الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
28. بَابُ أُحُدٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ:
28. باب: ارشاد نبوی کہ احد پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے۔
(28) Chapter. “Uhud is a mountain that loves us and is loved by us.”
حدیث نمبر: Q4083
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
قاله عباس بن سهل عن ابي حميد عن النبي صلى الله عليه وسلم.قَالَهُ عَبَّاسُ بْنُ سَهْلٍ عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
‏‏‏‏ عباس بن سہل نے راوی ابوحمید سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد روایت کیا ہے۔

حدیث نمبر: 4083
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني نصر بن علي , قال: اخبرني ابي , عن قرة بن خالد , عن قتادة , سمعت انسا رضي الله عنه , ان النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" هذا جبل يحبنا ونحبه".(مرفوع) حَدَّثَنِي نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ , قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي , عَنْ قُرَّةَ بْنِ خَالِدٍ , عَنْ قَتَادَةَ , سَمِعْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ".
ہم سے نصر بن علی نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی، انہیں قرہ بن خالد نے، انہیں قتادہ نے اور انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا احد پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔

Narrated Anas: The Prophet said, "This is a mountain that loves us and is loved by us."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 409


   صحيح البخاري2889أنس بن مالكهذا جبل يحبنا ونحبه اللهم إني أحرم ما بين لابتيها كتحريم إبراهيم مكة اللهم بارك لنا في صاعنا ومدنا
   صحيح البخاري4084أنس بن مالكهذا جبل يحبنا ونحبه اللهم إن إبراهيم حرم مكة وإني حرمت ما بين لابتيها
   صحيح البخاري7333أنس بن مالكهذا جبل يحبنا ونحبه اللهم إن إبراهيم حرم مكة وإني أحرم ما بين لابتيها
   صحيح البخاري4083أنس بن مالكهذا جبل يحبنا ونحبه
   صحيح البخاري3367أنس بن مالكهذا جبل يحبنا ونحبه اللهم إن إبراهيم حرم مكة وإني أحرم ما بين لابتيها
   صحيح مسلم3372أنس بن مالكأحدا جبل يحبنا ونحبه
   صحيح مسلم3373أنس بن مالكأحدا جبل يحبنا ونحبه
   صحيح مسلم3321أنس بن مالكهذا جبل يحبنا ونحبه اللهم إني أحرم ما بين جبليها مثل ما حرم به إبراهيم مكة اللهم بارك لهم في مدهم وصاعهم
   جامع الترمذي3922أنس بن مالكهذا جبل يحبنا ونحبه اللهم إن إبراهيم حرم مكة وإني أحرم ما بين لابتيها
   سنن ابن ماجه3115أنس بن مالكأحدا جبل يحبنا ونحبه
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم639أنس بن مالكهذا جبل يحبنا ونحبه، اللهم إن إبراهيم حرم مكة واني احرم ما بين لابتيها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 639  
´مدینہ حرم ہے`
«. . . 403- مالك عن عمرو مولى المطلب عن أنس بن مالك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم طلع له أحد، فقال: هذا جبل يحبنا ونحبه، اللهم إن إبراهيم حرم مكة وأني أحرم ما بين لابتيها. . . .»
. . . سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب احد (پہاڑ) دیکھا تو فرمایا: یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں، اے اللہ! ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں ان دو کالی زمینوں کے درمیان (مدینہ) کو حرم قرار دیتا ہوں۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 639]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 3367، من حديث مالك به و رواه مسلم 1365، من حديث عمرو بن ابي عمرو به ● سقط من الأصل واستدركته من صحيح البخاري]

تفقه:
➊ جس طرح مکہ حرم ہے اسی طرح مدینہ بھی حرم ہے لہٰذا بعض الناس کا مدینہ کو حرم ماننے سے انکار کرنا واضح طور پر انکارِ حدیث کے مترادف ہے۔
➋ اہل ایمان مدینے کے پہاڑ اُحد سے محبت کرتے ہیں۔
➌ اُحد پہاڑ کو کاٹنا، ختم کرنا یا اس پر تعمیرات کرنا ناجائز ہے بلکہ قیامت تک اسے اسی حالت میں چھوڑنا چاہئے۔
➍ احد کا اہل ایمان سے محبت کرنا امور غیبیہ میں سے ہے جس پر اس صحیح حدیث ودیگر احادیث ِ صحیحہ کی وجہ سے ایمان لانا واجب ہے۔ نیز دیکھئے الموطأ حدیث:16
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 403   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4084  
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں یہ ارشاد فرمایا کہ کون سی مسجد زمین پر پہلے بنائی گئی، تحت الباب میں جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے اس میں مطلق طور پر بھی کسی مسجد کا ذکر نہیں، بلکہ وہاں تو احد پہاڑ کا ذکر موجود ہے، لہٰذا ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت ظاہر نہیں ہوتی، لیکن اسی باب کے تحت جو حدیث سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس میں بآسانی مناسبت کا پہلو موجود ہے۔۔۔۔ مگر انس رضی اللہ عنہ والی حدیث میں مناسبت مشکل ہے۔
لیکن اگر غور کیا جائے تو حدیث کا تعلق باب سے دو جگہوں پر ہوتا ہے۔
الف: ترجمۃ الباب میں ہے کہ کون سی مسجد پہلے زمین پر تعمیر کی گئی؟
تو دلیل کے طور پر مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کے بارے میں حدیث پیش فرمائی، یعنی یہاں پر مناسبت یہ ہے کہ ترجمۃ الباب سوالیہ کے طور پر تھا، لہٰذا حدیث اس کا جواب مہیا کرتی ہے کہ وہ مسجد مکہ میں ہے، یعنی مسجد حرام، لہٰذا یہاں سے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث باب سے مطابقت رکھتی ہے۔
ب: سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی جو حدیث ہے کہ احد پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت کرتے ہیں، یہاں پر مناسبت یہ ہے کہ جس جگہ مسجد حرام ہے، یعنی مکہ کی سرزمین پر تو احد پہاڑ بھی مکے کی سرزمین پر ہی واقع ہے، لہٰذا یہاں پر ایک باریک مناسبت قائم ہوتی ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ والی حدیث کا تعلق ایک اور طریقے سے بھی ہے، وہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بیت اللہ کی سب سے پہلی تعمیر سیدنا ابرہیم علیہ السلام نے فرمائی اور مسجد اقصیٰ کی تعمیر سیدنا سلیمان علیہ السلام نے فرمائی، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ بڑی ہی باریک بینی سے یہاں یہ رد فرما رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ اول تعمیر ان سے پہلے ہو چکی تھی، اسی لئے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ والی حدیث پیش فرمائی تاکہ یہ اشکال ذہنوں سے دور ہو جائے، ترجمۃ الباب کے ذریعے امام بخاری رحمہ اللہ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اول تعمیر مسجد حرام کی سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے نہیں فرمائی اور احد پہاڑ والی حدیث کی مناسبت بھی یہی ہے کہ اس میں ابراہیم علیہ السلام کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا ہے۔

علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«مطابقة للترجمة فى قوله: ان ابراهيم»
یعنی ترجمۃ الباب کی مطابقت حدیث کے اس لفظ سے ہے، بےشک ابراہیم۔۔۔
لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت قائم ہوتی ہے۔

ایک اشکال اور اس کا جواب
موجودہ دور کے منکرین حدیث سرسری مطالعے کے پیش نظر صحیح بخاری کی اس حدیث پر اشکالات وضع کرتے ہیں اور احادیث سے مسلمانوں کو بدظن کرنے میں مصروف العمل ہیں یہاں پر یہ شبہ ظاہر کیا گیا ہے کہ کعبہ کی تعمیر تو ابراہیم علیہ السلام نے فرمائی تھی اور مسجد اقصیٰ کی تعمیر سلیمان علیہ السلام نے تو پھر ان دونوں کے درمیان چالس سال کا وقفہ کس طرح مستند ہو گا؟ حالانکہ ان دونوں نبیوں کے مابین ہزار سال سے زیادہ کا وقفہ ہے، لہٰذا یہ حدیث درست نہیں ہے۔
الجواب: یاد رکھا جائے، مذکورہ بالا حدیث جو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں اول تعمیر کا ذکر ہے اور یہ تعمیر آدم علیہ السلام ہی کے دور میں ہوئی تھی،
چنانچہ شارحین لکھتے ہیں:
«ويرتفع الاشكال بأن يقال الاية والحديث لا يدلان على بناء ابراهيم وسليمان لما بنيا ابتداء وضعهما لهما بل ذاك تجديد لما كان اسسه غيرهما وبدأه وقد روي ان اول من بنى البيت آدم وعلى هذا فيجوز ان يكون عنده من ولده وضع بيت المقدس من بعده باربعين . انتهي . . . . .»
یعنی آیت اور حدیث پر اعراض اس طرح سے دور کیا جا سکتا ہے کہ ہر دو (آیت اور حدیث) اس امر پر دلالت نہیں کرتی ہیں کہ ان ہر دو کی (بیت اللہ اور بیت المقدس) کی ابتدائی بنیاد ابراہیم علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام نے رکھیں، بلکہ حقیقت یوں ہے کہ ان دونوں مسجدوں کی بنیاد ان دونوں کے علاوہ رکھی گئی ہے اور یہ دونوں ابراہیم علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام ان ہر دو مقامات کی تجدید کرنے والے ہیں اور یہ مروی ہے کہ ابتداء میں بیت اللہ کو سیدنا آدم علیہ السلام نے اس کی بنیاد رکھی تھی۔

امام بیہقی رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب الدلائل میں سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً حدیث نقل فرماتے ہیں کہ:
«بعث الله جبريل الي آدم فأمره ببناء البيت، فبناه آدم، ثم اثره بالطواف به، وقيل له انت اول الناس، وهذا اول بيت وضع للناس .»
یعنی اللہ تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کو آدم علیہ السلام ک طرف بھیجا، اور آپ کو مسجد کی تعمیر کا حکم دیا، پھر آدم علیہ السلام نے اس کی تعمیر فرمائی، پھر آپ کو اس کے طواف کا حکم ملا اور کہا گیا کہ آپ پہلے لوگوں میں سے ہیں جس نے عبادت کی غرض سے لوگوں کے لئے گھر بنایا۔
اس حدیث سے یہ اشکال دور ہوتا ہے کہ سب سے پہلے بیت اللہ جس نے تعمیر کی، وہ آدم علیہ السلام تھے نہ کہ ابراہیم علیہ السلام، کیوں کہ حدیث میں تجدید تعمیر کا ذکر نہیں ہے بلکہ تاسیس تعمیر کا ذکر ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اول البناء ووضع أساس المسجد و ليس ابراهيم أول من بني الكعبة و لا سليمان أول من بني بيت المقدس فقد روينا ان اول من بني الكعبة آدم ثم انتشر ولده فى الارض .»
سب سے پہلی بنیاد مسجد کی رکھنے والے ابراہیم علیہ السلام نہیں ہیں اور نہ ہی مسجد اقصیٰ کی پہلی بنیاد رکھنے والے سلیمان علیہ السلام ہیں، بلکہ روایت کے مطابق مسجد حرام کی سب سے پہلی بنیاد آدم علیہ السلام نے رکھی، پھر اس کے بعد ولد آدم علیہ السلام زمین میں پھیلی۔

امام القرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ان الحديث لا يدل على أن ابرهيم وسليمان لما بنيا المسجدين ابتدا وضعتهما لهما، بل ذالك تحدير لما كان اسسه غيرهما .»
یقیناً حدیث اس بات پر دلالت نہیں کرتی کہ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کی اولین بنیاد ابراہیم علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام نے رکھی، بلکہ (حدیث اس پر دال ہے کہ) انہوں نے مسجدوں کی تجدید کی تھی جو ان سے پہلے بنائی گئی تھیں۔

امام عبدالرزاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
عطاء، سعید بن مسیب، عمرو بن دینار اور امام معمر رحمها اللہ فرماتے ہیں کہ کعبہ کو سب سے پہلے آدم علیہ السلام نے بنایا تھا۔
لہٰذا حدیث زیر بحث میں جن عمارتوں کا ذکر ملتا ہے، وہ آدم علیہ السلام کی تعمیر کردہ ہیں، جو کہ چالیس سال کے وقفے میں رکھی گئیں، نہ کہ یہ عمارتیں ابراہیم علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کی ہیں۔
لہٰذا حدیث پر اعتراض فضول ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 24   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3115  
´مدینہ کی فضیلت کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے، اور ہم اس سے، اور وہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ پر قائم ہے، اور عیر (یہ بھی ایک پہاڑ ہے) جہنم کے باغات میں سے ایک باغ پر قائم ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3115]
اردو حاشہ:
علامہ زہیر شاویش نے فرمایا:
عیر ایک بہت چھوٹا سا پہاڑ ہےجو مدینہ ائیر پورٹ کے قریب واقع ہے۔ 2۔
صحیح مسلم میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی نظر احد پہاڑ پر پڑی تو فرمایا:
یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔ (صحيح مسلم الحجباب فضل المدينه۔
۔
۔
۔
وبيان حدود حرمهاحديث: 1365)

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3115   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4083  
4083. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: یہ اُحد پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4083]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ نے اُحد پہاڑ کے متعلق اپنی محبت کے جذبات کا اظہار متعدد مرتبہ فرمایا، چنانچہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب آپ حجۃ الوداع سے واپس آئے تو آپ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔
کچھ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ غزوہ تبوک سے واپسی پر جب مدینہ طیبہ کے درودیوار نظرآئے تواحد پہاڑ کے متعلق محبت بھرے احساسات کا اظہار فرمایا۔

یہاں ایک اشکال ہے کہ پہاڑ ایک جامد چیز ہے وہ محبت کیسے کرسکتا ہے کیونکہ محبت کرنا ذی روح چیزوں کا کام ہے، بعض حضرات نے اس کا جواب دیا ہے کہ اس سے مراد اہل اُحد، یعنی انصار ہیں جو اُحد کے سائے میں رہتے تھے۔
لیکن اہل تحقیق کا کہنا ہے کہ جمادات میں بھی محبت پائی جاتی ہے، اس لیے احد کی محبت مبنی برحقیقت ہے۔
اس کے فوائد ہم آئندہ حدیث کی تشریح میں ذکر کریں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4083   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.