الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
The Book of (The Wedlock)
34. بَابُ عَرْضِ الإِنْسَانِ ابْنَتَهُ أَوْ أُخْتَهُ عَلَى أَهْلِ الْخَيْرِ:
34. باب: کسی انسان کا اپنی بیٹی یا بہن کو اہل خیر سے نکاح کے لیے پیش کرنا۔
(34) Chapter. The presentation of one’s own daughter or sister (for marriage) to a religious man.
حدیث نمبر: 5122
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن صالح بن كيسان، عن ابن شهاب، قال: اخبرني سالم بن عبد الله، انه سمع عبد الله بن عمر رضي الله عنهما يحدث، ان عمر بن الخطاب حين تايمت حفصة بنت عمر من خنيس بن حذافة السهمي وكان من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتوفي بالمدينة، فقال عمر بن الخطاب: اتيت عثمان بن عفان فعرضت عليه حفصة، فقال: سانظر في امري، فلبثت ليالي ثم لقيني، فقال: قد بدا لي ان لا اتزوج يومي هذا، قال عمر: فلقيت ابا بكر الصديق، فقلت: إن شئت زوجتك حفصة بنت عمر، فصمت ابو بكر فلم يرجع إلي شيئا وكنت اوجد عليه مني على عثمان، فلبثت ليالي ثم خطبها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانكحتها إياه، فلقيني ابو بكر، فقال: لعلك وجدت علي حين عرضت علي حفصة فلم ارجع إليك شيئا، قال عمر: قلت: نعم، قال ابو بكر: فإنه لم يمنعني ان ارجع إليك فيما عرضت علي إلا اني كنت علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد ذكرها، فلم اكن لافشي سر رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولو تركها رسول الله صلى الله عليه وسلم، قبلتها".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ حِينَ تَأَيَّمَتْ حَفْصَةُ بِنْتُ عُمَرَ مِنْ خُنَيْسِ بْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِيِّ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتُوُفِّيَ بِالْمَدِينَةِ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: أَتَيْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ حَفْصَةَ، فَقَالَ: سَأَنْظُرُ فِي أَمْرِي، فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ ثُمَّ لَقِيَنِي، فَقَالَ: قَدْ بَدَا لِي أَنْ لَا أَتَزَوَّجَ يَوْمِي هَذَا، قَالَ عُمَرُ: فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتَ زَوَّجْتُكَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ، فَصَمَتَ أَبُو بَكْرٍ فَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا وَكُنْتُ أَوْجَدَ عَلَيْهِ مِنِّي عَلَى عُثْمَانَ، فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ ثُمَّ خَطَبَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْكَحْتُهَا إِيَّاهُ، فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: لَعَلَّكَ وَجَدْتَ عَلَيَّ حِينَ عَرَضْتَ عَلَيَّ حَفْصَةَ فَلَمْ أَرْجِعْ إِلَيْكَ شَيْئًا، قَالَ عُمَرُ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَإِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْكَ فِيمَا عَرَضْتَ عَلَيَّ إِلَّا أَنِّي كُنْتُ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ ذَكَرَهَا، فَلَمْ أَكُنْ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَوْ تَرَكَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَبِلْتُهَا".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے عبداللہ بن عمر سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہم کے متعلق سنا کہ جب (ان کی صاحبزادی) حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا (اپنے شوہر) خنیس بن حذافہ سہمی کی وفات کی وجہ سے بیوہ ہو گئیں اور خنیس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے اور ان کی وفات مدینہ منورہ میں ہوئی تھی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان کے لیے حفصہ رضی اللہ عنہا کو پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں اس معاملہ میں غور کروں گا۔ میں نے کچھ دنوں تک انتظار کیا۔ پھر مجھ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ملاقات کی اور میں نے کہا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں آپ کی شادی حفصہ رضی اللہ عنہا سے کر دوں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش رہے اور مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کی اس بےرخی سے مجھے عثمان رضی اللہ عنہ کے معاملہ سے بھی زیادہ رنج ہوا۔ کچھ دنوں تک میں خاموش رہا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا پیغام بھیجا اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شادی کر دی۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے اور کہا کہ جب تم نے حفصہ رضی اللہ عنہا کا معاملہ میرے سامنے پیش کیا تھا تو میرے اس پر میرے خاموش رہنے سے تمہیں تکلیف ہوئی ہو گی کہ میں نے تمہیں اس کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا کہ واقعی ہوئی تھی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نے جو کچھ میرے سامنے رکھا تھا، اس کا جواب میں نے صرف اس وجہ سے نہیں دیا تھا کہ میرے علم میں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حفصہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا ہے اور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ دیتے تو میں حفصہ کو اپنے نکاح میں لے آتا۔

Narrated `Abdullah bin `Umar: `Umar bin Al-Khattab said, "When Hafsa bint `Umar became a widow after the death of (her husband) Khunais bin Hudhafa As-Sahmi who had been one of the companions of the Prophet, and he died at Medina. I went to `Uthman bin `Affan and presented Hafsa (for marriage) to him. He said, "I will think it over.' I waited for a few days, then he met me and said, 'It seems that it is not possible for me to marry at present.' " `Umar further said, "I met Abu Bakr As-Siddique and said to him, 'If you wish, I will marry my daughter Hafsa to you." Abu Bakr kept quiet and did not say anything to me in reply. I became more angry with him than with `Uthman. I waited for a few days and then Allah's Apostle asked for her hand, and I gave her in marriage to him. Afterwards I met Abu Bakr who said, 'Perhaps you became angry with me when you presented Hafsa to me and I did not give you a reply?' I said, 'Yes.' Abu Bakr said, 'Nothing stopped me to respond to your offer except that I knew that Allah's Apostle had mentioned her, and I never wanted to let out the secret of Allah's Apostle. And if Allah's Apostle had refused her, I would have accepted her.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 55


   صحيح البخاري4005عبد الله بن عمرخطبها رسول الله فأنكحتها إياه فلقيني أبو بكر قال علمت أن رسول الله قد ذكرها فلم أكن لأفشي سر رسول الله
   صحيح البخاري5145عبد الله بن عمرخطبها رسول الله فلقيني أبو بكر قال علمت أن رسول الله قد ذكرها فلم أكن لأفشي سر رسول الله
   صحيح البخاري5122عبد الله بن عمرخطبها رسول الله فأنكحتها إياه فلقيني أبو بكر قال علمت أن رسول الله قد ذكرها فلم أكن لأفشي سر رسول الله
   سنن النسائى الصغرى3261عبد الله بن عمرخطبها رسول الله فأنكحتها إياه فلقيني أبو بكر قال علمت أن رسول الله قد ذكرها ولم أكن لأفشي سر رسول الله
   سنن النسائى الصغرى3250عبد الله بن عمرخطبها إلي رسول الله فأنكحتها إياه فلقيني أبو بكر قال سمعت رسول الله يذكرها ولم أكن لأفشي سر رسول الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5145  
´پیغام چھوڑ دینے کی وجہ بیان کرنا`
«. . . أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ،" أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ حِينَ تَأَيَّمَتْ حَفْصَةُ، قَالَ عُمَرُ: لَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ، فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ، ثُمَّ خَطَبَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْكَ فِيمَا عَرَضْتَ إِلَّا أَنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ ذَكَرَهَا فَلَمْ أَكُنْ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَوْ تَرَكَهَا لَقَبِلْتُهَا . . .»
. . . سالم بن عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میری بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہوئیں تو میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کا نکاح عزیزہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما سے کر دوں۔ پھر کچھ دنوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نکاح کا پیغام بھیجا اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے اور کہا آپ نے جو صورت میرے سامنے رکھی تھی اس کا جواب میں نے صرف اس وجہ سے نہیں دیا تھا کہ مجھے معلوم تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر کیا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ کا راز کھولوں ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھوڑ دیتے تو میں ان کو قبول کر لیتا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ: 5145]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5145 کا باب: «بَابُ تَفْسِيرِ تَرْكِ الْخِطْبَةِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب سے خطبہ ترک کرنے کی تفسیر کو واضح کر رہے ہیں اور تحت الباب ام المومنیں حفصہ رضی اللہ عنہا والے واقعہ کو پیش فرماتے ہیں، حالانکہ تحت الباب جس حدیث کو پیش کیا جا رہا ہے وہ حدیث سے مناسبت نہیں رکھتی کیونکہ تحت الباب حدیث میں خطبہ ترک کرنے کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔

چنانچہ ابن بطال اس اعتراض کو نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«تقدم فى الباب الذى قبله تفسير ترك الخطبة صريحا فى قوله: حتى ينكح او يترك وحديث عمر فى قصة حفصه رضي الله عنها لا يظهر منه تفسير ترك الخطبة لأن عمر لم يكن علم أن النبى صلى الله عليه وسلم خطب حفصه، قال: ولكنة قصد معنى دقيقاً يدل على ثقوب ذهنة ورسوخه الاستنباط.» [فتح الباري لابن حجر: 172/10]
یعنی بظاہر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اس واقعہ کی کوئی مناسبت ترجمۃ الباب سے معلوم نہیں ہوتی، کیونکہ اس واقعہ میں خطبہ ترک کرنے کی کوئی تفسیر معلوم نہیں ہوتی، امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث اس بات کے تحت ذکر کر کے ایک لطیف اور دقیق استنباط فرمایا ہے اور وہ یہ تھا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی حفصہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کا پیغام بھیجیں گے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس کو رد نہیں کریں گے۔
لہٰذا ابن بطال رحمہ اللہ کی مطابقت سے سے ترجمہ الباب اور حدیث میں بہترین مناسبت قائم ہو جاتی ہے۔

ابن بطال رحمہ اللہ کی اس مناسبت پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا:
«وما ابداه ابن بطال ادق وأولي»
یعنی ابن بطال کا قول دقیق اور اولیٰ ہے۔

ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب مذکورہ واقعہ ذکر کر کے «خطبه على الخطبه» کی مطلقاً ممانعت بیان فرمائی ہے، کیونکہ مذکورہ واقعہ میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انکار فرما دیا تھا، حالانکہ خاطب اور ولی کے مابین ابھی بات طے نہیں ہوئی تھی اور پیغام نکاح بھی نہیں بھیجا گیا تھا ابھی صرف ارادہ اور خیال تھا تو جس صورت میں پیغام نکاح بھیج دیا گیا ہو اس میں بطریق اولیٰ خطبہ نہیں بھیجنا چاہیے۔ [المتواري: ص291]
اسی مفہوم کے قریب قریب مطابقت ابن الملقن نے بھی دی ہے۔ [التوضيح: 443/24]

محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
«أن الامام البخاري اشاره أن اراده الرجل الخطبة أيضاً داخل فى الخطبة، لأن ابابكر امتنع عن الخطبة لعلمه إرداة صلى الله عليه وسلم الخطبة، مع أنه صلى الله عليه وسلم لم يخطب بعد، واذا كانت إراداة الخطبة فى حكم الخطبة فترك الإراداة تركها، فطابق الحديث بالترجمة.» [الابواب و التراجم: 218/5]
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جب آدمی کا خطبہ کا ارادہ ہوتا ہے تو وہ ارادہ خطبہ میں دخل ہے، کیونکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رک گئے تھے، خطبہ سے کیونکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے کو جانتے تھے، جبکہ ارادہ خطبہ، خطبہ میں داخل ہے۔ پس انہوں نے اپنے خطبہ کے ارادے کو ترک کر دیا پس یہیں سے مطابقت ہے ترجمۃ الباب سے۔

علامہ عینی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
«مطابقته للترجمه تؤخذ من قوله فلقيني ابوبكر الى اخره، فان فيه اعتزار أبى بكر لعمر عن ترك خطبة واجابته لعمر لعلمه بأنه صلى الله عليه وسلم يريد خطبتها وهذا تفسير من ابي بكر لترك الخطبة.» [عمدة القاري للعيني: 185/20]
ترجمہ الباب سے حدیث کی مطابقت کچھ یوں ہو گی کہ حدیث میں الفاظ ہیں، «فلقيني ابوبكر» پس ان الفاظوں میں عذر ہے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خطبہ کے ترک کرنے کا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں، پس یہ تفسیر ہے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خطبہ کے ترک کرنے کی۔

شارحین کے اقتباسات سے یہ واضح ہوا کہ ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت اس جہت سے ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں اور آپ نے خاموشی اختیار فرمائی، پس یہی تفسیر خطبہ ہے اور یہیں سے باب اور حدیث میں مناسب قائم ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 88   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5122  
5122. سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ جس وقت حفصہ بنت عمر خنیس بن حذافہ ؓ کی وفات کی وجہ سے بیوہ ہو گئیں۔۔۔۔۔ اور خنیس ؓ نبی ﷺ کے صحابی تھے اور ان کی وفات مدنیہ طیبہ میں ہوئی تھی۔۔۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے بیان کیا کہ میں سیدنا عثمان بن عفان ؓ کے پاس آیا انہیں حفصہ کے نکاح کی پیش کش کی، انہوں نے کہا کہ میں اس معاملے میں غور و فکر کروں گا۔ چند دن گزر جانے کے بعد پھر میری ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا: میرے لیے یہ امر ظاہر ہوا ہے کہ میں ان دنوں نکاح نہ کروں۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا: پھر میں سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے ملا تو میں نے (ان سے) کہا: اگر آپ چاہیں تو میں اپنی بیٹی حفصہ کا نکاح تم سے کر دوں۔ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ خاموش رہے اور مجھے جواب نہ دیا۔ مجھے ان کے عدم التفات کی وجہ سے سیدنا عثمان بن عفان ؓ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5122]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد اپنی بیٹی سے نکاح کی کسی نیک مرد کو پیش کش کر سکتا ہے، اور اس میں کوئی بےعزتی اور توہین والی بات نہیں ہے۔
(2)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نسبت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر زیادہ ناراض ہونا اس لیے تھا کہ انھیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ محبت تھی اور جہاں محبت زیادہ ہو وہاں ناراضی بھی زیادہ ہوتی ہے۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پہلے خاموشی اختیار کر کے پھر معذرت کی تھی لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صرف خاموشی اختیار کیے رکھی۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے قابل اعتماد ساتھی سے یہ ذکر کرنا جائز ہے کہ وہ فلاں عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے، حالانکہ ابھی تک اسے پیغام نکاح بھی نہیں بھیجا تھا۔
بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی تقوی شعار کو اپنی بیٹی یا بہن سے نکاح کی پیش کش کرتا ہے تو یہ جائز ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5122   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.