الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: فضائل و مناقب
Chapters on Virtues
68. باب فِي فَضْلِ الْمَدِينَةِ
68. باب: مدینہ کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 3918
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الاعلى، حدثنا المعتمر بن سليمان، قال: سمعت عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، ان مولاة له اتته، فقالت: اشتد علي الزمان وإني اريد ان اخرج إلى العراق، قال: فهلا إلى الشام ارض المنشر، اصبري لكاع، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من صبر على شدتها ولاوائها كنت له شهيدا او شفيعا يوم القيامة "، قال: وفي الباب عن ابي سعيد، وسفيان بن ابي زهير، وسبيعة الاسلمية. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من حديث عبيد الله.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَال: سَمِعْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ مَوْلَاةً لَهُ أَتَتْهُ، فَقَالَتْ: اشْتَدَّ عَلَيَّ الزَّمَانُ وَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَخْرُجَ إِلَى الْعِرَاقِ، قَالَ: فَهَلَّا إِلَى الشَّأْمِ أَرْضِ الْمَنْشَرِ، اصْبِرِي لَكَاعِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ صَبَرَ عَلَى شِدَّتِهَا وَلَأْوَائِهَا كُنْتُ لَهُ شَهِيدًا أَوْ شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَسُفْيَانَ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ، وَسُبَيْعَةَ الْأَسْلَمِيَّةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللَّهِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کی ایک آزاد کردہ لونڈی ان کے پاس آئی اور ان سے کہنے لگی میں گردش زمانہ کی شکار ہوں اور عراق جانا چاہتی ہوں، تو انہوں نے کہا: تو شام کیوں نہیں چلی جاتی جو حشر و نشر کی سر زمین ہے، (آپ نے کہا) «اصبري لكاع» ! کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے اس کی (مدینہ کی) سختی اور تنگی معیشت پر صبر کیا تو میں قیامت کے دن اس کے لیے گواہ یا سفارشی ہوں گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث عبیداللہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں ابو سعید خدری، سفیان بن ابی زہیر اور سبیعہ اسلمیہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8122) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ بھی مدینہ کی ایک فضیلت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج فقه السيرة (184)

   صحيح مسلم3346عبد الله بن عمرمن صبر على لأوائها وشدتها كنت له شهيدا أو شفيعا يوم القيامة
   صحيح مسلم3345عبد الله بن عمرلا يصبر على لأوائها وشدتها أحد إلا كنت له شهيدا أو شفيعا يوم القيامة
   صحيح مسلم3344عبد الله بن عمرمن صبر على لأوائها كنت له شفيعا أو شهيدا يوم القيامة
   جامع الترمذي3918عبد الله بن عمرمن صبر على شدتها ولأوائها كنت له شهيدا أو شفيعا يوم القيامة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم648عبد الله بن عمرا يصبر على لاوائها وشدتها احد إلا كنت له شهيدا او شفيعا يوم القيامة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 648  
´مدینے کی مصیبتوں پر صبر کرنے کی فضیلت`
«. . . 406- مالك عن قطن بن وهب عن عويمر بن الأجدع أن يحنس مولى الزبير أخبره أنه كان جالسا عند عبد الله بن عمر فى الفتنة، فأتته مولاة له تسلم عليه، فقالت: إني أردت الخروج يا أبا عبد الرحمن، اشتد علينا الزمان، فقال لها عبد الله بن عمر: اقعدي لكاع، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا يصبر على لأوائها وشدتها أحد إلا كنت له شهيدا أو شفيعا يوم القيامة. . . .»
. . . سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے غلام یحنس رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ وہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس فتنے (مسلمانوں کی باہمی جنگ) کے دور میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کی ایک لونڈی سلام کرنے کے لئے آئی تو کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! میں (مدینے سے) نکل جانا چاہتی ہوں، ہم پر زمانہ بہت سخت ہے۔ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے کہا: اری بیوقوف بیٹھ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مدینے کی مصیبتوں اور سختیوں پر جو بھی صبر کرے گا تو میں قیامت کے دن اس پر گواہ یا اس کا سفارشی ہوں گا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 648]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 1377/482، من حديث مالك به . من كتب الرجال وجاء فى الأصل: قطن بن واحد وهو خطأ . من رواية يحي بن يحي، وجاء فى الأصل: عن وهو خطأ]

تفقه:
➊ مدینہ طیبہ میں رہائش اور یہاں رہتے ہوئے مشکلات پر صبر کرنا انتہائی افضل کام ہے۔
➋ الله تعالی کے اذن کے ساتھ سفارش برحق ہے۔
➌ مک مکرمہ کے بعد مدینہ طیبہ تمام شہروں اور تمام علاقوں سے افضل ہے۔
➍ نیز دیکھئے [الموطأ ح 85، 479، 511، البخاري 7211، 1871، 1875، ومسلم 1382، 1383، 1388]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 406   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3918  
´مدینہ کی فضیلت کا بیان`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کی ایک آزاد کردہ لونڈی ان کے پاس آئی اور ان سے کہنے لگی میں گردش زمانہ کی شکار ہوں اور عراق جانا چاہتی ہوں، تو انہوں نے کہا: تو شام کیوں نہیں چلی جاتی جو حشر و نشر کی سر زمین ہے، (آپ نے کہا) «اصبري لكاع» ! کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے اس کی (مدینہ کی) سختی اور تنگی معیشت پر صبر کیا تو میں قیامت کے دن اس کے لیے گواہ یا سفارشی ہوں گا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3918]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ بھی مدینہ کی ایک فضیلت ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3918   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.