الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
69. باب زِيَادَةِ طُمَأْنِينَةِ الْقَلْبِ بِتَظَاهُرِ الأَدِلَّةِ:
69. باب: دلائل کے اظہار سے دل کو زیادہ اطمینان حاصل ہوتا ہے۔
Chapter: Increasing the heart's tranquility with the appearance evidence
حدیث نمبر: 382
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني حرملة بن يحيى ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن وسعيد بن المسيب ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " نحن احق بالشك من إبراهيم عليه السلام، إذ قال: رب ارني كيف تحيي الموتى قال اولم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي سورة البقرة آية 260، قال: ويرحم الله لوطا، لقد كان ياوي إلى ركن شديد، ولو لبثت في السجن طول، لبث يوسف لاجبت الداعي.وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلامُ، إِذْ قَالَ: رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي سورة البقرة آية 260، قَالَ: وَيَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا، لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ، وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ طُولَ، لَبْثِ يُوسُفَ لَأَجَبْتُ الدَّاعِيَ.
یونس نے ابن شہاب زہری سے خبر دی، انہوں نے ابو سلمہ بن عبد الرحمن اور سعید بن مسیب سے روایت کی، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم ابراہیم سے زیادہ شک کرنے کا حق رکھتے ہیں، جب انہوں نے کہا تھا: اے میرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تمہیں یقین نہیں؟ کہا: کیوں نہیں! لیکن (میں اس لیے جاننا چاہتا ہوں) تاکہ میرا دل مطمئن ہو جائے۔ آپ نے فرمایا: اور اللہ لوط رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے، (وہ کسی سہارے کی تمنا کر رہے تھے) حالانکہ انہوں نے ایک مضبوط سہارے کی پناہ لی ہوئی تھی۔ اور اگر میں قید خانے میں یوسف رضی اللہ عنہ جتنا طویل عرصہ ٹھہرتا تو (ہوسکتا ہے) بلانے والے کی بات مان لیتا۔ (عملاً آپ نے دوسرے انبیاء سے بڑھ کر ہی صبر و تحمل سے کام لیا۔)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم ابراہیم ؑ سے شک کرنے کے زیادہ مستحق ہیں، جب انھوں نے کہا تھا: اے میرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تجھے یقین نہیں ہے؟ ابراہیم ؑ نے جواب دیا: کیوں نہیں (مجھے یقین ہے) لیکن میں چاہتا ہوں میرا دل (مشاہدہ سے) اور زیادہ مطمئن ہو جائے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ لوط ؑ پر رحم فرمائے! وہ ایک مضبوط ستون کی پناہ چاہتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر قید خانہ میں، میں یوسف علیہ السلام جتنا طویل عرصہ ٹھہرتا تو بلانے والے کے بلاوے پر فوراً عمل کرتا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 151

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في التفسير، باب: ﴿ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ ﴾ برقم (4537) وفي باب: ﴿ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَىٰ رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ..... ﴾ برقم (4694) والمؤلف (مسلم) في الفضائل، باب: من فضائل ابراهيم الخليل عليه السلام برقم (6094) وابن ماجه في ((سننه)) في الفتن، باب: الصبر على البلاء برقم (4026) انظر ((التحفة)) برقم (13325 و 15313)» ‏‏‏‏

   صحيح البخاري4537عبد الرحمن بن صخرنحن أحق بالشك من إبراهيم إذ قال رب أرني كيف تحيي الموتى قال أولم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي
   صحيح البخاري3372عبد الرحمن بن صخرنحن أحق بالشك من إ براهيم إذ قال رب أرني كيف تحيي الموتى قال أولم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي
   صحيح مسلم382عبد الرحمن بن صخرنحن أحق بالشك من إبراهيم إذ قال رب أرني كيف تحيي الموتى قال أولم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي
   صحيح مسلم6142عبد الرحمن بن صخرنحن أحق بالشك من إبراهيم إذ قال رب أرني كيف تحيي الموتى قال أولم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي
   سنن ابن ماجه4026عبد الرحمن بن صخرنحن أحق بالشك من إبراهيم إذ قال رب أرني كيف تحيي الموتى قال أولم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3372  
´ماتحت الاسباب مدد مانگنا اور ایک دوسرے کی مدد کرنا شرک نہیں `
«. . . وَيَرْحَمُ اللَّهُ لُوطًا لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ طُولَ مَا لَبِثَ يُوسُفُ لَأَجَبْتُ الدَّاعِيَ . . .»
۔۔۔ اور اللہ لوط علیہ السلام پر رحم کر کہ وہ زبردست رکن (یعنی اللہ تعالیٰ) کی پناہ لیتے تھے اور اگر میں اتنی مدت تک قید خانے میں رہتا جتنی مدت تک یوسف علیہ السلام رہے تھے تو میں بلانے والے کے بات ضرور مان لیتا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ: 3372]

تخریج الحدیث:
یہ روایت صحیح بخاری میں چھ مقامات پر ہے: [3372، 3375، 3387، 4537، 4694، 6992]
صحیح بخاری کے علاوہ یہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
صحیح مسلم [151 وبعد ح2370]
سنن الترمذی [3116 وقال: هذا حديث حسن]
صحیح ابن حبان [6174 دوسرا نسخه: 6207]
سنن ابن ماجہ [4026]
مشکل الآثار للطحاوی [1؍134۔ 136]
صحیح ابی عوانہ [1؍79، 80]
المستخرج لابی نعیم [1؍215 ح380]
تفسیر طبری [12؍88، 139]
المستدرک للحاکم [2؍561 ح4054 وقال: صحيح على شرط مسلم، ووافقه الذهبي]
النسائی فى الکبریٰ [11254]
الایمان لابن مندۃ [1؍487 ح371، 1؍485 ح368، 369]
الادب المفرد للبخاری [605، 896]
تفسیر بغوی [2؍395، 396]
وشرح السنۃ لہ [1؍114، 115 ح63 وقال البغوي: هذا حديث متفق على صحته]
تاریخ بغداد [7؍182 ت3631]
اسے امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے درج ذیل محدثین نے روایت کیا ہے:
أحمد بن حنبل [2؍322، 326، 332، 346، 350، 8590، 384، 389، 416، 533]
وسنن سعید بن منصور [ح1097 طبعه جديده]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسے بیان کرنے والے درج ذیل ثقہ وجلیل القدر تابعین ہیں:
① ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف [صحيح بخاري: 3372 وصحيح مسلم: 382؍151 وبعد ح2370]
② سعید بن المسیب [صحيح بخاري: 3372 وصحيح مسلم: 151]
③ ابوعبید [صحيح بخاري: 3387 وصحيح مسلم: 151]
④ عبدالرحمٰن بن ہرمز الاعرج [صحيح بخاري: 3375 وصحيح مسلم: 151 بعد ح: 2370]
اس روایت کے شواہد و تائیدی روایات کے لیے دیکھئے:
تاریخ طبری [1؍303 وسنده حسن]
ومصنف ابن ابی شیبہ [11؍523۔ 525 ح31826]
والاوسط للطبرانی [9؍375 ح8808]
والمستدرک للحاکم [2؍563 ح4059]
↰ معلوم ہوا کہ یہ روایت بالکل صحیح ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ کی پیدائش سے پہلے یہ حدیث دنیا میں صحیح سند سے موجود تھی۔ «والحمدلله»
اس کی تائید قرآن کریم میں ہے کہ لوط علیہ السلام نے فرمایا:
«لَوْ أَنَّ لِيْ بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِيْ إِلَىٰ رُكْنٍ شَدِيدٍ»
کاش میرے پاس تم سے مقابلہ کی قوت ہوتی یا میں کسی طاقتور سہارے کی پناہ لے سکتا۔ [سورة هود: 80، تدبر قرآن 4؍133، 134]
تنبیہ بلیغ: تدبر قرآن کا مصنف امین احسن اصلاحی منکرین حدیث میں سے تھا لہٰذا اس کا ترجمہ ان منکرین حدیث پر حجت قاطعہ ہے۔
پرویز نے «ركن» کا ترجمہ سہارا کیا ہے۔ [ديكهئے لغات القرآن 780/2]
مشہور تابعی اور مفسر قرآن امام قتادہ رحمہ اللہ نے «ركن شديد» کی تشریح «العشيرة» خاندان سے کی ہے۔ [تفسير طبري 21؍52، 53 وسنده صحيح]
مضبوط قبیلے والوں کی حمایت و مدد مانگنا شرک نہیں ہے بلکہ یہ استمداد ماتحت الاسباب ہے۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ «مَنْ أَنصَارِيْ إِلَى اللَّهِ» کون میرا مددگار ہے اللہ کی راہ میں؟ [سورة الصّف: 14]
ماتحت الاسباب مدد مانگنا اور ایک دوسرے کی مدد کرنا شرک نہیں ہوتا۔ شرک تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات خاصہ میں کسی کو شریک کیا جائے یا اموات سے مافوق الاسباب مدد مانگی جائے لہٰذا منکرین حدیث کی طرف سے سیدنا لوط علیہ السلام پر شرک کا الزام باطل ومردود ہے۔ «والحمدلله»
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث\صفحہ نمبر: 15   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4026  
´آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم ابراہیم علیہ السلام سے زیادہ شک کرنے کے حقدار ہیں ۱؎ جب انہوں نے کہا: اے میرے رب تو مجھ کو دکھا کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ تو اللہ نے فرمایا: کیا تجھے یقین نہیں ہے؟ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں (لیکن یہ سوال اس لیے ہے) کہ میرے دل کو اطمینان حاصل ہو جائے، اور اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام پر رحم کرے، وہ زور آور شخص کی پناہ ڈھونڈھتے تھے، اگر میں اتنے دنوں تک قید میں رہا ہوتا جتنے عرصہ یوسف علیہ السلام رہے، تو جس وقت بلانے والا آیا تھا میں اسی وقت اس کے ساتھ ہو ل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4026]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
انبیاء کرام علیہم السلام کا ایمان سب سے کامل ہوتا ہے۔
بعض اوقات اللہ تعالی انھیں ایسی چیزوں کا مشاہدہ کرادیتا ہے جو دوسروں کے لیے غیب کی حیثیت رکھتی ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہم السلام نے مردوں کے زندہ ہونے کا مشاہدہ کرنا چاہا تو یہ شک کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس لیے کہ علم الیقین سے عین الیقین کے درجے تک ترقی کریں۔

(2)
ہم زیادہ شک کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مومن اس میں شک نہیں کرتے تو حضرت ابراہیم علیہم السلام کی عظمت کا اظہار ہے کہ انھیں اللہ تعالی نے موت کے بعد کی زندگی کا مشاہدہ کرادیا ہے۔

(3)
حضرت لوط علیہ السلام نے قوم سے کہا تھا کہ اگر میرا کوئی مضبوط دنیوی سہارا ہوتا تو تم مجھ سے حیا سوز مطالبہ نہ کرتے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت لوط علیہم السلام کو اللہ تعالی پر اعتماد نہیں تھا بلکہ یہ قوم کی اخلاقی پستی کا اظہار ہے کہ اگر میرا مضبوط دنیوی سہارا موجود ہوتا تو تم ان افراد کے ڈر سے اس بد تمیزی کی جرأت نہ کرتے لیکن تم اللہ سے نہیں ڈرتے۔
میرا اعتماد اللہ تعالی پر ہے جو تمہیں انسانوں کی نسبت کہیں زیادہ سزا دے سکتا ہے۔

(4)
حضرت یوسف علیہم السلام کو اس لیے جیل جانا پڑا تھا کہ وہ ایک جرم کے ارتکاب سے انکار کررہے تھے جس کا ان سے مطالبہ کیا جارہا تھا۔
جب حکمرانوں پر ان کا خلوص سچائی اور ان کے کردار کی عظمت واضح ہوگئی اور انھیں ضرورت محسوس ہوئی کہ آنجناب کی صلاحیتوں سے استفادہ کریں تو قاصد رہائی کا حکم نامہ لے کر جیل آیا، اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام کی عظمت کردار کا ایک اور پہلو سامنے آیا کہ انھوں نے اس وقت تک جیل سے باہر آنے سے انکار کردیا جب تک انکی بے گناہی باقاعدہ ثابت نہ ہوجائے۔
اور مجرم (عزیز مصر کی بیوی)
کا جرم ثابت نہ ہوجائے۔

(5)
رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ کیفیت میرے ساتھ پیش آتی تو میں اس وقت جیل سے باہر آجاتا اور اللہ کی رحمت سے امید رکھتا کہ وہ کسی اور انداز میں میری برات کا اظہار فرمادے گا۔
اس ارشاد کا مقصد حضرت یوسف علیہ السلام کی استقامت اور ان کے صبر کی تعریف ہے۔

(6)
خاتم النبین ﷺ کا مقام تمام انبیاء کرام سے بلند و برتر ہے لیکن دوسرے انبیاء علیہم السلام کے کردار کے روشن پہلو بھی لائق تحسین ہیں۔
ان کی اہمیت وعظمت بھی نظر سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے۔

(7)
دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف بھی عظمت کردار کا ایک پہلو ہے۔
علمائے کرام کو چاہیے کہ ایک دوسرے کی خوبیوں کو دل سے تسلیم کریں۔
ان خوبیوں کی وجہ سے ایک دوسرے کی عزت کریں اور ان سے محبت رکھیں۔
جس طرح ان کی غلطیوں پر تنقید کرتے ہیں ان اچھے کاموں کی تعریف اور ان میں تعاون بھی کریں۔
خواہ متعلقہ فرد کا تعلق ان کی پارٹی، تنظیم جماعت اور مسلک سے نہ ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4026   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 382  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سوال کیا تھا ﴿كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ﴾ تو مردوں کو کیسے زندہ فرمائے گا؟ یعنی مردوں کو زندہ کرنا طے ہے،
اور ان کے زندہ کرنے میں کوئی شبہ نہیں ہے،
اس لیے جب اللہ تعالیٰ نے پوچھا:
﴿أَوَلَمْ تُؤْمِن﴾ کیا تجھے مردوں کے زندہ کرنے پر یقین نہیں؟ تو ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا:
کیوں نہیں یقین ہے۔
سوال یہ تھا:
کہ ان کے زندہ کرنے کی صورت اور کیفیت کیا ہے؟ اس کا مشاہدہ مطلوب ہے،
دلیل اور استدلال سے انسان کو علم حاصل ہو جاتا ہے،
اور وہ یقینی علمی واستدلالی ہوتا ہے۔
لیکن اگر کسی چیز کا مشاہدہ اور معائنہ ہو جائے تو یہ یقینی عینی ہوتا ہے،
جس میں قوت ویقین زیادہ ہوتا ہے،
اس لیے قلبی اطمینان وتسکین بھی بڑھ جاتا ہے۔
جب موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ تیری قوم بچھڑے کی پوجا کرنے لگی ہے،
تو ان پر وہ اثر نہیں ہوا جو قوم کو اس شنیع حرکت میں مبتلا دیکھ کر ہوا۔
حدیث میں ہے(لَيْسَ الْخَبَرُ كَالْمُعَايَنَةِ)
خبر واطلاع،
معائنہ ومشاہدہ کا مقابلہ نہیں کرتی۔
اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
ابراہیم علیہ السلام کا سوال کسی شک وشبہ کی بنا پر نہ تھا،
اگر ابراہیم کو اس میں شک ہوتا تو یقینا ہمیں بھی شک ہوتا،
جب ہمیں شک نہیں ہے تو ابراہیم علیہ السلام کو شک کیسے ہو سکتا ہے۔
امام زرکشی نے امثال السائرہ کے مصنف کے حوالہ سے نقل کیا ہے:
افعل کا صیغہ کبھی کبھی دونوں چیزوں سے کسی معنی (صفت)
کی نفی کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے،
جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ﴾ کیا وہ بہتر ہیں یا قوم تبع۔
مقصد یہ ہے کہ دونوں ہی بھلائی سے محروم اور خالی ہیں۔
یا کہتے ہیں:
(الشیطان خیر من فلان)
فلاں سے شیطان اچھا ہے مقصد یہ ہے دونوں خیر سے خالی ہیں۔
(ارشاد الساری: 5/368)
اس استعمال کے مطابق "نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ" کا معنی ہے ہم میں سے کسی کو شک نہیں ہے۔
نہ ابراہیم علیہ السلام نے شک کیا،
نہ ہمیں شک ہے۔
اس لیے سوال بھی زندہ کرنے کی کیفیت کے بارے میں تھا۔
(فتح الباری:
ج6،
کتاب الانبیاء)

زندہ کرنے کے بارے میں نہ تھا،
کیونکہ زندہ کرنا تو معلوم تھا کیفیت کا پتہ نہیں تھا۔
(2)
يَرْحَمُ اللهُ لُوطًا:
حضرت لوط علیہ السلام کے پاس جب فرشتے،
خوبرو جوانوں کی شکل میں مہمان بن کر آئے،
اور ان کی قوم اپنی عادت بد کے مطابق ان پر دست درازی کرنے کے لیے ان کے گھر پہنچ گئی،
اور لوط علیہ السلام نے مہمانوں کی عزت کی حفاظت کی خاطر ہر قسم کے جتن کرلیے،
لیکن قوم والے باز نہ آئے،
تو انہوں نےمہمانوں کے سامنے اپنی بے بسی کا اظہار کرنے کےلیے،
انتہائی پریشانی کے عالم میں فرمایا:
اے کاش! آج مجھ میں ذاتی وشخصی طور پر اس قدر طاقت وقوت ہوتی کہ میں کسی کے تعاون کے بغیر اپنے طور پر مہمانوں کا دفاع کر سکتا،
یا مجھے اپنے خاندان اور قوم کی نصرت وحمایت حاصل ہوتی،
تو آج میرے مہمانوں کا دفاع کرکے میری عزت بچاتی۔
کیونکہ یہ لوگ آپ کا اصل خاندان نہیں تھے،
دوسرے لوگوں کی طرف آپ کو نبی بنا کر بھیجا گیا تھا،
اس کی وضاحت وتبیین کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام پر رحمت فرمائے! وہ ایک مضبوط پناہ چاہتے تھے۔
یعنی:
یہاں فعل،
ارادہ فعل کے معنی میں ہے،
جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
﴿إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ﴾ جب تم نماز کےلیے اٹھنے کا ارادہ کرو تو نماز سے پہلے وضو کر لو۔
یا فرمایا:
﴿فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ﴾ جب قرآن پڑھنے کا ارادہ کر و تو پہلے "اعوذ باللہ" پڑھ لو۔
یہاں اللہ تعالیٰ کی اعانت ونصرت کی نفی مقصود نہیں ہے کہ ان کو اللہ کی پناہ حاصل نہ تھی،
اور انہوں نے اس پر نعوذ باللہ اعتماد نہ کیا۔
یہ دنیا عالم اسباب ہے،
اور ہر کام ظاہری اسباب کے پردہ میں ہوتا ہے،
ظاہری اسباب ووسائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،
وگرنہ رسول اکرم ﷺ کو جنگوں میں زرع پہننے کی ضرورت لاحق نہ ہوتی،
اور دشمن کے مقابلہ میں تیاری کرکے نکلنے کی بھی حاجت نہ ہوتی۔
اور مدینہ میں پہنچ کر خود آپ نے فرمایا تھا «لَيْتَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِي صَالِحًا يَحْرُسُنِي اللَّيْلَةَ» اے کاش! میرے صحابہ میں سے کوئی مضبوط آدمی آج رات میری حفاظت کرتا۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا تھا:
"مَنْ یَکْلَوْنَا اللَّیْلَةَ" (لامع الداری:
ج8/27 حاشیۃ: 9)

آج رات لشکر کی حفاظت کون کرے گا؟ تو کیا آپ کو نعوذ باللہ،
اللہ کی نصرت وحمایت اور حفاظت پر اعتماد نہ تھا؟ چونکہ لوط علیہ السلام کے سامنے اللہ کی نصرت وحمایت تو ایک مسلمہ حقیقت تھی،
اس لیے اس کے اظہار کی ضرورت نہ تھی۔
ظاہری اسباب کے تذکرہ کی ضرورت تھی،
انھی اساب کا انہوں نے تذکرہ فرمایا،
اور ان کے حصول کی خواہش وآرزو کی۔
(3)
لَأَجَبْتُ الدَّاعِيَ:
میں بلانے والے کی آواز پر لبیک کہتا۔
یہ کہہ کر آپ ﷺ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے صبر وثبات اور ان کی ہمت وحوصلہ کی تعریف فرمائی ہے،
کہ انہوں نے بغیر کسی جرم کے ایک طویل عرصہ جیل میں گزارا،
لیکن اپنی برأت کے اظہار تک،
جیل سے نکلنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
میں اس قدر صبر وتحمل اور استقلال وپامردی کا مجسمہ ہونے کے باوجود،
بادشاہ کے ایلچی کی بات سن کر باہر نکل آتا۔
اور اپنی برأت کے اظہار کا معاملہ پیش نہ کرتا۔
اور یہ بات ظاہر ہے نبی اکرم ﷺ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے صبر وثبات کی تعریف کی خاطر کہی ہے۔
ایک شجاع اوردلیر آدمی کسی کی شجاعت وبسالت کی تعریف کرے تو اس سے اس کی اپنی شجاعت اوردلیری کی نفی نہیں ہوتی،
وہ تو مخاطبین کے نزدیک مسلم ہے،
رستم زماں کسی کی تعریف کرے،
تو کیا اس سے اس کے مقام ومرتبہ میں کسی قسم کی کمی آجائے گی؟ ہرگز نہیں۔
بعض حضرات نے جو یہ کہا ہے کہ یوسف علیہ السلام کے لیے چلے جانا ہی اولیٰ اورارجح تھا،
ٰ کیونکہ ابتلاء اور مصیبت کو دعوت دینا یا اس کو قائم رکھنا مناسب نہیں،
باہر نکل کر ان کو تبلیغ کے زیادہ مواقع میسر آتے۔
تو یہ بات درست نہیں ہے،
یوسف علیہ السلام نے ابتلاء کو دعوت نہیں دی،
نہ اس کو قائم رکھنا چاہا۔
ان کا باہر آنا تو اب طے تھا،
لیکن وہ اپنی عصمت وعزت کی طہارت وصفائی کے بغیر نہیں آنا چاہتے تھے،
کیونکہ الزام تراشی اورتہمت کے ازالہ کے بغیر اگر وہ نکل آتے تو یہ چیز ان کی دعوت وتبلیغ کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بنتی۔
اور پاکدامنی کے ظہور کے بغیر بادشاہ کے سامنے چلے جاتے تو انہیں الزام تراشی کا احساس کھل کر بات کرنے کی جرأت پیدا نہ ہونے دیتا،
اور طہارت کے نتیجہ میں بادشاہ کی نظر میں جو مقامِ رفیع ملا وہ بھی نہ ملتا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 382   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.