الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
رضاعت کے احکام و مسائل
The Book of Suckling
14. باب جَوَازِ هِبَتِهَا نَوْبَتَهَا لِضَرَّتِهَا:
14. باب: اپنی باری سوکن کو ہبہ کرنے کا بیان۔
Chapter: It is permissible for a wife to give her turn to a co-wife
حدیث نمبر: 3629
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا زهير بن حرب ، حدثنا جرير ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: ما رايت امراة احب إلي ان اكون في مسلاخها من سودة بنت زمعة من امراة فيها حدة، قالت: " فلما كبرت جعلت يومها من رسول الله صلى الله عليه وسلم لعائشة، قالت: يا رسول الله، قد جعلت يومي منك لعائشة، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقسم لعائشة يومين، يومها ويوم سودة "،حدثنا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا جَرِيرٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: مَا رَأَيْتُ امْرَأَةً أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَكُونَ فِي مِسْلَاخِهَا مِنْ سَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ مِنَ امْرَأَةٍ فِيهَا حِدَّةٌ، قَالَت: " فَلَمَّا كَبِرَتْ جَعَلَتْ يَوْمَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَائِشَةَ، قَالَت: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ جَعَلْتُ يَوْمِي مِنْكَ لِعَائِشَةَ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقْسِمُ لِعَائِشَةَ يَوْمَيْنِ، يَوْمَهَا وَيَوْمَ سَوْدَةَ "،
جریر نے ہمیں ہشام بن عروہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد (عروہ بن زبیر) سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے کوئی عورت نہیں دیکھی جو مجھے سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کی نسبت زیادہ پسندیدہ ہو کہ میں اس کے پیکر میں ہوں (اس جیسی بن جاؤں) ایک ایسی خاتون کی نسبت جن میں کچھ گرم مزاجی (بھی) تھی، کہا: جب وہ بوڑھی ہو گئیں تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی باری کا دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے آپ کے ساتھ اپنی باری کا دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا کو دو دن دیتے، ایک ان کا دن اور ایک حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا دن
حضرت عائشہ رضی اللہتعالی عنہا بیان کرتی ہیں، میں نے کسی عورت کو نہیں دیکھا، جس جیسا میں ہونا پسند کرتی، سوائے حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے۔ وہ ایک ایسی عورت تھی جس میں تیزی (حدت) تھی یعنی وہ گرم مزاج تھیں۔ جب وہ بوڑھی ہو گئیں تو اس نے اپنی باری جو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل تھی، مجھے دے دی۔ اس نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی باری عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دو دن دیتے تھے۔ اس کا اپنا اور سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1463

   صحيح البخاري5212عائشة بنت عبد اللهيقسم لعائشة بيومها ويوم سودة
   صحيح مسلم3629عائشة بنت عبد اللهيقسم لعائشة يومين يومها ويوم سودة
   سنن أبي داود2135عائشة بنت عبد اللهلا يفضل بعضنا على بعض في القسم من مكثه عندنا وكان قل يوم إلا وهو يطوف علينا جميعا فيدنو من كل امرأة من غير مسيس حتى يبلغ إلى التي هو يومها فيبيت عندها لقد قالت سودة بنت زمعة حين أسنت وفرقت أن يفارقها رسول الله يا رسول الله يومي لعائشة
   سنن ابن ماجه1972عائشة بنت عبد اللهيقسم لعائشة بيوم سودة
   بلوغ المرام909عائشة بنت عبد اللهيقسم لعائشة يومها ويوم سودة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1972  
´عورت کا اپنی باری سوکن کو ہبہ کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ام المؤمنین سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا بوڑھی ہو گئیں، تو انہوں نے اپنی باری کا دن عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دیا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سودہ رضی اللہ عنہا کی باری والے دن عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1972]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  خاوند کا باری کے مطابق اپنی بیوی کے ہاں رات گزارنا عورت کا حق ہے، اسی لیے وہ اپنے حق سے دست بردار بھی ہو سکتی ہے اور اپنا حق کسی اور کو بھی دے سکتی ہے۔

(2)
باری چھوڑ دینے کا مطلب یہ نہیں کہ عورت کے تمام حقوق ساقط ہو گئے۔
مذکورہ صورت میں مرد کو چاہیے کہ دیگر حقوق کی ادائیگی کا خاص خیال رکھے۔

(3)
رسول اللہ ﷺ پر باری کے مطابق بیویوں کے پاس رہنا فرض نہیں تھا۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿تُرْ‌جِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ﴾ (الأحزاب: 51)
 ان میں سےجسے توچاہے دور رکھ دے اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لے۔
اور اگر تو ان میں سے کسی کو اپنے پاس بلا ئے جنھیں تو نے الگ کر رکھا تھا تو تجھ پر کوئی گناہ نہیں۔
 اس کے باوجود نبی ﷺ باری کا اہتمام فرماتے تھے۔
یہ آپ ﷺ کا کمال حسن خلق ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1972   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 909  
´بیویوں میں باری کی تقسیم کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نے اپنی باری کا دن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے ان کا اپنا دن بھی اور سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کا دن بھی تقسیم کرتے تھے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 909»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب المرأة تهب يومها من زوجها لضرتها....، حديث:5212، ومسلم، الرضاع، باب جواز هبتها نوبتها لضرتها، حديث:1463.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کوئی بیوی اپنی باری دوسری بیوی کو دے سکتی ہے۔
یہ بخشش ناقابل رجوع اور ناقابل واپسی ہوگی بشرطیکہ ایام کی تعیین نہ کی گئی ہو۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 909   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3629  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
مَسْلاَخٌ:
جلد،
چمڑا یعنی میری آرزو اور تمنا یہ تھی۔
میں ان جیسی ہو جاؤں،
کیونکہ وہ انتہائی متین اور سنجیدہ تھیں،
نہایت سخی اور صابرہ وعبادت گزار تھیں۔
فوائد ومسائل:
حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے محسوس کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے طلاق دے دیں گے اور واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے دی،
اور پھر ان کی خواہش پر کہ میں چاہتی ہوں کہ میں قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں اٹھوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجوع فرما لیا شاید اس کی یہ حکمت ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عملاً اس آیت مبارکہ کی تفسیر بیان کرنا چاہتے تھے کہ اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی زیادتی یا روگردانی کا خطرہ ہو تو ان دونوں پر کوئی حرج نہیں کہ وہ آپس میں صلح کر لیں (نساء: 9۔
178)

نیز عملاً طلاق دینے اور رجوع کرنے کا امت کے لیے اسوہ چھوڑیں کیونکہ معلم کتاب تھے۔
چونکہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کبرسنی کی بنا پر مردوں کی خواہش نہیں رہی تھی۔
اس لیے انہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دے دی کیونکہ وہ محبوبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھیں۔
جس سے معلوم ہوا عورت اپنی باری اپنی سوکن کو دے سکتی ہےکیونکہ یہ اس کا حق ہے لیکن خاوند کی رضا مندی ضروری ہے۔
اگرخاوند کوباری چھوڑ دے تو پھر خاوند جس کو چاہے دے سکتا ہے۔
شوافع اور حنابلہ کا یہی مؤقف ہے اور احناف میں علامہ ابن الہمام اور شامی نے اس مؤقف کو اختیار کیا ہے لیکن اگردونوں کا دن متصل نہ ہو تو باقی ازواج کی رضا کے بغیر اس کومتصل نہیں کیا جا سکتا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3629   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.