الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
Prayer (Kitab Al-Salat)
2. باب فِي الْمَوَاقِيتِ
2. باب: اوقات نماز کا بیان۔
Chapter: The Times Of As-Salat.
حدیث نمبر: 394
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن سلمة المرادي، حدثنا ابن وهب، عن اسامة بن زيد الليثي، ان ابن شهاب اخبره، ان عمر بن عبد العزيز كان قاعدا على المنبر فاخر العصر شيئا، فقال له عروة بن الزبير: اما إن جبريل عليه السلام قد اخبر محمدا صلى الله عليه وسلم بوقت الصلاة، فقال له عمر: اعلم ما تقول، فقال عروة، سمعت بشير بن ابي مسعود، يقول: سمعت ابا مسعود الانصاري، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" نزل جبريل صلى الله عليه وسلم فاخبرني بوقت الصلاة، فصليت معه ثم صليت معه ثم صليت معه ثم صليت معه ثم صليت معه، يحسب باصابعه خمس صلوات، فرايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" صلى الظهر حين تزول الشمس وربما اخرها حين يشتد الحر، ورايته يصلي العصر والشمس مرتفعة بيضاء قبل ان تدخلها الصفرة، فينصرف الرجل من الصلاة فياتي ذا الحليفة قبل غروب الشمس ويصلي المغرب حين تسقط الشمس، ويصلي العشاء حين يسود الافق، وربما اخرها حتى يجتمع الناس، وصلى الصبح مرة بغلس ثم صلى مرة اخرى فاسفر بها، ثم كانت صلاته بعد ذلك التغليس حتى مات، ولم يعد إلى ان يسفر"، قال ابو داود: وروى هذا الحديث عن الزهري معمر، ومالك، وابن عيينة، وشعيب بن ابي حمزة، والليث بن سعد، وغيرهم، لم يذكروا الوقت الذي صلى فيه ولم يفسروه، وكذلك ايضا رواه هشام بن عروة، وحبيب بن ابي مرزوق، عن عروة، نحو رواية معمر واصحابه، إلا ان حبيبا لم يذكر بشيرا، وروى وهب بن كيسان، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وقت المغرب، قال: ثم جاءه للمغرب حين غابت الشمس يعني من الغد وقتا واحدا، قال ابو داود: وكذلك روي عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ثم صلى بي المغرب يعني من الغد وقتا واحدا، وكذلك روي عن عبد الله بن عمرو بن العاص من حديث حسان بن عطية، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْمُرَادِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ اللَّيْثِيِّ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ كَانَ قَاعِدًا عَلَى الْمِنْبَرِ فَأَخَّرَ الْعَصْرَ شَيْئًا، فَقَالَ لَهُ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ: أَمَا إِنَّ جِبْرِيلَ عليه السلام قَدْ أَخْبَرَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَقْتِ الصَّلَاةِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: اعْلَمْ مَا تَقُولُ، فَقَالَ عُرْوَةُ، سَمِعْتُ بَشِيرَ بْنَ أَبِي مَسْعُودٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" نَزَلَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَنِي بِوَقْتِ الصَّلَاةِ، فَصَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ ثُمَّ صَلَّيْتُ مَعَهُ، يَحْسُبُ بِأَصَابِعِهِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" صَلَّى الظُّهْرَ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ وَرُبَّمَا أَخَّرَهَا حِينَ يَشْتَدُّ الْحَرُّ، وَرَأَيْتُهُ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ بَيْضَاءُ قَبْلَ أَنْ تَدْخُلَهَا الصُّفْرَةُ، فَيَنْصَرِفُ الرَّجُلُ مِنَ الصَّلَاةِ فَيَأْتِي ذَا الْحُلَيْفَةِ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ وَيُصَلِّي الْمَغْرِبَ حِينَ تَسْقُطُ الشَّمْسُ، وَيُصَلِّي الْعِشَاءَ حِينَ يَسْوَدُّ الْأُفُقُ، وَرُبَّمَا أَخَّرَهَا حَتَّى يَجْتَمِعَ النَّاسُ، وَصَلَّى الصُّبْحَ مَرَّةً بِغَلَسٍ ثُمَّ صَلَّى مَرَّةً أُخْرَى فَأَسْفَرَ بِهَا، ثُمَّ كَانَتْ صَلَاتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ التَّغْلِيسَ حَتَّى مَاتَ، وَلَمْ يَعُدْ إِلَى أَنْ يُسْفِرَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّهْرِيِّ مَعْمَرٌ، وَمَالِكٌ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وَشُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، وَغَيْرُهُمْ، لَمْ يَذْكُرُوا الْوَقْتَ الَّذِي صَلَّى فِيهِ وَلَمْ يُفَسِّرُوهُ، وَكَذَلِكَ أَيْضًا رَوَاهُ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، وَحَبِيبُ بْنُ أَبِي مَرْزُوقٍ، عَنْ عُرْوَةَ، نَحْوَ رِوَايَةِ مَعْمَرٍ وَأَصْحَابِهِ، إِلَّا أَنَّ حَبِيبًا لَمْ يَذْكُرْ بَشِيرًا، وَرَوَى وَهْبُ بْنُ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقْتَ الْمَغْرِبِ، قَالَ: ثُمَّ جَاءَهُ لِلْمَغْرِبِ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ يَعْنِي مِنَ الْغَدِ وَقْتًا وَاحِدًا، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ثُمَّ صَلَّى بِيَ الْمَغْرِبَ يَعْنِي مِنَ الْغَدِ وَقْتًا وَاحِدًا، وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ مِنْ حَدِيثِ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز منبر پر بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے عصر میں کچھ تاخیر کر دی، اس پر عروہ بن زبیر نے آپ سے کہا: کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کا وقت بتا دیا ہے؟ تو عمر بن عبدالعزیز نے کہا: جو تم کہہ رہے ہو اسے سوچ لو ۱؎۔ عروہ نے کہا: میں نے بشیر بن ابی مسعود کو کہتے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جبرائیل علیہ السلام اترے، انہوں نے مجھے اوقات نماز کی خبر دی، چنانچہ میں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی، آپ اپنی انگلیوں پر پانچوں (وقت کی) نماز کو شمار کرتے جا رہے تھے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے سورج ڈھلتے ہی ظہر پڑھی، اور جب کبھی گرمی شدید ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر دیر کر کے پڑھتے۔ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عصر اس وقت پڑھتے دیکھا جب سورج بالکل بلند و سفید تھا، اس میں زردی نہیں آئی تھی کہ آدمی عصر سے فارغ ہو کر ذوالحلیفہ ۲؎ آتا، تو سورج ڈوبنے سے پہلے وہاں پہنچ جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب سورج ڈوبتے ہی پڑھتے اور عشاء اس وقت پڑھتے جب آسمان کے کناروں میں سیاہی آ جاتی، اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء میں دیر کرتے تاکہ لوگ اکٹھا ہو جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فجر غلس (اندھیرے) میں پڑھی، اور دوسری مرتبہ آپ نے اس میں اسفار ۳؎ کیا یعنی خوب اجالے میں پڑھی، مگر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر ہمیشہ غلس میں پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کبھی اسفار میں نماز نہیں ادا کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث زہری سے: معمر، مالک، ابن عیینہ، شعیب بن ابوحمزہ، لیث بن سعد وغیرہم نے بھی روایت کی ہے لیکن ان سب نے (اپنی روایت میں) اس وقت کا ذکر نہیں کیا، جس میں آپ نے نماز پڑھی، اور نہ ہی ان لوگوں نے اس کی تفسیر کی ہے، نیز ہشام بن عروہ اور حبیب بن ابی مرزوق نے بھی عروہ سے اسی طرح روایت کی ہے جس طرح معمر اور ان کے اصحاب نے روایت کی ہے، مگر حبیب نے (اپنی روایت میں) بشیر کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اور وہب بن کیسان نے جابر رضی اللہ عنہ سے، جابر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مغرب کے وقت کی روایت کی ہے، اس میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام دوسرے دن مغرب کے وقت سورج ڈوبنے کے بعد آئے یعنی دونوں دن ایک ہی وقت میں آئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل نے مجھے دوسرے دن مغرب ایک ہی وقت میں پڑھائی۔ اسی طرح عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے یعنی حسان بن عطیہ کی حدیث جسے وہ عمرو بن شعیب سے، وہ ان کے والد سے، وہ اپنے دادا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے، اور عبداللہ بن عمرو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏م /المساجد 31 (610)، سنن النسائی/ المواقیت 1 (495)، سنن ابن ماجہ/ الصلاة 1 (668)، (تحفة الأشراف: 9977)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/ المواقیت 1 (521)، وبدء الخلق 6 (3221)، والمغازي 12 (4007)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 1(1)، مسند احمد (4/120)، سنن الدارمی/الصلاة 3 (1223) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: عمر بن عبدالعزیز کو اس حدیث کے متعلق شبہہ ہوا کہ کہیں یہ ضعیف نہ ہو کیونکہ عروہ نے اسے بغیر سند بیان کیا تھا، یا یہ شبہہ ہوا کہ اوقات نماز کی نشاندہی تو اللہ تعالی نے معراج کی رات میں خود براہ راست کر دی ہے اس میں جبرئیل علیہ السلام کا واسطہ کہاں سے آ گیا، یا جبرئیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کیسے کی جبکہ وہ مرتبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کمتر ہیں، چنانچہ انہیں شبہات کے ازالہ کے لئے عروہ نے اسے مع سند بیان کرنا شروع کیا۔ ۲؎: ذوالحلیفہ مدینہ سے مکہ کے راستہ میں دو فرسخ (چھ میل یا ساڑھے نو کیلو میٹر) کی دوری پر ہے، اس وقت یہ بئر علی یا ابیار علی سے معروف ہے، یہ اہل مدینہ اور مدینہ کے راستہ سے گزرنے والے حجاج اور معتمرین کی میقات ہے۔ ۳؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر میں یہ پڑھنا جواز کے بیان کے لئے تھا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ غلس ہی میں فجر ادا کی۔

Ibn Shihab said: Umar bin Abdul Aziz was sitting on the pulpit and he somewhat postponed the afternoon prayer. Urwah bin al-Zubair said to him: "Gabriel informed Muhammed ﷺ of the time of prayer". So Umar said to him: "Be sure of what you are saying". Urwah then replied: "I heard Bashir bin Abu Masud say that he heard Abu Masud al-Ansari say that he heard the Messenger of Allah ﷺsay: 'Gabriel came down and informed me of the time of prayer, and I prayed along with him, then prayed along with him, then I prayed along with him, then I prayed along with him, then I prayed along with him, reckoning with his fingers five times of the prayer. ' I saw the Messenger of Allah ﷺ offering the Duhr prayer when the sun had passed the meridian. Sometimes he would delay it when it was sever heat ; and I witnessed that he prayer the Asr prayer when the sun was high and bright before the yellowness had overcome it; then a man could go off after the prayer and reach Dhu'l-Hulaifah before the sunset, and he would pray Maghrib when the sun had set ; and he would pray the 'Isha prayer when darkness prevailed over the horizon; sometime he would delay it until the people assembled; and once he prayer the fair prayer in the darkness of dawn and at another time he prayed it when it became fairly light; but later on he continued to pray in the darkness of dawn until his death; he never prayed it again in the light of the dawn. " Abu Dawud said: This tradition has been transmitted from al-Zuhri by Mamar, Malik, Ibn Uyainah, Shuaib bin Abi Hamzah, and al-Laith bin Saad and others; but they did not mention the time in which he (the Prophet) had prayer, nor did they explain it. And similarly it has been narrated by Hisham bin Urwah and Habib bin Abu Mazruq from Urwah like the report of Mamar and his companions. But Habib did not make a mention of Bashir. And Wahb bin Kaisan reported on the authority of Jabir from the Prophet ﷺ the time of the Maghrib prayer. He said: "Next day he (Gabriel) came to him at the time of the Maghrib prayer when the sun had already set. (He came both days) at the same time. " Abu Dawud said: Similarly, this tradition has been transmitted by Abu Hurairah from the Prophet ﷺ. He said: "Then he (Gabriel) led me in the sunset prayer next day at the same time. " Similarly, this tradition has been narrated through a different chain by Abdullah bin Amr bin al-As, through a chain from Hassan bin Atiyyah, from Amr bin Shuaib, from his father, on the authority from the Prophet ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 394


قال الشيخ زبير على زئي: حسن
للحديث شواھد حسن عند الحاكم (1/190 تا 193) وصححه الحاكم عليٰ شرط الشيخين ووافقه الذهبي . أسامة بن زيد الليثي وثقه الجمهور، وصرح الزھري بالسماع في أصل الحديث عند البيھقي (1/441)

   سنن أبي داود394عقبة بن عمروصلى الظهر حين تزول الشمس وربما أخرها حين يشتد الحر يصلي العصر والشمس مرتفعة بيضاء
   مسندالحميدي456عقبة بن عمرونزل جبريل فأمني فصليت معه ثم نزل فأمني فصليت معه ثم نزل فأمني فصليت معه حتى عد الصلوات الخمس

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.