الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
Prayer (Kitab Al-Salat)
5. باب فِي وَقْتِ صَلاَةِ الْعَصْرِ
5. باب: عصر کے وقت کا بیان۔
Chapter: The Time For ’Asr Prayer.
حدیث نمبر: 404
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن انس بن مالك، انه اخبره،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي العصر والشمس بيضاء مرتفعة حية، ويذهب الذاهب إلى العوالي والشمس مرتفعة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَيْضَاءُ مُرْتَفِعَةٌ حَيَّةٌ، وَيَذْهَبُ الذَّاهِبُ إِلَى الْعَوَالِي وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر ایسے وقت میں پڑھتے تھے کہ سورج سفید، بلند اور زندہ ہوتا تھا، اور جانے والا (عصر پڑھ کر) عوالی مدینہ تک جاتا اور سورج بلند رہتا تھا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المساجد 34 (621)، سنن النسائی/المواقیت 7 (508)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 5 (682)، (تحفة الأشراف: 1522)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المواقیت 13 (550)، والاعتصام 16 (7329)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 1(11)، مسند احمد (3/223)، سنن الدارمی/الصلاة 15 (1244) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
یہ دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اول وقت میں عصر پڑھ لیا کرتے تھے جس کی تفصیل گذر چکی ہے کہ ایک مثل سایہ سے عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ سورج زندہ ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ آپ اس کی گرمی و حرارت محسوس کریں۔ مدینہ کے جنوب مشرق کی جانب کی آبادیوں کو «عوالی» (بالائی علاقے) اور شمال کی جانب کے علاقے کو «سافلہ» (نشیبی علاقہ) کہتے تھے۔

Anas bin Malik said the Messenger of Allah ﷺ used to say the Asr prayer when the sun was high and bright and living, then one would go off to al-Awali and get there while the sun was still high.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 404


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (621)

   صحيح البخاري550أنس بن مالكيصلي العصر والشمس مرتفعة حية
   صحيح البخاري7329أنس بن مالكيصلي العصر فيأتي العوالي والشمس مرتفعة
   صحيح مسلم1408أنس بن مالكيصلي العصر والشمس مرتفعة حية
   جامع الترمذي156أنس بن مالكصلى الظهر حين زالت الشمس
   سنن أبي داود404أنس بن مالكيصلي العصر والشمس بيضاء مرتفعة حية
   سنن النسائى الصغرى507أنس بن مالكيصلي العصر ثم يذهب الذاهب إلى قباء فيأتيهم وهم يصلون والشمس مرتفعة
   سنن النسائى الصغرى553أنس بن مالكيصلي الظهر إذا زالت الشمس ويصلي العصر بين صلاتيكم هاتين يصلي المغرب إذا غربت الشمس يصلي العشاء إذا غاب الشفق يصلي الصبح إلى أن ينفسح البصر
   سنن النسائى الصغرى508أنس بن مالكيصلي العصر والشمس مرتفعة حية
   سنن النسائى الصغرى509أنس بن مالكيصلي بنا العصر والشمس بيضاء محلقة
   سنن النسائى الصغرى545أنس بن مالكالسائل عن وقت الصلاة ما بين هذين وقت
   سنن ابن ماجه682أنس بن مالكيصلي العصر والشمس مرتفعة حية

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 507  
´عصر جلدی پڑھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر پڑھتے تھے، پھر جانے والا قباء جاتا، زہری اور اسحاق دونوں میں سے ایک کی روایت میں ہے تو وہ ان کے پاس پہنچتا اور وہ لوگ نماز پڑھ رہے ہوتے، اور دوسرے کی روایت میں ہے: اور سورج بلند ہوتا۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 507]
507 ۔ اردو حاشیہ: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کا سایہ ایک مثل ہوتے ہی عصر کی نماز ادا فرما لیتے تھے جب کہ قباء والے کام کاج اور دیگر مصروفیات کی بنا پر نماز کچھ دیر سے پڑھتے تھے۔ گویا سورج زرد ہونے سے پہلے پہلے نماز پڑھنا بلاکراہت جائز ہے مگر افضل یہی ہے کہ مثل اول ہوتے ہی نماز پڑھ لی جائے کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 507   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 508  
´عصر جلدی پڑھنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر پڑھتے اور سورج بلند اور تیز ہوتا، اور جانے والا (نماز پڑھ کر) عوالی جاتا، اور سورج بلند ہوتا۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 508]
508 ۔ اردو حاشیہ: عوالی سے مراد مدینے کی وہ مضافاتی بستیاں ہیں جو مدینہ منورہ کے بلند اطراف میں آباد تھیں۔ وہ کم از کم دو میل اور زیادہ سے زیادہ آٹھ میل تک دور تھیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 508   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 545  
´فجر کے اول وقت کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے فجر کے وقت کے بارے میں پوچھا، تو جب ہم نے دوسرے دن صبح کی تو آپ نے ہمیں جس وقت فجر کی پو پھٹی نماز کھڑی کرنے کا حکم دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر جب دوسرا دن آیا، اور خوب اجالا ہو گیا تو حکم دیا تو نماز کھڑی کی گئی، پھر آپ نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر فرمایا: نماز کا وقت پوچھنے والا کہاں ہے؟ انہی دونوں کے درمیان (فجر کا) وقت ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 545]
545 ۔ اردو حاشیہ: پو پھٹنے سے مراد بھی صبح صادق ہی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 545   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 553  
´فجر کے آخری وقت کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اس وقت پڑھتے تھے، جب سورج ڈھل جاتا تھا، اور عصر تمہاری ان دونوں نمازوں ۱؎ کے درمیان پڑھتے تھے، اور مغرب اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈوب جاتا تھا، اور عشاء اس وقت پڑھتے تھے جب شفق غائب جاتی تھی، پھر اس کے بعد انہوں نے کہا: اور آپ فجر پڑھتے تھے یہاں تک کہ نگاہ پھیل جاتی تھی ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 553]
553 ۔ اردو حاشیہ:
➊اس دور میں لوگ عصر کی نماز تاخیر سے پڑھنے لگے تھے، اس لیے فرمایا کہ آپ کی عصر کی نماز تمھاری آج کل کی ظہر اور عصر کے درمیان ہوتی تھی، یعنی تمھاری موجودہ عصر سے بہت پہلے پڑھ لیتے تھے۔
نظر دور تک دیکھنے لگتی۔ یہ صبح کی نماز کا آخری وقت نہیں بلکہ آپ کی نماز کے اختتام کا وقت تھا، گویا صبح کی نماز کا مختار وقت ختم ہو جاتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 553   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث682  
´نماز عصر کا وقت۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر اس وقت پڑھا کرتے تھے جب سورج اونچا اور زندہ ہوتا تھا، چنانچہ (نماز پڑھ کر) کوئی شخص عوالی ۱؎ میں جاتا تو سورج بلند ہی ہوتا تھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 682]
اردو حاشہ:
(1)
سورج روشن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے رنگ میں زردی نہیں ہوتی تھی بلکہ سفید ہوتا تھا۔
جب کہ تاخیر کی صورت میں سورج کا رنگ تبدیل ہوکر زرد یا سرخ ہوجاتا ہے۔

(2) (عوالی)
سے مراد مدینہ کی کچھ نواحی بستیاں ہیں جو مدینہ سے نجد کی سمت واقع ہیں۔
ان میں سے کوئی بستی دوتین میل کے فاصلے پر ہے کوئی چار میل یا زیادہ سب سے زیادہ فاصلہ آٹھ میل ہے۔

(3)
اس روایت سے عصر کے وقت کا کوئی واضح تعین نہیں ہو پاتا کیونکہ عوالی بستیوں کا فاصلہ ایک دوسری سے بہت مختلف ہے۔
علاوہ ازیں سال کے مختلف موسموں میں عصر کے بعد مغرب کا وقت بھی کم وبیش ہوتا رہتا ہے تاہم اس سے یہ بات ضرور واضح ہوتی ہے کہ آپ عصر کی نماز اوّل وقت میں ادا فرما لیا کرتے تھے لیکن یہ اوّل وقت کون سا تھا؟ اس کی وضاحت اس روایت سے ہو جاتی ہے جس میں آپ نے ظہر کی نماز سورج کے ڈھلتے ہی پڑھ لی اور عصر کی نماز اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابرہو گیا۔ (سنن النسائی، المواقیت، باب اول وقت العصر، حدیث: 505)
اس سے عصر کی نماز کا اوّل وقت یقیناً متعین ہوجاتا ہے اور وہ ہے (اصلی سایہ نکال کر)
سائے کا ایک مثل ہوجانا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 682   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.