الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ایمان کے بیان میں
The Book of Belief (Faith)
42. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الدِّينُ النَّصِيحَةُ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ وَلأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ»
42. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ دین سچے دل سے اللہ کی فرمانبرداری اور اس کے رسول اور مسلمان حاکموں اور تمام مسلمانوں کی خیر خواہی کا نام ہے۔
(42) Chapter. The statement of the Prophet ﷺ: Religion is An-Nasihah (to be sincere and true) to Allah, to His Messenger (Muhammad ﷺ), to the Muslim rulers, and to all the Muslims.
حدیث نمبر: Q57
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقوله تعالى: {إذا نصحوا لله ورسوله}:وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ}:
‏‏‏‏ اور اللہ نے (سورۃ التوبہ میں) فرمایا جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی خیر خواہی میں رہیں۔


Aur Allah ne (Surah At-Taubah mein) farmaaya jab woh Allah aur us ke Rasool ki khairkhwaahi mein rahen.

حدیث نمبر: 57
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، قال: حدثنا يحيى، عن إسماعيل، قال: حدثني قيس بن ابي حازم، عن جرير بن عبد الله، قال:" بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على إقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والنصح لكل مسلم".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید بن قطان نے بیان کیا، انہوں نے اسماعیل سے، انہوں نے کہا مجھ سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا، انہوں نے جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔


Hum se Musaddad ne bayan kiya, unhon ne kaha hum se Yahya bin Sa’eed bin Qattaan ne bayan kiya, unhon ne Ismail se, unhon ne kaha mujh se Qais bin Abi Haazim ne bayan kiya, unhon ne Jareer bin Abdullah Bajali Radhiallahu Anhu se suna, unhon ne kaha Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam se main ne Namaz qaayim karne aur Zakat ada karne aur har musalmaan ki khairkhwaahi karne par Bai’at ki.

Narrated Jarir bin Abdullah: I gave the pledge of allegiance to Allah's Apostle for the following: 1. offer prayers perfectly 2. pay the Zakat (obligatory charity) 3. and be sincere and true to every Muslim.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 2, Number 55


   صحيح البخاري7204جرير بن عبد اللهعلى السمع والطاعة فلقنني فيما استطعت النصح لكل مسلم
   صحيح البخاري524جرير بن عبد اللهبايعت رسول الله على إقام الصلاة إيتاء الزكاة النصح لكل مسلم
   صحيح البخاري58جرير بن عبد اللهأبايعك على الإسلام النصح لكل مسلم
   صحيح البخاري57جرير بن عبد اللهبايعت رسول الله على إقام الصلاة إيتاء الزكاة النصح لكل مسلم
   صحيح البخاري2715جرير بن عبد اللهبايعت رسول الله على إقام الصلاة إيتاء الزكاة النصح لكل مسلم
   صحيح البخاري2714جرير بن عبد اللهبايعت رسول الله فاشترط علي والنصح لكل مسلم
   صحيح البخاري2157جرير بن عبد اللهبايعت رسول الله على شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله إقام الصلاة إيتاء الزكاة السمع والطاعة النصح لكل مسلم
   صحيح البخاري1401جرير بن عبد اللهبايعت النبي على إقام الصلاة إيتاء الزكاة النصح لكل مسلم
   صحيح مسلم199جرير بن عبد اللهإقام الصلاة إيتاء الزكاة النصح لكل مسلم
   صحيح مسلم201جرير بن عبد اللهعلى السمع والطاعة فلقنني فيما استطعت النصح لكل مسلم
   صحيح مسلم200جرير بن عبد اللهالنصح لكل مسلم
   جامع الترمذي1925جرير بن عبد اللهبايعت رسول الله على إقام الصلاة إيتاء الزكاة النصح لكل مسلم
   سنن أبي داود4945جرير بن عبد اللهبايعت رسول الله على السمع والطاعة أنصح لكل مسلم
   سنن النسائى الصغرى4179جرير بن عبد اللهفيما استطعت فبايعني النصح لكل مسلم
   سنن النسائى الصغرى4194جرير بن عبد اللهبايعت النبي على السمع والطاعة فلقنني فيما استطعت النصح لكل مسلم
   سنن النسائى الصغرى4161جرير بن عبد اللهبايعت رسول الله على النصح لكل مسلم
   سنن النسائى الصغرى4162جرير بن عبد اللهبايعت النبي على السمع والطاعة أنصح لكل مسلم
   المعجم الصغير للطبراني32جرير بن عبد الله لا أقبل منك حتى تبايع على النصح لكل مسلم
   مسندالحميدي812جرير بن عبد اللهبايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على النصح لكل مسلم
   مسندالحميدي813جرير بن عبد اللهبايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على إقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والنصح لكل مسلم
   مسندالحميدي816جرير بن عبد اللهبايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والنصح لكل مسلم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 58  
´دین سچے دل سے اللہ کی فرمانبرداری`
«. . . فَإِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: أُبَايِعُكَ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَشَرَطَ عَلَيَّ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ، فَبَايَعْتُهُ عَلَى هَذَا"، وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ إِنِّي لَنَاصِحٌ لَكُمْ، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَنَزَلَ . . .»
. . . میں آپ سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ہر مسلمان کی خیر خواہی کے لیے شرط کی، پس میں نے اس شرط پر آپ سے بیعت کر لی (پس) اس مسجد کے رب کی قسم کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں پھر استغفار کیا اور منبر سے اتر آئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 58]

باب اور حدیث میں مناسبت:
باب اور حدیث میں مناسبت یہ ہے کہ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی اور ان کے لیے خیر خواہی اور بخشش کی دعا فرمائی، یہیں سے باب اور ترجمہ کی مناسبت معلوم ہوتی ہے۔
دوسری مناسبت کا ذکر ابن بطال رحمہ اللہ کچھ اس طرح سے فرماتے ہیں:
«ان مقصود البخاري الرد علي من زعم ان الاسلام التوحيد، ولا يدخل فيه الاعمال وهم القدرية» [المتواري ص59]
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہاں یہ ہے کہ ان لوگوں کا رد کیا جائے جن کا کہنا ہے کہ اسلام صرف توحید کا نام ہے یعنی اس کا تعلق اعمال کے ساتھ نہیں ہے اور (اس قسم کے عقائد باطلہ کے حامی) قدریہ ہیں۔
حدیث مذکورہ میں اسلام پر بیعت کرنا اور اس میں ہر مسلم کے ساتھ خیر خواہی کرنے کی نصیحت کی گئی ہے، اور یقیناً اس حدیث کا تعلق ہر عام و خاص کے ساتھ ہے۔
امام کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«هذا حديث عظيم الشأن و عليه مدار الاسلام» [شرح كرماني، ج1، ص217]
یہ حدیث عظیم الشان ہے اور اس پر اسلام کا دارومدار ہے۔‏‏‏‏
اس سے بھی باب اور حدیث میں مناسبت معلوم ہوتی ہے۔

فائدہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ:
«الا ان من قبلكم من اهل الكتاب افترقوا علي ثنتين و سبعين ملة وان هذه الملة ستفترق على ثلاث و سعبين ثنتان و سبعون فى النار و واحدة فى الجنة وهى الجماعة» [سنن ابي داؤد كتاب السنه رقم الحديث4097]
خبردار تم سے قبل جو اہل کتاب (یہود و نصریٰ) تھے وہ بہتر 72 فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور یہ امت عنقریب تہتر 73 فرقوں میں بٹ جائے گی بہتر 72 جہنمی ہونگیں اور ایک جنتی اور وہی جماعت ہو گی (قرآن و حدیث پر چلنے والی)۔‏‏‏‏
↰ مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہوا کہ امت میں کئی فرقے ہوں گے اور ان میں ان گنت اختلافات پیدا ہوں گے۔ لیکن یہ یاد رکھا جائے کہ یہ تمام فرقے قرآن و صحیح حدیث کی تعلیمات کی پاداش میں وجود میں نہیں آئیں گے بلکہ قرآن و حدیث کی تعلیمات سے انحراف ہونے کی وجہ سے پیدا ہوں گے۔

غلط فہمی کا ازالہ:
ایک واضح غلط فہمی جو کہ غیر مسلموں اور مسلموں میں یکساں اور مشترکہ ہے کہ یہ جتنے بھی فرقے شروع ہیں اسلام میں ہیں ان کی اصل وجہ حدیث ہی ہے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی فرمایا تھا کہ تہتر 73 فرقے بنیں گے۔
یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ فرقے اور اختلافات احادیث کی وجہ سے پیدا ہوئے، لیکن اگر حدیث کے الفاظ پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ فرقے بناؤ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف پیشں گوئی کی تھی کہ بنیں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنانے کا حکم نہیں دیا۔۔۔
اس کو ایک مثال کے ذریعے سمجھیں کہ ایک کلاس روم میں استاد اپنے شاگردوں کو برابر طور پر تعلیم دینے میں مصروف ہے مگر اس کلاس میں ایک بچہ زید ہے جس کو استاد نے یہ تنبیہ کی کہ تم امتحانات میں فیل ہو جاؤ گے اور جب امتحانات ہوئے تو وہ واقعتاً فیل ہو گیا تو بتایئے کہ کیا اسے استاد نے فیل کیا ہے؟ جواب نفی میں ہے استاد نے صرف اسے متنبہ کیا تھا نہ کہ اسے فیل کیا، بالکل اسی طرح سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو متنبہ فرمایا نہ کہ فرقوں میں تقسیم کروایا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 98   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 57  
´الله کے لیے خیر خواہی`
«. . .قَالَ:" بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ . . .»
. . . انہوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 57]

لغوی توضیح:
«النَّصَيْحَة» کا لغوی معنی ہے خالص ہونا۔ قرآن میں «تَوْبَةً نَّصُوْحًا» کا بھی یہی معنی ہے خالص توبہ۔‏‏‏‏ نھایہ میں ہے کہ نصیحت ایسا جامع لفظ ہے کہ اس میں جملہ امور خیر شامل ہیں۔ دین کو بھی نصیحت اسی لیے کہا گیا ہے کہ تمام دینی اعمال کا دارومدار خلوص اور کھوٹ سے پاک ہونے پر ہی ہے۔

فہم الحدیث:
ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: دین خیرخواہی کا نام ہے۔ صحابہ نے عرض کیا، یہ خیرخواہی کس کے لیے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے آئمہ کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔ [مسلم: كتاب الايمان: باب بيان ان الدين النصيحة: 55، ابوداود: 4944، حميدى: 837]
الله کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ توحید کا راستہ اپنایا جائے اور شرک سے بچا جائے۔ اس کی کتاب کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے، اس کے اوامر پر عمل اور نواہی سے بچا جائے۔ اس کے رسول کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے، اس کی تعلیمات پر عمل کیا جائے اور انہیں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے۔ حکمرانوں کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ تمام امور خیر میں ان کی اطاعت کی جائے اور بلاعذر شرعی ان کے خلاف خروج نہ کیا جائے۔ اور عام مسلمانوں کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ ان سے محبت کی جائے، ان کی اصلاح و فلاح کی اور ان سے ہر قسم کا ضرر و نقصان دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 35   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 58  
´اللہ اور رسول کی خیرخواہی`
«. . . فَإِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: أُبَايِعُكَ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَشَرَطَ عَلَيَّ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ، فَبَايَعْتُهُ عَلَى هَذَا"، وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ إِنِّي لَنَاصِحٌ لَكُمْ، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَنَزَلَ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ہر مسلمان کی خیر خواہی کے لیے شرط کی، پس میں نے اس شرط پر آپ سے بیعت کر لی (پس) اس مسجد کے رب کی قسم کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں پھر استغفار کیا اور منبر سے اتر آئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 58]

تشریح:
اللہ اور رسول کی خیرخواہی یہ ہے کہ ان کی تعظیم کرے۔ زندگی بھر ان کی فرمانبرداری سے منہ نہ موڑے، اللہ کی کتاب کی اشاعت کرے، حدیث نبوی کو پھیلائے، ان کی اشاعت کرے اور اللہ و رسول کے خلاف کسی پیر و مرشد مجتہد امام مولوی کی بات ہرگز نہ مانے۔
ہوتے ہوئے مصطفی کی گفتار . . . مت دیکھ کسی کا قول و کردار
جب اصل ہے تو نقل کیا ہے . . . یاں وہم و خطا کا دخل کیا ہے

حضرت مغیرہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفہ کے حاکم تھے۔ انہوں نے انتقال کے وقت حضرت جریر بن عبداللہ کو اپنا نائب بنا دیا تھا، اس لیے حضرت جریر نے ان کی وفات پر یہ خطبہ دیا اور لوگوں کو نصیحت کی کہ دوسرا حاکم آنے تک کوئی شر و فساد نہ کرو بلکہ صبر سے ان کا انتظار کرو۔ شر و فساد کوفہ والوں کی فطرت میں تھا، اس لیے آپ نے ان کو تنبیہ فرمائی۔ کہتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مغیرہ کے بعد زیاد کو کوفہ کا حاکم مقرر کیا جو پہلے بصرہ کے گورنر تھے۔

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الایمان کو اس حدیث پر ختم کیا جس میں اشارہ ہے کہ حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی طرح میں نے جو کچھ یہاں لکھا ہے محض مسلمانوں کی خیرخواہی اور بھلائی مقصود ہے ہرگز کسی سے عناد اور تعصب نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے چلے آتے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ ساتھ ہی حضرت امام قدس سرہ نے یہاں یہ بھی اشارہ کیا کہ میں نے ہمیشہ صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے معافی کو پسند کیا ہے پس آنے والے مسلمان بھی قیامت تک میری مغفرت کے لیے دعا کرتے رہا کریں۔ «غفرالله له آمين»

صاحب ایضاح البخاری نے کیا خوب فرمایا ہے کہ امام ہمیں یہ بتلا رہے ہیں کہ ہم نے ابواب سابقہ میں مرجیہ، خارجیہ اور کہیں بعض اہل سنت پر تعریضات کی ہیں لیکن ہماری نیت میں اخلاص ہے۔ خواہ مخواہ کی چھیڑ چھاڑ ہمارا مقصد نہیں اور نہ ہمیں شہرت کی ہوس ہے بلکہ یہ ایک خیرخواہی کے جذبہ سے ہم نے کیا اور جہاں کوئی فرقہ بھٹک گیا یا کسی انسان کی رائے ہمیں درست نظر نہ آئی وہاں ہم نے بہ نیت ثواب صحیح بات وضاحت سے بیان کر دی۔ [ایضاح البخاری، ص: 428]

امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والنصيحة من نصحة العسل اذا صفيته اومن النصح وهو الخياطة بالنصيحة»
یعنی لفظ «نصيحت» «نصحه العسل» سے ماخوذ ہے جب شہد موم سے الگ کر لیا گیا ہو یا «نصيحت» سوئی سے سینے کے معنی میں ہے جس سے کپڑے کے مختلف ٹکڑے جوڑ جوڑ کر ایک کر دیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح نصیحت بمعنی خیرخواہی سے مسلمانوں کا باہمی اتحاد مطلوب ہے۔ (الحمد للہ کہ کتاب الایمان آج اواخر ذی الحجہ 1386ھ کو بروز یک شنبہ ختم ہوئی۔ راز)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 58   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1925  
´خیر خواہی اور بھلائی کرنے کا بیان۔`
جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز قائم کرنے، زکاۃ دینے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1925]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مالی اور بدنی عبادتوں میں صلاۃ اور زکاۃ سب سے اصل ہیں،
نیز (لاإلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ) کی شہادت واعتراف کے بعد ارکان اسلام میں یہ دونوں (زکاۃ وصلاۃ) سب سے اہم ہیں اسی لیے ان کا تذکرہ خصوصیت کے ساتھ کیاگیا ہے،
اس حدیث سے معلوم ہواکہ خیر خواہی عام وخاص سب کے لیے ہے،
طبرانی میں ہے کہ جریر رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کو تین سو درہم کا ایک گھوڑا خریدنے کا حکم دیا،
غلام گھوڑے کے ساتھ گھوڑے کے مالک کو بھی لے آیا،
جریر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہارا گھوڑا تین سودرہم سے زیادہ قیمت کا ہے،
کیا اسے چارسو میں بیچوگے؟ وہ راضی ہوگیا،
پھر آپ نے کہا کہ اس سے بھی زیادہ قیمت کا ہے کیا پانچ سودرہم میں فروخت کروگے،
چنانچہ وہ راضی ہوگیا،
پھر اسی طرح اس کی قیمت بڑھاتے رہے یہاں تک کہ اسے آٹھ سو درہم میں خریدا،
اس سلسلہ میں ان سے عرض کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:
میں نے رسول اللہ ﷺ پر ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کی بیعت کی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1925   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:57  
57. حضرت جریر بن عبداللہ البجلی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز پڑھنے، زکاۃ دینے اور ہر مسلمان سے خیرخواہی کرنے (کے اقرار) پر بیعت کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:57]
حدیث حاشیہ:

عربی زبان میں پھٹے ہوئے کپڑے کو سوئی سے پیوند لگانے کو نصیحت کہتے ہیں، نیز جب شہد سے موم کو الگ کیا جائے تو اس وقت بھی نصیحت کا لفظ بولا جاتا ہے۔
شرعی طور پر کسی انسان کو اس کے عیوب پر اخلاص کے ساتھ مطلع کرنے کو نصیحت کہتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی پردہ دری نہ کی جائے۔
اگر خیر خواہی میں اخلاص نہ ہو تو دھوکا دہی سے تعبیرکیا جا سکتا ہے۔
قرآن کریم میں توبہ نصوح کا ذکر ہے۔
اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ گناہوں کی وجہ سے انسان کا دین پارہ پارہ ہو جاتا ہے، توبہ سے اس کی پیوندی کاری کر کے صحیح کیا جا سکتا ہے۔

بعض روایات میں بیعت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے موقع پر ادائے شہادتین اور سمع و اطاعت کا بھی ذکر ہے۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2157)
بعض روایات میں ہے کہ بیعت لیتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ تلقین کیے کہ میں ان باتوں پر حتی المقدور عمل کروں گا۔
(صحیح البخاري، الأحکام، حدیث: 7204)
دین کے دیگر احکام سمع واطاعت میں آجاتے ہیں۔
(فتح الباري: 183/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 57   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.