الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: فضائل و مناقب
Chapters on Virtues
68. باب فِي فَضْلِ الْمَدِينَةِ
68. باب: مدینہ کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 3921
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك. ح وحدثنا قتيبة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، انه كان يقول: لو رايت الظباء ترتع بالمدينة ما ذعرتها، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ما بين لابتيها حرام ". قال: وفي الباب عن سعد، وعبد الله بن زيد، وانس، وابي ايوب، وزيد بن ثابت، ورافع بن خديج، وسهل بن حنيف، وجابر. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ. ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: لَوْ رَأَيْتُ الظِّبَاءَ تَرْتَعُ بِالْمَدِينَةِ مَا ذَعَرْتُهَا، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا حَرَامٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَسَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے تھے کہ اگر میں مدینہ میں ہرنوں کو چرتے دیکھوں تو انہیں نہ ڈراؤں اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اس کی دونوں پتھریلی زمینوں ۱؎ کے درمیان کا حصہ حرم ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں سعد، عبداللہ بن زید، انس، ابوایوب، زید بن ثابت، رافع بن خدیج، سہل بن حنیف اور جابر رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل المدینة 4 (1873)، صحیح مسلم/الحج 85 (1372) (تحفة الأشراف: 13235)، وط/الجامع 3 (11)، و مسند احمد (2/236، 487) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ دونوں پتھریلی زمینیں (حرہ) حرّہ غربیہ اور حرّہ شرقیہ کے نام سے معروف ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

   صحيح البخاري1873عبد الرحمن بن صخرما بين لابتيها حرام
   صحيح البخاري1869عبد الرحمن بن صخرحرم ما بين لابتي المدينة على لساني
   صحيح مسلم3332عبد الرحمن بن صخرما بين لابتيها حرام
   صحيح مسلم3330عبد الرحمن بن صخرالمدينة حرم من أحدث فيها حدثا آوى محدثا عليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه يوم القيامة عدل ولا صرف
   صحيح مسلم3333عبد الرحمن بن صخرحرم رسول الله ما بين لابتي المدينة
   جامع الترمذي3921عبد الرحمن بن صخرما بين لابتيها حرام
   سنن ابن ماجه3113عبد الرحمن بن صخرحرمت مكة على لسان إبراهيم أحرم ما بين لابتيها
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم638عبد الرحمن بن صخرما بين لابتيها حرام

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 638  
´مکہ مکرمہ کی طرح مدینہ طیبہ بھی حرم ہے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما بين لابتيها حرام.»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو سیاہ پتھروں والی زمین کے درمیان (مدینہ کا علاقہ) حرام (حرم) ہے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 638]

تخریج الحدیث: [الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 889/2، ح 1711، ك 45 ب 3 ح 11، التمهيد 309/6، الاستذكار: 1641 ● و أخرجه البخاري 1873، ومسلم1372/471، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ مکہ مکرمہ کی طرح مدینہ طیبہ بھی حرم ہے جیسا کہ متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے: [نظم المتناثر من الحديث المواتر للكتاني ص 212 ح 244]
اسے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ درج ذیل صحابہ کرام نے بھی روایت کیا ہے:
● سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ [صحيح بخاري: 1867، و صحيح مسلم: 6613]
● سیدنا علی رضی اللہ عنہ [صحيح بخاري: 1870، و صحيح مسلم: 1370]
● سیدنا عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ [صحيح بخاري: 2129 و صحيح مسلم: 1360]
● سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ [صحيح مسلم: 1361]
● سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ [صحيح مسلم: 1362]
● سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ [صحيح مسلم: 1363] وغیرہم
◄ ان احادیث صحیحہ متواترہ کے مقابلے میں بعض الناس خود ساختہ شبہات کی بنأ پر کہتے ہیں کہ «لا حرم للمدينة عندنا» ہمارے نزدیک مدینہ حرم نہیں ہے۔ ديكهئے: [ردالمحتار 278/2، الدر المختار 184/1]
➋ مدینہ میں شکار کرنا اور بے ضرر درخت اور پودے کاٹنا حرام ہے سوائے اذخر گھاس کے جس کی اجازت دی گئی ہے۔
➌ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہر وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔
➍ قرآن کی طرح حدیث بھی حجت ہے اور حدیث وحی خفی ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 16   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3113  
´مدینہ کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! ابراہیم تیرے خلیل (گہرے دوست) اور تیرے نبی ہیں، اور تو نے مکہ کو بزبان ابراہیم حرام ٹھہرایا ہے، اے اللہ! میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں، اور میں مدینہ کو اس کی دونوں کالی پتھریلی زمینوں کے درمیان کی جگہ کو حرام ٹھہراتا ہوں ۱؎۔ ابومروان کہتے ہیں: «لابتيها» کے معنی مدینہ کے دونوں طرف کی کالی پتھریلی زمینیں ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3113]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لابة يا حره سے مراد زمین کا ایک ایسا قطعہ ہےجس میں سیاہ رنگ کے پتھر پائے جاتے ہیں۔

(2)
مدینہ شریف کے مشرق اور مغرب میں اس قسم کے دو قطعات پائے جاتے ہیں جو مشرقی حرہ اور مغربی حرہ کے نام سے معروف ہیں۔
مشرقی حرہ کا نام حرہ واقم اور مغربی حرہ کا نام حرہ وبرہ ہے۔ (حاشيه صحيح مسلم از محمد فواد الباقي، الحج، باب فضل المدينه۔
۔
۔
۔
وبيان حدود حرمها)

مشرق ومغرب میں یہ حرم مدینہ کی حد ہیں۔
احد کے شمال میں جبل ثور اور مدینہ کے جنوب میں جبل عیر حرم مدینہ کی حد ہیں جبکہ احد پہاڑ حرم میں شامل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3113   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3921  
´مدینہ کی فضیلت کا بیان`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے تھے کہ اگر میں مدینہ میں ہرنوں کو چرتے دیکھوں تو انہیں نہ ڈراؤں اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اس کی دونوں پتھریلی زمینوں ۱؎ کے درمیان کا حصہ حرم ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3921]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ دونوں پتھریلی زمینیں (حرہ) حرّہ غربیہ اور حرّہ شرقیہ کے نام سے معروف ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3921   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.