الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جھگڑوں میں فیصلے کرنے کے طریقے اور آداب
The Book of Judicial Decisions
11. باب اسْتِحْبَابِ إِصْلاَحِ الْحَاكِمِ بَيْنَ الْخَصْمَيْنِ:
11. باب: حاکم کو دونوں فریق میں صلح کرا دینا بہتر ہے۔
حدیث نمبر: 4497
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن همام بن منبه ، قال: هذا ما حدثنا ابو هريرة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر احاديث منها، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اشترى رجل من رجل عقارا له، فوجد الرجل الذي اشترى العقار في عقاره جرة فيها ذهب، فقال له الذي اشترى العقار: خذ ذهبك مني إنما اشتريت منك الارض ولم ابتع منك الذهب، فقال الذي شرى الارض: إنما بعتك الارض وما فيها، قال: فتحاكما إلى رجل، فقال الذي تحاكما إليه: الكما ولد، فقال احدهما: لي غلام، وقال الآخر: لي جارية، قال: انكحوا الغلام الجارية، وانفقوا على انفسكما منه وتصدقا ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اشْتَرَى رَجُلٌ مِنْ رَجُلٍ عَقَارًا لَهُ، فَوَجَدَ الرَّجُلُ الَّذِي اشْتَرَى الْعَقَارَ فِي عَقَارِهِ جَرَّةً فِيهَا ذَهَبٌ، فَقَالَ لَهُ الَّذِي اشْتَرَى الْعَقَارَ: خُذْ ذَهَبَكَ مِنِّي إِنَّمَا اشْتَرَيْتُ مِنْكَ الْأَرْضَ وَلَمْ أَبْتَعْ مِنْكَ الذَّهَبَ، فَقَالَ الَّذِي شَرَى الْأَرْضَ: إِنَّمَا بِعْتُكَ الْأَرْضَ وَمَا فِيهَا، قَالَ: فَتَحَاكَمَا إِلَى رَجُلٍ، فَقَالَ الَّذِي تَحَاكَمَا إِلَيْهِ: أَلَكُمَا وَلَدٌ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: لِي غُلَامٌ، وَقَالَ الْآخَرُ: لِي جَارِيَةٌ، قَالَ: أَنْكِحُوا الْغُلَامَ الْجَارِيَةَ، وَأَنْفِقُوا عَلَى أَنْفُسِكُمَا مِنْهُ وَتَصَدَّقَا ".
ہمام بن منبہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: یہ احادیث ہیں جو ہمیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیں، انہوں نے چند احادیث بیان کیں، ان میں یہ بھی تھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک آدمی نے دوسرے آدمی سے اس کی زمین خریدی تو اس آدمی کو، جس نے زمین خریدی تھی، اپنی زمین میں ایک گھڑا ملا جس میں سونا تھا۔ جس نے زمین خریدی تھی، اس نے اس (بیچنے والے) سے کہا: اپنا سونا مجھ سے لے لو، میں نے تم سے زمین خریدی تھی، سونا نہیں خریدا تھا۔ اس پر زمین بیچنے والے نے کہا: میں نے تو زمین اور اس میں جو کچھ تھا تمہیں بیچ دیا تھا۔ کہا: وہ دونوں جھگڑا لے کر ایک شخص کے پاس گئے، تو جس کے پاس وہ جھگڑا لے کر گئے تھے اس نے کہا: کیا تمہاری اولاد ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا: میرا ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا: میری ایک لڑکی ہے۔ تو اس نے کہا: (اس سونے کے ذریعے سے) لڑکے کا لڑکی سے نکاح کر دو اور اس میں سے اپنے اوپر بھی خرچ کرو اور صدقہ بھی کرو
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ہمام بن منبہ بہت سی روایات بیان کرتے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک انسان نے دوسرے انسان سے اس کی جاگیر (زمین) خریدی تو جس آدمی نے جائیداد (زمین) خریدی تھی، اسے اس کی زمین سے ایک گھڑا ملا، جس میں سونا تھا تو زمین خریدنے والے نے مالک سے کہا، مجھ سے اپنا سونا لے لیجئے، کیونکہ میں نے تم سے صرف زمین خریدی ہے، تجھ سے سونا نہیں خریدا تو زمین بیچنے والے نے کہا، میں نے تمہیں زمین اور جو کچھ اس میں ہے سب ہی بیچ دیا ہے تو انہوں نے ایک آدمی کو فیصل مان لیا تو جس کے پاس دونوں مقدمہ لے کر گئے تھے، اس نے پوچھا کیا تمہاری اولاد ہے؟ تو ان میں سے ایک نے کہا میرا بیٹا ہے اور دوسرے نے کہا میری بیٹی ہے، فیصلہ کرنے والے نے کہا، بچے کی بچی سے شادی کر دو اور اپنے اوپر بھی خرچ کرو اور صدقہ بھی کر دو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1721

   صحيح البخاري3472عبد الرحمن بن صخراشترى رجل من رجل عقارا له فوجد الرجل الذي اشترى العقار في عقاره جرة فيها ذهب فقال له الذي اشترى العقار خذ ذهبك مني إنما اشتريت منك الأرض ولم أبتع منك الذهب وقال الذي له الأرض إنما بعتك الأرض وما فيها فتحاكما إلى رجل فقال الذي تحاكما إليه
   صحيح مسلم4497عبد الرحمن بن صخراشترى رجل من رجل عقارا له فوجد الرجل الذي اشترى العقار في عقاره جرة فيها ذهب فقال له الذي اشترى العقار خذ ذهبك مني إنما اشتريت منك الأرض ولم أبتع منك الذهب فقال الذي شرى الأرض إنما بعتك الأرض وما فيها قال فتحاكما إلى رجل فقال الذي تحاكما إليه
   سنن ابن ماجه2511عبد الرحمن بن صخررجل اشترى عقارا فوجد فيها جرة من ذهب فقال اشتريت منك الأرض ولم أشتر منك الذهب فقال الرجل إنما بعتك الأرض بما فيها فتحاكما إلى رجل فقال ألكما ولد فقال أحدهما لي غلام وقال الآخر لي جارية قال فأنكحا الغلام الجارية ولينفقا على أنفسهما
   صحيفة همام بن منبه79عبد الرحمن بن صخراشترى رجل من رجل عقارا فوجد الرجل الذي اشترى العقار في عقاره جرة فيها ذهب فقال له الذي اشترى ألكما ولد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2511  
´جس شخص کو دفینہ (رکاز) مل جائے اس کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص نے ایک زمین خریدی، اس میں اسے سونے کا ایک مٹکا ملا، خریدار بائع (بیچنے والے) سے کہنے لگا: میں نے تو تم سے زمین خریدی ہے سونا نہیں خریدا، اور بائع کہہ رہا تھا: میں نے زمین اور جو کچھ اس میں ہے سب تمہارے ہاتھ بیچا ہے، الغرض دونوں ایک شخص کے پاس معاملہ لے گئے، اس نے پوچھا: تم دونوں کا کوئی بچہ ہے؟ ان میں سے ایک نے کہا: ہاں میرے پاس ایک لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا: میرے پاس ایک لڑکی ہے، تو اس شخص نے کہا: تم دونوں اس لڑکے کی ش۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب اللقطة/حدیث: 2511]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سابقہ امتوں کے واقعات بطور عبرت ونصیحت بیان کیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ وہ قرآن مجید یا صحیح احادیث سےثابت ہوں، ضعیف من گھڑٹ اورموضوع روایات سے وعظہ وخطبات کومزین کرنا جائز نہیں۔

(2)
  گزشتہ امتوں کے شرعی مسائل میں سے صرف ان مسائل پرعمل کیا جا سکتا ہےجو ہماری شریعت کےمنافی نہ ہوں۔

(3)
خرید و فروخت میں دیانت داری اورایک دوسرے کی خیر خواہی باعث برکت ہے۔

(4)
اختلافی معاملے میں ایسی صورت اختیار کرلینا بہت اچھی بات ہے جس پر دونوں فریق راضی ہوں۔

(5)
مدفون خزانہ اس شخص کی جائز ملکیت ہے جسے وہ ملے بشرطیکہ یہ معلوم نہ ہو سکے کہ یہ کس نے دفن کیا تھا۔

(6)
مدفون خزانہ پورے کا پورا اپنی ذات پرخرچ نہیں کرنا چاہیے۔
ہماری شریعت میں اس کےلیے پانچویں حصے کی حد مقرر ہے یعنی بیس فی صد بطور زکاۃ ادا کرکے باقی ذاتی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2511   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4497  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا خیال ہے،
جس آدمی کو فیصل تسلیم کیا گیا ہے وہ حضرت داؤد علیہ السلام تھے جیسا کہ وھب بن منبہ نے بیان کیا ہے اور اختلاف کا سبب یہ ہے خریدار یہ سمجھتا تھا کہ میں نے صرف زمین خریدی ہے اور ایسی صورت میں زمین کا دفینہ مالک کا ہی ہوتا ہے اور فروخت کرنے والا یہ سمجھتا تھا کہ میں نے زمین بیچ دی ہے تو اس کے ساتھ ہی اس میں جو کچھ ہے وہ بھی دے دیا ہے اور اس صورت میں مالک خریدار ہوتا ہے،
اس لیے باہمی اختلاف ہو گیا اور جس کو انہوں نے فیصلہ کے لیے حکم تسلیم کیا تھا،
اس نے ان کے ورع اور تقویٰ کو دیکھ کر یہی مناسب خیال کیا کہ اس سے دونوں کو فائدہ اٹھانے کا موقعہ دیا جائے،
اس لیے اس کو ان کی اولاد کی شادی پر خرچ اور دونوں کو اس سے فائدہ اٹھانے اور صدقہ کرنے کی تلقین کی،
اس سے ائمہ حجاز امام مالک،
شافعی اور احمد نے یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ اگر فریقین،
حکومتی عدالت کے پاس مقدمہ لے جانے کی بجائے،
اگر کسی دوسرے انسان کو حکم مان لیں تو اس کا فیصلہ نافذ العمل ہو گا اور حکومتی قاضی اس کو توڑنے کا مجاز نہیں ہو گا،
لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک،
قاضی کی توثین ضروری ہے۔
(تکملہ ج 2 ص 603)
لیکن امام ابن قدامہ نے لکھا ہے،
اگر دو انسان کسی کو صحیح حکم تسلیم کرتے ہیں اور وہ اس کی اہلیت رکھتا ہے تو اس کا فیصلہ نافذ العمل ہو گا،
امام ابو حنیفہ کا موقف بھی یہی ہے اور امام شافعی کا ایک قول یہ ہے کہ وہ مطمئن ہوں تو نافذ ہو گا،
وگرنہ نہیں،
المغنی،
ج 14،
ص 92۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4497   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.