الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
2. بَابُ قَوْلِهِ: {إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ} :
2. باب: آیت کی تفسیر ”قیامت (کے واقع ہونے کی تاریخ) کی خبر صرف اللہ پاک ہی کو ہے“۔
(2) Chapter. The Statement of Allah: “Verily, Allah! With Him (Alone) is the knowledge of the Hour...” (V.31:34)
حدیث نمبر: 4777
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني إسحاق، عن جرير، عن ابي حيان، عن ابي زرعة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يوما بارزا للناس إذ اتاه رجل يمشي، فقال: يا رسول الله، ما الإيمان؟ قال:" الإيمان ان تؤمن بالله، وملائكته، وكتبه، ورسله، ولقائه، وتؤمن بالبعث الآخر"، قال: يا رسول الله، ما الإسلام؟ قال:" الإسلام ان تعبد الله، ولا تشرك به شيئا، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة المفروضة، وتصوم رمضان"، قال: يا رسول الله، ما الإحسان؟ قال:" الإحسان ان تعبد الله كانك تراه، فإن لم تكن تراه فإنه يراك"، قال: يا رسول الله، متى الساعة؟ قال:" ما المسئول عنها باعلم من السائل، ولكن ساحدثك عن اشراطها: إذا ولدت المراة ربتها فذاك من اشراطها، وإذا كان الحفاة العراة رءوس الناس فذاك من اشراطها، في خمس لا يعلمهن إلا الله: إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الارحام سورة لقمان آية 34، ثم انصرف الرجل، فقال: ردوا علي فاخذوا ليردوا، فلم يروا شيئا، فقال: هذا جبريل جاء ليعلم الناس دينهم".(مرفوع) حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ يَمْشِي، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ:" الْإِيمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَلِقَائِهِ، وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ الْآخِرِ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ:" الْإِسْلَامُ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ، وَلَا تُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ:" الْإِحْسَانُ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ:" مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، وَلَكِنْ سَأُحَدِّثُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا: إِذَا وَلَدَتِ الْمَرْأَةُ رَبَّتَهَا فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا كَانَ الْحُفَاةُ الْعُرَاةُ رُءُوسَ النَّاسِ فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، فِي خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ: إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ سورة لقمان آية 34، ثُمَّ انْصَرَفَ الرَّجُلُ، فَقَالَ: رُدُّوا عَلَيَّ فَأَخَذُوا لِيَرُدُّوا، فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا، فَقَالَ: هَذَا جِبْرِيلُ جَاءَ لِيُعَلِّمَ النَّاسَ دِينَهُمْ".
مجھ سے اسحاق نے بیان کیا، ان سے جریر نے، ان سے ابوحیان نے، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن لوگوں کے ساتھ تشریف رکھتے تھے کہ ایک نیا آدمی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: یا رسول اللہ! ایمان کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے فرشتوں، رسولوں اور اس کی ملاقات پر ایمان لاؤ اور قیامت کے دن پر ایمان لاؤ۔ انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! اسلام کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تنہا اللہ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو اور فرض زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! احسان کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو ورنہ یہ عقیدہ لازماً رکھو کہ اگر تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے۔ انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! قیامت کب قائم ہو گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس سے پوچھا جا رہا ہے خود وہ سائل سے زیادہ اس کے واقع ہونے کے متعلق نہیں جانتا۔ البتہ میں تمہیں اس کی چند نشانیاں بتاتا ہوں۔ جب عورت ایسی اولاد جنے جو اس کے آقا بن جائیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے، جب ننگے پاؤں، ننگے جسم والے لوگ لوگوں پر حاکم ہو جائیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے۔ قیامت بھی ان پانچ چیزوں میں سے ہے جسے اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا، بیشک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔ وہی مینہ برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ماں کے رحم میں کیا ہے (لڑکا یا لڑکی) پھر وہ صاحب اٹھ کر چلے گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں میرے پاس واپس بلا لاؤ۔ لوگوں نے انہیں تلاش کیا تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دوبارہ لائیں لیکن ان کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ صاحب جبرائیل تھے (انسانی صورت میں) لوگوں کو دین کی باتیں سکھانے آئے تھے۔

Narrated Abu Huraira: One day while Allah's Messenger was sitting with the people, a man came to him walking and said, "O Allah's Messenger . What is Belief?" The Prophet said, "Belief is to believe in Allah, His Angels, His Books, His Apostles, and the meeting with Him, and to believe in the Resurrection." The man asked, "O Allah's Messenger What is Islam?" The Prophet replied, "Islam is to worship Allah and not worship anything besides Him, to offer prayers perfectly, to pay the (compulsory) charity i.e. Zakat and to fast the month of Ramadan." The man again asked, "O Allah's Messenger What is Ihsan (i.e. perfection or Benevolence)?" The Prophet said, "Ihsan is to worship Allah as if you see Him, and if you do not achieve this state of devotion, then (take it for granted that) Allah sees you." The man further asked, "O Allah's Messenger When will the Hour be established?" The Prophet replied, "The one who is asked about it does not know more than the questioner does, but I will describe to you its portents. When the lady slave gives birth to her mistress, that will be of its portents; when the bare-footed naked people become the chiefs of the people, that will be of its portents. The Hour is one of five things which nobody knows except Allah. Verily, the knowledge of the Hour is with Allah (alone). He sends down the rain, and knows that which is in the wombs." (31.34) Then the man left. The Prophet said, "Call him back to me." They went to call him back but could not see him. The Prophet said, "That was Gabriel who came to teach the people their religion." (See Hadith No. 47 Vol 1)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 300


   صحيح البخاري50عبد الرحمن بن صخرالإيمان أن تؤمن بالله وملائكته وبلقائه ورسله وتؤمن بالبعث قال ما الإسلام قال الإسلام أن تعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة وتؤدي الزكاة المفروضة وتصوم رمضان قال ما الإحسان قال أن تعبد الله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك قال متى الساعة
   صحيح البخاري4777عبد الرحمن بن صخرالإيمان أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله ولقائه وتؤمن بالبعث الآخر قال يا رسول الله ما الإسلام قال الإسلام أن تعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة المفروضة وتصوم رمضان قال يا رسول الله ما الإحسان قال الإحسان أن تعبد الله كأنك ترا
   صحيح مسلم99عبد الرحمن بن صخرلا تشرك بالله شيئا وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان قال صدقت قال يا رسول الله ما الإيمان قال أن تؤمن بالله وملائكته وكتابه ولقائه ورسله وتؤمن بالبعث وتؤمن بالقدر كله قال صدقت قال يا رسول الله ما الإحسان قال أن تخشى الله كأنك تراه فإنك
   صحيح مسلم97عبد الرحمن بن صخرتؤمن بالله وملائكته وكتابه ولقائه ورسله وتؤمن بالبعث الآخر قال يا رسول الله ما الإسلام قال الإسلام أن تعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة المكتوبة وتؤدي الزكاة المفروضة وتصوم رمضان قال يا رسول الله ما الإحسان قال أن تعبد الله كأنك تراه فإنك إن
   سنن ابن ماجه4044عبد الرحمن بن صخرمتى الساعة فقال ما المسئول عنها بأعلم من السائل ولكن سأخبرك عن أشراطها إذا ولدت الأمة ربتها فذاك من أشراطها وإذا كانت الحفاة العراة رءوس الناس فذاك من أشراطها وإذا تطاول رعاء الغنم في البنيان فذاك من أشراطها في خمس لا يعلمهن إلا الله فتلا رسول الله إن الل
   سنن ابن ماجه64عبد الرحمن بن صخرما الإيمان قال أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله ولقائه وتؤمن بالبعث الآخر قال يا رسول الله ما الإسلام قال أن تعبد الله ولا تشرك به شيئا وتقيم الصلاة المكتوبة وتؤتى الزكاة المفروضة وتصوم رمضان قال يا رسول الله ما الإحسان قال أن تعبد الله
   مشكوة المصابيح3عبد الرحمن بن صخروإذا رايت الحفاة العراة الصم البكم ملوك الارض في خمس لا يعلمهن إلا الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 50  
´دین اور اسلام اور ایمان ایک ہیں`
«. . . كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَارِزًا يَوْمًا لِلنَّاسِ، فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ، فَقَالَ: مَا الْإِيمَانُ؟ . . .»
. . . ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا کہ ایمان کسے کہتے ہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 50]

تشریح:
شارحین بخاری لکھتے ہیں: «مقصود البخاري من عقد ذلك الباب ان الدين والاسلام والايمان واحد لااختلاف فى مفهومهما والواو فى ومابين وقوله تعالي بمعني مع» یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس باب کے منعقد کرنے سے اس امر کا بیان مقصود ہے کہ دین اور اسلام اور ایمان ایک ہیں، اس کے مفہوم میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اور «وما بين» میں اور «وقوله تعاليٰ» میں ہر دو جگہ واؤ مع کے معنی میں ہے جس کا مطلب یہ کہ باب میں:
پہلا ترجمہ سوال جبرئیل سے متعلق ہے جس کے مقصد کو آپ نے «فجعل ذالك كله من الايمان» سے واضح فرما دیا۔ یعنی دین اسلام احسان اور اعتقاد قیامت سب پر مشتمل ہے۔
دوسرا ترجمہ «وما بين لوفد عبدالقيس» ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد عبدالقیس کے لیے ایمان کی جو تفصیل بیان فرمائی تھی اس میں اعمال بیان فرماکر ان سب کو داخل ایمان قرار دیا گیا تھا خواہ وہ اوامر سے ہوں یا نواہی سے۔
تیسرا ترجمہ یہاں آیت کریمہ «ومن يبتغ غير الاسلام» ہے جس سے ظاہر ہے کہ اصل دین دین اسلام ہے۔ اور دین اور اسلام ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ کیونکہ اگر دین اسلام سے مغائر ہوتا تو آیت شریفہ میں اسلام کا تلاش کرنے والا شریعت میں معتبر ہے۔ یہاں ان کے لغوی معانی سے کوئی بحث نہیں ہے۔ حضرت الامام کا مقصد یہاں بھی مرجیہ کی تردید ہے جو ایمان کے لیے اعمال کو غیر ضروری بتلاتے ہیں۔

تعصب کا برا ہو:
فرقہ مرجیہ کی ضلالت پر تمام اہل سنت کا اتفاق ہے اور امام بخاری قدس سرہ بھی ایسے ہی گمراہ فرقوں کی تردید کے لیے یہ جملہ تفصیلات پیش فرما رہے ہیں۔ مگر تعصب کا برا ہو عصر حاضر کے بعض مترجمین و شارحین بخاری کو یہاں بھی خالصاً حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر تعریض نظر آئی ہے اور اس خیال کے پیش نظر انہوں نے یہاں حضرت امام بخاری کو غیرفقیہ زود رنج قرار دے کر دل کی بھڑاس نکالی ہے صاحب انوارالباری کے لفظ یہ ہیں:
امام بخاری میں تاثر کا مادہ زیادہ تھا وہ اپنے اساتذہ حمیدی، نعیم بن حماد، خرامی، اسحاق بن راہویہ، اسماعیل، عروہ سے زیادہ متاثر ہو گئے۔ جن کو امام صاحب وغیرہ سے للّٰہی بغض تھا۔ دوسرے وہ زود رنج تھے۔ فن حدیث کے امام بے مثال تھے مگر فقہ میں وہ پایہ نہ تھا۔ اسی لیے ان کا کوئی مذہب نہ بن سکا امام اعظم رحمہ اللہ کی فقہی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے بہت زیادہ اونچے درجہ کی فقہ کی ضرورت تھی۔ جو نہ سمجھا وہ ان کا مخالف ہو گیا۔ [انوارالباری، جلد: دوم، ص: 168]
اس بیان پر تفصیلی تبصرہ کے لیے دفاتر بھی ناکافی ہیں۔ مگر آج کے دور میں ان فرسودہ مباحث میں جا کر علمائے سلف کا باہمی حسد و بغض ثابت کر کے تاریخ اسلام کو مجروح کرنا یہ خدمت ایسے متعصبین حضرات ہی کو مبارک ہو ہمارا تو سب کے لیے یہ عقیدہ ہے «تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ» [2-البقرة:134] رحمہم اللہ اجمعین۔ آمین۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو زود رنج اور غیر فقیہ قرار دینا خود ان لکھنے والوں کے زود رنج اور کم فہم ہونے کی دلیل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 50   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4777  
4777. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ ایک دن ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی پیدل چلتا ہوا آیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں اور اس کی ملاقات پر ایمان لاؤ اور قیامت کے دن پر یقین رکھو۔ پھر وہ کہنے لگا: اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، فرض زکاۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! احسان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر ایسا نہ کر سکو تو کم از کم یہ خیال کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! قیامت کب قائم ہو گی؟ آپ نے فرمایا: جس سے تم سوال کر رہے ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4777]
حدیث حاشیہ:
ایمان اور اسلام تو سب مومنین کو شامل ہے اور احسان ولایت کا درجہ ہے پھر احسان کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ آدمی دنیا کے تمام خیالات کو دور کر کے اللہ کی یاد میں ایسا غرق ہوجائے جیسے اللہ کا مشاہدہ کر رہا ہے اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ اللہ ہم کو دیکھ رہا ہے۔
ہر وقت یہ سمجھ کر گناہ اور بری باتوں سے بچا رہے۔
جب یہ حاصل ہو جائے تو وہ آدمی یقینا ولی اللہ ہے۔
اب یہ ضروری نہیں کہ اسے کشف و کرامت حاصل ہو کشف و کرامت کا ذکر کرنا نادانی ہے۔
أَن تَلِدَ الأَمَةُ رَبتھَا کا مطلب یہ کہ لونڈیوں کی اولاد بہت پیدا ہوتو ماں لونڈی اوربیٹا گویا اس کا مالک ہوا۔
آخر حدیث میں زمانہ حاضرہ پر اشارہ ہے کہ جنگلوں کے رہنے والے بکریاں اونٹ چرانے والے لوگ شہروں کا رخ کرینگے اور بڑے بڑے عہدے پا کر بڑے بڑے مکانات بنائیں گے اور وہ آج کل ہورہا ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4777   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 3  
´ثقہ راوی کی زیادت مقبول اور حجت ہوتی ہے`
«. . . ‏‏‏‏وَرَوَاهُ أَبُو هُرَيْرَة مَعَ اخْتِلَافٍ وَفِيهِ: " وَإِذَا رَأَيْتَ الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الصُّمَّ الْبُكْمَ مُلُوكَ الْأَرْضِ فِي خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ. ثُمَّ قَرَأَ: (إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ) ‏‏‏‏الْآيَة ‏‏‏‏ . . .»
. . . الفاظ کی کمی بیشی سے سیدنا ابوہرہرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ حدیث مروی ہے اور اس میں اتنا زیادہ ہے کہ جب ننگے پاؤں والوں اور ننگے بدن والوں اور بہرے گونگوں کو تم دیکھو گے کہ یہ بادشاہ بنے ہوئے ہیں تو سمجھنا قیامت آنے ہی والی ہے۔ قیامت کا علم من جملہ ان پانچ باتوں کے ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے جن کا بیان اس آیت میں ہے «إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ» آخر تک . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 3]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 50]،
[صحيح مسلم 93]

فقہ الحدیث
➊ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی پوری حدیث صحیح مسلم میں موجود ہے، وہ فرماتے ہیں کہ (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے پوچھو، صحابہ نے سوال کرنے سے خوف محسوس کیا تو ایک آدمی آیا اور (آ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں کے پاس بیٹھ گیا۔ پھر کہا: اے اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ کے ساتھ کچھ (بھی) شرک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو (یہ اسلام ہے) اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا، اے اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایمان یہ ہے) کہ تم اس (اللہ) کے فرشتوں، کتابوں، ملاقات (آخرت) اور رسولوں پر ایمان لاؤ، مرنے کے بعد (دوبارہ) زندگی کا یقین رکھو اور ساری تقدیر کو مانو (کہ خیر و شر اللہ ہی کی طرف سے ہے) اس نے کہا: آپ نے سچ کہا:، اے اللہ کے رسول! احسان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے اس طرح ڈرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر تم اسے نہیں دیکھتے (یعنی یہ درجہ حاصل نہ ہو سکے تو کم از کم یہ یقین کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے، اس نے کہا کہ آپ نے سچ کہا: اے اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے پوچھا جا رہا ہے وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا اور میں تمہیں اس کی نشانیاں بتاتا ہوں، جب تم دیکھو کہ ننگے پاؤں، ننگے بدن، گونگے، بہرے، چرواہے زمین کے بادشاہ بن رہے ہیں تو یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ یہ (قیامت) ان پانچ چیزوں میں سے ہے، جسے سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی (جس کا ترجمہ درج ذیل ہے) بےشک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل کرتا ہے اور (تمام) ارحام میں کیا ہے وہی جانتا ہے۔ کسی انسان کو یہ معلوم نہیں کہ وہ کل کیا کمائے گا اور نہ کسی جان دار کو یہ معلوم ہے کہ وہ زمین کے کس حصے میں فوت ہو گا۔ پھر وہ آدمی کھڑا ہو گا (اور چلا گیا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے واپس بلاؤ، اسے تلاش کیا گیا (لیکن) وہ نہ ملا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جبریل علیہ السلام ہیں، یہ اس لئے تشریف لائے تھے کہ تمہیں (دین) سکھائیں، کیونکہ تم خود سوال نہیں کرنا چاہتے تھے۔
➋ قیامت کا علم اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہے۔
➌ ثقہ راوی کی زیادت مقبول اور حجت ہوتی ہے۔
➍ قرآن و حدیث میں قیامت کی جتنی نشانیاں مذکور ہیں، ان کے وقوع کے بعد ہی قیامت آئے گی۔
➎ تقدیر پر ایمان لانا فرض اور رکن ایمان ہے، جو لوگ تقدیر کا انکار کرتے ہیں، وہ اہل بدعت اور گمراہ ہیں۔
➏ حدیث قرآن کی شرح ہے۔ «وغير ذلك من الفوئد»
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 3   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث64  
´ایمان کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن لوگوں میں باہر بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا، اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، اس سے ملاقات اور یوم آخرت پر ایمان رکھو ۱؎۔ اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو، فرض نماز قائم کرو، فرض زکاۃ ادا کرو، اور رمضان کے روزے رکھو۔‏‏‏‏ اس نے کہا: اللہ کے رسول! احسان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 64]
اردو حاشہ:
(1)
مستقبل کا صحیح علم صرف اللہ کو ہے۔
آیت مبارکہ میں مذکور تمام امور کا تعلق مستقبل سے ہے۔
قیامت کے متعلق جو علامات بیان کی گئی ہیں ان کے ظہور کا متعین وقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، چہ جائیکہ قیامت کے وقت کا تعین کرنے کی کوشش کی جائے، اسی طرح دوسرے امور بھی ہیں جن کے متعلق انسان اندازے لگاتا رہتا ہے جو صحیح بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی، مثلا:
بادل دیکھ کر ہم بارش کی امید کر سکتے ہیں لیکن سو فیصد یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ بادل برسے گا یا بغیر برسے ہی آگے گزر جائے گا۔
اسی طرح آثاروعلامات کی روشنی میں بچے کی امید کر سکتے ہیں لیکن ان کا مذکر یا مونث ہونا، ذہین یا کم عقل ہونا، کسی جسمانی یا ذہنی معذوری میں مبتلا ہونا وغیرہ ایسے امور ہیں جن کے بارے میں کوئی شخص مکمل وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔
ہم مستقبل کے پروگرام تو بنا سکتے ہیں لیکن ناگہانی رکاوٹوں اور اچانک پیش آنے والے حالات سے قبل از وقت واقف نہیں ہو سکتے، اس طرح کسی کی زندگی اور موت کے بارے میں صحیح علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔
انسان صرف اندازہ کر سکتا ہے لیکن یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس کا اندازہ بالکل صحیح ہو گا۔

(2)
اگر عالم کو کوئی مسئلہ معلوم نہ ہو تو اسے چاہیے کہ کہہ دے مجھے معلوم نہیں اور اسے اپنی عزت و شان کے منافی نہ سمجھے۔

(3)
عالم کو چاہیے کہ سوال کرنے والے کو نرمی اور محبت سے سمجھائے، ناراضی کا اظہار نہ کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 64   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4777  
4777. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ ایک دن ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی پیدل چلتا ہوا آیا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں اور اس کی ملاقات پر ایمان لاؤ اور قیامت کے دن پر یقین رکھو۔ پھر وہ کہنے لگا: اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو، فرض زکاۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! احسان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر ایسا نہ کر سکو تو کم از کم یہ خیال کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! قیامت کب قائم ہو گی؟ آپ نے فرمایا: جس سے تم سوال کر رہے ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4777]
حدیث حاشیہ:

یہ حدیث،حدیث جبریل کے نام سے مشہور ہے۔
اس میں وضاحت ہے کہ قیامت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے کہ اس نے کب آنا ہے۔
اس کے متعلق نہ تو جبرئیل علیہ السلام کچھ جانتے ہیں اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اس کے متعلق کوئی خبر ہے۔
اور اس کا وقت معین نہ بتانے میں حکمت یہ ہے کہ اگربتا دیا جائے تو دنیا کے دارالامتحان ہونے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔

قیامت کے علاوہ چار باتیں اور بھی ہیں جنھیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا:
ان میں پہلی بات یہ ہے کہ نفع دینےوالی بارش کب ہوگی، دوسری یہ کہ مادررحم میں کیا ہے کہ وہ نر ہے یا مادہ تنگ دست ہوگا یا خوشحال، نیک بخت یا بدبخت، گورا ہے یا کالا یہ سب باتیں رحم مادر کے مراحل میں شامل ہیں۔
تیسری بات یہ کہ وہ کل کیا کرے گا، اسے توبہ کی توفیق نصیب ہوگی یا نہیں۔
بلکہ اسے کل تک زندہ بھی رہنا ہے یا نہیں۔
چوتھی یہ کہ وہ کب اور کہاں مرے گا؟ 3۔
یہ چار باتیں ایسی ہیں جن سے ہر انسان کو دلچسپی ہوتی ہے، اس لیے خاص طور پر ان باتوں کا ذکر کیا گیا ہے ورنہ اس طرح دیگر کئی امور ایسے ہیں جو غیب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تک انسان کی رسائی نہیں ہوسکتی۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4777   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.