الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: اسلامی آداب و اخلاق
Chapters on Etiquette
33. بَابُ : الْجَمْعِ بَيْنَ اسْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكُنْيَتِهِ
33. باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اور کنیت ایک ساتھ رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3735
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا سفيان بن عيينة , عن ايوب , عن محمد , قال: سمعت ابا هريرة , يقول: قال ابو القاسم صلى الله عليه وسلم:" تسموا باسمي , ولا تكنوا بكنيتي".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ أَيُّوبَ , عَنْ مُحَمَّدٍ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ , يَقُولُ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَسَمَّوْا بِاسْمِي , وَلَا تَكَنَّوْا بِكُنْيَتِي".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ میرے نام پر نام رکھو، لیکن میری کنیت پر کنیت نہ رکھو۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 39 (110)، والأدب 106 (6188)، صحیح مسلم/الآداب 1 (2134)، سنن ابی داود/الأدب 74 (4965)، (تحفة الأشراف: 14434)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/248، 260 270، 392، 519)، سنن الدارمی/الاستئذان 58 (2735) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري6197عبد الرحمن بن صخرسموا باسمي ولا تكتنوا بكنيتي من رآني في المنام فقد رآني الشيطان لا يتمثل في صورتي من كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار
   صحيح البخاري6188عبد الرحمن بن صخرسموا باسمي ولا تكتنوا بكنيتي
   صحيح البخاري3539عبد الرحمن بن صخرسموا باسمي ولا تكتنوا بكنيتي
   صحيح البخاري110عبد الرحمن بن صخرتسموا باسمي ولا تكتنوا بكنيتي من رآني في المنام فقد رآني الشيطان لا يتمثل في صورتي من كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار
   صحيح مسلم5597عبد الرحمن بن صخرتسموا باسمي ولا تكنوا بكنيتي
   جامع الترمذي2841عبد الرحمن بن صخرنهى أن يجمع أحد بين اسمه وكنيته ويسمي محمدا أبا القاسم
   سنن أبي داود4965عبد الرحمن بن صخرتسموا باسمي ولا تكتنوا بكنيتي
   سنن ابن ماجه3735عبد الرحمن بن صخرتسموا باسمي ولا تكنوا بكنيتي
   مسندالحميدي1178عبد الرحمن بن صخرتسموا باسمي، ولا تكنوا بكنيتي

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 110  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے والے کا گناہ کس درجے کا ہے `
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: تَسَمَّوْا بِاسْمِي، وَلَا تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي، وَمَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَّلُ فِي صُورَتِي، وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ . . .»
. . . ابوصالح سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ (اپنی اولاد) کا میرے نام کے اوپر نام رکھو۔ مگر میری کنیت اختیار نہ کرو اور جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا تو بلاشبہ اس نے مجھے دیکھا۔ کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا اور جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے وہ دوزخ میں اپنا ٹھکانہ تلاش کرے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ إِثْمِ مَنْ كَذَبَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:: 110]

تشریح:
ان مسلسل احادیث کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوگ غلط بات منسوب کر کے دنیا میں خلق کو گمراہ نہ کریں۔ یہ حدیثیں بجائے خود اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ عام طور پر احادیث نبوی کا ذخیرہ مفسد لوگوں کے دست برد سے محفوظ رہا ہے اور جتنی احادیث لوگوں نے اپنی طرف سے گھڑ لیں تھیں ان کو علماءحدیث نے صحیح احادیث سے الگ چھانٹ دیا۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی واضح فرما دیا کہ خواب میں اگر کوئی شخص میری صورت دیکھے تو وہ بھی صحیح ہونی چاہئیے، کیونکہ خواب میں شیطان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں نہیں آ سکتا۔
موضوع اور صحیح احادیث کو پرکھنے کے لیے اللہ پاک نے جماعت محدثین خصوصاً حضرت امام بخاری و مسلم رحمۃ اللہ علیہما جیسے اکابر امت کو پیدا فرمایا۔ جنہوں نے اس فن کی وہ خدمت کی کہ جس کی امم سابقہ میں نظیر نہیں مل سکتی، علم الرجال و قوانین جرح و تعدیل وہ ایجاد کئے کہ قیامت تک امت مسلمہ ان پر فخر کیا کرے گی، مگر صد افسوس کہ آج چودہویں صدی میں کچھ ایسے بھی متعصب مقلد جامد وجود میں آ گئے ہیں جو خود ان بزرگوں کو غیرفقیہ ناقابل اعتماد ٹھہرا رہے ہیں، ایسے لوگ محض اپنے مزعومہ تقلیدی مذاہب کی حمایت میں ذخیرہ احادیث نبوی کو مشکوک بنا کر اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ ان کو نیک سمجھ دے۔ آمین۔ یہ حقیقت ہے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو غیرفقیہ زود رنج بتلانے والے خود بے سمجھ ہیں جو چھوٹا منہ اور بڑی بات کہہ کر اپنی کم عقلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس مقام کی تفصیل میں جاتے ہوئے صاحب انوارالباری نے جماعت اہل حدیث کو باربار لفظ جماعت غیرمقلدین سے جس طنز و توہین کے ساتھ یاد کیا ہے وہ حد درجہ قابل مذمت ہے مگر تقلید جامد کا اثر ہی یہ ہے کہ ایسے متعصب حضرات نے امت میں بہت سے اکابر کی توہین و تخفیف کی ہے۔ قدیم الایام سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ معاندین نے تو صحابہ کو بھی نہیں چھوڑا۔ حضرت ابوہریرہ، عقبہ بن عامر، انس بن مالک وغیرہ رضی اللہ عنہم کو غیر فقیہ ٹھہرایا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 110   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2841  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا نام اور آپ کی کنیت دونوں ایک ساتھ رکھنا مکروہ ہے۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص آپ کا نام اور آپ کی کنیت دونوں ایک ساتھ جمع کر کے محمد ابوالقاسم نام رکھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2841]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے،
بعض کا کہنا ہے کہ آپﷺ کی زندگی میں یہ چیز ممنوع تھی،
آپﷺ کے بعد آپﷺ کا نام اورآپﷺ کی کنیت رکھنا درست ہے،
بعض کا کہنا ہے کہ دونوں ایک ساتھ رکھنا منع ہے،
جب کہ بعض کہتے ہیں کہ ممانعت کا تعلق صرف کنیت سے ہے،
پہلا قول راجح ہے۔
(دیکھئے اگلی دونوں حدیثیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2841   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4965  
´آدمی اپنی کنیت ابوالقاسم رکھے تو کیسا ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے نام پر نام رکھو لیکن میری کنیت نہ رکھو۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابوصالح نے ابوہریرہ سے اسی طرح روایت کیا ہے، اور اسی طرح ابوسفیان، سالم بن ابی الجعد، سلیمان یشکری اور ابن منکدر وغیرہ کی روایتیں بھی ہیں جو جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں، اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت بھی اسی طرح ہے (یعنی اس میں بھی یہی ہے کہ میرے نام پر نام رکھو اور میری کنیت پر کنیت نہ رکھو)۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4965]
فوائد ومسائل:
رسول اللہ ﷺ کے حین حیات یہ کنیت اختیار کر نا جائز نہیں تھا، مگر آپ کے بعد علماء نے اجازت دے دی ہے کہ آپ ﷺ کا نام اور رکنیت دونوں رکھے جا سکتے ہیں۔
زندگی میں ممانعت کی وجہ یہ واقعہ تھا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ بازار میں تھے کہ ایک شخص نے ابولقاسم کہہ کر آواز دی، آپ نے پیچھت مڑکر دیکھا تو آواز دینے والے نے کہا کہ میں نے آپ کو آواز نہیں دی میں نے تو فلاں شخص کو آواز دی ہے۔
اس واقعے کے بعد آپ نے یہ رکنیت رکھنے سے روک دیا۔
(فتح الباری الاداب حدیث٦١٨٨ مزید تفصیل کے لیے فتح الباری ملاخطہ ہو) جواز کے دلائل اگلےابواب میں آرہے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4965   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.