ امام بخاری ؒ کے عنوان کے خلاف ہے، حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ اگر اسے باب سابق کا تتمہ خیال کیا جائے تو وہ بایں طورہے کہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اسے مطلق طور پر مٹی استعمال کرنے کے متعلق فرمایا ہے اور مطلق کا کم ازکم فرد کامل ایک ہوتا ہے، اس سے امام بخاری نے اپنا مدعا ثابت کیا ہے۔
(فتح الباری: 593/1)

امام بخاری ؒ کا باب بلا عنوان کئی ایک اغراض کے پیش نظر ہوتا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے پہلے عنوان ہی کی فصل شمار کہا جائے۔
چنانچہ حدیث مذکور میں کسی عدد کا ذکر نہیں ہے، اس لیے ایک بار ہاتھ مار کر مسح کر لینا بھی کافی ہے۔
وھوالمقصود باب بلا عنوان کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اس سے طلباء کا امتحان اور تشخید اذہان (ذہنی آزمائش)
مراد ہو، یعنی قارئین خود اس حدیث پر کوئی عنوان قائم کریں، چنانچہ اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا جا سکتا ہے:
(باب الجنب إذا لم يجد الماء تيمم وصلى)
یعنی جنبی آدمی کو اگر پانی نہ ملے تو وہ تیمم کرے اور نماز پڑھے۔

بعض شارحین نے اس مقام پر ایک عجیب نکتہ بیان کیا ہے، وہ اس طرح کہ امام بخاری ؒ اس حدیث سے ایک اشکال کا جواب دینا چاہتے ہیں، اشکال یہ ہے کہ اگر حضرت عمار ؓ کو آیت تیمم معلوم تھی تو وہ زمین پر لوٹ پوٹ کیوں ہوئے اور اگر معلوم نہ تھی تو انھیں کیسے معلوم ہوا کہ مٹی پانی کے قائم مقام ہے؟ امام بخاریؒ نے اس کا جواب اس طرح دیا کہ حضرت عمار نے رسول اللہ ﷺ سے صرف (عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ)
سن رکھا تھا کہ:
تجھے مٹی استعمال کرنی چاہیے۔
اس بنا پر انھوں نے اس کے عموم کو دیکھتے ہوئے تیمم کو غسل پر قیاس کیا اور زمین پر لوٹ پوٹ ہوئے رسول اللہ ﷺ نے ان کی اصلاح فرما دی۔

حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں امام بخاری ؒ ہر کتاب کے آخر میں کوئی ایسی روایت لاتے ہیں جس کے کسی لفظ سے انتہائے کتاب کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔
چنانچہ یہاں لفظ (يَكْفِيكَ)
ہے، یعنی تیمم کے متعلق تجھے اتنا ہی کافی ہے۔
(فتح الباری: 593/1)

واعظین حضرات کا کہنا ہے کہ امام بخاریؒ کتاب کے آخر میں کوئی ایسا لفظ لاتے ہیں جس سے انسان کے خاتمے اور فکر آخرت کی طرف واضح اشارہ ہوتا ہے۔
اس مقام پر بھی امام بخاری نے(عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ)
کے لفظ سے موت یاد دلائی ہے، یعنی خود پر مٹی کو لازم کر لو۔
اس سے قبر کی طرف بھی اشارہ ہے۔
چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ﴾ اسی سے ہم نے تمھیں پیدا کیا اور اسی میں تمھیں لوٹائیں گے اور اسی سے تمھیں دوبارہ نکالیں گے۔
(طٰہ: 20۔
55)

واللہ أعلم وعلمه أتم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 348   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.