الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
قتل کی ذمہ داری کے تعین کے لیے اجتماعی قسموں، لوٹ مار کرنے والوں (کی سزا)، قصاص اور دیت کے مسائل
The Book of Muharibin, Qasas (Retaliation), and Diyat (Blood Money)
5. باب إِثْبَاتِ الْقِصَاصِ فِي الأَسْنَانِ وَمَا فِي مَعْنَاهَا:
5. باب: دانتوں میں قصاص کا بیان۔
Chapter: The validity of Qisas for teeth and the like
حدیث نمبر: 4374
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عفان بن مسلم ، حدثنا حماد ، اخبرنا ثابت ، عن انس " ان اخت الربيع ام حارثة جرحت إنسانا، فاختصموا إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: القصاص القصاص، فقالت ام الربيع: يا رسول الله، ايقتص من فلانة والله لا يقتص منها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: سبحان الله يا ام الربيع القصاص كتاب الله، قالت: لا والله لا يقتص منها ابدا، قال: فما زالت حتى قبلوا الدية، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن من عباد الله من لو اقسم على الله لابره ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ " أَنَّ أُخْتَ الرُّبَيِّعِ أُمَّ حَارِثَةَ جَرَحَتْ إِنْسَانًا، فَاخْتَصَمُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْقِصَاصَ الْقِصَاصَ، فَقَالَتْ أُمُّ الرَّبِيعِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُقْتَصُّ مِنْ فُلَانَةَ وَاللَّهِ لَا يُقْتَصُّ مِنْهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سُبْحَانَ اللَّهِ يَا أُمَّ الرَّبِيعِ الْقِصَاصُ كِتَابُ اللَّهِ، قَالَتْ: لَا وَاللَّهِ لَا يُقْتَصُّ مِنْهَا أَبَدًا، قَالَ: فَمَا زَالَتْ حَتَّى قَبِلُوا الدِّيَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ ".
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رُبیع رضی اللہ عنہا (بنت نضر بن ضمضم) کی بہن، ام حارثہ نے کسی انسان کو زخمی کیا (انہوں نے ایک لڑکی کو تھپڑ مار کر اس کا دانت توڑ دیا، صحیح بخاری) تو وہ مقدمہ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قصاص! قصاص!" تو ام رُبیع رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا فلاں عورت سے قصاص لیا جائے گا؟ اللہ کی قسم! اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سبحان اللہ! اے ام ربیع! قصاص اللہ کی کتاب (کا حصہ) ہے۔" انہوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! اس سے کبھی قصاص نہیں لیا جائے گا (اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسا نہیں ہونے دے گا۔) کہا: وہ مسلسل اسی بات پر (ڈٹی) رہیں حتی کہ وہ لوگ دیت پر راضی ہو گئے۔ تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کے بندوں میں سے کچھ ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ پر قسم کھائیں تو وہ ضرور اسے سچا کر دیتا ہے
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، کہ ربیع کی بہن، حارثہ کی ماں نے ایک انسان کو زخمی کر ڈالا، تو فریقین مقدمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قصاص، قصاص، یعنی بدلہ دینا ہو گا۔ تو ربیع کی ماں کہنے لگی، اے اللہ کے رسول! کیا فلاں عورت سے قصاص لیا جائے گا؟ اللہ کی قسم! اس سے کبھی بھی قصاص نہیں لیا جائے گا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (استعجاب و حیرت سے) فرمایا: سبحان اللہ! ربیع کی ماں! اللہ کا قانون قصاص ہے۔ اس نے کہا، نہیں، اللہ کی قسم، اس سے کبھی قصاص نہیں لیا جائے گا، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، اس پر تکرار جاری رہا، حتی کہ دوسرے فریق نے دیت کو قبول کر لیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں، اگر وہ اللہ کے بھروسہ پر قسم اٹھائیں، تو اللہ اس کو پوری کر دیتا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1675

   صحيح البخاري6894أنس بن مالكلطمت جارية فكسرت ثنيتها فأتوا النبي فأمر بالقصاص
   صحيح البخاري4499أنس بن مالككتاب الله القصاص
   صحيح مسلم4374أنس بن مالكالقصاص القصاص فقالت أم الربيع يا رسول الله أيقتص من فلانة والله لا يقتص منها فقال النبي سبحان الله يا أم الربيع القصاص كتاب الله قالت لا والله لا يقتص منها أبدا قال فما زالت حتى قبلوا الدية فقال رسول الله إن من عباد الله من لو أقسم على الله لأبره
   سنن النسائى الصغرى4756أنس بن مالككتاب الله القصاص

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4374  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
ربیع سے مراد،
ربیع بنت نضر بن ضمضم ہیں،
جو حضرت انس بن مالک بن نضر کی پھوپھی ہیں،
اور حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ ہیں،
اور حارثہ سے مراد،
حارثہ بن سراقہ ہے،
جو غزوہ بدر میں شہید ہو گیا تھا،
اور ام الربیع نے،
جبﷺ آپ نے قصاص کا فیصلہ سنایا کہ اللہ کا قانون،
اگر ولی معاف نہ کریں،
تو قصاص ہے،
جواباً کہا،
اللہ کی قسم،
مجھے اللہ تعالیٰ پر اعتماد و بھروسہ ہے،
کہ فریق مخالف معافی یا دیت پر راضی ہو جائے گا،
اس لیے عملاً قصاص کا واقعہ پیش نہیں آئے گا،
اسی بناء پر آپﷺ نے آخر میں فرمایا:
اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں،
اگر وہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے،
اللہ کی قسم اٹھائیں،
تو ان کی قسم پوری کر دیتا ہے اس لیے یہ اعتراض پیدا نہیں ہو سکتا،
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قصاص کے فیصلہ کا ام ربیع نے انکار کیا،
اگر اس نے انکار کیا ہوتا،
تو آپﷺ اس کی تعریف نہ فرماتے،
بلکہ غصہ اور ناراضی کا اظہار فرماتے،
اس لیے ہر متکلم کے الفاظ کے ظاہری معنی پر اصرار نہیں کرنا چاہیے،
یا کسی نیک سیرت اور باکردار،
صاحب تقویٰ کے ظاہری قول و فعل پر فورا،
کفر یا گناہ گار ہونے کا فتویٰ نہیں لگانا چاہیے،
بلکہ اس کا مقصد اور مراد معلوم کرنے کی کوشش کرنا چاہیے،
اور اس کے احوال و ظروف کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ کہیں جذباتی طور پر،
فرح یا حزن کی شدت کی بناء پر غیر شعوری طور پر یا تعبیر کی کوتاہی کی بناء پر،
تو اس سے یہ حرکت سرزد نہیں ہو گی،
کیونکہ انسان کے ہر فعل و قول کو اس کی سیرت و کردار اور عمومی رویہ کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مردوں اور عورتوں کا باہمی قصاص اور بدلہ جس طرح جان و نفس میں ہے،
اس طرح اطراف اور اعضاء و جوارح میں بھی ہے،
جان و نفس میں مرد اور عورت کے درمیان قصاص ہے،
اس پر ائمہ اربعہ اور جمہور کا اتفاق ہے۔
(المغني،
ج 11،
ص 500 مسئلہ نمبر 1432)

اطراف و اعضاء میں قصاص کے بارے میں اختلاف ہے،
ائمہ حجاز مالک،
شافعی،
اور احمد کے نزدیک یہاں بھی مرد اور عورت میں قصاص جاری ہو گا،
لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک اطراف میں مرد اور عورت میں قصاص نہیں ہے،
ایسی صورت میں دیت ہو گی۔
(3)
صحیح مسلم کی مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوتا ہے،
جنایت یا جرم کا ارتکاب ربیع کی بہن نے کیا تھا،
جبکہ بخاری شریف کی روایات سے معلوم ہوتا ہے،
زیادتی کا ارتکاب خود ربیع نے کیا تھا،
اس طرح صحیح مسلم کی روایت میں زخمی کرنے کا تذکرہ ہے،
جبکہ بخاری میں،
ثنیہ دانت توڑنے کا ذکر ہے،
تیسرا اختلاف یہ ہے،
صحیح مسلم کی روایت کی رو سے،
قسم ربیع کی ماں نے اٹھائی ہے،
اور بخاری کی اکثر روایات کی رو سے،
ربیع کے بھائی،
حضرت انس رضی اللہ عنہ کے چچا،
انس بن نضر نے اٹھائی تھی،
اس لیے اس تعارض کو دور کرنے میں شارحین میں اختلاف ہے،
بعض حضرات کا خیال ہے،
یہ دو واقعات ہیں،
ایک واقعہ میں ربیع کی بہن نے کسی انسان کو زخمی کیا تھا،
اور قسم اس کی ماں نے اٹھائی،
دوسرے میں ربیع نے ایک عورت کا سامنے کا دانت توڑا،
اور قسم اس کے بھائی انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے اٹھائی،
اور بعض حضرات کے نزدیک واقعہ ایک ہی ہے،
زخمی کرنا اور دانت توڑنا،
اس میں کوئی تعارض نہیں ہے،
اور جرم کا ارتکاب،
انس بن نضر رضی اللہ عنہ کی بہن،
ربیع نے کیا تھا۔
راوی کا یہ وہم کہ اس نے اس کو اخت الربيع بنا دیا،
اس لیے امام بیہقی نے کہا ہے،
اگر یہ واقعات نہیں ہیں،
تو پھر ثابت کی روایت کو ترجیح ہے،
اگرچہ حافظ ابن حجر کا میلان اس طرف ہے کہ واقعات دو ہیں،
اور واقعہ ایک ہونے کی صورت میں قسم اٹھانے والے حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ ہیں،
صحیح بات یہی ہے کہ صحیح بخاری کی روایت کو ترجیح حاصل ہے اور وہ حمید سے ہے،
ثابت سے نہیں ہے۔
اس لیے امام بیہقی کا ثابت کی روایت کو ترجیح دینا جو مسلم کی روایت ہے،
درست نہیں ہے،
اور دو واقعات بنانے میں بھی کوئی اشکال نہیں ہے،
کیونکہ دونوں واقعات کا راوی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہے،
جو اس خاندان کا چشم و چراغ ہے،
اور اس سے بیان کرنے والے دونوں شاگرد ثابت اور حمید بھی ان سے طویل ملازمت رکھنے والے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4374   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.