الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ایمان کے بیان میں
The Book of Belief (Faith)
42. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الدِّينُ النَّصِيحَةُ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ وَلأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ»
42. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ دین سچے دل سے اللہ کی فرمانبرداری اور اس کے رسول اور مسلمان حاکموں اور تمام مسلمانوں کی خیر خواہی کا نام ہے۔
(42) Chapter. The statement of the Prophet ﷺ: Religion is An-Nasihah (to be sincere and true) to Allah, to His Messenger (Muhammad ﷺ), to the Muslim rulers, and to all the Muslims.
حدیث نمبر: 58
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو النعمان، قال: حدثنا ابو عوانة، عن زياد بن علاقة، قال: سمعت جرير بن عبد الله، يقول: يوم مات المغيرة بن شعبة قام فحمد الله واثنى عليه، وقال:" عليكم باتقاء الله وحده لا شريك له، والوقار والسكينة حتى ياتيكم امير، فإنما ياتيكم الآن، ثم قال: استعفوا لاميركم فإنه كان يحب العفو، ثم قال: اما بعد، فإني اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، قلت: ابايعك على الإسلام، فشرط علي والنصح لكل مسلم، فبايعته على هذا"، ورب هذا المسجد إني لناصح لكم، ثم استغفر ونزل.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: يَوْمَ مَاتَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ قَامَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ:" عَلَيْكُمْ بِاتِّقَاءِ اللَّهِ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَالْوَقَارِ وَالسَّكِينَةِ حَتَّى يَأْتِيَكُمْ أَمِيرٌ، فَإِنَّمَا يَأْتِيكُمُ الْآنَ، ثُمَّ قَالَ: اسْتَعْفُوا لِأَمِيرِكُمْ فَإِنَّهُ كَانَ يُحِبُّ الْعَفْوَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: أُبَايِعُكَ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَشَرَطَ عَلَيَّ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ، فَبَايَعْتُهُ عَلَى هَذَا"، وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ إِنِّي لَنَاصِحٌ لَكُمْ، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَنَزَلَ.
ہم سے ابونعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، انہوں نے زیاد سے، انہوں نے علاقہ سے، کہا میں نے جریر بن عبداللہ سے سنا جس دن مغیرہ بن شعبہ (حاکم کوفہ) کا انتقال ہوا تو وہ خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے اور اللہ کی تعریف اور خوبی بیان کی اور کہا تم کو اکیلے اللہ کا ڈر رکھنا چاہیے اس کا کوئی شریک نہیں اور تحمل اور اطمینان سے رہنا چاہیے اس وقت تک کہ کوئی دوسرا حاکم تمہارے اوپر آئے اور وہ ابھی آنے والا ہے۔ پھر فرمایا کہ اپنے مرنے والے حاکم کے لیے دعائے مغفرت کرو کیونکہ وہ (مغیرہ) بھی معافی کو پسند کرتا تھا پھر کہا کہ اس کے بعد تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے عرض کیا کہ میں آپ سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ہر مسلمان کی خیر خواہی کے لیے شرط کی، پس میں نے اس شرط پر آپ سے بیعت کر لی (پس) اس مسجد کے رب کی قسم کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں پھر استغفار کیا اور منبر سے اتر آئے۔


Hum se Abu No’maan ne bayan kiya, kaha hum se Abu ’Awaanah ne bayan kiya, unhon ne Ziyaad se, unhon ne ’ilaaqah se, kaha main ne Jareer bin Abdullah se suna jis din Mughira bin Sho’bah (haakim-e-Kufah) ka inteqaal huwa to woh khutbah ke liye khade huwe aur Allah ki ta’reef aur khoobi bayan ki aur kaha tum ko akele Allah ka darr rakhna chaahiye us ka koi shareek nahi aur tahammul aur itminaan se rehna chaahiye us waqt tak ke koi doosra haakim tumhaare upar aaye aur woh abhi aane waala hai. Phir farmaaya ke apne marne waale haakim ke liye dua-e-maghfirat karo kiunki woh (Mughira) bhi Mu’aafi ko pasand karta tha phir kaha ke is ke baad tum ko ma’loom hona chaahiye ke main ek dafa Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam ke paas aaya aur main ne arz kiya ke main Aap se Islam par Bai’at karta hun Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne mujh se har musalmaan ki khairkhwaahi ke liye shart ki, pas main ne us shart par Aap se Bai’at kar li (pas) is masjid ke Rabb ki qasam ke main tumhaara khairkhwaah hun phir istighfaar kiya aur mimbar se utar aaye.

Narrated Ziyad bin'Ilaqa: I heard Jarir bin 'Abdullah (Praising Allah). On the day when Al-Mughira bin Shu'ba died, he (Jarir) got up (on the pulpit) and thanked and praised Allah and said, "Be afraid of Allah alone Who has none along with Him to be worshipped.(You should) be calm and quiet till the (new) chief comes to you and he will come to you soon. Ask Allah's forgiveness for your (late) chief because he himself loved to forgive others." Jarir added, "Amma badu (now then), I went to the Prophet and said, 'I give my pledge of allegiance to you for Islam." The Prophet conditioned (my pledge) for me to be sincere and true to every Muslim so I gave my pledge to him for this. By the Lord of this mosque! I am sincere and true to you (Muslims). Then Jarir asked for Allah's forgiveness and came down (from the pulpit).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 2, Number 56


   صحيح البخاري7204جرير بن عبد اللهعلى السمع والطاعة فلقنني فيما استطعت النصح لكل مسلم
   صحيح البخاري524جرير بن عبد اللهبايعت رسول الله على إقام الصلاة إيتاء الزكاة النصح لكل مسلم
   صحيح البخاري58جرير بن عبد اللهأبايعك على الإسلام النصح لكل مسلم
   صحيح البخاري57جرير بن عبد اللهبايعت رسول الله على إقام الصلاة إيتاء الزكاة النصح لكل مسلم
   صحيح البخاري2715جرير بن عبد اللهبايعت رسول الله على إقام الصلاة إيتاء الزكاة النصح لكل مسلم
   صحيح البخاري2714جرير بن عبد اللهبايعت رسول الله فاشترط علي والنصح لكل مسلم
   صحيح البخاري2157جرير بن عبد اللهبايعت رسول الله على شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله إقام الصلاة إيتاء الزكاة السمع والطاعة النصح لكل مسلم
   صحيح البخاري1401جرير بن عبد اللهبايعت النبي على إقام الصلاة إيتاء الزكاة النصح لكل مسلم
   صحيح مسلم199جرير بن عبد اللهإقام الصلاة إيتاء الزكاة النصح لكل مسلم
   صحيح مسلم201جرير بن عبد اللهعلى السمع والطاعة فلقنني فيما استطعت النصح لكل مسلم
   صحيح مسلم200جرير بن عبد اللهالنصح لكل مسلم
   جامع الترمذي1925جرير بن عبد اللهبايعت رسول الله على إقام الصلاة إيتاء الزكاة النصح لكل مسلم
   سنن أبي داود4945جرير بن عبد اللهبايعت رسول الله على السمع والطاعة أنصح لكل مسلم
   سنن النسائى الصغرى4179جرير بن عبد اللهفيما استطعت فبايعني النصح لكل مسلم
   سنن النسائى الصغرى4194جرير بن عبد اللهبايعت النبي على السمع والطاعة فلقنني فيما استطعت النصح لكل مسلم
   سنن النسائى الصغرى4161جرير بن عبد اللهبايعت رسول الله على النصح لكل مسلم
   سنن النسائى الصغرى4162جرير بن عبد اللهبايعت النبي على السمع والطاعة أنصح لكل مسلم
   المعجم الصغير للطبراني32جرير بن عبد الله لا أقبل منك حتى تبايع على النصح لكل مسلم
   مسندالحميدي812جرير بن عبد اللهبايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على النصح لكل مسلم
   مسندالحميدي813جرير بن عبد اللهبايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على إقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والنصح لكل مسلم
   مسندالحميدي816جرير بن عبد اللهبايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والنصح لكل مسلم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 58  
´دین سچے دل سے اللہ کی فرمانبرداری`
«. . . فَإِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: أُبَايِعُكَ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَشَرَطَ عَلَيَّ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ، فَبَايَعْتُهُ عَلَى هَذَا"، وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ إِنِّي لَنَاصِحٌ لَكُمْ، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَنَزَلَ . . .»
. . . میں آپ سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ہر مسلمان کی خیر خواہی کے لیے شرط کی، پس میں نے اس شرط پر آپ سے بیعت کر لی (پس) اس مسجد کے رب کی قسم کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں پھر استغفار کیا اور منبر سے اتر آئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 58]

باب اور حدیث میں مناسبت:
باب اور حدیث میں مناسبت یہ ہے کہ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی اور ان کے لیے خیر خواہی اور بخشش کی دعا فرمائی، یہیں سے باب اور ترجمہ کی مناسبت معلوم ہوتی ہے۔
دوسری مناسبت کا ذکر ابن بطال رحمہ اللہ کچھ اس طرح سے فرماتے ہیں:
«ان مقصود البخاري الرد علي من زعم ان الاسلام التوحيد، ولا يدخل فيه الاعمال وهم القدرية» [المتواري ص59]
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہاں یہ ہے کہ ان لوگوں کا رد کیا جائے جن کا کہنا ہے کہ اسلام صرف توحید کا نام ہے یعنی اس کا تعلق اعمال کے ساتھ نہیں ہے اور (اس قسم کے عقائد باطلہ کے حامی) قدریہ ہیں۔
حدیث مذکورہ میں اسلام پر بیعت کرنا اور اس میں ہر مسلم کے ساتھ خیر خواہی کرنے کی نصیحت کی گئی ہے، اور یقیناً اس حدیث کا تعلق ہر عام و خاص کے ساتھ ہے۔
امام کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«هذا حديث عظيم الشأن و عليه مدار الاسلام» [شرح كرماني، ج1، ص217]
یہ حدیث عظیم الشان ہے اور اس پر اسلام کا دارومدار ہے۔‏‏‏‏
اس سے بھی باب اور حدیث میں مناسبت معلوم ہوتی ہے۔

فائدہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ:
«الا ان من قبلكم من اهل الكتاب افترقوا علي ثنتين و سبعين ملة وان هذه الملة ستفترق على ثلاث و سعبين ثنتان و سبعون فى النار و واحدة فى الجنة وهى الجماعة» [سنن ابي داؤد كتاب السنه رقم الحديث4097]
خبردار تم سے قبل جو اہل کتاب (یہود و نصریٰ) تھے وہ بہتر 72 فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور یہ امت عنقریب تہتر 73 فرقوں میں بٹ جائے گی بہتر 72 جہنمی ہونگیں اور ایک جنتی اور وہی جماعت ہو گی (قرآن و حدیث پر چلنے والی)۔‏‏‏‏
↰ مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہوا کہ امت میں کئی فرقے ہوں گے اور ان میں ان گنت اختلافات پیدا ہوں گے۔ لیکن یہ یاد رکھا جائے کہ یہ تمام فرقے قرآن و صحیح حدیث کی تعلیمات کی پاداش میں وجود میں نہیں آئیں گے بلکہ قرآن و حدیث کی تعلیمات سے انحراف ہونے کی وجہ سے پیدا ہوں گے۔

غلط فہمی کا ازالہ:
ایک واضح غلط فہمی جو کہ غیر مسلموں اور مسلموں میں یکساں اور مشترکہ ہے کہ یہ جتنے بھی فرقے شروع ہیں اسلام میں ہیں ان کی اصل وجہ حدیث ہی ہے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی فرمایا تھا کہ تہتر 73 فرقے بنیں گے۔
یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ فرقے اور اختلافات احادیث کی وجہ سے پیدا ہوئے، لیکن اگر حدیث کے الفاظ پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ فرقے بناؤ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف پیشں گوئی کی تھی کہ بنیں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنانے کا حکم نہیں دیا۔۔۔
اس کو ایک مثال کے ذریعے سمجھیں کہ ایک کلاس روم میں استاد اپنے شاگردوں کو برابر طور پر تعلیم دینے میں مصروف ہے مگر اس کلاس میں ایک بچہ زید ہے جس کو استاد نے یہ تنبیہ کی کہ تم امتحانات میں فیل ہو جاؤ گے اور جب امتحانات ہوئے تو وہ واقعتاً فیل ہو گیا تو بتایئے کہ کیا اسے استاد نے فیل کیا ہے؟ جواب نفی میں ہے استاد نے صرف اسے متنبہ کیا تھا نہ کہ اسے فیل کیا، بالکل اسی طرح سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو متنبہ فرمایا نہ کہ فرقوں میں تقسیم کروایا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 98   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 57  
´الله کے لیے خیر خواہی`
«. . .قَالَ:" بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ . . .»
. . . انہوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 57]

لغوی توضیح:
«النَّصَيْحَة» کا لغوی معنی ہے خالص ہونا۔ قرآن میں «تَوْبَةً نَّصُوْحًا» کا بھی یہی معنی ہے خالص توبہ۔‏‏‏‏ نھایہ میں ہے کہ نصیحت ایسا جامع لفظ ہے کہ اس میں جملہ امور خیر شامل ہیں۔ دین کو بھی نصیحت اسی لیے کہا گیا ہے کہ تمام دینی اعمال کا دارومدار خلوص اور کھوٹ سے پاک ہونے پر ہی ہے۔

فہم الحدیث:
ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: دین خیرخواہی کا نام ہے۔ صحابہ نے عرض کیا، یہ خیرخواہی کس کے لیے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے آئمہ کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔ [مسلم: كتاب الايمان: باب بيان ان الدين النصيحة: 55، ابوداود: 4944، حميدى: 837]
الله کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ توحید کا راستہ اپنایا جائے اور شرک سے بچا جائے۔ اس کی کتاب کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے، اس کے اوامر پر عمل اور نواہی سے بچا جائے۔ اس کے رسول کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے، اس کی تعلیمات پر عمل کیا جائے اور انہیں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے۔ حکمرانوں کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ تمام امور خیر میں ان کی اطاعت کی جائے اور بلاعذر شرعی ان کے خلاف خروج نہ کیا جائے۔ اور عام مسلمانوں کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ ان سے محبت کی جائے، ان کی اصلاح و فلاح کی اور ان سے ہر قسم کا ضرر و نقصان دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 35   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 58  
´اللہ اور رسول کی خیرخواہی`
«. . . فَإِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: أُبَايِعُكَ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَشَرَطَ عَلَيَّ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ، فَبَايَعْتُهُ عَلَى هَذَا"، وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ إِنِّي لَنَاصِحٌ لَكُمْ، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَنَزَلَ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ہر مسلمان کی خیر خواہی کے لیے شرط کی، پس میں نے اس شرط پر آپ سے بیعت کر لی (پس) اس مسجد کے رب کی قسم کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں پھر استغفار کیا اور منبر سے اتر آئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 58]

تشریح:
اللہ اور رسول کی خیرخواہی یہ ہے کہ ان کی تعظیم کرے۔ زندگی بھر ان کی فرمانبرداری سے منہ نہ موڑے، اللہ کی کتاب کی اشاعت کرے، حدیث نبوی کو پھیلائے، ان کی اشاعت کرے اور اللہ و رسول کے خلاف کسی پیر و مرشد مجتہد امام مولوی کی بات ہرگز نہ مانے۔
ہوتے ہوئے مصطفی کی گفتار . . . مت دیکھ کسی کا قول و کردار
جب اصل ہے تو نقل کیا ہے . . . یاں وہم و خطا کا دخل کیا ہے

حضرت مغیرہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفہ کے حاکم تھے۔ انہوں نے انتقال کے وقت حضرت جریر بن عبداللہ کو اپنا نائب بنا دیا تھا، اس لیے حضرت جریر نے ان کی وفات پر یہ خطبہ دیا اور لوگوں کو نصیحت کی کہ دوسرا حاکم آنے تک کوئی شر و فساد نہ کرو بلکہ صبر سے ان کا انتظار کرو۔ شر و فساد کوفہ والوں کی فطرت میں تھا، اس لیے آپ نے ان کو تنبیہ فرمائی۔ کہتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مغیرہ کے بعد زیاد کو کوفہ کا حاکم مقرر کیا جو پہلے بصرہ کے گورنر تھے۔

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الایمان کو اس حدیث پر ختم کیا جس میں اشارہ ہے کہ حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی طرح میں نے جو کچھ یہاں لکھا ہے محض مسلمانوں کی خیرخواہی اور بھلائی مقصود ہے ہرگز کسی سے عناد اور تعصب نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے چلے آتے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ ساتھ ہی حضرت امام قدس سرہ نے یہاں یہ بھی اشارہ کیا کہ میں نے ہمیشہ صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے معافی کو پسند کیا ہے پس آنے والے مسلمان بھی قیامت تک میری مغفرت کے لیے دعا کرتے رہا کریں۔ «غفرالله له آمين»

صاحب ایضاح البخاری نے کیا خوب فرمایا ہے کہ امام ہمیں یہ بتلا رہے ہیں کہ ہم نے ابواب سابقہ میں مرجیہ، خارجیہ اور کہیں بعض اہل سنت پر تعریضات کی ہیں لیکن ہماری نیت میں اخلاص ہے۔ خواہ مخواہ کی چھیڑ چھاڑ ہمارا مقصد نہیں اور نہ ہمیں شہرت کی ہوس ہے بلکہ یہ ایک خیرخواہی کے جذبہ سے ہم نے کیا اور جہاں کوئی فرقہ بھٹک گیا یا کسی انسان کی رائے ہمیں درست نظر نہ آئی وہاں ہم نے بہ نیت ثواب صحیح بات وضاحت سے بیان کر دی۔ [ایضاح البخاری، ص: 428]

امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والنصيحة من نصحة العسل اذا صفيته اومن النصح وهو الخياطة بالنصيحة»
یعنی لفظ «نصيحت» «نصحه العسل» سے ماخوذ ہے جب شہد موم سے الگ کر لیا گیا ہو یا «نصيحت» سوئی سے سینے کے معنی میں ہے جس سے کپڑے کے مختلف ٹکڑے جوڑ جوڑ کر ایک کر دیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح نصیحت بمعنی خیرخواہی سے مسلمانوں کا باہمی اتحاد مطلوب ہے۔ (الحمد للہ کہ کتاب الایمان آج اواخر ذی الحجہ 1386ھ کو بروز یک شنبہ ختم ہوئی۔ راز)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 58   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 58  
58. زیاد بن علاقہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت جریر بن عبداللہ البجلی ؓ سے سنا، جس دن حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کی وفات ہوئی تو وہ خطبے کے لیے کھڑے ہوئے، اللہ کی حمدوثنا کی اور کہا: تمہیں صرف ایک اللہ سے ڈرنا چاہئے جس کا کوئی شریک نہیں، نیز تمہیں دوسرے امیر کے آنے تک تحمل و اطمینان سے رہنا چاہئے، بس وہ عنقریب ہی آ جائیں گے۔ پھر فرمایا: اپنے امیر کے لیے دعائے مغفرت کرو کیونکہ وہ خود بھی معاف کرنے کو پسند کرتا تھا۔ پھر کہا: تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ میں ایک دفعہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں آپ سے اسلام پر بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ تو آپ نے مجھ سے ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کرنے کا عہد لیا، پھر اسی شرط پر میں نے آپ سے بیعت کر لی۔ مجھے اس مسجد کے رب کی قسم! میں تمہارا خیرخواہ ہوں۔ پھر آپ نے استغفار کیا اور منبر سے نیچے اتر آئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:58]
حدیث حاشیہ:
اللہ اور رسول کی خیرخواہی یہ ہے کہ ان کی تعظیم کرے۔
زندگی بھر ان کی فرمانبرداری سے منہ نہ موڑے، اللہ کی کتاب کی اشاعت کرے، حدیث نبوی کو پھیلائے، ان کی اشاعت کرے اور اللہ و رسول کے خلاف کسی پیرومرشد مجتہد امام مولوی کی بات ہرگز نہ مانے۔
ہوتے ہوئے مصطفی کی گفتار مت دیکھ کسی کا قول و کردار جب اصل ہے تو نقل کیا ہے یاں وہم و خطا کا دخل کیا ہے حضرت مغیرہ امیرمعاویہ ؓ کی طرف سے کوفہ کے حاکم تھے۔
انھوں نے انتقال کے وقت حضرت جریر بن عبداللہ کو اپنا نائب بنادیا تھا، اس لیے حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے ان کی وفات پر یہ خطبہ دیا اور لوگوں کو نصیحت کی کہ دوسرا حاکم آنے تک کوئی شروفساد نہ کرو بلکہ صبر سے ان کا انتظار کرو۔
شروفساد کوفہ والوں کی فطرت میں تھا، اس لیے آپ نے ان کو تنبیہ فرمائی۔
کہتے ہیں کہ امیرمعاویہ ؓ نے حضرت مغیرہؓ کے بعد زیاد کوکوفہ کا حاکم مقرر کیا جو پہلے بصرہ کے گورنر تھے۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الایمان کو اس حدیث پر ختم کیا جس میں اشارہ ہے کہ حضرت جریر ؓکی طرح میں نے جو کچھ یہاں لکھا ہے محض مسلمانوں کی خیرخواہی اور بھلائی مقصود ہے ہرگز کسی سے عناد اور تعصب نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے چلے آتے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔
ساتھ ہی حضرت امام قدس سرہ نے یہاں یہ بھی اشارہ کیا کہ میں نے ہمیشہ صبروتحمل سے کام لیتے ہوئے معافی کو پسند کیا ہے پس آنے والے مسلمان بھی قیامت تک میری مغفرت کے لیے دعا کرتے رہا کریں۔
غفرالله له آمین۔
صاحب ایضاح البخاری نے کیا خوب فرمایا ہے کہ امام ہمیں یہ بتلارہے ہیں کہ ہم نے ابواب سابقہ میں مرجیہ، خارجیہ اور کہیں بعض اہل سنت پر تعریضات کی ہیں لیکن ہماری نیت میں اخلاص ہے۔
خواہ مخواہ کی چھیڑ چھاڑ ہمارا مقصد نہیں اور نہ ہمیں شہرت کی ہوس ہے بلکہ یہ ایک خیرخواہی کے جذبہ سے ہم نے کیا اور جہاں کوئی فرقہ بھٹک گیا یا کسی انسان کی رائے ہمیں درست نظر نہ آئی وہاں ہم نے بہ نیت ثواب صحیح بات وضاحت سے بیان کردی۔
(ایضاح البخاری، ص: 428)
امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"والنصيحة من نصحت العسل إذا صفّيته من الشمع أو من النصح وهو الخياطة بالمنصحة." یعنی لفظ نصیحت نصحہ العسل سے ماخوذ ہے جب شہد موم سے الگ کر لیا گیا ہو یا نصیحت سوئی سے سینے کے معنی میں ہے جس سے کپڑے کے مختلف ٹکڑے جوڑ جوڑ کر ایک کردیئے جاتے ہیں۔
اسی طرح نصیحت بمعنی خیرخواہی سے مسلمانوں کا باہمی اتحاد مطلوب ہے۔
(الحمد للہ کہ کتاب الایمان آج اواخر ذی الحجہ1386ھ کو بروز یک شنبہ ختم ہوئی۔
راز)

   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 58   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1925  
´خیر خواہی اور بھلائی کرنے کا بیان۔`
جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز قائم کرنے، زکاۃ دینے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1925]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مالی اور بدنی عبادتوں میں صلاۃ اور زکاۃ سب سے اصل ہیں،
نیز (لاإلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ) کی شہادت واعتراف کے بعد ارکان اسلام میں یہ دونوں (زکاۃ وصلاۃ) سب سے اہم ہیں اسی لیے ان کا تذکرہ خصوصیت کے ساتھ کیاگیا ہے،
اس حدیث سے معلوم ہواکہ خیر خواہی عام وخاص سب کے لیے ہے،
طبرانی میں ہے کہ جریر رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کو تین سو درہم کا ایک گھوڑا خریدنے کا حکم دیا،
غلام گھوڑے کے ساتھ گھوڑے کے مالک کو بھی لے آیا،
جریر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہارا گھوڑا تین سودرہم سے زیادہ قیمت کا ہے،
کیا اسے چارسو میں بیچوگے؟ وہ راضی ہوگیا،
پھر آپ نے کہا کہ اس سے بھی زیادہ قیمت کا ہے کیا پانچ سودرہم میں فروخت کروگے،
چنانچہ وہ راضی ہوگیا،
پھر اسی طرح اس کی قیمت بڑھاتے رہے یہاں تک کہ اسے آٹھ سو درہم میں خریدا،
اس سلسلہ میں ان سے عرض کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:
میں نے رسول اللہ ﷺ پر ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کی بیعت کی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1925   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:58  
58. زیاد بن علاقہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت جریر بن عبداللہ البجلی ؓ سے سنا، جس دن حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کی وفات ہوئی تو وہ خطبے کے لیے کھڑے ہوئے، اللہ کی حمدوثنا کی اور کہا: تمہیں صرف ایک اللہ سے ڈرنا چاہئے جس کا کوئی شریک نہیں، نیز تمہیں دوسرے امیر کے آنے تک تحمل و اطمینان سے رہنا چاہئے، بس وہ عنقریب ہی آ جائیں گے۔ پھر فرمایا: اپنے امیر کے لیے دعائے مغفرت کرو کیونکہ وہ خود بھی معاف کرنے کو پسند کرتا تھا۔ پھر کہا: تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ میں ایک دفعہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں آپ سے اسلام پر بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ تو آپ نے مجھ سے ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کرنے کا عہد لیا، پھر اسی شرط پر میں نے آپ سے بیعت کر لی۔ مجھے اس مسجد کے رب کی قسم! میں تمہارا خیرخواہ ہوں۔ پھر آپ نے استغفار کیا اور منبر سے نیچے اتر آئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:58]
حدیث حاشیہ:

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے کوفے کے گورنر تھے۔
جب مغیرہ کی وفات ہونے لگی تو انھوں نے حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور حالات پر کنٹرول کرنے کی وصیت فرمائی کیونکہ عام طور پر عوام الناس حکمران کی وفات پر خلفشار کا شکار ہو جاتے ہیں خاص طور پر کوفے کی سرزمین جو فتنوں کی آماجگاہ تھی۔
(فتح الباري: 184/1)

خیر خواہی کے لیے مسلمان کی پابندی اغلبیت کے لحاظ سے ہے، ویسے کافروں کے ساتھ بھی خیر خواہی کرنی چاہیے انھیں اسلام کی دعوت دی جائے اور جب وہ مشورہ لیں تو ان کی صحیح رہنمائی کی جائے، البتہ بیعت کا سلسلہ صرف اہل اسلام کے لیے ہے۔
(فتح الباري: 184/1)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو کتاب الایمان کے آخر میں لاکر اشارہ کیا ہے کہ میں نے اس کتاب کی جمع و تدوین میں لوگوں کی خیر خواہی کی ہے۔
صرف ان احادیث کو جمع کیا ہے جو معیار محدثین پر پوری اترتی ہیں تاکہ عمل کرنے میں سہولت رہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 58   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.