الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
The Book of The Times of As-Salat (The Prayers) and Its Superiority
4. بَابُ الصَّلاَةُ كَفَّارَةٌ:
4. باب: اس بیان میں کہ گناہوں کے لیے نماز کفارہ ہے (یعنی اس سے صغیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں)۔
(4) Chapter. As-Salat (the prayer) is expiation (of sins).
حدیث نمبر: 525
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، قال: حدثنا يحيى، عن الاعمش، قال: حدثني شقيق، قال: سمعت حذيفة، قال:" كنا جلوسا عند عمر رضي الله عنه، فقال: ايكم يحفظ قول رسول الله صلى الله عليه وسلم في الفتنة؟ قلت: انا كما قاله، قال: إنك عليه او عليها لجريء، قلت: فتنة الرجل في اهله وماله وولده وجاره، تكفرها الصلاة والصوم والصدقة والامر والنهي، قال: ليس هذا اريد، ولكن الفتنة التي تموج كما يموج البحر، قال: ليس عليك منها باس يا امير المؤمنين، إن بينك وبينها بابا مغلقا، قال: ايكسر ام يفتح؟ قال: يكسر، قال: إذا لا يغلق ابدا، قلنا: اكان عمر يعلم الباب؟ قال: نعم، كما ان دون الغد الليلة"، إني حدثته بحديث ليس بالاغاليط، فهبنا ان نسال حذيفة، فامرنا مسروقا فساله، فقال: الباب عمر.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ الْأَعْمَشِ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَقِيقٌ، قَالَ: سَمِعْتُ حُذَيْفَةَ، قَالَ:" كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ يَحْفَظُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَةِ؟ قُلْتُ: أَنَا كَمَا قَالَهُ، قَالَ: إِنَّكَ عَلَيْهِ أَوْ عَلَيْهَا لَجَرِيءٌ، قُلْتُ: فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ، تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصَّوْمُ وَالصَّدَقَةُ وَالْأَمْرُ وَالنَّهْيُ، قَالَ: لَيْسَ هَذَا أُرِيدُ، وَلَكِنْ الْفِتْنَةُ الَّتِي تَمُوجُ كَمَا يَمُوجُ الْبَحْرُ، قَالَ: لَيْسَ عَلَيْكَ مِنْهَا بَأْسٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا، قَالَ: أَيُكْسَرُ أَمْ يُفْتَحُ؟ قَالَ: يُكْسَرُ، قَالَ: إِذًا لَا يُغْلَقَ أَبَدًا، قُلْنَا: أَكَانَ عُمَرُ يَعْلَمُ الْبَابَ؟ قَالَ: نَعَمْ، كَمَا أَنَّ دُونَ الْغَدِ اللَّيْلَةَ"، إِنِّي حَدَّثْتُهُ بِحَدِيثٍ لَيْسَ بِالْأَغَالِيطِ، فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَ حُذَيْفَةَ، فَأَمَرْنَا مَسْرُوقًا فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: الْبَابُ عُمَرُ.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے اعمش کی روایت سے بیان کیا، اعمش (سلیمان بن مہران) نے کہا کہ مجھ سے شقیق بن مسلمہ نے بیان کیا، شقیق نے کہا کہ میں نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سنا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے پوچھا کہ فتنہ سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث تم میں سے کسی کو یاد ہے؟ میں بولا، میں نے اسے (اسی طرح یاد رکھا ہے) جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث کو بیان فرمایا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ بولے، کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتن کو معلوم کرنے میں بہت بےباک تھے۔ میں نے کہا کہ انسان کے گھر والے، مال اولاد اور پڑوسی سب فتنہ (کی چیز) ہیں۔ اور نماز، روزہ، صدقہ، اچھی بات کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا ان فتنوں کا کفارہ ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سے اس کے متعلق نہیں پوچھتا، مجھے تم اس فتنہ کے بارے میں بتلاؤ جو سمندر کی موج کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا بڑھے گا۔ اس پر میں نے کہا کہ یا امیرالمؤمنین! آپ اس سے خوف نہ کھائیے۔ آپ کے اور فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ پوچھا کیا وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا یا (صرف) کھولا جائے گا۔ میں نے کہا کہ توڑ دیا جائے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ بول اٹھے، کہ پھر تو وہ کبھی بند نہیں ہو سکے گا۔ شقیق نے کہا کہ ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا عمر رضی اللہ عنہ اس دروازہ کے متعلق کچھ علم رکھتے تھے تو انہوں نے کہا کہ ہاں! بالکل اسی طرح جیسے دن کے بعد رات کے آنے کا۔ میں نے تم سے ایک ایسی حدیث بیان کی ہے جو قطعاً غلط نہیں ہے۔ ہمیں اس کے متعلق حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھنے میں ڈر ہوتا تھا (کہ دروازہ سے کیا مراد ہے) اس لیے ہم نے مسروق سے کہا (کہ وہ پوچھیں) انہوں نے دریافت کیا تو آپ نے بتایا کہ وہ دروازہ خود عمر رضی اللہ عنہ ہی تھے۔

Narrated Shaqiq: that he had heard Hudhaifa saying, "Once I was sitting with `Umar and he said, 'Who amongst you remembers the statement of Allah's Apostle about the afflictions?' I said, 'I know it as the Prophet had said it.' `Umar said, 'No doubt you are bold.' I said, 'The afflictions caused for a man by his wife, money, children and neighbor are expiated by his prayers, fasting, charity and by enjoining (what is good) and forbidding (what is evil).' `Umar said, 'I did not mean that but I asked about that affliction which will spread like the waves of the sea.' I (Hudhaifa) said, 'O leader of the faithful believers! You need not be afraid of it as there is a closed door between you and it.' `Umar asked, Will the door be broken or opened?' I replied, 'It will be broken.' `Umar said, 'Then it will never be closed again.' I was asked whether `Umar knew that door. I replied that he knew it as one knows that there will be night before the tomorrow morning. I narrated a Hadith that was free from any misstatement" The subnarrator added that they deputized Masruq to ask Hudhaifa (about the door). Hudhaifa said, "The door was `Umar himself."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 10, Number 503


   صحيح البخاري7096حذيفة بن حسيلفتنة الرجل في أهله وماله وولده وجاره تكفرها الصلاة والصدقة والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر تموج كموج البحر
   صحيح البخاري3586حذيفة بن حسيلفتنة الرجل في أهله وماله وجاره تكفرها الصلاة والصدقة والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر تموج كموج البحر
   صحيح البخاري525حذيفة بن حسيلفتنة الرجل في أهله وماله وولده وجاره تكفرها الصلاة والصوم والصدقة والأمر والنهي الفتنة التي تموج كما يموج البحر
   صحيح البخاري1895حذيفة بن حسيلفتنة الرجل في أهله وماله وجاره تكفرها الصلاة والصيام والصدقة
   صحيح البخاري1435حذيفة بن حسيلفتنة الرجل في أهله وولده وجاره تكفرها الصلاة والصدقة والمعروف تموج كموج البحر
   صحيح مسلم7268حذيفة بن حسيلفتنة الرجل في أهله وماله ونفسه وولده وجاره يكفرها الصيام والصلاة والصدقة والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر تموج كموج البحر
   جامع الترمذي2258حذيفة بن حسيلفتنة الرجل في أهله وماله وولده وجاره يكفرها الصلاة والصوم والصدقة والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر
   سنن ابن ماجه3955حذيفة بن حسيلفتنة الرجل في أهله وولده وجاره تكفرها الصلاة والصيام والصدقة والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر
   مسندالحميدي452حذيفة بن حسيلمن يحدثنا عن الفتنة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 525  
´فتنوں کا کفارہ`
«. . . قَالَ: لَيْسَ هَذَا أُرِيدُ، وَلَكِنْ الْفِتْنَةُ الَّتِي تَمُوجُ كَمَا يَمُوجُ الْبَحْرُ . . .»
. . . عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سے اس کے متعلق نہیں پوچھتا، مجھے تم اس فتنہ کے بارے میں بتلاؤ جو سمندر کی موج کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا بڑھے گا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ: 525]

لغوی توضیح:
«الإِسْلاَمُ بَدَأَ غَرِيباً» اسلام اجنبی شروع ہوا، یعنی چند قلیل افراد میں، پھر پھیلا اور غالب آ گیا۔
«الَّتِي» «تَمُوجُ كَمَا يَمُوجُ الْبَحْرُ» وہ فتنہ جو سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارے گا، مراد اس کی شدت، عظمت، پھیلاؤ اور وسعت ہے۔
«بَابًا مُغْلَقًا» بند دروازہ، مراد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہیں، ان کی حیات طیبہ میں کوئی بڑا فتنہ رونما نہیں ہوا لیکن ان کی شہادت کے بعد ایسا فتنوں کا دروازہ کھلا جو آج تک بند نہیں ہو سکا۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 88   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3955  
´(امت محمدیہ میں) ہونے والے فتنوں کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں آپ نے کہا کہ تم میں سے کس کو فتنہ کے باب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: مجھ کو یاد ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم بڑے جری اور نڈر ہو، پھر بولے: وہ (حدیث) کیسے ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: آدمی کے لیے جو فتنہ اس کے اہل و عیال، اولاد اور پڑوسی میں ہوتا ہے اسے نماز، روزہ، صدقہ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتے ہیں، (یہ سن کر) عمر رضی اللہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3955]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
اہل وعیال اور پڑوسیوں وغیرہ کے بارے میں آزمائش سے مراد روز مرہ کے معاملات ہیں۔
ان سے بھی انسان کی آزمائش ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے احکام کی تعمیل کرتا ہے یا نہیں۔

(2)
۔
چھوٹی موٹی غلطیاں نماز روزے وغیرہ سے معاف ہوجاتی ہیں۔

(3)
اس حدیث میں مذکور فتنے سے مراد اسلام دشمن کی وہ خفیہ سازشیں ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حیات میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
آپ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر جھوٹے الزامات سے وہ ظاہر ہوئیں اور جھوٹے پر وپیگنڈے کے زور پر انھیں کامیاب کیا گیا۔

(4)
دروازہ ٹوٹنے سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہے جوا یک مجوسی ابو لؤلؤ فیروز کے ہاتھ ہوئی۔
اس سے سازشوں کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ دور ہوگئی۔

(5)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما کو مستقبل کے فتنوں سے آگاہ فرمایا تھا۔
عام مسلمانوں کو ان سے آگاہ کرنا مصلحت کے خلاف تھا۔

(6)
یہ فتنے اسی طرح واقع ہوئے جس طرح نبی ﷺ نے بیان فرمائے تھے۔
یہ نبی ﷺکی صداقت کی دلیل ہے کہ آپﷺ جو کچھ فرماتے تھے وہ وحی کی روشنی میں ہوتا تھا۔
اس سے نبی ﷺ کے علم غیب پر استدلال کرنا درست نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3955   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2258  
´سمندر کی موج کی طرح کے فتنے کا ذکر۔`
حذیفہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ نے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ کے بارے میں جو فرمایا ہے اسے کس نے یاد رکھا ہے؟ حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا: میں نے یاد رکھا ہے، حذیفہ رضی الله عنہ نے بیان کیا: آدمی کے لیے جو فتنہ اس کے اہل، مال، اولاد اور پڑوسی کے سلسلے میں ہو گا اسے نماز، روزہ، زکاۃ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتے ہیں ۱؎، عمر رضی الله عنہ نے کہا: میں تم سے اس کے بارے میں نہیں پوچھ رہا ہوں، بلکہ اس فتنہ کے بارے میں پوچھ رہا ہوں جو سمندر کی موجوں کی طرح موجیں مارے گا، انہوں نے کہا: امیر المؤمنین! ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2258]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہواکہ گھر کی ذمہ داری سنبھالنے والے سے اس کے اہل،
مال،
اولاد اور پڑوسی کے سلسلہ میں ادائے حقوق کے ناحیہ سے جوکوتاہیاں ہوجاتی ہیں تو نماز،
روزہ،
صدقہ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر وغیرہ یہ سب کے سب ان کے لیے کفارہ بنتے ہیں۔

2؎:
حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جو کچھ بیان کیا عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حقیقت میں اسی طرح پیش آیا،
یعنی فتنوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا،
اور امن وامان نام کی کوئی چیز دنیا میں باقی نہیں رہی،
چنانچہ ہر کوئی سکون واطمینان کا متلاشی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2258   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:525  
525. حضرت حذیفہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ہم حضرت عمر ؓ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انھوں نے فرمایا: تم میں سے کس کو فتنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا فرمان یاد ہے؟ میں نے عرض کیا: مجھے اسی طرح یاد ہے جس طرح آپ نے فرمایا تھا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: بلاشبہ تم ہی اس قسم کی بات کرنے کے متعلق جراءت کر سکتے ہو۔ میں نے عرض کیا: (آپ نے فرمایا تھا:) انسان کا وہ فتنہ جو اس کے گھر بار، مال و اولاد اور اس کے ہمسایوں میں ہوتا ہے، اسے تو نماز، روزہ، صدقہ و خیرات، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مٹا دیتا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میرا مقصد اس قسم کے فتنے کے متعلق معلومات حاصل کرنا نہیں بلکہ میں اس فتنے کے متعلق دریافت کرنا چاہتا ہوں جو سمندر کی طرح موجزن ہو گا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے عرض کیا: اے امیر المومنین! اس فتنے سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں، کیونکہ اس کے اور آپ کے درمیان ایک بند دروازہ حائل ہے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:525]
حدیث حاشیہ:
(1)
أغاليط، أغلوطة کی جمع ہے۔
اس سے مراد وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے کسی دوسرے کو مغالطے میں ڈالا جا سکے۔
اس سے حضرت حذیفہ ؓ کا مقصود یہ تھا کہ میں آپ کو رسول اللہ ﷺ کی سچی اور کھری باتیں سنا رہا ہوں، اپنی رائے یا اجتہاد سے کوئی بات بنا کر تمھیں کسی مغالطےمیں نہیں ڈالنا چاہتا۔
واقعی حضرات صحابۂ کرام کی یہ شان تھی رضی اللہ عنہم۔
(2)
اہل وعیال کے متعلق فتنے سے یہ مراد ہے کہ اپنے اہل خانہ کی خاطر کوئی ایسی بات یا ایسا کام کیا جائے جو شرعا جائز نہ ہو۔
اولاد کے فتنے سے مراد ان کی محبت میں مبتلا ہو کر کارہائے خیر سے محروم رہنا ہے۔
مال کے فتنے سے مراد حرام ذرائع سے اس کا حصول اور غلط مصرف پر اس کا استعمال کرنا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ﴾ تمھاری اولاد اور تمھارے مال تمھارے لیے باعث فتنہ ہیں۔
(التغابن: 64: 15) (3)
احادیث کی روشنی میں گناہوں کے معاف ہونے کی تفصیل یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے گناہ وضو کرنے سے دھل جاتے ہیں، ان سے بڑے مسجد کی طرف نماز کی نیت سے آنے کی بنا پر معاف ہو جاتے ہیں، پھر پابندئ اوقات اور رعایت خشوع سے نماز پڑھنے کی بدولت گناہ ختم ہوجاتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ نماز سے صرف صغیرہ گناہ معاف ہوں گے، کبیرہ گناہوں کی معافی کے لیے توبہ شرط ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّـهِ تَوْبَةً نَّصُوحًاظ﴾ ایمان والو! اللہ کے حضور خالص توبہ پیش کرو۔
(التحریم: 66: 8)
اگر صرف نماز ادا کرنے اور دیگر اعمال خیر بجا لانے سے ہی تمام صغیرہ کبیرہ معاف ہوجاتے ہوں تو توبہ کرنے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے جس کی طرف باری تعالیٰ نے ہمیں متوجہ کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 525   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.