الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کے احکام و مسائل
The Book of Agriculture
2. بَابُ : ذِكْرِ الأَحَادِيثِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي النَّهْىِ عَنْ كِرَاءِ الأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَاخْتِلاَفِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ
2. باب: زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔
Chapter: Mentioning The Differing Hadiths Regarding The Prohibition Of Leasing Out Land In Return For One Third, Or One Quarter Of The Harvest And The Different Wordings Reported By The Narrators
حدیث نمبر: 3897
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرني إسحاق بن يعقوب بن إسحاق البغدادي ابو محمد، قال: حدثنا عفان، قال: حدثنا عبد الواحد، قال: حدثنا سعيد بن عبد الرحمن، عن مجاهد، قال: حدثني اسيد بن رافع بن خديج، قال: قال رافع بن خديج: نهاكم رسول الله صلى الله عليه وسلم عن امر كان لنا نافعا , وطاعة رسول الله صلى الله عليه وسلم انفع لنا، قال:" من كانت له ارض فليزرعها، فإن عجز عنها فليزرعها اخاه". خالفه عبد الكريم بن مالك.
(مرفوع) أَخْبَرَنِي إِسْحَاقُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاق الْبَغْدَادِيُّ أَبُو مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أُسَيْدُ بْنُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: قَالَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ: نَهَاكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا , وَطَاعَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْفَعُ لَنَا، قَالَ:" مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا، فَإِنْ عَجَزَ عَنْهَا فَلْيُزْرِعْهَا أَخَاهُ". خَالَفَهُ عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ مَالِكٍ.
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک ایسی بات سے روک دیا جو ہمارے لیے مفید اور نفع بخش تھی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہمارے لیے اس سے زیادہ مفید اور نفع بخش ہے۔ آپ نے فرمایا: جس کے پاس زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرے اور اگر وہ اس سے عاجز ہو تو اپنے (کسی مسلمان) بھائی کو کھیتی کے لیے دیدے۔ اس میں عبدالکریم بن مالک نے ان (سعید بن عبدالرحمٰن) کی مخالفت کی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3894 (صحیح) (متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ”اسید بن رافع“ لین الحدیث ہیں)»

وضاحت:
۱؎: عبدالکریم بن مالک کی روایت آگے آ رہی ہے، اور مخالفت ظاہر ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   صحيح البخاري2339رافع بن خديجما تصنعون بمحاقلكم قلت نؤاجرها على الربع وعلى الأوسق من التمر والشعير لا تفعلوا ازرعوها أو أزرعوها أو أمسكوها
   صحيح مسلم3949رافع بن خديجلا تفعلوا ازرعوها أو أزرعوها أو أمسكوها
   جامع الترمذي1384رافع بن خديجإذا كانت لأحدكم أرض فليمنحها أخاه أو ليزرعها
   سنن أبي داود3395رافع بن خديجمن كانت له أرض فليزرعها أو فليزرعها أخاه لا يكاريها بثلث ولا بربع ولا بطعام مسمى
   سنن أبي داود3397رافع بن خديجيزرع أحدنا إلا أرضا يملك رقبتها منيحة يمنحها رجل
   سنن النسائى الصغرى3902رافع بن خديجمن كان له أرض فليزرعها أو يمنحها أو يذرها
   سنن النسائى الصغرى3903رافع بن خديجمن كان له أرض فليزرعها أو ليذرها أو ليمنحها
   سنن النسائى الصغرى3955رافع بن خديجلا تفعلوا ازرعوها أو أزرعوها أو امسكوها
   سنن النسائى الصغرى3954رافع بن خديجلا تفعلوا ازرعوها أو أعيروها أو امسكوها
   سنن النسائى الصغرى3928رافع بن خديجمن كانت له أرض فليزرعها أو ليزرعها أخاه لا يكاريها بثلث ولا ربع ولا طعام مسمى
   سنن النسائى الصغرى3897رافع بن خديجمن كانت له أرض فليزرعها فإن عجز عنها فليزرعها أخاه
   سنن النسائى الصغرى3900رافع بن خديجلو منحها أخاه
   سنن ابن ماجه2459رافع بن خديجما تصنعون بمحاقلكم قلنا نؤاجرها على الثلث والربع والأوسق من البر والشعير لا تفعلوا ازرعوها أو أزرعوها
   سنن ابن ماجه2465رافع بن خديجمن كانت له أرض فلا يكريها بطعام مسمى

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3897  
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں ایک ایسی بات سے روک دیا جو ہمارے لیے مفید اور نفع بخش تھی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہمارے لیے اس سے زیادہ مفید اور نفع بخش ہے۔ آپ نے فرمایا: جس کے پاس زمین ہو تو وہ اس میں کھیتی کرے اور اگر وہ اس سے عاجز ہو تو اپنے (کسی مسلمان) بھائی کو کھیتی کے لیے دیدے۔‏‏‏‏ اس میں عبدالکریم ب [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3897]
اردو حاشہ:
(1) ظاہری طور پر تو دونوں حدیثوں کی سندوں میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا کیونکہ اس روایت میں بھی ابن رافع‘ رافع بن خدیج سے بیان کررہے اور آئندہ حدیث میں بھی۔ تحفۃ الاشراف میں اس حدیث کی سند اس طرح ہے: اسید بن (اخي) رافع بن خدیج‘ قال رافع بن خدیج یعنی درمیان میں ’أخي‘ کے لفظ کا اضافہ ہے۔ اور یہی بات صحیح ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا تبصرہ: خالفه عبدالکریم بن مالك بھی اسی صورت میں صحیح بنتا ہے‘ ورنہ مخالفت نظر نہیں آتی۔ اس صورت میں گویا سعید بن عبدالرحمن بواسطہ مجاہد‘ رافع بن خدیج کے بھتیجے اسید سے بیان کرتے ہیں اور وہ رافع بن خدیج سے۔ جبکہ عبدالکریم بن مالک‘ رافع بن خدیج کے بھتیجے سے نہیں بلکہ بیٹے سے بیان کرتے ہیں اور وہ اپنے باپ رافع سے۔ بہر حال صحیح بات یہ ہے کہ رافع بن خدیج سے ان کا بیٹا ہی بیان کرتا ہے بھتیجا نہیں کیونکہ عبدالکریم بن مالک زیادہ ثقہ اور اثبت ہیں۔ واللہ أعلم۔
(2) دے دے یعنی اگر اس کے پاس فالتو ہے ورنہ اگر وہ خود غریب ہے اور کسی عذر کی بنا پر کاشت نہیں کرسکتا (مثلاً وہ بیمار ہے یا بیوہ یا یتیم ہے وغیرہ) تو بلاریب بٹائی پر کاشت کے لیے دے سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3897   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2465  
´غلہ کے بدلے زمین کرایہ پر دینے کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں محاقلہ کیا کرتے تھے، پھر ان کا خیال ہے کہ ان کے چچاؤں میں سے کوئی آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جس کے پاس زمین ہو وہ اس کو متعین غلے کے بدلے کرائے پر نہ دے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2465]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
یہ اس وقت کی بات ہے جب تہائی چوتھائی یا غلے کی مقرر مقدار کےعوض زمین کرائے پردینے کی صرف ایک ہی صورت مروج تھی جس میں پانی کی نالیوں کےکنارے اورآبی گزر گاہوں وغیرہ کےقریب واقع زمین کےٹکڑے کی پیداوار مالک کےلیے مختص تھی۔
حدیث میں مذکور اسی صورت کوممنوع قرار دیا گیا ہے۔
واللہ اعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2465   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1384  
´مزارعت ہی سے متعلق ایک اور باب۔`
رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسے کام سے منع فرما دیا جو ہمارے لیے مفید تھا، وہ یہ کہ جب ہم میں سے کسی کے پاس زمین ہوتی تو وہ اس کو (زراعت کے لیے) کچھ پیداوار یا روپیوں کے عوض دے دیتا۔ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کے پاس زمین ہو تو وہ اپنے بھائی کو (مفت) دیدے۔ یا خود زراعت کرے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1384]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
دیکھئے پچھلی حدیث اور اس کا حاشہ۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1384   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3395  
´بٹائی کی ممانعت کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (بٹائی پر) کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے تو (ایک بار) میرے ایک چچا آئے اور کہنے لگے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام سے منع فرما دیا ہے جس میں ہمارا فائدہ تھا، لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہمارے لیے مناسب اور زیادہ نفع بخش ہے، ہم نے کہا: وہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جس کے پاس زمین ہو تو چاہیئے کہ وہ خود کاشت کرے، یا (اگر خود کاشت نہ کر سکتا ہو تو) اپنے کسی بھائی کو کاشت کروا دے اور اسے تہائی یا چوتھائی یا کسی معی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3395]
فوائد ومسائل:
تہائی چوتھائی یا متعین غلے پر کرائے کی ایک ہی صورت مروج تھی۔
جس میں آبی گزرگاہوں نالیوں وغیرہ کی پیداوار مالک کےلئے مختص تھی، اس صورت کو ممنوع قرار دیا گیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3395   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.