الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کے احکام و مسائل
The Book of Agriculture
2. بَابُ : ذِكْرِ الأَحَادِيثِ الْمُخْتَلِفَةِ فِي النَّهْىِ عَنْ كِرَاءِ الأَرْضِ بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ وَاخْتِلاَفِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ
2. باب: زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔
Chapter: Mentioning The Differing Hadiths Regarding The Prohibition Of Leasing Out Land In Return For One Third, Or One Quarter Of The Harvest And The Different Wordings Reported By The Narrators
حدیث نمبر: 3904
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرني محمد بن عبد الله بن المبارك، قال: حدثنا زكريا بن عدي، قال: حدثنا حماد بن زيد، عن عمرو بن دينار، قال: كان طاوس يكره ان يؤاجر ارضه بالذهب , والفضة , ولا يرى بالثلث والربع باسا، فقال له مجاهد: اذهب إلى ابن رافع بن خديج , فاسمع منه حديثه، فقال: إني والله لو اعلم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عنه ما فعلته , ولكن حدثني من هو اعلم منه ابن عباس , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم إنما قال:" لان يمنح احدكم اخاه ارضه خير من ان ياخذ عليها خراجا معلوما". وقد اختلف على عطاء في هذا الحديث، فقال عبد الملك بن ميسرة: عن عطاء، عن رافع، وقد تقدم ذكرنا له، وقال عبد الملك بن ابي سليمان: عن عطاء، عن جابر.
(مرفوع) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: كَانَ طَاوُسٌ يَكْرَهُ أَنْ يُؤَاجِرَ أَرْضَهُ بِالذَّهَبِ , وَالْفِضَّةِ , وَلَا يَرَى بِالثُّلُثِ وَالرُّبُعِ بَأْسًا، فَقَالَ لَهُ مُجَاهِدٌ: اذْهَبْ إِلَى ابْنِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ , فَاسْمَعْ مِنْهُ حَدِيثَهُ، فَقَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ لَوْ أَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهُ مَا فَعَلْتُهُ , وَلَكِنْ حَدَّثَنِي مَنْ هُوَ أَعْلَمُ مِنْهُ ابْنُ عَبَّاسٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا قَالَ:" لَأَنْ يَمْنَحَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ أَرْضَهُ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَأْخُذَ عَلَيْهَا خَرَاجًا مَعْلُومًا". وَقَدِ اخْتُلِفَ عَلَى عَطَاءٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ: عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ رَافِعٍ، وَقَدْ تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهُ، وَقَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ: عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ.
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ طاؤس اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ آدمی اپنی زمین سونے، چاندی کے بدلے کرائے پر اٹھائے۔ البتہ (پیداوار کی) تہائی یا چوتھائی کے بدلے بٹائی پر دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ تو ان سے مجاہد نے کہا: رافع بن خدیج کے لڑکے (اسید) کے پاس جاؤ اور ان سے ان کی حدیث سنو، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا ہے تو میں ایسا نہ کرتا لیکن مجھ سے ایک ایسے شخص نے بیان کیا جو ان سے بڑا عالم ہے یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بس اتنا فرمایا تھا: تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو اپنی زمین دیدے یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اس پر ایک متعین محصول (لگان) وصول کرے۔ اس حدیث میں عطاء کے سلسلہ میں اختلاف واقع ہے، عبدالملک بن میسرہ کہتے ہیں: «عن عطاء، عن رافع» (عطا سے روایت ہے وہ رافع سے روایت کرتے ہیں) (جیسا کہ حدیث رقم ۳۹۰۳ میں ہے) اور یہ بات اوپر کی روایت میں گزر چکی ہے اور عبدالملک بن ابی سلیمان ( «عن رافع» کے بجائے) «عن عطاء عن جابر» کہتے ہیں (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحرث 10 (2330)، 18 (2342)، الہبة 35 (2634)، صحیح مسلم/البیوع 21(1550)، سنن ابی داود/البیوع 31 (3389)، سنن الترمذی/الأحکام 42 (1385)، سنن ابن ماجہ/الرہون 9 (2456)، 11(2464)، (تحفة الأشراف: 5735) مسند احمد (1/234، 281، 349) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري2342عبد الله بن عباسيمنح أحدكم أخاه خير له من أن يأخذ شيئا معلوما
   صحيح البخاري2634عبد الله بن عباسلو منحها إياه كان خيرا له من أن يأخذ عليها أجرا معلوما
   صحيح البخاري2330عبد الله بن عباسيمنح أحدكم أخاه خير له من أن يأخذ عليه خرجا معلوما
   صحيح مسلم3961عبد الله بن عباسمن كانت له أرض فإنه أن يمنحها أخاه خير
   صحيح مسلم3960عبد الله بن عباسيمنح أحدكم أخاه أرضه خير له من أن يأخذ عليها كذا وكذا لشيء معلوم
   صحيح مسلم3958عبد الله بن عباسيمنح أحدكم أخاه خير له من أن يأخذ عليها خرجا معلوما
   صحيح مسلم3957عبد الله بن عباسيمنح الرجل أخاه أرضه خير له من أن يأخذ عليها خرجا معلوما
   سنن النسائى الصغرى3904عبد الله بن عباسيمنح أحدكم أخاه أرضه خير من أن يأخذ عليها خراجا معلوما
   سنن ابن ماجه2456عبد الله بن عباسألا منحها أحدكم أخاه لم ينه عن كرائها
   سنن ابن ماجه2464عبد الله بن عباسيمنح أحدكم أخاه الأرض خير له من أن يأخذ خراجا معلوما
   سنن ابن ماجه2462عبد الله بن عباسيمنح أحدكم أخاه خير له من أن يأخذ عليها أجرا معلوما
   سنن ابن ماجه2457عبد الله بن عباسيمنح أحدكم أخاه أرضه خير له من أن يأخذ عليها كذا وكذا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3904  
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ طاؤس اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ آدمی اپنی زمین سونے، چاندی کے بدلے کرائے پر اٹھائے۔ البتہ (پیداوار کی) تہائی یا چوتھائی کے بدلے بٹائی پر دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ تو ان سے مجاہد نے کہا: رافع بن خدیج کے لڑکے (اسید) کے پاس جاؤ اور ان سے ان کی حدیث سنو، انہوں نے کہا: اللہ کی قسم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3904]
اردو حاشہ:
(1) حضرت طاوس مقررہ رقم کے ٹھیکے کو شاید‘ اس کے لیے ناپسند فرماتے ہوں گے کہ اس میں مزارع کے نقصان کا احتمال ہے۔ مالک زمین نے تو مقررہ وصول کرلی۔ زمین میں اتنی فصل ہو یا نہ ہو۔ البتہ بٹائی میں ایک فریق کے نقصان کا خطرہ نہیں۔ نقصان ہوگا تو دونوں کا‘ نفع ہوگا تو دونوں کا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ مزارع کے لیے بٹائی ٹھیکے سے بہتر ہے‘ البتہ ٹھیکہ بھی مجبوری کی بنا پر جائز ہے۔ ٹھیکہ دراصل زمین کا کرایہ ہے۔ جب دوسری چیزوں کا کرایہ جائز ہے تو زمین کا کرایہ بھی جائز ہے‘ نیز بٹائی میں تنازع کا امکان ہے۔ ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی بھی ہوسکتی ہے‘ جبکہ ٹھیکہ کی صورت میں تنازع اور بدگمانی کا خطرہ نہیں رہتا۔
(2) مقررہ پیداوار یعنی نصف یا تہائی یا چوتھائی وغیرہ‘ نہ کہ وزن کے لحاظ سے معین کیونکہ یہ تو قطعاً جائز نہیں۔
(3) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے خیال کے مطابق یہ آپ نے بطور ہمدردی نصیحت فرمائی ہے نہ کہ شرعی قانون بیان فرمایا ہے۔ اور یہ صحیح بات ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3904   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2462  
´تہائی یا چوتھائی پیداوار پر بٹائی کی رخصت کا بیان۔`
عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے طاؤس سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! کاش آپ اس بٹائی کو چھوڑ دیتے، اس لیے کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، تو وہ بولے: عمرو! میں ان کی مدد کرتا ہوں، اور ان کو (زمین بٹائی پر) دیتا ہوں، اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے ہماری موجودگی میں لوگوں سے ایسا معاملہ کیا ہے، اور ان کے سب سے بڑے عالم یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں کیا، بلکہ یوں فرمایا: اگر تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو یوں ہی بغیر کرایہ کے دی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2462]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
عالم سے مسئلہ پوچھنے میں احترام پوری طرح ملحوظ رکھنا چاہیے۔

(2)
عالم کو چاہیے کہ مسئلہ پوچھنے والے کو وضاحت سے مسئلہ سمجھا کر مطمئن کرے۔
اپنے موقف کی تائید میں اپنے سے بڑے عالم کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جس طرح تابعی حضرت طاوس رحمت اللہ علیہ نے دو صحابیوں حضرت معاذ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا حوالہ دیا اس سے عام سائل کو زیادہ اطمینان ہو جاتا ہے۔

(3)
مقرر معاوضہ سے مراد متعین رقم کا معاہدہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2462   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.