الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: مسنون ادعیہ و اذکار
Chapters on Supplication
111. باب
111. باب: ادائیگی قرض کے لیے دعا کا باب۔
حدیث نمبر: 3563
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا يحيى بن حسان، حدثنا ابو معاوية، عن عبد الرحمن بن إسحاق، عن سيار، عن ابي وائل، عن علي رضي الله عنه، ان مكاتبا جاءه , فقال: إني قد عجزت عن كتابتي فاعني، قال: الا اعلمك كلمات علمنيهن رسول الله صلى الله عليه وسلم لو كان عليك مثل جبل صير دينا اداه الله عنك؟ قال: " قل: اللهم اكفني بحلالك عن حرامك، واغنني بفضلك عمن سواك ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ سَيَّارٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ مُكَاتَبًا جَاءَهُ , فَقَالَ: إِنِّي قَدْ عَجَزْتُ عَنْ كِتَابَتِي فَأَعِنِّي، قَالَ: أَلَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ عَلَّمَنِيهِنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ كَانَ عَلَيْكَ مِثْلُ جَبَلِ صِيرٍ دَيْنًا أَدَّاهُ اللَّهُ عَنْكَ؟ قَالَ: " قُلْ: اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ، وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ.
علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک مکاتب غلام نے ۱؎ ان کے پاس آ کر کہا کہ میں اپنی مکاتبت کی رقم ادا نہیں کر پا رہا ہوں، آپ ہماری کچھ مدد فرما دیجئیے تو انہوں نے کہا: کیا میں تم کو کچھ ایسے کلمے نہ سکھا دوں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائے تھے؟ اگر تیرے پاس «صیر» پہاڑ کے برابر بھی قرض ہو تو تیری جانب سے اللہ اسے ادا فرما دے گا، انہوں نے کہا: کہو: «اللهم اكفني بحلالك عن حرامك وأغنني بفضلك عمن سواك» اے اللہ! تو ہمیں حلال دے کر حرام سے کفایت کر دے، اور اپنے فضل (رزق، مال و دولت) سے نواز کر اپنے سوا کسی اور سے مانگنے سے بے نیاز کر دے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10128) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: مکاتب غلام سے مراد وہ غلام ہے: جس نے غلامی سے آزادی کے لیے اپنے مالک سے کسی متعین رقم کی ادائیگی کا معاہدہ کیا ہو۔

قال الشيخ الألباني: حسن، التعليق الرغيب (2 / 40)، الكلم الطيب (143 / 99)

   جامع الترمذي3563علي بن أبي طالبقل اللهم اكفني بحلالك عن حرامك وأغنني بفضلك عمن سواك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي3563  
سوال: محترم حافظ صاحب! ادائیگی قرض کے بارے میں جو حدیث:
«اللهم اكفني بحلالك عن حرامك واغنني بفضلك عمن سواك» ہے اسے آپ کے استاذ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اور آپ نے بھی حصن مسلم کی تحقیق میں حسن کہا ہے، مجھے ایک عالم نے بتایا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ یہ صورت حال کیا ہے؟ رہنمائی فرما دیں۔ جزاك الله خيرا۔
جواب: . آپ کی مطلوبہ روایت سنن الترمذی (3563)، مسند احمد (153/1 ح 1319)، مسند البزار (البحر الزخار 2/ 185 ح 563)، المستدرک للحاکم (1/ 538)، المختاره للمقدسی (489)، کتاب الدعاء للطبرانی (1042)، الدعوات الكبير للبيهقی (303) وغیرہ میں منقول ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ روایت ہمارے استاد محترم حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے نزدیک حسن، نیز راقم الحروف نے بھی اسے وسنده حسن ہی لکھا ہے، جیسا کہ حصن مسلم میں مذکور ہے۔ آپ کے سوال کے بعد میں نے ازسرنو تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ اس روایت کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق المدنی نہیں بلکہ عبدالرحمن بن اسحاق الكوفي الواسطی ہے جو مشہور ضعیف ہے۔ سنن الترمذی میں اس کی سند درج ذیل ہے:
«حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ سَيَّارٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ»
ابومعاویه الضریر محمد بن حازم ہیں اور ان کے اساتذہ میں عبدالرحمن بن اسحاق الکوفی ہی ہے، اسی طرح ابن اسحاق الکوفی کے استادوں میں سیار بن ابی الحکم کا نام ملتا ہے، جبکہ ابن اسحاق المدنی کے شاگردوں اور اساتذہ میں ابومعاویه الضریر اور سیار بن ابی الحکم کا تذکرہ نہیں، جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ عبدالرحمن الکوفی الواسطی ہے جو جمہور کے نزدیک ضعیف الحدیث ہے، لہٰذا اس کی روایت سے استدلال جائز نہیں۔
میرے استاد محترم رحمہ اللہ سے اور مجھ سے بھی ایک انسان ہونے کے ناطے یہ سہو ہوا، اللہ ہم پر رحم فرمائے، اور کوئی انسان سہو سے محفوظ نہیں ہے۔ عافیت اسی میں ہوتی ہے کہ جب اپنی غلطی و سہو کا علم ہو جائے تو فوراً حق کی طرف رجوع کیا جائے، چنانچہ راقم الحروف کے نزدیک اب مذکورہ روایت ضعیف ہی ہے۔
اس روایت کا ایک شاہد امالی ابن بشران (565) میں ہے لیکن وہ محمد بن زکریا الغلالی اور ابوالحسين عبدالباقی بن قانع در ضعیف راویوں کی وجہ سے ضعیف ہے، لہٰذا اس سے بھی استدلال درست نہیں ہے۔ «والله اعلم»
ایک غلط فہمی کا ازالہ
المختارہ وغیرہ میں موجود ہے کہ یہ عبد الرحمن بن اسحاق القرشی ہے اور وہ ثقہ ہے، تو پھر یہ روایت صحیح ثابت ہوئی۔
عرض ہے کہ محض القرشی سے تعین کرنے میں نظر ہے کیونکہ:
امام ابن عدی رحمہ اللہ نے عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی (ضعیف) راوی کو بھی القرشی قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [الكامل لابن عدي 189/7]
لہٰذا جب تک دلائل سے یہ ثابت اور متعین نہیں ہو جاتا کہ اس سند میں عبدالرحمن ابن اسحاق المدنی ہی ہے تب تک یہ روایت ضعیف ہی قرار پائے گی۔ «والله اعلم»
[ماهنامه الحديث حضرو، شماره 133، صفحه نمبر: 16]
   ماہنامہ الحديث حضرو، شمارہ 125، حدیث\صفحہ نمبر: 17   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3563  
´ادائیگی قرض کے لیے دعا کا باب۔`
علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک مکاتب غلام نے ۱؎ ان کے پاس آ کر کہا کہ میں اپنی مکاتبت کی رقم ادا نہیں کر پا رہا ہوں، آپ ہماری کچھ مدد فرما دیجئیے تو انہوں نے کہا: کیا میں تم کو کچھ ایسے کلمے نہ سکھا دوں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائے تھے؟ اگر تیرے پاس «صیر» پہاڑ کے برابر بھی قرض ہو تو تیری جانب سے اللہ اسے ادا فرما دے گا، انہوں نے کہا: کہو: «اللهم اكفني بحلالك عن حرامك وأغنني بفضلك عمن سواك» اے اللہ! تو ہمیں حلال دے کر حرام سے کفایت کر دے، اور اپنے فضل (رزق، مال و دولت) سے نواز کر اپنے سوا کسی اور سے مانگنے سے بے نیاز کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3563]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مراد وہ غلام ہے: جس نے غلامی سے آزادی کے لیے اپنے مالک سے کسی متعین رقم کی ادائیگی کا معاہدہ کیا ہو۔

2؎:
اے اللہ! تو ہمیں حلال دے کر حرام سے کفایت کر دے،
اور اپنے فضل (رزق،
مال ودولت)
سے نواز کر اپنے سوا کسی اور سے مانگنے سے بے نیاز کر دے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3563   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.