الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
The Book of The Times of As-Salat (The Prayers) and Its Superiority
1. بَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ وَفَضْلِهَا:
1. باب: نماز کے اوقات اور ان کے فضائل۔
(1) Chapter. The times of As-Salat (the prayers) and the superiority of offering Salat (prayers) in time.
حدیث نمبر: 522
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) قال عروة: ولقد حدثتني عائشة،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي العصر والشمس في حجرتها قبل ان تظهر".(مرفوع) قَالَ عُرْوَةُ: وَلَقَدْ حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا قَبْلَ أَنْ تَظْهَرَ".
‏‏‏‏ عروہ رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ مجھ سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز اس وقت پڑھ لیتے تھے جب ابھی دھوپ ان کے حجرہ میں موجود ہوتی تھی اس سے بھی پہلے کہ وہ دیوار پر چڑھے۔

Urwa added, "Aisha told me that Allah's Apostle used to pray `Asr prayer when the sunshine was still inside her residence (during the early time of `Asr).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1 , Book 10 , Number 500


   صحيح البخاري522يصلي العصر والشمس في حجرتها قبل أن تظهر
   صحيح البخاري521ما هذا يا مغيرة؟ اليس قد علمت ان جبريل نزل فصلى، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم،
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم79ان جبرائيل هو الذى اقام لرسول الله صلى الله عليه وسلم وقت الصلاة
   مسندالحميدي170كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي العصر والشمس طالعة في حجرتي لم يظهر الفيء عليها بعد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 79  
´نماز کے اوقات اور ان کے فضائل`
«. . . اليس قد علمت ان جبرائيل نزل فصلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم . . .»
. . . کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جبریل علیہ السلام نے نازل ہو کر نماز پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 79]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 521، 522، ومسلم 610/167، من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوع روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دو دفعہ بیت اللہ کے پاس نماز کی امامت کرائی۔ انہوں نے پہلی دفعہ ظہر اس وقت پڑھی جب سایہ تسمہ کے برابر (بہت تھوڑا) تھا پھر ایک مثل پر عصر کی نماز پڑھی پھر سورج کے غروب ہوتے ہی مغرب کی نماز پڑھی پر شفق کے غائب ہونے کے بعد عشاء کی نماز پڑھی پھر صبح صادق ظاہر ہونے کے بعد فجر کی نماز پڑھی۔ دوسری دفعہ ظہر کی نماز ایک مثل پر عصر کی نماز دو مثل پر اور مغرب کی نماز پہلے کی طرح سورج غروب ہوتے ہی پڑھی، عشاء کی نماز ایک تہائی رات گزرنے کے بعد اور فجر کی نماز خوب روشنی میں پڑھی پھر جبریل علیہ السلام نے فرمایا: ان دو وقتوں کے درمیان (پانچ نمازوں کا) وقت ہے۔ [سنن ابي داود: 393 وسنده حسن وقال الترمذي: 149 حسن و صححه ابن خزيمه: 325 و ابن الجارود: 149، 150، والحاكم 197/1 ح 707 وقال النيموي فى آثار السنن: 194 و إسناد حسن]
◄ اس مفہوم کی روایات درج ذیل صحابہ کرام سے بھی ثابت ہیں:
◈ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ [سنن النسائي 249/1، 250 ح 503 وسنده حسن وحسنه البخاري/العلل الكبير للترمذي 203/1 ب 46]
◈ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ [سنن الترمذي: 150، وقال: حديث حسن، سنن النسائي 263/1 ح 527 وإسناده حسن و صححه ابن حبان، الاحسان: 1470، والحاكم 195/1، 196، والذهبي]
◈ سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ [مسند أحمد 30/3 ح 11249، وسنده حسن]
◈ سیدنا ابومسعود الانصاری رضی اللہ عنہ [سنن ابي داود: 394 نحو المعنٰي وهو حديث حسن صحيح و صححه ابن خزيمه: 352 وابن حبان، الموارد: 279 والحاكم 192/1، 193]
◄ امامت جبریل والی یہ حدیث متواتر ہے۔ دیکھئے: [قطف الازهار 23، نظم المتناثر 49]
➋ اس پر اجماع ہے کہ نماز ظہر کا وقت زوال کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے۔ [الافصاح لا بن هبير 76/1، الاجماع لابن المنذر: 34، مراتب الاجماع لابن حزم ص26]
⟐ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حکم جاری کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ظہر کا وقت ایک ذراع سائے سے لے کر ایک مثل تک رہتا ہے۔ [الاوسط لابن المنذر ر328/2 ث 948 وسنده صحيح]
⟐ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوموسٰی الاشعری رضی اللہ عنہ کو لکھ کر حکم بھیجا کہ ظہر کی نماز سورج کے زوال پر پڑھو۔ [موطأ مالك رواية يحييٰ 7/1 ح 5، ك 1 ب 1 ح 7 وسنده صحيح]
◄ جن روایات میں آیا ہے کہ جب گرمی زیادہ ہو تو ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، ان تمام احادیث کا تعلق سفر کے ساتھ ہے جیسا کہ صحیح بخاری [539] کی حدیث سے ثابت ہے۔
⟐ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب سایہ ایک مثل ہو جائے تو ظہر کی نماز ادا کرو اور جب دو مثل ہو جائے تو عصر پڑھو [موطأ امام مالك 8/1 ح 9 وسنده صحيح]
◄ اس کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کی نماز زوال سے لے کر ایک مثل تک پڑھ سکتے ہیں یعنی ظہر کا وقت زوال سے لے کر ایک مثل تک ہے اور عصر کا وقت ایک مثل سے لے کر دو مثل تک ہے۔ دیکھئے: [التعيلق الممجد ص 41 حاشيه 9]
◈ سوید بن غفلہ رحمہ اللہ (تابعی کبیر) نماز ظہر اول وقت ادا کرنے پر اس قدر ڈٹے ہوئے تھے کہ مرنے مارنے کے لئے تیار ہو گئے مگر یہ گوارا نہ کیا کہ ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھیں اور لوگوں کو بتایا کہ ہم سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز ظہر اول وقت میں ادا کرتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 323/1 ح 3271 وسنده حسن]
➌ ائمہ ثلاثہ (اور جمہور علماء) کے نزدیک عصر کا وقت ایک مثل پر شروع ہو جاتا ہے۔ دیکھئے کتاب [الام للشافعي 73/1، والا وسط لابن المنذر 329/2]
➍ سنن ابی داود کی ایک روایت میں آیا ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (فجر) وفات تک اندھیرے میں رہی اور آپ نے (اس دن کے بعد)کبھی روشنی میں نماز نہیں پڑھی۔ [63/1 ح 394 وهو حديث حسن، والناسخ والمنسوخ للحازمي ص 77 و صححه ابن خزيمة: 352 وابن حبان، الاحسان: 1446، والحاكم 192/1، 193، للحد يث شاهد حسن لذاته عند الحاكم،]
◄ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز فجر روشنی کر کے پڑھنا منسوخ ہے لہٰذا یہ نماز اندھیرے میں ہی پڑھنی چاہئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حکم فرمایا اور فجر کی نماز اس وقت پڑھو جب ستارے صاف ظاہر اور باہم الجھے ہوئے ہوں۔ [موطأ امام مالك 7/1 ح 6 وسنده صحيح]
● سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مزید فرمایا: اور صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھو۔ [اسنن الكبري للبيهقي 456/1 وسنده حسن،]
● سیدنا ابوموسیٰ الاشعری اور سیدنا عبد الله بن الزبیر رضی اللہ عنہما فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 320/1 ح 3239، 3240 وسندهما صحيح]
● خلیفہ عمر بن عبدالعزيز الاموی رحمہ اللہ نے حکم جاری کیا کہ فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھو۔ [مصنف ابن ابي شيبه 320/1 ح 3237 وسنده صحيح]
➎ صحابہ و تابعین کے مبارک دور میں صحیح سندوں کے ساتھ بیان کردہ احادیث رسول کو حجت سمجھا جاتا تھا۔
➏ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر عالم کو تمام دلائل کا علم ہر حال میں ہو بلکہ عین ممکن ہے کہ بڑے سے بڑے عالم سے بعض دلائل مخفی رہ جائیں۔
➐ اوقات نماز کا تعین الله تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
➑ علمائے حق کی ذمہ داری ہے کہ حتی الوسع ہر وقت کتاب و سنت کی دعوت پھیلانے میں مصروف رہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 45   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:522  
522. حضرت عائشہ‬ ؓ ب‬یان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز عصر اس حالت میں پڑھتے تھے کہ دھوپ ان کے حجرے میں ہوتی تھی قبل اس کے کہ (سایہ اس کی) دیواروں پر نمایاں ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:522]
حدیث حاشیہ:
(1)
امامت جبرائیل ؑ کی روایت سے تحدید اوقات کی اہمیت ثابت کرنے کے بعد خصوصیت کے ساتھ نماز عصر کی اہمیت اور اس کو اول وقت پڑھنے کی ضرورت کو بیان کیا جارہا ہے، کیونکہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ سے نماز عصر ہی میں تاخیر ہوئی تھی۔
چونکہ عصر کی نماز میں وقت مکروہ بھی شامل ہے، اس لیے اسے ادا کرتے وقت احتیاط کی ضرورت ہے، مبادا مکروہ وقت میں داخل ہو جائے۔
امام بخاری ؒ اس حدیث سے نماز عصر کا اول وقت ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں:
اس سے یہ مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی نماز عصر ایک مثل سایہ دراز ہونے کے بعد ہوتی تھی، اس لیے کہ اس وقت حجرے کی دیواریں بہت اونچی نہ تھیں، صحن بھی کشادہ نہ تھا، ایسے حجروں میں دیواروں پر دھوپ ایک مثل کے بعد ہی ظاہر ہوتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اول وقت نماز ادا کرنے کو بہترین عمل قرار دیا ہے۔
(جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 170)
قران مجید میں صلاة وسطیٰ کی حفاظت کے متعلق خصوصی ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
(البقرة: 238: 2)
حدیث کے مطابق صلاة وسطیٰ سے مراد صلاة عصر ہے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1426(628) (2)
ہم نے ترجمہ کرتے وقت بریکٹ میں لفظ سایہ کا اضافہ کیا ہے، کیونکہ سورج کے نیچےہونے سے دیواروں کا سایہ اوپرچڑھتا ہے، نیز اس حدیث کے بعض طرق میں اس کی وضاحت بھی ہے۔
جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ خود بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز عصر اس وقت پڑھ لیتے تھے کہ دھوپ ابھی میرے حجرے میں ہوتی اور دیواروں کا سایہ ابھی نمایہ نہ ہوتا تھا۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 545، 546)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 522   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.