الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
The Book of The Times of As-Salat (The Prayers) and Its Superiority
33. بَابُ مَا يُصَلَّى بَعْدَ الْعَصْرِ مِنَ الْفَوَائِتِ وَنَحْوِهَا:
33. باب: عصر کے بعد قضاء نمازیں یا اس کے مانند مثلاً جنازہ کی نماز وغیرہ پڑھنا۔
(33) Chapter. To offer the missed Salat (prayers) and the like after the Asr prayer.
حدیث نمبر: 593
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن عرعرة، قال: حدثنا شعبة، عن ابي إسحاق، قال رايت الاسود، ومسروقا شهدا على عائشة، قالت:" ما كان النبي صلى الله عليه وسلم ياتيني في يوم بعد العصر إلا صلى ركعتين".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ رَأَيْتُ الأَسْوَدَ، وَمَسْرُوقًا شَهِدَا عَلَى عَائِشَةَ، قَالَتْ:" مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِينِي فِي يَوْمٍ بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَّا صَلَّى رَكْعَتَيْنِ".
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے ابواسحاق سے بیان کیا، کہا کہ ہم نے اسود بن یزید اور مسروق بن اجدع کو دیکھا کہ انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس کہنے پر گواہی دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی میرے گھر میں عصر کے بعد تشریف لائے تو دو رکعت ضرور پڑھتے۔

Narrated `Aisha: Whenever the Prophet come to me after the `Asr prayer, he always prayed two rak`at.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 10, Number 567


   صحيح البخاري593عائشة بنت عبد اللهما كان النبي يأتيني في يوم بعد العصر إلا صلى ركعتين
   صحيح البخاري590عائشة بنت عبد اللهيصلي كثيرا من صلاته قاعدا كان النبي يصليهما ولا يصليهما في المسجد مخافة أن يثقل على أمته وكان يحب ما يخفف عنهم
   صحيح مسلم1937عائشة بنت عبد اللهما كان يومه الذي كان يكون عندي إلا صلاهما رسول الله في بيتي تعني الركعتين بعد العصر
   صحيح مسلم1935عائشة بنت عبد اللهما ترك رسول الله ركعتين بعد العصر عندي قط
   صحيح مسلم1934عائشة بنت عبد اللهيصليهما قبل العصر ثم إنه شغل عنهما أو نسيهما فصلاهما بعد العصر أثبتهما وكان إذا صلى صلاة أثبتها
   سنن أبي داود1279عائشة بنت عبد اللهما من يوم يأتي على النبي إلا صلى بعد العصر ركعتين
   سنن النسائى الصغرى576عائشة بنت عبد اللهما دخل علي رسول الله بعد العصر إلا صلاهما
   سنن النسائى الصغرى575عائشة بنت عبد اللهما ترك رسول الله السجدتين بعد العصر عندي قط
   سنن النسائى الصغرى577عائشة بنت عبد اللهإذا كان عندي بعد العصر صلاهما
   سنن النسائى الصغرى579عائشة بنت عبد اللهيصليهما قبل العصر ثم إنه شغل عنهما أو نسيهما فصلاهما بعد العصر إذا صلى صلاة أثبتها
   مسندالحميدي194عائشة بنت عبد اللهما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين بعد العصر عندي قط

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 575  
´عصر کے بعد نماز کی اجازت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد کی دو رکعت کبھی بھی نہیں چھوڑیں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 575]
575 ۔ اردو حاشیہ: اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ کہا گیا ہے لیکن یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ بعض صحابہ اور تابعین نے بھی یہ رکعتیں پڑھی ہیں، جیسے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے متعلق ملتا ہے کہ یہ بھی عصر کے بعد دورکعت پڑھا کرتے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 575   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 579  
´عصر کے بعد نماز کی اجازت کا بیان۔`
ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان دونوں رکعتوں کے متعلق سوال کیا جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد پڑھتے تھے، تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں عصر سے پہلے پڑھا کرتے تھے پھر آپ کسی کام میں مشغول ہو گئے یا بھول گئے تو انہیں عصر کے بعد ادا کیا، اور آپ جب کوئی نماز شروع کرتے تو اسے برقرار رکھتے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 579]
579 ۔ اردو حاشیہ: عصر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو رکعت پرھنے کی یہ توجیہ ہے کہ ایک دن آپ کی ظہر کے بعد والی سنتیں مصروفیت کی وجہ سے رہ گئیں، وہ ادا فرمائی تھیں اور بعد ازاں اپنی عادت طیبہ کے مطابق اس پر دوام فرمایا۔ یہ حدیث بھی ان حضرات کی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ ممنوعہ اوقات میں کوئی بھی سببی نماز پڑھی جا سکتی ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی دو رکعتوں کی عصر کے بعد قضا ادا کی۔ اور مسند احمد کی روایت کے آخر میں جو یہ اضافہ منقول ہے: «افنقضیھما اذا فاتتا؟ قال: (لا)» کیا ہم بھی ان کی قضا ادا کر لیا کریں جب یہ دو رکعتیں رہ جایا کریں تو فرمایا: نہیں۔ سنداً ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ دیکھیے: [الموسوعة الحدیثیة، مسندالإمام أحمد: 44؍277]
لہٰذا رہ جانے والی نماز، عصر کے بعد ادا کی جا سکتی ہے۔ یہ صرف آپ ہی کی خصوصیت نہیں ہے کیونکہ مذکورہ الفاظ ضعیف ہیں، مزید برآں یہ کہ جب تک سورج روشن اور چمک دار ہو تو مطلقاً نوافل بھی پڑھے جاسکتے ہیں جیسا کہ پیچھے تفصیل گزر چکی ہے۔ واللہ اعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 579   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1279  
´ان لوگوں کی دلیل جنہوں نے سورج بلند ہو تو عصر کے بعد دو رکعت سنت پڑھنے کی اجازت دی ہے۔`
اسود اور مسروق کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد دو رکعت نہ پڑھتے رہے ہوں ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1279]
1279۔ اردو حاشیہ:
یہ ہمیشگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی اور ان رکعتوں کی اصل ابتداء ظہر کی سنتیں قضا پڑھنے سے ہوئی تھی۔ دیکھیے حدیث سنن ابي داود: [1273]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1279   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 593  
593. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جس دن بھی نبی ﷺ عصر کے بعد میرے ہاں تشریف لاتے تو دو رکعت ضرور پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:593]
حدیث حاشیہ:
مگر امت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نفل نمازوں سے منع فرمایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 593   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:593  
593. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جس دن بھی نبی ﷺ عصر کے بعد میرے ہاں تشریف لاتے تو دو رکعت ضرور پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:593]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد ان دورکعات کو صرف ایک مرتبہ ان کے گھر ادا کیا جبکہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے پتا چلتا ہے کہ آپ انھیں ہمیشہ پڑھتے رہے۔
ان میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ پہلی مرتبہ آپ نے ان دو رکعات کو بطور قضا پڑھا جیسا کہ حدیث ام سلمہ رضی اللہ عنہا میں وضاحت ہےکہ یہ دورکعات نماز ظہر کے بعد والی ہیں جنھیں مصروفیت کی وجہ سے نہیں پڑھا جاسکا تھا۔
(سنن النسائي، المواقیت، حدیث: 580)
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر بطور خصوصیت ہمیشہ پڑھتے رہے جیسا کہ حدیث بالا میں وضاحت ہے۔
(2)
بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم عصر کے بعد دورکعات کو سنت سمجھ کر ادا کرتے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ انھیں منع کرتے اور ان پر سختی بھی فرماتے تھے۔
مبادا دوسرے لوگ گروب آفتاب تک نماز کے جواز کا حیلہ بنا لیں۔
(3)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل سے امام ابن حزم رحمہ اللہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان اوقات میں ممانعت کی احادیث منسوخ ہیں لیکن ہمارے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ ممانعت کی احادیث محکم ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعت اس لیے ادا کی تھیں کہ وفد عبدالقیس کی آمد کی وجہ سے آپ ظہر کی دو سنت نہیں پڑھ سکے تھے، لہٰذا آپ نے وہ دوسنت عصر کے بعد ادا کرلیں اور آپ کا یہ معمول تھا کہ جب کوئی عمل شروع کرتے تو بعد میں اس پر مداومت فرماتے، اس بنا پر عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے کا آپ نے معمول بنا لیا اور یہ عمل صرف آپ کے ساتھ ہی خاص تھا۔
عصر کے بعد دو رکعت ادا کرنا امت کے لیے کوئی مسنون عمل نہیں جیسا کہ بعض اہل علم کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے۔
والله اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 593   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.