الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book of Financial Transactions
67. بَابُ : بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ
67. باب: حمل والے جانور کا حمل بیچنے کا بیان۔
Chapter: Selling the Offspring of the Offspring of a Pregnant Animal (Habal Al-Habalah)
حدیث نمبر: 4627
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن منصور , قال: حدثنا سفيان , عن ايوب , عن سعيد بن جبير , عن ابن عمر , ان النبي صلى الله عليه وسلم:" نهى عن بيع حبل الحبلة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ أَيُّوبَ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَهَى عَنْ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاملہ کے حمل کو بیچنے سے منع فرمایا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/التجارات 24 (2197)، (تحفة الأشراف: 7062)، مسند احمد (2/10) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   صحيح البخاري3843عبد الله بن عمريتبايعون لحوم الجزور إلى حبل الحبلة قال وحبل الحبلة أن تنتج الناقة ما في بطنها ثم تحمل التي نتجت فنهاهم النبي عن ذلك
   صحيح البخاري2256عبد الله بن عمريتبايعون الجزور إلى حبل الحبلة فنهى النبي عنه
   صحيح البخاري2143عبد الله بن عمربيع حبل الحبلة
   صحيح مسلم3810عبد الله بن عمريتبايعون لحم الجزور إلى حبل الحبلة وحبل الحبلة أن تنتج الناقة ثم تحمل التي نتجت فنهاهم رسول الله عن ذلك
   صحيح مسلم3809عبد الله بن عمرنهى عن بيع حبل الحبلة
   سنن أبي داود3380عبد الله بن عمربيع حبل الحبلة
   سنن النسائى الصغرى4627عبد الله بن عمرنهى عن بيع حبل الحبلة
   سنن النسائى الصغرى4628عبد الله بن عمرنهى عن بيع حبل الحبلة
   سنن النسائى الصغرى4629عبد الله بن عمرنهى عن بيع حبل الحبلة
   سنن ابن ماجه2197عبد الله بن عمرنهى عن بيع حبل الحبلة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم502عبد الله بن عمرنهى عن بيع حبل الحبلة، وكان بيعا يتبايعه اهل الجاهلية. كان الرجل يبتاع الجزور إلى ان تنتج الناقة ثم تنتج التى فى بطنها
   بلوغ المرام662عبد الله بن عمرنهى عن بيع حبل الحبلة،‏‏‏‏ وكان بيعا يتبايعه اهل الجاهلية
   مسندالحميدي706عبد الله بن عمرنهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع حبل الحبلة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 502  
´غیر موجود چیز بیچنے کا حکم`
«. . . 240- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع حبل الحبلة، وكان بيعا يتبايعه أهل الجاهلية. كان الرجل يبتاع الجزور إلى أن تنتج الناقة ثم تنتج التى فى بطنها. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جانور کے پیٹ میں) حمل کے حمل کو بیچنے سے منع فرمایا ہے اور یہ سودا تھا جو اہل جاہلیت ایک دوسرے کے ساتھ کرتے تھے۔ آدمی اس اونٹ کا سودا کرتا تھا کہ اونٹنی ایک بچی جنے گی پھر اس سے جو اونٹ پیدا ہو گا وہ میرا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 502]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2143، من حديث مالك، و مسلم 1514، من حديث نافع به]
تفقہ:
➊ جو چیز موجود ہی نہیں ہے اس کا بیچنا ممنوع ہے۔
➋ سد ذرائع کے طور پر بعض امور سے منع کیا جا سکتا ہے۔
➌ اسلام یہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں میں ہمیشہ اتفاق اور ہم آہنگی رہے۔
➍ حبل الحبلہ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ بیع کی میعاد یہ مقرر کر لے کہ جب تک یہ جنے پھر اس کا بچہ بھی جنے۔ یہ میعاد مجہول ہے اس لئے منع ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 240   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2197  
´جانوروں کے پیٹ اور تھن میں جو ہو اس کی بیع یا غوطہٰ خور کے غوطہٰ کی بیع ممنوع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حمل کے حمل کو بیچنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2197]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  (بَيْعُ حَبَلِ الْحَبَلَةِ)
کا ایک مطلب یہ ہے کہ جانور کا بچہ پیدائش سے پہلے خریدا اور بیچا جائے، یہ جائز نہیں کیونکہ اس میں غرر ہے۔
معلوم نہیں وہ بچہ مذکر ہوگا یا مؤنث، صحیح ہوگا یا عیب دار۔

(2)
  اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ کوئی چیز خرید کر ادائیگی کی میعاد کسی جانور کے بچہ دینے تک مقرر کی جائے۔
یہ مجہول مدت ہے، اس لیے یہ بھی منع ہے۔

(3)
  اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ فلاں حاملہ جانور سے پیدا ہونے والا بچہ جب بڑا ہو کر بچہ دے گا، وہ جانور میں بیچتا ہوں، یا کسی دوسری چیز کی رقم کی ادائیگی اس وقت ہوگی۔
اس میں بھی غرر اورمدت نامعلوم ہے۔
معلوم نہیں اس حاملہ جانور سے مذکر پیدا ہوگا یا مؤنث، اور مؤنث ہوا تو اس سے کب بچہ پیدا ہوگا۔

(4)
  ادھار کی ادائیگی کے لیے مدت کا وضح تعین ہونا چاہیے، پھر اگر مقروض آدمی اس وقت ادا نہ کر سکےتو مزید مہلت مانگ لے۔
یا مدت کا تعین کیا ہی نہ جائے، مقروض اپنی سہولت کے مطاق ادا کردے۔
مقروض کو اس طرح سہولت دینا بہت فضیلت والا عمل ہے، تاہم مقروض اس سہولت کی وجہ سے قرض کی ادائیگی سے بے نیاز نہ ہو جائے بلکہ قرض خواہ کے حق میں دعا کرتا رہے اور ادائیگی کے لیے مقدور بھر کوشش کرتا رہے۔
اس میں تساہل یا کوتاہی نہ کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2197   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 662  
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حبل الحبلہ کی بیع سے منع فرمایا ہے اور یہ بیع دور جاہلیت میں تھی کہ آدمی اونٹنی اس شرط پر خریدتا کہ اس کی قیمت اس وقت دے گا جب اونٹنی بچہ جنے، پھر وہ بچہ جو اونٹنی کے پیٹ میں ہے وہ (ایک آگے بچہ) جنے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 662»
تخریج:
«أخرجه البخاري، البيوع، باب بيع الغرر وحبل الحبلة، حديث:2143، ومسلم، البيوع، باب تحريم بيع حبل الحبلة، حديث:1514.»
تشریح:
1. مذکورہ حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنین کی فروخت ممنوع ہے‘ جبکہ وہ اپنی ماں کے شکم میں ہو۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ مادہ کے پیٹ میں جو بچہ پرورش پا رہا ہے‘ اس کا بچہ فروخت کرنا ممنوع ہے‘ یعنی اونٹنی کے حمل کا حمل۔
اس کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ یہ بیع معدوم اور مجہول دونوں پہلو رکھتی ہے۔
اور اسے حاصل کرنے کی قدرت نہیں ہوتی کیونکہ ایک طرح یہ دھوکے کی بیع ہے۔
اور یہ قول بھی ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں: کسی شے کی بیع اس وقت تک کرنا کہ اونٹنی بچہ جنم دے‘ یا اس اونٹنی کا بچہ جوان ہو کر بچہ جنے۔
اس میں نہی کی وجہ یہ ہے کہ یہ بیع ایسی ہے جس کی مدت نامعلوم ہے۔
2.حدیث میں مذکور ممنوع بیع کی جو تفسیر وَکَانَ بَیْعًا…الخ کے الفاظ کے ساتھ منقول ہے‘ وہ نافع یا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کی ہے‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادائیگی ٔ قیمت کی میعاد مقرر کی جاتی تھی‘ اس طرح کہ جو بچہ اس وقت اونٹنی کے پیٹ میں زیر پرورش ہے اس کے جوان ہونے پر اس سے جو بچہ پیدا ہوگا وہ اس اونٹ کی قیمت ہوگی۔
اس تفسیر کو امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ نے اختیار کیا ہے۔
وہ اس صورت میں ممانعت کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ رقم کی ادائیگی کی میعاد غیر متعین ہے‘ اس لیے ایسی بیع بھی ممنوع ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 662   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3380  
´دھوکہ کی بیع منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «حبل الحبلة» (بچے کے بچہ) کی بیع سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3380]
فوائد ومسائل:
(حبل الحبلة) حاملہ کا حمل اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ کوئی سودا کیا جاتا تو اس کی ادایئگی کےلئے ایک مجہول لمبی مدت مقرر کی جاتی۔
کہ جب یہ اونٹنی مادہ بچہ جنے گی پھر وہ حاملہ ہوگی۔
تو اس وقت ادایئگی ہوگی۔
ایک مفہوم یہ بھی آتا ہے کہ میں تجھ سے اس حاملہ اونٹنی کے بچے کے بچے کی بیع کرتا ہوں۔
جیسا کہ اگلی ر وایت میں آرہا ہے یہ ناجائز ہے۔
اس میں دھوکا ہے۔
نہ معلوم یہ بچہ جنے گی یا نہیں۔
اور پھر پیدا ہونے والا نر ہوگا یا مادہ اور نہ معلوم وہ کب حاملہ ہو۔
اس حدیث میں اس جاہلی رواج کی بھی تردید اور ممانعت ہے۔
جو ہمارے پنجاب اور سندھ کے بعض خاندانوں میں مروج ہے۔
یہ یہ لوگ رشتے ناتے میں وٹہ سٹہ کرتے ہوئے جب مقابلے میں لڑکی موجود نہ ہو تو شرط کرلیتے ہیں کہ اس جوڑے سے آئندہ ہونے والی لڑکی ہمیں دینا ہوگی۔
اسے وہ لوگ پیٹ دینے یا تھنداساک (آیئندہ پیدا ہونے والا رشتہ دینا) سے تعبیر کرتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3380   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.