الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
The Book of (The Wedlock)
81. بَابُ الْوَصَاةِ بِالنِّسَاءِ:
81. باب: عورتوں سے اچھا سلوک کرنے کے بارے میں وصیت نبوی کا بیان۔
(81) Chapter. The exhortation of taking care of the women.
حدیث نمبر: 5187
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال:" كنا نتقي الكلام والانبساط إلى نسائنا على عهد النبي صلى الله عليه وسلم هيبة ان ينزل فينا شيء، فلما توفي النبي صلى الله عليه وسلم تكلمنا وانبسطنا".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كُنَّا نَتَّقِي الْكَلَامَ وَالِانْبِسَاطَ إِلَى نِسَائِنَا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَيْبَةَ أَنْ يَنْزِلَ فِينَا شَيْءٌ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكَلَّمْنَا وَانْبَسَطْنَا".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ہم اپنی بیویوں کے ساتھ گفتگو اور بہت زیادہ بےتکلفی سے اس ڈر کی وجہ سے پرہیز کرتے تھے کہ کہیں کوئی بےاعتدالی ہو جائے اور ہماری برائی میں کوئی حکم نازل نہ ہو جائے۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو ہم نے ان سے خوب کھل کے گفتگو کی اور خوب بےتکلفی کرنے لگے۔

Narrated Ibn `Umar: During the lifetime of the Prophet we used to avoid chatting leisurely and freely with our wives lest some Divine inspiration might be revealed concerning us. But when the Prophet had died, we started chatting leisurely and freely (with them).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 115



تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5187  
´عورتوں سے اچھا سلوک کرنے کے بارے میں وصیت نبوی`
«. . . عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كُنَّا نَتَّقِي الْكَلَامَ وَالِانْبِسَاطَ إِلَى نِسَائِنَا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَيْبَةَ أَنْ يَنْزِلَ فِينَا شَيْءٌ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكَلَّمْنَا وَانْبَسَطْنَا . . .»
. . . ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ہم اپنی بیویوں کے ساتھ گفتگو اور بہت زیادہ بےتکلفی سے اس ڈر کی وجہ سے پرہیز کرتے تھے کہ کہیں کوئی بےاعتدالی ہو جائے اور ہماری برائی میں کوئی حکم نازل نہ ہو جائے۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو ہم نے ان سے خوب کھل کے گفتگو کی اور خوب بےتکلفی کرنے لگے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ: 5187]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5187کا باب: «بَابُ الْوَصَاةِ بِالنِّسَاءِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے پر توجہ دلائی اور تحت الباب دو احادیث ذکر فرمائیں، ایک کی مناسبت جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس سے واضح ہے اور دوسری حدیث جو کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اس میں وصیت کے کوئی الفاظ نمایاں نہیں ہے، جس سے بظاہر مناسبت حدیث کا ترجمۃ الباب سے دکھائی نہیں دیتا۔

محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«ذكر المصنف فى الباب حديثين ومطابقة الحديث الأول ظاهر، وأما مطابقة الحديث الثاني فغير واضح.» [الابواب و التراجم لصحيح بخاري: 549/5]
امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب 2 احادیث ذکر فرمائی ہیں، پہلی حدیث سے مطابقت واضح ہے اور دوسری حدیث سے مطابقت غیر واضح ہے۔

علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«لا مطابقة بين الترجمة وبين هذا الحديث، ويمكن أن توخز المطابقة من قوله: وانبسطنا لأن الانبساط إليهن من جملة الوصايا بهن.» [عمدة القاري للعيني: 143/14]
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مطابقت نہیں دکھلائی دیتی، ممکن ہے (کہ مطابقت یوں ہو) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا تھا، «وانبسطنا» کیوں کہ انبساط کرنا عورتوں کی طرف ہی باب وصایا سے تعلق رکھتا ہے۔

دراصل مطابقت حدیث کی باب سے موجود ہے، مگر دقیق الفاظوں میں وہ کس طرح؟ وہ اس طرح سے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا تھا کہ ہم اپنی عورتوں سے بےتکلفی سے ڈرتے تھے، یعنی اگر وہ اپنی خواتین سے بےتکلفی برتتے تو ممکن تھا کہ بےتکلفی میں مار پیٹ پر نوبت پہنچ جاتی، لہٰذا وہ اس نوبت سے بچنے کے لئے بہت احتیاط سے رہا کرتے تھے اور وہ اپنے ہاتھوں کو کسی بھی مارپیٹ سے محفوظ رکھا کرتے تھے، پس یہیں سے ترجمتہ الباب اور حدیث کی مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 96   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5187  
5187. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے عہد مبارک میں اپنی بیویوں سے کھل کر باتیں کرنے اور زیادہ بے تکلفی سے اس اندیشے کی بناء پر پرہیز کرتے تھے کہ مبادا ہمارے متعلق کوئی حکم نازل ہو جائے۔ جب نبی ﷺ کی وفات ہو گئی تو پھر ہم نے ان سے خوب کھل کر گفتگو کی اور بے تکلفی سے خوش طبعی کرنے لگے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5187]
حدیث حاشیہ:
(1)
عورتوں سے گپ شپ لگانے کا لازمی نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ مارپٹائی تک نوبت آ جاتی ہے کیونکہ اپنے اہل خانہ سے کھل کر بات کرے گا تو خاوند کو ان کا ناز نخرہ برداشت کرنا ہوگا۔
بعض اوقات اس دوران میں عورتیں خاوند کی پاسداری بھی ملحوظ نہیں رکھ پاتیں جس سے نافرمانی کا ظہور ہوتا ہے، پھر معاملہ زد و کوب تک جا پہنچتا ہے۔
(2)
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو عورتوں کے معاملے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف کو برداشت کرے اور غصے و طیش کے وقت حوصلے سے کام لے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم بھی بعض اوقات آپ کی باتوں کا جواب دیتی تھیں بلکہ رات بھر آپ کو چھوڑ دیتی تھیں۔
ہمارے رجحان کے مطابق عورتوں کے ساتھ اعلیٰ سلوک یہ ہے کہ ان سے گپ شپ کرے اور معاملات میں ان کی عقلی استعداد کو ضرور مدنظر رکھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5187   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.