الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
Wages (Kitab Al-Ijarah)
32. باب فِي الرَّجُلِ يَقُولُ فِي الْبَيْعِ لاَ خِلاَبَةَ
32. باب: خریدار اگر یہ کہہ دے کہ بیع میں دھوکا دھڑی نہیں چلے گی تو اس کو بیع کے فسخ کا اختیار ہو گا۔
Chapter: If A Man Says When Buying And Selling: No Deception.
حدیث نمبر: 3501
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله الارزي، وإبراهيم بن خالد ابو ثور الكلبي المعنى، قالا: حدثنا عبد الوهاب، قال محمد عبد الوهاب بن عطاء، اخبرنا سعيد، عن قتادة، عن انس بن مالك،" ان رجلا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يبتاع وفي عقدته ضعف، فاتى اهله نبي الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا نبي الله، احجر على فلان فإنه يبتاع وفي عقدته ضعف، فدعاه النبي صلى الله عليه وسلم، فنهاه عن البيع، فقال: يا نبي الله، إني لا اصبر عن البيع، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن كنت غير تارك البيع، فقل: هاء، وهاء، ولا خلابة"، قال ابو ثور: عن سعيد.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأُرُزِّيُّ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ أَبُو ثَوْرٍ الْكَلْبِيُّ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، قَالَ مُحَمَّدٌ عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ، أَخْبَرَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،" أَنَّ رَجُلًا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَبْتَاعُ وَفِي عُقْدَتِهِ ضَعْفٌ، فَأَتَى أَهْلُهُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، احْجُرْ عَلَى فُلَانٍ فَإِنَّهُ يَبْتَاعُ وَفِي عُقْدَتِهِ ضَعْفٌ، فَدَعَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَهَاهُ عَنِ الْبَيْعِ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنِّي لَا أَصْبِرُ عَنِ الْبَيْعِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنْ كُنْتَ غَيْرَ تَارِكٍ الْبَيْعَ، فَقُلْ: هَاءَ، وَهَاءَ، وَلَا خِلَابَةَ"، قَالَ أَبُو ثَوْرٍ: عَنْ سَعِيدٍ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خرید و فروخت کرتا تھا، لیکن اس کی گرہ (معاملہ کی پختگی میں) کمی و کمزوری ہوتی تھی تو اس کے گھر والے اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! فلاں (کے خرید و فروخت) پر روک لگا دیجئیے، کیونکہ وہ سودا کرتا ہے لیکن اس کی سودا بازی کمزور ہوتی ہے (جس سے نقصان پہنچتا ہے) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور اسے خرید و فروخت کرنے سے منع فرما دیا، اس نے کہا: اللہ کے نبی! مجھ سے خرید و فروخت کئے بغیر رہا نہیں جاتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا اگر تم خرید و فروخت چھوڑ نہیں سکتے تو خرید و فروخت کرتے وقت کہا کرو: نقدا نقدا ہو، لیکن اس میں دھوکا دھڑی نہیں چلے گی ۱؎۔ اور ابوثور کی روایت میں ( «أخبرنا سعيد» کے بجائے) «عن سعيد» ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/البیوع 28 (1250)، سنن النسائی/البیوع 10 (4490)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 24 (2354)، (تحفة الأشراف: 1175)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/217) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: پس اگر کسی نے دھوکہ اور فریب کیا، تو بیع فسخ ہو جائے گی اور لیا دیا واپس ہو جائے گا۔

Narrated Anas ibn Malik: During the time of the Messenger of Allah ﷺ a man used to buy (goods), and he was weak in his intellect. His people came to the Prophet of Allah ﷺ and said: Prophet of Allah, stop so-and-so (to make a bargain) for he buys (goods), but he is weak in his intellect. So the Prophet ﷺ called on him and forbade him to make a bargain. He said: Prophet of Allah, I cannot keep away myself from business transactions. Thereupon the Messenger of Allah ﷺ said: If you cannot give up making a bargain, then say: Take, and give, and there is no attempt to deceive.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3494


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
وللحديث شواھد منھا الحديث السابق (3500)

   جامع الترمذي1250أنس بن مالكبايعت فقل هاء وهاء ولا خلابة
   سنن أبي داود3501أنس بن مالكإن كنت غير تارك البيع فقل هاء وهاء ولا خلابة
   سنن ابن ماجه2354أنس بن مالكإذا بايعت فقل ها ولا خلابة
   سنن النسائى الصغرى4490أنس بن مالكإذا بعت فقل لا خلابة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2354  
´جو شخص اپنا مال برباد کرتا ہو تو اس پر حجر (پابندی لگانا) درست ہے۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کچھ کم عقل تھا، اور وہ خرید و فروخت کرتا تھا تو اس کے گھر والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کو اپنے مال میں تصرف سے روک دیجئیے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلایا، اور اس کو خرید و فروخت کرنے سے منع کیا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ خرید و فروخت نہ کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا جب خرید و فروخت کرو تو یہ کہہ لیا کرو کہ دھوکا دھڑی کی ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2354]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
«لاخلابة» دھوکا نہیں۔
کامطلب یہ ہے کہ اگر اس بیع میں تم نے مجھ سے دھوکا کیا تو معلوم ہونے پر میں بیع فسخ کرنے کا حق رکھتا ہوں۔

(2)
انہیں دھوکا اس لیے لگ جاتا تھا کہ ایک بار سر میں شدید زخم آنے کی وجہ سے ان کی عقل متائر ہو گئی تھی۔

(3)
جس شخص کی عقل درست نہ ہو اسے خرید وفروخت سے حکماً روکا جا سکتا ہے اور اس کی بیع کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے اس کے بعد جوشخص اس سے لین دین کرے گا وہ خود ذمہ دار ہو گا کیونکہ وارث اس کے لین دین کو کالعدم قرار دینے کا حق رکھتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2354   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1250  
´جسے بیع میں دھوکہ دے دیا جاتا ہو وہ کیا کرے؟`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی خرید و فروخت کرنے میں بودا ۱؎ تھا اور وہ (اکثر) خرید و فروخت کرتا تھا، اس کے گھر والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اس کو (خرید و فروخت سے) روک دیجئیے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلوایا اور اسے اس سے منع فرما دیا۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں بیع سے باز رہنے پر صبر نہیں کر سکوں گا، آپ نے فرمایا: (اچھا) جب تم بیع کرو تو یہ کہہ لیا کرو کہ ایک ہاتھ سے دو اور دوسرے ہاتھ سے لو اور کوئی دھوکہ دھڑی نہیں ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1250]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حبان بن منقذ بن عمروانصاری تھے اورایک قول کے مطابق اس سے مراد ان کے والد تھے ان کے سرمیں ایک غزوے کے دوران جو انہوں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ لڑاتھا پتھرسے شدید زخم آ گیا تھا جس کی وجہ سے ان کے حافظے اورعقل میں کمزوری آ گئی تھی اورزبان میں بھی تغیرآ گیا تھا لیکن ابھی تمیزکے دائرہ سے خارج نہیں ہوئے تھے۔

2؎:
مطلب یہ ہے کہ دین میں دھوکہ وفریب نہیں کیونکہ دین تونصیحت وخیرخواہی کا نام ہے۔

3؎:
ان کا کہنا ہے کہ یہ حبان بن منقذ کے ساتھ خاص تھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1250   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.