الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
83. بَابُ كِتَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى كِسْرَى وَقَيْصَرَ:
83. باب: کسریٰ (شاہ ایران) اور قیصر (شاہ روم) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطوط لکھنا۔
(83) Chapter. The letter of the Prophet to Kisra (Khosrau) and Qaiser (Caesar).
حدیث نمبر: 4424
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسحاق، حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابي، عن صالح، عن ابن شهاب، قال: اخبرني عبيد الله بن عبد الله، ان ابن عباس اخبره:" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث بكتابه إلى كسرى مع عبد الله بن حذافة السهمي، فامره ان يدفعه إلى عظيم البحرين، فدفعه عظيم البحرين إلى كسرى، فلما قراه مزقه، فحسبت ان ابن المسيب، قال: فدعا عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يمزقوا كل ممزق".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ:" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ بِكِتَابِهِ إِلَى كِسْرَى مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِيِّ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَدْفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ الْبَحْرَيْنِ، فَدَفَعَهُ عَظِيمُ الْبَحْرَيْنِ إِلَى كِسْرَى، فَلَمَّا قَرَأَهُ مَزَّقَهُ، فَحَسِبْتُ أَنَّ ابْنَ الْمُسَيَّبِ، قَالَ: فَدَعَا عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُمَزَّقُوا كُلَّ مُمَزَّقٍ".
ہم سے اسحاق بن رباح نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد (ابراہیم بن سعد) نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (شاہ فارس) کسریٰ کے پاس اپنا خط عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کو دے کر بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ یہ خط بحرین کے گورنر کو دے دیں (جو کسریٰ کا عالم تھا) کسریٰ نے جب آپ کا خط مبارک پڑھا تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔ میرا خیال ہے کہ ابن مسیب نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بددعا کی کہ وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔

Narrated Ibn `Abbas: Allah's Apostle sent a letter to Khosrau with `Abdullah bin Hudhafa As-Sahmi and told him to hand it over to the governor of Al-Bahrain. The governor of Al-Bahrain handed it over to Khosrau, and when he read the latter, he tore it into pieces. (The sub-narrator added, "I think that Ibn Al-Musaiyab said, 'Allah 's Apostle invoked (Allah) to tear them all totally Khosrau and his companions) into pieces.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 708


   صحيح البخاري7264عبد الله بن عباسبعث بكتابه إلى كسرى فأمره أن يدفعه إلى عظيم البحرين يدفعه عظيم البحرين إلى كسرى فلما قرأه كسرى مزقه فحسبت أن ابن المسيب قال فدعا عليهم رسول الله أن يمزقوا كل ممزق
   صحيح البخاري2939عبد الله بن عباسبعث بكتابه إلى كسرى فأمره أن يدفعه إلى عظيم البحرين يدفعه عظيم البحرين إلى كسرى فلما قرأه كسرى حرقه فحسبت أن سعيد بن المسيب قال فدعا عليهم النبي أن يمزقوا كل ممزق
   صحيح البخاري2936عبد الله بن عباسإن توليت فإن عليك إثم الأريسيين
   صحيح البخاري64عبد الله بن عباسبعث بكتابه رجلا وأمره أن يدفعه إلى عظيم البحرين فدفعه عظيم البحرين إلى كسرى فلما قرأه مزقه فدعا عليهم رسول الله أن يمزقوا كل ممزق
   صحيح البخاري4424عبد الله بن عباسدعا عليهم رسول الله أن يمزقوا كل ممزق

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 64  
´اہل ایران کے لیے بددعا`
«. . . فَدَعَا عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُمَزَّقُوا كُلَّ مُمَزَّقٍ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایران کے لیے بددعا کی کہ وہ (بھی چاک شدہ خط کی طرح) ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 64]

تشریح:
اللہ نے بہت جلد اپنے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا اثر ظاہر کر دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 64   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4424  
4424. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا خط حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی ؓ کے ذریعے سے کسرٰی بادشاہ کی طرف روانہ کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ یہ خط بحرین کے گورنر کو دیں اور بحرین کا گورنر یہ خط کسرٰی کو پہنچائے گا۔ کسرٰی نے جب آپ کا خط مبارک پڑھا تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ راوی کے گمان کے مطابق امام ابن مسیب نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس پر بددعا کی کہ وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4424]
حدیث حاشیہ:
کسریٰ نے صرف یہی گستاخی نہیں کی بلکہ اپنے گورنر باذان کو لکھا کہ وہ مدینہ جا کر اس نبی سے ملیں اگر وہ دعویٰ نبوت سے توبہ کرے تو بہتر ہے ورنہ اس کا سر اتار کر میرے پاس حاضر کریں۔
چنانچہ باذان مدینہ آیا اور اس نے کسریٰ کا یہ فرمان سنایا۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم کو معلوم ہونا چاہئیے کہ آج رات کو میرے رب تعالیٰ نے اسے اس کے بیٹے شیرویہ کے ہاتھ سے قتل کرا دیا ہے اور اب تمہاری حکومت پارہ پارہ ہو نے والی ہے۔
یہ واقعہ 7ھ میں بماہ جمادی الاول ہوا۔
چھ ماہ تک شیرویہ فارس کا بادشاہ رہا۔
ایک دن خزانے میں اس کو ایک دوا کی شیشی ملی جس پر قوت باہ کی دوا لکھا ہوا تھا۔
اس نے اسے کھایا اور ہلاک ہو گیا۔
اس کے بعد کسریٰ کی پوتی پوران نامی قومی حاکم ہوئی جو شیرویہ کی بیٹی تھی جس کے لیے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ قوم کیسے فلاح پا سکتی ہے جس پر عورت حاکم ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4424   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2936  
´مسلمان اہل کتاب کو دین کی بات بتلائے یا ان کو قرآن سکھائے؟`
«. . . أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى قَيْصَرَ، وَقَالَ:" فَإِنْ تَوَلَّيْتَ، فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (روم کے بادشاہ) قیصر کو (خط) لکھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی لکھا تھا کہ اگر تم نے (اسلام کی دعوت سے) منہ موڑا تو (اپنے گناہ کے ساتھ) ان کاشتکاروں کا بھی گناہ تم پر پڑے گا (جن پر تم حکمرانی کر رہے ہو)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2936]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2936 کا باب: «بَابُ هَلْ يُرْشِدُ الْمُسْلِمُ أَهْلَ الْكِتَابِ أَوْ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں اہل کتاب کو دین سکھانے اور قرآن کی تعلیم دینے پر جواز پیش فرمایا ہے، مگر دلیل کے طور پر ترجمۃ الباب سے حدیث کا تعلق نظر نہیں آتا، کیونکہ حدیث میں کسی آیت کے سکھانے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ ترجمۃ الباب سے امام بخاری رحمہ اللہ کا رحجان یہ نظر آتا ہے کہ اہل کتاب کو دین اور قرآن سکھایا جا سکتا ہے مگر حدیث میں ایسی کوئی صراحت موجود نہیں ہے۔
در اصل امام بخاری رحمہ اللہ نے اس جگہ پر اس حدیث کو مختصرا ذکر فرمایا ہے اور مکمل حدیث «باب دعا النبى صلى الله عليه وسلم إلى الاسلام والنبوة» میں ذکر فرمائی ہے جس میں واضح طور پر وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قیصر کی طرف خط بھیجا تو اس میں قرآن مجید کی آیت درج کروائی تھی:
« ﴿قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ﴾ » [آل عمران: 64]
لہذا یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ظاہر ہوتی ہے، مذکورہ بالا ترجمۃ الباب کے دو اجزاء ہیں، پہلے جزء کی مناسبت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور فرمایا: «فان توليت» کیونکہ یہ جملہ اور اس کا انداز بیان بتا دیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں رشد کی طرف دعوت دے رہے ہیں، دوسرا جزء یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فان عليك اثم الأريسينين.» یہ ذکر اور وعید ہے۔ ان دونوں کی مناسبت بھی ترجمۃ الباب سے واضح ہے۔
لہذا ترجمۃ الباب میں اس طرف اشارہ ہوا کہ مسلمانوں کو خصوصا مسلمان حکمرانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ کافروں اور اہل کتاب پر دین اسلام کی دعوت پیش کریں۔
ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اہل کتاب کی رہنمائی اور انہیں دین اسلام کی دعوت دینا مسلمان حاکموں پر واجب ہے، اور یہ ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ [شرح ابن بطال، ج 5، ص: 116]
فائدہ نمبر 1:
کافر جس کو قرآن کی تعلیم دینے کا حکم ہے۔
اس مسئلے میں ائمہ کا اختلاف رہا ہے کہ آیا کافروں کو قرآن کی تعلیم دی جا سکتی ہے کہ نہیں، بعض اہل علم کا رحجان اس طرف ہے کہ کافروں کو دعوت نہیں دی جا سکتی، اور بعض کا رحجان اس طرف ہے کہ اگر ان کا اسلام قبول کرنا ممکن ہو اور امید ہو تو جائز ہے۔
① امام مالک رحمہ اللہ کا رحجان اور ان کے دلائل:
امام مالک رحمہ اللہ مطلقا ناجائز قرار دیتے ہیں۔ (دیکھئے: [اكمال اكمال المعلم على شرح صحيح مسلم 5/216])
امام مالک رحمہ اللہ قرآن مجید کی اس آیت سے اپنے موقف کو ثابت کرتے ہیں: « ﴿إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ﴾ » [التوبة: 28] یعنی مشرکین ناپاک ہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ کا استدلال اس حدیث سے بھی ہے، چنانچہ حدیث میں موجود ہے:
«نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يسافر بالقرآن إلى أرض العدو.» [صحيح مسلم، كتاب الإمارة، رقم: 4840]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کے ملک کی طرف قرآن مجید ساتھ لے کر سفر کرنے سے منع فرمایا ہے۔
اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ بعض مالکیہ بطور وعظ و نصیحت کے ایک یا دو آیات کے جواز کے قائل بھی ہیں۔ [اكمال الكمال المعلم: 5/216]
احناف کے دلائل:
احناف کا رحجان اس طرف ہے کہ کافر چاہے حربی ہو یا ذمی اسے قرآن وغیرہ سکھانے میں کوئی حرج نہیں، احناف نے اپنے موقف کے لئے یہ آیت پیش فرمائی ہیں:
« ﴿وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللّٰهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ﴾ » [التوبة: 6]
اگر کوئی مشرک آپ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دیں تاکہ وہ اللہ کا کلام سنے۔
احناف کی دلیل حدیث سے:
«مر النبى صلى الله عليه وسلم على عبدالله ابن أبى قبل أن يسلم وفي المجلس اخلاط من المسلمين و المشركين واليهود فقراء عليهم القرآن.» [عمدة القاري، ج 14، ص: 306]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کے پاس سے گزرے ان کے اسلام لانے سے قبل اور اس مجلس میں مسلمان، مشرکین اور یہودی موجود تھے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو قرآن سنایا۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا رحجان:
امام شافعی رحمہ اللہ سے دونوں طرح کے اقوال ثابت ہیں:
[اكمال اكمال المعلم و شرح على صحيح مسلم، 57، ص: 117 - فتح الباري، ج 6، ص: 133]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا رحجان:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اسلام قبول کرنے کی شرط پر جائز قرار دیتے ہیں، چنانچہ ان کے نزدیک اگر اسلام قبول کرنے کی امید نہ ہو تو کفار کو قرآن کی تعلیم دینا جائز نہیں۔ [المغني لابن قدامة، ج 9، ص: 289]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا رحجان:
«والذي يظهر أن الراجح التفصيل بين من يرجى منه الرغبة فى الدين والدخول فيه . . .» [فتح الباري، ج 6، ص: 133]
میرے نزدیک جو بات ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں یہ امید ہو کہ وہ اسلام میں داخل ہو جائے گا اور اس کی رغبت ہو اسلام کی طرف، یا کم سے کم اس سے نقصان کا خطرہ نہ ہو تو اسے قرآن سمجھانے میں کوئی حرج نہیں۔
مذکورہ بالا ائمہ کے دلائل کو دیکھا جائے اور ان پر غور کیا جائے تو یہی (Conditions) سامنے آتی ہیں جس کا ذکر حافظ صاحب نے فرمایا۔
ہرقل اور قیصر کی طرف جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطوط بھیجے اس میں یہ امید تھی کہ کوئی نہ کوئی ایمان لے آئے گا اور کئی مواقع پر اس قسم کی نصرت الہی ظاہر ہوئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کے شہر یا ملک میں قرآن لے جانے سے منع فرمایا اسی وجہ سے کہ وہاں بےادبی اور گستاخی جیسے رویہ کا خطرہ موجود ہو، لہذا امام بخاری رحمہ اللہ کا میلان اور رحجان اس طرف ہے کہ کافروں کی راہنمائی کی جا سکتی ہے اور انہیں قرآن کی تعلیم بھی دی جاسکتی ہے۔
فائدہ نمبر 2:
مذکورہ بالا حدیث میں یہ الفاظ موجود ہیں: «أن رسول الله كتب . . .» کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا۔ یاد رہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان پڑھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا اور پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«أن النبى صلى الله عليه وسلم كتب إلى قيصر، و حديثه كتب إلى النجاشي، و حديثه كتب إلى كسرى، و حديث عبدالله بن عكيم كتب إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وغير هذه الأحاديث كلها محمولة على أمر الكاتب.» [تلخيص الحبير، ج 3، ص: 128]
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا قیصر کی طرف، کسری کی طرف اور عبداللہ بن عکیم نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا ہماری طرف، اس کے علاوہ اور بھی جتنی احادیث میں نبی کریم صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موجود ہے وہ سب احادیث اس امر پر محمول ہیں کہ لکھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (خود نہیں لکھا بلکہ) کاتبوں سے لکھوایا۔ [تلخيص الحبير لابن حجر عسقلاني، ج 3، ص: 128 - سير اعلام النبلاء للذهبي، ج 9، ص: 437] یا پھر راقم کی کتاب [تفهيم حديث، ج 1، ص: 73-80]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 415   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4424  
4424. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا خط حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی ؓ کے ذریعے سے کسرٰی بادشاہ کی طرف روانہ کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ یہ خط بحرین کے گورنر کو دیں اور بحرین کا گورنر یہ خط کسرٰی کو پہنچائے گا۔ کسرٰی نے جب آپ کا خط مبارک پڑھا تو اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ راوی کے گمان کے مطابق امام ابن مسیب نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس پر بددعا کی کہ وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4424]
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
شاہ فارس کسری نے صرف خط پھاڑنے کی گستاخی نہیں کی بلکہ اپنے گورنر باذان کو لکھا کہ مدینہ طیبہ جا کر اس آدمی سے ملے اگر وہ دعوائے نبوت سے توبہ کر لے تو بہتر بصورت دیگر اس کا سر اتار کر میرے پاس حاضر کرے چنانچہ باذان مدینے آیا اور اس نے کسری کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
آج رات میرے رب نے اسے اس کے بیٹے شیرویہ کے ہاتھوں قتل کرا دیا ہے اور اب تمھاری حکومت پارہ پارہ ہونے والی ہےچنانچہ چھ ماہ تک اس کا بیٹا شرویہ فارس کا بادشاہ رہا پھر وہ بھی زہرکھا کر ہلاک ہو گیا۔
بالآخر حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں یہ سلطنت تباہ و برباد ہوگئی اور ہزار سالہ آتش کدہ ہمیشہ کے لیے بجھ گیا۔
(فتح الباري: 160/8)
رسول اللہ ﷺ نے مختلف بادشاہوں کی طرف دعوتی خطوط روانہ کیے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
۔
اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس کی طرف حاطب بن ابی بلتعہ
۔
غسان کے بادشاہ حارث بن ابی شمر کی طرف شجاع بن وہب
حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی طرف عمرو بن امیہ
روم کے بادشاہ قیصر کی طرف وحیہ کلبی
شاہ فارس کسری کی طرف عبد اللہ بن حذافہ۔
سلیط بن عمرو کو ہوزہ بن علی حنفی کی طرف روانہ کیا، نیز عمرو بن عاص ؓ کو جیفر اور عباد کی طرف بھیجا، تمام قاصد رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں واپس آگئے لیکن حضرت عمرو بن عاص ؓ آپ کی وفات کے بعد کے واپس آئے۔
(فتح الباري: 160/8)
اللہ کے رسول اللہ ﷺ کا خط جو ایرانی سپر پاور کے بادشاہ خسرو پرویز کو لکھا گیا۔
خط مبارک پھٹا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
اصل حالت میں آج بھی موجود ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4424   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.