الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
ایمان کے احکام و مسائل
The Book of Faith
75. باب فِي ذِكْرِ الْمَسِيحِ ابْنِ مَرْيَمَ وَالْمَسِيحِ الدَّجَّالِ:
75. باب: مسیح ابن مریم اور مسیح دجال کا بیان۔
حدیث نمبر: 425
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " اراني ليلة عند الكعبة، فرايت رجلا آدم كاحسن ما انت راء من ادم الرجال، له لمة كاحسن ما انت راء من اللمم، قد رجلها، فهي تقطر ماء متكئا على رجلين، او على عواتق رجلين يطوف بالبيت، فسالت من هذا؟ فقيل: هذا المسيح ابن مريم، ثم إذا انا برجل جعد، قطط اعور العين اليمنى، كانها عنبة طافية، فسالت: من هذا؟ فقيل: هذا المسيح الدجال ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَرَانِي لَيْلَةً عِنْدَ الْكَعْبَةِ، فَرَأَيْتُ رَجُلًا آدَمَ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ، لَهُ لِمَّةٌ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنَ اللِّمَمِ، قَدْ رَجَّلَهَا، فَهِيَ تَقْطُرُ مَاءً مُتَّكِئًا عَلَى رَجُلَيْنِ، أَوْ عَلَى عَوَاتِقِ رَجُلَيْنِ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، فَسَأَلْتُ مَنْ هَذَا؟ فَقِيلَ: هَذَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ، ثُمَّ إِذَا أَنَا بِرَجُلٍ جَعْدٍ، قَطَطٍ أَعْوَرِ الْعَيْنِ الْيُمْنَى، كَأَنَّهَا عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ، فَسَأَلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقِيلَ: هَذَا الْمَسِيحُ الدَّجَّالُ ".
مالک (بن انس) نے نافع سے اور ا نہوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے ایک رات اپنے آپ کو کعبہ کے پاس دیکھا تو میں نے ایک گندم گوں شخص دیکھا، گندم گوں لوگوں میں سے سب سے خوبصورت تھا جنہیں تم دیکھتے ہو، ان کی لمبی لمبی لٹیں تھیں جو ان لٹوں میں سے سب سے خوبصورت تھیں جنہیں تم دیکھتے ہو، ان کو کنگھی کی ہوئی تھی اور ان میں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے، دوآدمیوں کا (یا دو آدمیوں کے کندھوں کا) سہارا لیا ہوا تھا۔ وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ کہا گیا: یہ مسیح ابن مریم رضی اللہ عنہ ہیں۔ پھراچانک میں نے ایک آدمی دیکھا، الجھے ہوئے گھنگریالے بالوں والا، دائیں آنکھ کانی تھی، جیسے انگور کا ابھرا ہوا دانہ ہو، میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو کہاگیا: یہ مسیح دجال (جھوٹا یا مصنوعی مسیح) ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے ایک رات اپنے آپ کو (خواب میں) کعبہ کے پاس دیکھا، تو میں نے ایک گندمی رنگ کا آدمی دیکھا، جو گندمی رنگ مرد تو نے دیکھے ہیں ان میں سب سے زیادہ خوب صورت گندمی رنگ کا تھا۔ اس کے کنگھی کیے ہوئے کانوں کی لو سے نیچے تک آنے والے بہت خوبصورت بال تھے، جیسے تو نے کانوں کی لو سے نیچے آنے والے سب سے زیادہ خوبصورت بال دیکھے ہوں۔ ان بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا۔ وہ دو آدمیوں پر یا دو آدمیوں کے کندھوں کا سہارا لے کر بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ جواب دیا گیا: یہ مسیح بن مریمؑ ہیں۔ پھر میں نے ایک آدمی دیکھا جس کے بال بہت زیادہ گھنگریالے تھے۔ دائیں آنکھ کانی تھی، گویا کہ وہ ابھرا ہوا انگور ہے۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو کہا گیا یہ مسیح دجال ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 169

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في (صحيحه)) في اللباس، باب: الجعد برقم (5902) وفي التعبير، باب: رويا الليل برقم (6999) انظر ((التحفة)) برقم (8373)»

   صحيح البخاري5902عبد الله بن عمرأراني الليلة عند الكعبة فرأيت رجلا آدم كأحسن ما أنت راء من أدم الرجال له لمة كأحسن ما أنت راء من اللمم قد رجلها فهي تقطر ماء متكئا على رجلين أو على عواتق رجلين يطوف بالبيت فسألت من هذا فقيل المسيح ابن مريم وإذا أنا برجل جعد قطط أعور العين اليمنى كأنها عنب
   صحيح مسلم425عبد الله بن عمرأراني ليلة عند الكعبة فرأيت رجلا آدم كأحسن ما أنت راء من أدم الرجال له لمة كأحسن ما أنت راء من اللمم قد رجلها فهي تقطر ماء متكئا على رجلين أو على عواتق رجلين يطوف بالبيت فسألت من هذا فقيل هذا المسيح ابن مريم ثم إذا أنا برجل جعد قطط أعور العين اليمنى كأنها
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم26عبد الله بن عمراراني الليلة عند الكعبة، فرايت رجلا آدم كاحسن ما انت راء من ادم الرجال

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ ابن الحسن محمدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3440  
´سیدنا عیسیٰ بن مریم آسمان پر زندہ ہیں`
«. . . مَنْ هَذَا، فَقَالُوا: هَذَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ . . .»
. . . میں نے پوچھا یہ کون بزرگ ہیں؟ تو فرشتوں نے بتایا کہ یہ مسیح ابن مریم ہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ: 3440]

فوائد و مسائل:
سیدنا عیسیٰ بن مریم آسمان پر زندہ ہیں اور قرب قیامت جسد عنصری کے ساتھ آسمان سے زمین پر اتریں گے، یہ اہل سنت والجماعت کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ ہے۔ اس پر متواتر احادیث اور ائمہ مسلیمن کی تصریحات موجود ہیں:
اہل علم کی تصریحات
اب نزول عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں کچھ اہل علم کی تصریحات بھی ملاحظہ فرمائیں:
◈ حافظ عبدالرحمٰن بن احمد، ابن رجب رحمہ اللہ (736۔ 795ھ) فرماتے ہیں:
«وبالشام ينزل عيسى ابن مريم فى آخر الزمان، وهو المبشر بمحمد صلى الله عليه وسلم، ويحكم به، ولا يقبل من أحد غير دينه، فيكسر الصليب، ويقتل الخنزير ويضع الجزية، ويصلي خلف إمام المسلمين، ويقول: إن هذه الأمة أئمة بعضهم لبعض .»
قرب قیامت شام میں عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اتریں گے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ان ہی کے نزول کی خوشخبری دی گئی ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق ہی فیصلے کریں گے، کسی سے اسلام کے علاوہ کوئی دین قبول نہیں کریں گے، صلیب توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کر دیں گے، جزیہ ختم کر دیں گے اور مسلمانوں کے امام کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے اور فرمائیں گے: اس امت کے بعض افراد ہی ان کے لیے امام ہیں۔ [لطائف المعارف، ص: 90]

◈ امام، ابوالحسن، علی بن اسماعیل، اشعری رحمہ اللہ (260۔ 324ھ) اہل سنت والجماعت کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«ويصدقون بخروج الدجال، وان عيسى ابن مريم يقتله .»
اہل سنت دجال کے خروج اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے اسے قتل کرنے کی تصدیق کرتے ہیں۔
آگے چل کر لکھتے ہیں:
«وبكل ما ذكرنا من قولهم نقول، واليه نذهب .»
اہل سنت کے جو اقوال ہم نے ذکر کیے ہیں، ہم بھی انہی کے مطابق کہتے ہیں اور یہی ہمارا مذہب ہیں۔ [مقالات الاسلاميّين واختلاف المصلين: 1/ 324]

◈ امام، ابومظفر، منصور بن محمد، سمعانی رحمه الله (426-489ھ) فرماتے ہیں:
«وقال عليه الصلاة والسلام: رايت المسيح ابن مريم يطوف بالبيت .» [صحيح بخاري: 3440، صحيح مسلم: 169] «فدل على ان الصحيح انه فى الاحياء»
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے (خواب میں) مسیح ابن مریم کو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري: 3440، صحيح مسلم: 169] اس سے معلوم ہوا کہ صحیح بات یہی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ [تفسير السمعاني: 325/1]

◈ شارح صحیح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773۔ 852ھ) فرماتے ہیں:
«ان عيسي قد رفع، وهو حي على الصحيح»
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اٹھا لیا گیا تھا اور صحیح قول کے مطابق وہ زندہ ہیں۔ [فتح الباري شرح صحيح البخاري: 375/6]

◈ شارح صحیح بخاری، علامہ، محمود بن احمد، عینی حنفی (762۔ 855ھ) لکھتے ہیں:
«ولا شك ان عيسي فى السماء، وهو حي، ويفعل الله فى خلقه ما يشاء .»
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ عیسٰی علیہ السلام آسمان میں ہیں اور زندہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں جو چاہے کرتا ہے۔ [عمدة القاري: 24/ 160]

◈ حافظ، ابوفدا، اسماعیل بن عمر، ابن کثیر رحمہ اللہ (700۔ 774ھ) فرماتے ہیں:
«وهذا هو المقصود من السياق الإخبار بحياته الآن فى السماء، وليس الأمر كما يزعمه أهل الكتاب الجهلة أنهم صلبوه، بل رفعه الله إليه، ثم ينزل من السماء قبل يوم القيامة، كما دلت عليه الاحاديث المتواترة .»
حدیث کے سیاق سے یہ خبر دینا مقصود ہے کہ اب عیسیٰ علیہ السلام آسمان میں زندہ ہیں۔ جاہل اہل کتاب جو دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دے دی تھی، تو ایسا بالکل نہیں ہوا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اوپر اٹھا لیا تھا۔ قیامت سے پہلے آپ آسمان سے تریں گے، جیسا کہ متواتر احادیث بتاتی ہیں۔ [البداية والنهاية: 19/ 218، طبعة دار هجر]
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 72، حدیث\صفحہ نمبر: 22   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 26  
´عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کا بیان`
«. . . 253- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: أراني الليلة عند الكعبة، فرأيت رجلا آدم كأحسن ما أنت راء من أدم الرجال، له لمة كأحسن ما أنت راء من اللمم، قد رجلها فهي تقطر ماء، متكئا على رجلين، أو على عواتق رجلين يطوف بالبيت، فسألت: من هذا؟، فقيل لي: المسيح ابن مريم، ثم إذا أنا برجل جعد قطط أعور العين اليمنى، كأنها عنبة طافية، فسألت: من هذا؟، فقيل: هذا المسيح الدجال . . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج رات (اللہ نے) مجھے خواب دکھایا کہ میں کعبہ کے پاس ہوں، پھر میں نے ایک گندمی رنگ کا آدمی دیکھا، تم نے جو گندمی لوگ دیکھے ہیں وہ ان میں سب سے خوبصورت تھا، تم نے کندھوں تک سر کے جو لمبے بال دیکھے ہیں ان میں سب سے زیادہ خوبصورت اس کے بال تھے جنہیں اس نے کنگھی کیا تھا، پانی کے قطرے اس کے بالوں سے گر رہے تھے، اس شخص نے دو آدمیوں یا ان کے کندھوں پر سہارا لیا ہوا تھا اور بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ بتایا گیا کہ یہ مسیح ابن مریم ہیں، پھر میں نے ایک آدمی دیکھا جو دائیں آنکھ سے کانا تھا اور اس کے بال بہت زیادہ گھنگریالے تھے، اس کی (کانی) آنکھ اس طرح تھی جیسے پھولے ہوئے انگور کا دانہ ہے میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ کہا گیا: یہ مسیح دجال ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 26]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5902، ومسلم 273/169، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج والی رات میں عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا، آپ «جَعْدٌ مَرْبُوْعٌ» گھنگریالے بال والے میانہ قد کے تھے۔ [صحيح بخاري: 3396]
معلوم ہوا کہ آسمان پر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بال گھنگھریالے تھے اور زمین پر نزول کے بعد کنگھی کرنے کی وجہ سے بال برابر اور خوبصورت ہوں گے۔ اس طرح دونوں روایتوں میں تطبیق ہوجاتی ہے۔ بعض منکرین ختم نبوت ان دو روایتوں کی وجہ سے دو عیسیٰ علیہ السلام ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ مردود ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام «رَجُلاً آدَمَ طِوَالاً جَعْدًا» گندمی رنگ والے لمبے قد اور گھنگریالے بالوں والے تھے۔ [صحيح بخاري: 3396]
◈ دوسری میں آیا ہے: «رَجُلٌ ضَرْبٌ رَجِلٌ» دُبلے سیدھے بال والے تھے۔ [صحيح بخاري: 3394]
کیا حلیے کے اس ظاہری اختلاف کی وجہ سے یہ عقیدہ رکھا جائے گا کہ موسیٰ علیہ السلام بھی دو ہیں؟ نیز دیکھئے محمدیہ پاکٹ بک [ص593، 594] وہاں دوسری لغوی بحث بھی ہے۔
➋ عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد موقع ملنے پر بیت اللہ کا حج کریں گے۔ ➌ دجال اکبر کوشش کرے گا کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کو چاروں طرف سے گھیر لے۔ یاد رہے کہ دجال کا مکے اور مدینے میں داخلہ حرام ہے۔
➍ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ عیسٰی علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔ دیکھئے [كشف الاستار عن زوائد البزار 142/4ح 3396، وسنده صحيح]
➎ کانا دجال ایک آدمی ہے جو قیامت سے پہلے ظاہر ہو گا۔ اس سے کوئی خاص قوم یا قبیلہ وغیرہ مراد لینا غلط ہے۔
➏ نبی کا خواب حجت ہوتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 253   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 425  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
كَعْبَة:
مربع (چوکور)
گھر کو کہتے ہیں۔
یا گول اور بلند چیز کو کہتے ہیں۔
(2)
لِمَّةٌ:
جمع لِمَم،
وہ بال جو کانوں کی لو سے نیچے تک لٹکتے ہوں۔
(3)
قَدْ رَجَّلَهَا:
ان میں کنگھی کی ہوئی تھی۔
(4)
تَقْطُرُ مَاءً:
ان سے حقیقتاً پانی ٹپک رہا تھا،
یا تروتازگی میں ایسے تھے جو ان بالوں میں ہوتی ہے،
جو پانی سے تر ہوتے ہیں۔
(5)
عَوَاتِقٌ:
عَاتِقٌ کی جمع ہے،
شانہ،
کندھا۔
(6)
جَعْدٌ:
گھنگھریالے،
خمیدہ۔
(7)
قَطَطٌ:
بہت زیادہ گھنگھریالے بال۔
(رَجُل قَطّ وَ قَطَط)
۔
(8)
عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ:
ابھرا یا پھولا ہوا انگور،
جو دوسرے انگوروں سے ابھرا ہوا ہو۔
فوائد ومسائل:
(1)
حضرت عیسیٰ بن مریمؑ کو اس لیے مسیح کہتے ہیں،
کہ جب وہ کسی بیمارپر ہاتھ پھیرتے تھے تو وہ تندرست ہو جاتا تھا،
اور دجال کو مسیح اس لیے کہتے ہیں،
کہ اس کی آنکھیں ممسوحۃ (مٹی)
ہوئی ہیں،
یا اس لیے کہ وہ کانا ہے۔
یا اس لیے کہ خیر سے وہ محروم ہے۔
(2)
اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کو مختلف انبیاءؑ کو زندگی کے مختلف مراحل میں،
مختلف کام کرتے دکھایا ہے،
اسی طرح مختلف مقامات پر دکھایا ہے،
اور آج کے سائنسی دور میں اس کو سمجھنا بالکل آسان ہوگیا ہے۔
ایک انسان ایک جگہ تقریر کر رہا ہوتا ہے،
یا ایک ملک میں کوئی خاص غمی یا خوشی کی تقریب منعقد ہوتی ہے تو وہ تمام دنیا میں دکھائی دیتی ہے،
اور ہر جگہ یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ تقریر یا تقریب یہیں ہو رہی ہے۔
اگر ایک انسان جس کی اس پوری کائنات میں ایک ذرے کی حیثیت ہے،
اس کی عقل یہ کام کر رہی تو پوری کائنات کے خالق ومالک کی قدرت اور علم جس کا کوئی کنارہ اور حد نہیں ہے،
وہ اگر انبیاءؑ کو زندگی کے مختلف کام کرتے،
زندگی کے مختلف مراحل میں جہاں چاہے دکھا دے،
تو اس میں کیا استبعاد ہو سکتا ہے؟ چونکہ انبیاءؑ زندگی کے مختلف مراحل میں،
مختلف کام کرتے دکھائے گئے ہیں،
اس لیے بعض دفعہ،
ایک دفعہ دیکھنے کے بعد دوبارہ دیکھتے وقت آپ کو پہچان نہیں آسکی،
اور بعض جگہ حلیہ بیا ن کرنے میں بھی اختلاف ہو گیا ہے،
تو یہ درحقیقت اختلاف نہیں ہے۔
زندگی کے مختلف مراحل یا عمر کے اختلاف سے شکل وصورت میں فرق پڑجاتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 425   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.