الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
The Book of Divorce
16. بَابُ شَفَاعَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زَوْجِ بَرِيرَةَ:
16. باب: بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفارش کرنا۔
(16) Chapter. The intercession of the Prophet for Barira’s husband.
حدیث نمبر: 5283
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد، اخبرنا عبد الوهاب، حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس،" ان زوج بريرة كان عبدا يقال له: مغيث كاني انظر إليه يطوف خلفها يبكي ودموعه تسيل على لحيته، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لعباس: يا عباس، الا تعجب من حب مغيث بريرة ومن بغض بريرة مغيثا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لو راجعته، قالت: يا رسول الله، تامرني؟ قال: إنما انا اشفع، قالت: لا حاجة لي فيه".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ،" أَنَّ زَوْجَ بَرِيرَةَ كَانَ عَبْدًا يُقَالُ لَهُ: مُغِيثٌ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ يَطُوفُ خَلْفَهَا يَبْكِي وَدُمُوعُهُ تَسِيلُ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعبَّاسٍ: يَا عَبَّاسُ، أَلَا تَعْجَبُ مِنْ حُبِّ مُغِيثٍ بَرِيرَةَ وَمِنْ بُغْضِ بَرِيرَةَ مُغِيثًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ رَاجَعْتِهِ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تَأْمُرُنِي؟ قَالَ: إِنَّمَا أَنَا أَشْفَعُ، قَالَتْ: لَا حَاجَةَ لِي فِيهِ".
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی، کہا ہم سے خالد حذاء نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر غلام تھے اور ان کا نام مغیث تھا۔ گویا میں اس وقت اس کو دیکھ رہا ہوں جب وہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے پیچھے پیچھے روتے ہوئے پھر رہے تھے اور آنسوؤں سے ان کی ڈاڑھی تر ہو رہی تھی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: عباس! کیا تمہیں مغیث کی بریرہ سے محبت اور بریرہ کی مغیث سے نفرت پر حیرت نہیں ہوئی؟ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ کاش! تم اس کے بارے میں اپنا فیصلہ بدل دیتیں۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے اس کا حکم فرما رہے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں صرف سفارش کر رہا ہوں۔ انہوں نے اس پر کہا کہ مجھے مغیث کے پاس رہنے کی خواہش نہیں ہے۔

Narrated Ibn `Abbas: Barira's husband was a slave called Mughith, as if I am seeing him now, going behind Barira and weeping with his tears flowing down his beard. The Prophet said to `Abbas, "O `Abbas ! are you not astonished at the love of Mughith for Barira and the hatred of Barira for Mughith?" The Prophet then said to Barira, "Why don't you return to him?" She said, "O Allah's Apostle! Do you order me to do so?" He said, "No, I only intercede for him." She said, "I am not in need of him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 63, Number 206


   صحيح البخاري5283عبد الله بن عباستعجب من حب مغيث بريرة ومن بغض بريرة مغيثا فقال النبي لو راجعته قالت يا رسول الله تأمرني قال إنما أنا أشفع قالت لا حاجة لي فيه
   سنن أبي داود2232عبد الله بن عباسخيرها يعني النبي أمرها أن تعتد
   سنن أبي داود2231عبد الله بن عباسألا تعجب من حب مغيث بريرة وبغضها إياه
   سنن النسائى الصغرى5419عبد الله بن عباسلو راجعتيه فإنه أبو ولدك قالت يا رسول الله أتأمرني قال إنما أنا شفيع قالت فلا حاجة لي فيه
   سنن ابن ماجه2075عبد الله بن عباسلو راجعتيه فإنه أبو ولدك قالت يا رسول الله تأمرني قال إنما أشفع قالت لا حاجة لي فيه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2075  
´آزاد ہو جانے کے بعد لونڈی کو اختیار ہے کہ وہ اپنے شوہر کے پاس رہے یا نہ رہے۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کا شوہر غلام تھا اس کو مغیث کہا جاتا تھا، گویا کہ میں اس وقت اس کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ بریرہ کے پیچھے پھر رہا ہے، اور رو رہا ہے اور اس کے آنسو اس کے گالوں پہ بہہ رہے ہیں، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عباس رضی اللہ عنہ سے فرما رہے ہیں: عباس! کیا تمہیں بریرہ سے مغیث کی محبت اور مغیث سے بریرہ کی نفرت پہ تعجب نہیں ہے؟ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ رضی اللہ عنہا سے کہا: کاش تو مغیث کے پاس لوٹ جاتی، وہ تیرے بچے کا باپ ہے، ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2075]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر خاوند اور بیوی دونوں غلام ہوں، پھر عورت آزاد ہوجائے تو اسے اختیار حاصل ہوجاتا ہے کہ چاہے اس خاوند کے ساتھ رہے، چاہے تو الگ ہوجائے۔

(2)
الگ ہونے کا فیصلہ کرلینے سے پہلا نکاح ختم ہوجاتا ہے لیکن نئے نکاح کے ساتھ وہ دوبارہ اکٹھے ہوسکتے ہیں۔
رسول اللہﷺ نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو رجوع کرنے کا مشورہ دیا، اس کا یہی مطلب ہے کہ دوبارہ نکاح کرلو۔

(3)
  اگر پہلے خاوند آزاد ہوجائے تو بیوی کو یہ اختیار نہیں ہوتا۔

(4)
  رسول اللہﷺ کے مشورے اور حکم میں شرعی طور پر فرق ہے۔
حکم ماننا فرض ہے اور مشورہ تسلیم کرنا فرض نہیں، مومن اپنے حالات کے مطابق فیصلہ کرسکتا ہے۔

(5)
رسول اللہﷺ نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کو رجو ع کا حکم نہیں دیا کیونکہ شریعت نے حضرت بریرہ ؓ کو جو حق دیا تھا، رسول اللہﷺ انہیں اس سے محروم نہیں کرسکتے تھے۔

(6)
  محبت اور نفرت فطری چیزیں ہیں۔
عام معاملات میں کسی کو کسی چیزسے محبت یا نفرت پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، البتہ ارادے سے کی جانے والی محبت کا تعلق ایمان سے ہے جس میں اللہ عزوجل کی محبت، رسول اللہﷺ کی محبت اور نیک لوگوں سے محبت شامل ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2075   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2231  
´آزاد یا غلام کے نکاح میں موجود لونڈی کی آزادی کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مغیث رضی اللہ عنہ ایک غلام تھے وہ کہنے لگے: اللہ کے رسول! اس سے میری سفارش کر دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بریرہ! اللہ سے ڈرو، وہ تمہارا شوہر ہے اور تمہارے لڑکے کا باپ ہے کہنے لگیں: اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے ایسا کرنے کا حکم فرما رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ میں تو سفارشی ہوں مغیث کے آنسو گالوں پر بہہ رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ کو مغیث کی بریرہ کے تئیں محبت اور بریرہ کی مغیث کے تئیں نفر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2231]
فوائد ومسائل:

غلام اور لونڈی اگر عقد زوجیت میں منسلک ہوں لیکن لونڈی کو پہلے آزادی مل جائےتو اسے اپنے (غلام) شوہر کی زوجیت میں رہنے یا نہ رہنے کا اختیار حاصل ہے۔
اگر شوہر پہلے آزاد ہوجائےتو بیوی کو کوئی اختیار نہیں ہوتا۔
درج ذیل احادیث میں مذکورہواقعہ بریرہ (لونڈی) اور اس کے شوہر مغیث (غلام) کا ہے۔
بریرہ رضی اللہ عنہ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے پہلے آزاد کر دیا تھا جبکہ مغیث رضی اللہ عنہ غلام ہی رہے تھے۔


بریرہ رضی اللہ عنہ جیسی عورت جسے ایک صحیح حدیث میں ناقص العلقل کہا گیا ہے دین کے معاملے میں کس قدر دانا تھیں۔
وہ جانتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ٹال دینا دین ودنیا کا خسارا ہے مگر جب آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ میری یہ بات حکم نہیں محض سفارش ہے تو انہوں نے شرعاً حاصل شدہ اختیار کو ترجیح دی۔
اس واقعہ میں حریت فکر کا درس ہے اور اور یہ بھی کہ یہ آزادی اللہ کے دین اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت سے مشروط ہے کیونکہ اللہ تعالی انسان کا خالق ہے اور رسول اللہ ﷺ اللہ کے پیامبر ہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2231   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5283  
5283. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے، سیدہ بریرہ‬ ؓ ک‬ے شوہر غلام تھے جنہں مغیث کہا جاتا تھا۔ گویا وہ منظر اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے جب وہ بریرہ‬ ؓ ک‬ے پیچھے روتے ہوئے گھوم رہے تھے اور ان کے آنسو ان کی ڈاڑھی پر بہہ رہے تھے۔ نبی ﷺ نے سیدنا عباس ؓ نے فرمایا: اے عباس! کیا تمہیں مغیث کی بریرہ سے محبت اور بریرہ کی مغیث سے نفرت پر حیرت نہیں؟ آخر نبی ﷺ نے سیدہ بریرہ‬ ؓ س‬ے فرمایا: تم اب بھی مغیث کے متعلق فیصلہ بدل لو۔ انہوں نے عرض کی: آپ نے فرمایا: نہیں، میں صرف سفارش کر رہا ہوں۔ اس پر سیدہ بریرہ نے کہا: مجھے مغیث کے پاس رہنے کی کوئی خواہش نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5283]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور آپ کی سفارش میں فرق معلوم ہوا کہ آپ کا حکم تو وجوب کے لیے ہے جس کا ماننا ضروری ہے لیکن سفارش قبول کرنا ضروری نہیں۔
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے جواب میں سفارش قبول نہ کرنے کا عذر بیان کیا ہے کہ مجھے حضرت مغیث رضی اللہ عنہ سے کوئی غرض نہیں ہے اور نہ ان سے رجوع ہی کرنے میں میری کوئی بھلائی پوشیدہ ہے۔
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا سے حضرت مغیث رضی اللہ عنہ کی اولاد بھی تھی، اس کے باوجود اس نے انکار کر دیا کیونکہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارش کرتے ہوئے فرمایا:
تم اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرلو کیونکہ وہ تیری اولاد کا باپ ہے۔
(سنن ابن ماجة، الطلاق، حدیث: 2075) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام، عالم اور صاحب اختیار سے رعایا کی ضرورت پوری کرنے کے لیے سفارش کرائی جا سکتی ہے۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5283   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.