الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
8. بَابُ قَتْلِ أَبِي جَهْلٍ:
8. باب: (بدر کے دن) ابوجہل کا قتل ہونا۔
(8) Chapter. The killing of Abu Jahl.
حدیث نمبر: 3981
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني عثمان، حدثنا عبدة، عن هشام، عن ابيه، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: وقف النبي صلى الله عليه وسلم على قليب بدر، فقال:" هل وجدتم ما وعد ربكم حقا"، ثم قال:" إنهم الآن يسمعون ما اقول" , فذكر لعائشة، فقالت: إنما قال النبي صلى الله عليه وسلم:" إنهم الآن ليعلمون ان الذي كنت اقول لهم هو الحق" , ثم قرات إنك لا تسمع الموتى سورة النمل آية 80 حتى قرات الآية.(مرفوع) حَدَّثَنِي عُثْمَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: وَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَلِيبِ بَدْرٍ، فَقَالَ:" هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا"، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّهُمُ الْآنَ يَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ" , فَذُكِرَ لِعَائِشَةَ، فَقَالَتْ: إِنَّمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُمُ الْآنَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّ الَّذِي كُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ هُوَ الْحَقُّ" , ثُمَّ قَرَأَتْ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتَى سورة النمل آية 80 حَتَّى قَرَأَتِ الْآيَةَ.
مجھ سے عثمان نے بیان کیا ‘ ہم سے عبدہ نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام نے ‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے کنویں پر کھڑے ہو کر فرمایا کیا جو کچھ تمہارے رب نے تمہارے لیے وعدہ کر رکھا تھا ‘ اسے تم نے سچا پا لیا؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کچھ میں کہہ رہا ہوں یہ اب بھی اسے سن رہے ہیں۔ اس حدیث کا ذکر جب عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ انہوں نے اب جان لیا ہو گا کہ جو کچھ میں نے ان سے کہا تھا وہ حق تھا۔ اس کے بعد انہوں نے آیت «إنك لا تسمع الوتى» بیشک آپ ان مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ پوری پڑھی۔

Narrated Ibn `Umar: The Prophet stood at the well of Badr (which contained the corpses of the pagans) and said, "Have you found true what your lord promised you?" Then he further said, "They now hear what I say." This was mentioned before `Aisha and she said, "But the Prophet said, 'Now they know very well that what I used to tell them was the truth.' Then she recited (the Holy Verse):-- "You cannot make the dead hear... ...till the end of Verse)." (30.52)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 317


   صحيح البخاري3981عبد الله بن عمرهل وجدتم ما وعد ربكم حقا ثم قال إنهم الآن يسمعون ما أقول فذكر لعائشة فقالت إنما قال النبي إنهم الآن ليعلمون أن الذي كنت أقول لهم هو الحق ثم قرأت إنك لا تسمع الموتى
   صحيح البخاري4026عبد الله بن عمرهل وجدتم ما وعدكم ربكم حقا قال موسى قال نافع قال عبد الله قال ناس من أصحابه يا رسول الله تنادي ناسا أمواتا قال رسول الله ما أنتم بأسمع لما قلت منهم
   صحيح البخاري1370عبد الله بن عمروجدتم ما وعد ربكم حقا فقيل له تدعو أمواتا فقال ما أنتم بأسمع منهم ولكن لا يجيبون

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1370  
´مرد ے سنتے ہیں ایک استثناء`
«. . . قَالَ:" اطَّلَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَهْلِ الْقَلِيبِ , فَقَالَ: وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا، فَقِيلَ لَهُ: تَدْعُو أَمْوَاتًا، فَقَالَ: مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ مِنْهُمْ وَلَكِنْ لَا يُجِيبُونَ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کنویں والوں (جس میں بدر کے مشرک مقتولین کو ڈال دیا گیا تھا) کے قریب آئے اور فرمایا تمہارے مالک نے جو تم سے سچا وعدہ کیا تھا اسے تم لوگوں نے پا لیا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو خطاب کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کچھ ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو البتہ وہ جواب نہیں دے سکتے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ: 1370]

فوائد و مسائل:
↰ یہ ایک استثناء ہے۔ اس حدیث میں بھی کفار مکہ کے ایک خاص آواز سننے کا ذکر ہے، جیسا کہ:
صحیح بخاری [567/2،:3981-3980] میں ہے:
«انهم الان يسمعون ما اقول» وہ اس وقت میری بات کو سن رہے ہیں۔
↰ اس سے معلوم ہوا کہ مردے نہیں سنتے۔ صحابہ کرام کا یہی عقیدہ تھا۔ اسی لیے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ آپ مردوں سے کیوں باتیں کر رہے ہیں، یہ تو سنتے نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا کہ بدر کے کنویں میں پڑے کفار کے سننے کا واقعہ عدم سماع موتیٰ کے اس قانون شریعت سے خاص کر دیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ مرنے کے بعد مردے سنتے ہیں، بلکہ فرمایا: «الآن» یعنی اس وقت وہ میری بات سن رہے ہیں۔ اس میں استمرار کے ساتھ سننے کا کوئی ذکر نہیں، بلکہ استمرار کی نفی ہو گئی ہے۔

◈ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) علامہ مازری سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«قال (أبو عبدالله محمد بن على - 453-536هـ -) المازري: قال بعض الناس: الميت يسمع عملا بظاهر هذا الحديث، ثم أنكرهٔ المازري، وادعى أن هذا خاض فى هؤلاء.»
علامہ (ابوعبد اللہ محمد بن علی) مازری (453۔ 536 ھ) فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اس حدیث کے ظاہری الفاظ کو دیکھ کر کہا ہے کہ مردے سنتے ہیں۔ اس کے بعد علامہ مازری نے اس کا ردّ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ سننا ان کفار کے ساتھ خاص تھا۔ [شرح صحيح مسلم: 387/2]

◈ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ (1332-1420ھ) اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں:
«ونحوه قوله صلي الله عليه وسلم لعمر حينما ساله عن منادته لاهل قليب بدر ما انتم باسمع لما اقول منهم هو خاص ايضا باهل القليب»
نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے جب بدر کے کنویں میں پڑے مقتولین کو پکارا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میری بات کو ان سے زیادہ نہیں سن رہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان گرامی بھی اہل بدر کے ساتھ خاص ہے۔ [سلسلة الأحاديث الضعيفة: 286/3، ح: 1148]

فائدہ: مشہور تابعی امام قتادہ بن دعامہ رحمہ اللہ (61۔ 118 ھ) فرماتے ہیں:
«أحياهم الله حتي أسمعهم قوله، توبيخا وتصغيرا ونقمة وحسرة وندما .»
اللہ تعالیٰ نے ان کفار کو زندہ کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان انہیں سنا دیا تاکہ ان کی تحقیر و تذلیل ہو اور وہ حسرت و ندامت میں ڈوب جائیں۔ [مسند الإمام أحمد: 459/19، ح: 12417، صحيح البخاري: 3976]

◈ علامہ ابوالحسن علی بن خلف بن عبد اللہ، ابن بطال (م: 449 ھ) فرماتے ہیں:
«وعلى تأويل قتادة فقهاء الأئمة وجماعة أهل السنة.»
امام قتادہ کے بیان کردہ مفہوم پر ہی فقہاء ائمہ اور جماعت اہل سنت قائم ہیں۔ [شرح صحيح البخاري: 358/3]
↰ معلوم ہوا کہ صحابہ کرام اور سلف صالحین میں سے کوئی بھی مردوں کے سننے کا قائل نہیں۔ اگر قرآن و حدیث میں سماع موتیٰ کی کوئی دلیل ہوتی تو اسلاف امت ضرور اس کے قائل ہوتے۔ اس لیے تو ہم اصل ضابطہ عدم سماع قرار دیتے ہیں اور جن جگہوں میں صحیح دلیل کے ساتھ سننا ثابت ہے، ان کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔
عقائد و اعمال میں استثناء کا باب کھلا ہے۔ یہ کہنا کہ نفی سماع، پھر استثناء، کیا فرق نکلے گا، نتیجہ تو بہرکیف سماع موتیٰ ہی نکلتا ہے۔۔۔ نری جہالت اور بے وقوفی ہے۔

◈ شار ح بخاری، علامہ، ابومحمد، عبدالواحد، ابن تین مغربی (م: 611 ھ) فرماتے ہیں:
«ان الموتي لا يسمعون بلا شك .» یقینا مردے نہیں سنتے۔ [فتح الباري لابن حجر: 235/3]

◈ شارح بخاری، مہلب بن احمد بن اسید تمیمی (م: 435 ھ) فرماتے ہیں:
«لا يسمعون، كما قال تعالى: ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ » [27-النمل:80]، « ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ » [35-فاطر:22]
مردے نہیں سنتے، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: « ﴿إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى﴾ » (اے نبی!) یقیناً آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔ نیز فرمایا: « ﴿وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ﴾ » (اے نبی!) آپ قبروں میں موجود لوگوں کو سنا نہیں سکتے۔ [شرح صحيح البخاري لابن بطال: 320/3]
↰ ثابت ہوا کہ قرآن و سنت میں مردوں کے سننے کا کوئی ثبوت نہیں، اسی لئے سلف صالحین میں سے کوئی بھی سماع موتیٰ کا قائل نہیں تھا۔ دین وہی ہے جو سلف صالحین نے سمجھا اور جس پر انہوں نے عمل کیا۔ باقی سب بدعات و خرافات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین و ایمان کی سلامتی عطا فرمائے اور ساری زندگی سلف صالحین کے نقش قدم پر چلائے۔ آمین!
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 46-48، حدیث\صفحہ نمبر: 29   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3981  
3981. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ بدر کے غیر آباد کنویں پر کھڑے ہوئے اور (اس میں پڑے ہوئے کافروں سے) فرمایا: کیا تمہارے رب نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ تم نے سچا پا لیا ہے؟ پھر آپ نے فرمایا: جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اب یہ اسے سن رہے ہیں۔ حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے یہ ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے صرف یہ فرمایا تھا: وہ اب جانتے ہیں کہ میں انہیں جو کہتا تھا وہ سچ تھا۔ پھر انہوں نے یہ پوری آیت پڑھی: بےشک آپ ان مردوں کو سنا نہیں سکتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3981]
حدیث حاشیہ:
قرآنی آیت صریح دلیل ہے کہ آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔
یہی حق ہے۔
مقتولین بدر کو سنانا وقتی طور پر خصوصیات رسالت میں سے تھا۔
اس پر دوسرے مردوں کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
ہاں‘ اللہ تعالی جب چاہے اور جس قدر چاہے مردوں کو سنا سکتا ہے۔
جیسا کہ قبرستان میں السلامُ علیکم أهلَ الدیار حدیث کی مسنون دعاء سے ظاہر ہے۔
باقی اہل بدعت کا یہ خیال کہ وہ جب بھی مدفون باباؤں کی قبریں پوجنے جائیں وہ بابا ان کی فریاد سنتے اور حا جات پوری کرتے ہیں‘ سراسر باطل اور کافرانہ ومشرکانہ خیال ہے جس کی شرعاً کو ئی اصل نہیں ہے۔
حضرت ابن عباس اور حضرت عائشہ ؓ ہر دو کے خیالات پر مزید تفصیل کے لیے فتح الباری کامطالعہ کیا جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3981   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3981  
3981. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ بدر کے غیر آباد کنویں پر کھڑے ہوئے اور (اس میں پڑے ہوئے کافروں سے) فرمایا: کیا تمہارے رب نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ تم نے سچا پا لیا ہے؟ پھر آپ نے فرمایا: جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اب یہ اسے سن رہے ہیں۔ حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے یہ ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے صرف یہ فرمایا تھا: وہ اب جانتے ہیں کہ میں انہیں جو کہتا تھا وہ سچ تھا۔ پھر انہوں نے یہ پوری آیت پڑھی: بےشک آپ ان مردوں کو سنا نہیں سکتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3981]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے ان احادیث کو اس لیے بیان کیا ہے کہ ان میں کفار قریش کا ذکر ہے جو میدان بدر میں جہنم واصل ہوئے۔
خود رسول اللہ ﷺ نے ایک غیرآباد کنویں پر کھڑے ہو کرانھیں جہنم میں جانے کی خبر دی لیکن شارحین نے اس مقام پر مسئلہ سماع موتی کی تفصیل بیان کی ہےحالانکہ اس مقام پر قطعاً اس کی ضرورت نہیں۔
ہم کتاب الجنائز میں اس مسئلے پر تفصیل سے بحث کر چکے ہیں2۔
بعض اہل علم نے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے(يَسْمَعُونَ)
کے بجائے (يَعْلَمُونَ)
بیان کیا ہے ان کے بقول جب مردوں کے لیے علم ثابت ہے تو سماع کیسے محال ہو گا؟ ممکن ہے دونوں ہوں اگر علم (ان کا جاننا)
خرق عادت کے طور پر ہے تو سماع سننا بھی ایسے ہو گا یا جیسے علم زندہ کیا گیا ایسے سماع کے لیے بھی زندہ کیا گیا ہوگا۔
ہمارے رجحان کے مطابق اس نکتہ آفرینی کا یہ جواب ہے کہ علم (جاننے)
کا تعلق تو روح سے ہے جو موجود ہے اور اسے فنا نہیں ہے اورسماع (سننے)
کا تعلق آلہ روح کے زندہ ہونے میں کوئی شک نہیں اور نہ یہ بات ہی زیر بحث ہے کیونکہ روح کا علم یعنی جاننا یقینی اور باقی ہے۔
بحث اس سماع سے متعلق ہے جس کا تعلق آلہ روح یعنی کانوں سے ہے آیا مرنے کے بعد سماع آلہ روح (کانوں)
سے حاصل ہوتا ہے یا نہیں جبکہ مرنے کے بعد جملہ حواس ختم ہو چکے ہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی پیش کردہ آیت میں اسماع (سنانے)
کی نفی ہے سماع (سننے)
کی نہیں حالانکہ اسماع اصل ہے اور سماع اس کی فرع ہے جب اصل نہیں تو فرع کیسے ہو گی۔

بہر حال قرآنی آیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔
مقتولین بدر کو وقتی طور پر سنانا خصوصیات رسالت میں سے تھا۔
اس پر کسی دوسرے کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
ہاں اللہ تعالیٰ جب چاہے جسے چاہے اور جس قدر چاہے مردوں کو سنا سکتاہے۔
اہل بدعت کا یہ عقیدہ کہ مدفون بزرگ ان کی فریاد سنتے ہیں اور حاجات پوری کرتے ہیں سراسر باطل ہے جس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3981   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.