الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اخلاق کے بیان میں
The Book of Al-Adab (Good Manners)
17. بَابُ مَنْ تَرَكَ صَبِيَّةَ غَيْرِهِ حَتَّى تَلْعَبَ بِهِ أَوْ قَبَّلَهَا أَوْ مَازَحَهَا:
17. باب: دوسرے کے بچے کو چھوڑ دینا کہ وہ کھیلے اور اس کو بوسہ دینا یا اس سے ہنسنا۔
(17) Chapter. Whoever allowed a small girl of another person to play with him, or kissed her or had a joke with her.
حدیث نمبر: 5993
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا حبان، اخبرنا عبد الله، عن خالد بن سعيد، عن ابيه، عن ام خالد بنت خالد بن سعيد، قالت: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم مع ابي وعلي قميص اصفر، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" سنه سنه، قال عبد الله: وهي بالحبشية حسنة، قالت: فذهبت العب بخاتم النبوة فزبرني ابي، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: دعها، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ابلي واخلقي ثم ابلي واخلقي ثم ابلي واخلقي، قال عبد الله: فبقيت حتى ذكر، يعني من بقائها.(مرفوع) حَدَّثَنَا حِبَّانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّ خَالِدٍ بِنْتِ خَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَتْ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَبِي وَعَلَيَّ قَمِيصٌ أَصْفَرُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَنَهْ سَنَهْ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَهِيَ بِالْحَبَشِيَّةِ حَسَنَةٌ، قَالَتْ: فَذَهَبْتُ أَلْعَبُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ فَزَبَرَنِي أَبِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: دَعْهَا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبْلِي وَأَخْلِقِي ثُمَّ أَبْلِي وَأَخْلِقِي ثُمَّ أَبْلِي وَأَخْلِقِي، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَبَقِيَتْ حَتَّى ذَكَرَ، يَعْنِي مِنْ بَقَائِهَا.
ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں خالد بن سعید نے، انہیں ان کے والد نے، ان سے ام خالد بنت سعید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوئی۔ میں ایک زرد قمیص پہنے ہوئے تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سنہ سنہ عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ یہ حبشی زبان میں اچھا کے معنی میں ہے۔ ام خالد نے بیان کیا کہ پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتم نبوت سے کھیلنے لگی تو میرے والد نے مجھے ڈانٹا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے کھیلنے دو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایک زمانہ تک زندہ رہو گی اللہ تعالیٰ تمہاری عمر خوب طویل کرے، تمہاری زندگی دراز ہو۔ عبداللہ نے بیان کیا چنانچہ انہوں نے بہت ہی طویل عمر پائی اور ان کی طول عمر کے چرچے ہونے لگے۔

Narrated Sa`id: Um Khalid bint Khalid bin Sa`id said, "I came to Allah's Apostle along with my father and I was wearing a yellow shirt. Allah's Apostle said, "Sanah Sanah!" (`Abdullah, the sub-narrator said, "It means, 'Nice, nice!' in the Ethiopian language.") Um Khalid added, "Then I started playing with the seal of Prophethood. My father admonished me. But Allah's Apostle said (to my father), "Leave her," Allah's Apostle (then addressing me) said, "May you live so long that your dress gets worn out, and you will mend it many times, and then wear another till it gets worn out (i.e. May Allah prolong your life)." (The sub-narrator, `Abdullah aid, "That garment (which she was wearing remained usable for a long period.").
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 22


   صحيح البخاري5993أمة بنت خالدسنه سنه قال عبد الله وهي بالحبشية حسنة قالت فذهبت ألعب بخاتم النبوة فزبرني أبي قال رسول الله دعها ثم قال رسول الله أبلي وأخلقي ثم أبلي وأخلقي ثم أبلي وأخلقي قال عبد الله فبقيت حتى ذكر يعني من بقائها
   صحيح البخاري5845أمة بنت خالدأبلي وأخلقي مرتين فجعل ينظر إلى علم الخميصة ويشير بيده إلي ويقول يا أم خالد هذا سنا والسنا بلسان الحبشية الحسن قال إسحاق حدثتني امرأة من أهلي أنها رأته على أم خالد
   صحيح البخاري3874أمة بنت خالدكساني رسول الله خميصة لها أعلام فجعل رسول الله يمسح الأعلام بيده ويقول سناه سناه
   صحيح البخاري3071أمة بنت خالدسنه سنه قال عبد الله وهي بالحبشية حسنة قالت فذهبت ألعب بخاتم النبوة فزبرني أبي قال رسول الله دعها ثم قال رسول الله أبلي وأخلفي ثم أبلي وأخلفي ثم أبلي وأخلفي قال عبد الله فبقيت حتى ذكر
   صحيح البخاري5823أمة بنت خالدأبلي وأخلقي وكان فيها علم أخضر أو أصفر فقال يا أم خالد هذا سناه وسناه بالحبشية حسن
   سنن أبي داود4024أمة بنت خالدأبلي وأخلقي مرتين وجعل ينظر إلى علم في الخميصة أحمر أو أصفر ويقول سناه سناه يا أم خالد وسناه في كلام الحبشة الحسن
   مسندالحميدي339أمة بنت خالدسناه سناه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5993  
´دوسرے کے بچے کو چھوڑ دینا کہ وہ کھیلے اور اس کو بوسہ دینا یا اس سے ہنسنا`
«. . . عَنْ أُمِّ خَالِدٍ بِنْتِ خَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَتْ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَبِي وَعَلَيَّ قَمِيصٌ أَصْفَرُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَنَهْ سَنَهْ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَهِيَ بِالْحَبَشِيَّةِ حَسَنَةٌ، قَالَتْ: فَذَهَبْتُ أَلْعَبُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ فَزَبَرَنِي أَبِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: دَعْهَا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبْلِي وَأَخْلِقِي ثُمَّ أَبْلِي وَأَخْلِقِي ثُمَّ أَبْلِي وَأَخْلِقِي، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَبَقِيَتْ حَتَّى ذَكَرَ، يَعْنِي مِنْ بَقَائِهَا . . .»
. . . ام خالد بنت سعید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوئی۔ میں ایک زرد قمیص پہنے ہوئے تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سنہ سنہ عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ یہ حبشی زبان میں اچھا کے معنی میں ہے۔ ام خالد نے بیان کیا کہ پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتم نبوت سے کھیلنے لگی تو میرے والد نے مجھے ڈانٹا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے کھیلنے دو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایک زمانہ تک زندہ رہو گی اللہ تعالیٰ تمہاری عمر خوب طویل کرے، تمہاری زندگی دراز ہو۔ عبداللہ نے بیان کیا چنانچہ انہوں نے بہت ہی طویل عمر پائی اور ان کی طول عمر کے چرچے ہونے لگے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ: 5993]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5993 کا باب: «بَابُ مَنْ تَرَكَ صَبِيَّةَ غَيْرِهِ حَتَّى تَلْعَبَ بِهِ أَوْ قَبَّلَهَا أَوْ مَازَحَهَا:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب کو امام بخاری رحمہ اللہ نے بچے کے کھیلنے اور اس کا بوسہ لینے اور ہنسنے پر قائم فرمایا، مگر تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا اس میں باب کے ایک جزء کے ساتھ مناسبت قائم نہیں ہوتی، امام بخاری رحمہ اللہ نے بوسہ دینے پر باب میں ذکر فرمایا ہے، مگر حدیث میں سرے سے ہی بوسہ کا ذکر موجود نہیں ہے، چنانچہ علامہ ابن التین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ليس فى الخبر المذكور فى الباب للتقبيل ذكر، والذي يظهر لي أن ذكر المزح بعد التقبيل من العام بعد الخاص، و أن الممازحة بالقول و الفعل مع الصغيرة إنما يقصد به التأنيس و التقبيل من جملة ذالك.» (1)
اسی حدیث منقول میں تقبیل کا ذکر نہیں ہے تو محتمل یہ ہے کہ جب اس بچی کو اپنے جسم مبارک کے چھونے سے روکا نہیں تو یہ تقبیل کی طرح ہوا، مجھے جو ظاہر ہوا ہے وہ یہ ہے کہ تقبیل کے بعد ذکر مزاح عام بعد الخاص کی قبیل سے ہے کہ صغیرہ کے ساتھ قول و فعل کے ذریعہ ممازحت سے غرض اس کی تانیس ہوتی ہے، تقبیل (بوسہ لینا) ان جملہ امور میں سے ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بچی کے چھونے کو بوسہ لینے پر قیاس فرمایا ہو، چنانچہ علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«جعل تمكين النبى صلى الله عليه وسلم لها من ذالك يتنزّل منزلة ابتدائه بتناولها لتعلب، و قاس قبلة الصغيرة على المماسة.» (2)
بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
غالب یہ ہے کہ بچی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتم سے کھیلا، اسی سے مزح اور کھیلنا ثابت ہوا، اور اسی طرح بچی کو بوسہ دینا بھی، جیسا کہ حدیث سے بھی ظاہر ہے۔ (3)
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«ليس فى حديث الباب للتقبيل ذكر فيحتمل أن يكون لما لم ينهها عن مس جسده صار كالتقبيل.» (4)
ترجمۃ الباب کے تحت جس حدیث کا ذکر ہے اس میں بوسے کا ذکر نہیں ہے، احتمال اس بات کا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے مبارک جسم کو ہاتھ لگانے سے منع نہیں فرمایا تو بس یہ بوسے کی طرح ہوا۔
یہ حقیر اور ناچیز بندہ کہتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دراصل اس باب کے تحت صرف قیاس فرمایا ہے تقبیل کے لیے، لیکن بعد والے باب میں مکمل دلیل سے وضاحت فرما دی ہے جو کہ اس باب کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب کے بعد یہ باب قائم فرمایا: «باب رحمة الولد وتقبيله ومعانقته»، لہذا باب «من ترك صبية . . . . .» میں بوسے پر قیاس فرمایا اور بعد کے باب میں اس پر دلیل پیش کر دی۔ لہذا اس قسم کی عادات امام بخاری رحمہ اللہ کی معروف ہیں۔ اس حقیر نے امام بخاری رحمہ اللہ کی اس عادت کو انواع التراجم میں بھی شامل کیا ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 174   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4024  
´نیا کپڑا پہننے والے کو دعا دینے کا بیان۔`
ام خالد بنت خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ کپڑے آئے جن میں ایک چھوٹی سی دھاری دار چادر تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ کس کو اس کا زیادہ حقدار سمجھتے ہو؟ تو لوگ خاموش رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام خالد کو میرے پاس لاؤ چنانچہ وہ لائی گئیں، آپ نے انہیں اسے پہنا دیا پھر دوبار فرمایا: پہن پہن کر اسے پرانا اور بوسیدہ کرو آپ چادر کی دھاریوں کو جو سرخ یا زرد رنگ کی تھیں دیکھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے: اے ام خالد! «سناه سناه» اچھا ہے اچھا ہے ۱؎۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4024]
فوائد ومسائل:
نیا کپڑا پہننے والے کو مذکورہ دعا دینا مسنون اور مستحب ہے، اس میں ضمنًا کپڑا پہننے والے کے لئے صحت وعافیت اور لمبی زندگی کی دعا ہے کہ وہ اس سے خوب استفادہ کرے حتی کہ وہ جائے۔
روایت میں مذکور صیغے مونث کے لئے ہیں۔
مذکر کے لئے یوں بھی کہے جا سکتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4024   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5993  
5993. حضرت ام خالد بنت سعید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ میں نے زرد رنگ کی قمیض پہن رکھی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے سنہ سنہ کے الفاظ کہے (راوئ حدیث) عبداللہ نے کہا کہ یہ حبشی زبان میں خوب کے معنی میں ہےام خالد بیان کرتی ہیں کہ میں مہر نبوت سے کھیلنے لگی تو میرے والد گرامی نے مجھے ڈانٹ پلائی لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے کھلینے دو۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تو ایک زمانے تک زندہ رہے، اللہ تعالٰی تیری عمر لمبی کرے تمہاری زندگی دراز ہو۔ عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ انہوں نے بہت طویل عمر پائی حتٰی کہ لوگوں میں ان کا چرچا ہونے لگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5993]
حدیث حاشیہ:
حضرت ام خالد، خالد بن سعید بن عاص اموی کی ماں ہیں۔
حبش میں پیدا ہوئی پھر مدینہ لائی گئی بعد بلوغت حضرت زبیر بن عوام سے ان کی پہلی شادی ہوئی (رضي اللہ عنھا)
۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5993   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5993  
5993. حضرت ام خالد بنت سعید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی جبکہ میں نے زرد رنگ کی قمیض پہن رکھی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے سنہ سنہ کے الفاظ کہے (راوئ حدیث) عبداللہ نے کہا کہ یہ حبشی زبان میں خوب کے معنی میں ہےام خالد بیان کرتی ہیں کہ میں مہر نبوت سے کھیلنے لگی تو میرے والد گرامی نے مجھے ڈانٹ پلائی لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے کھلینے دو۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تو ایک زمانے تک زندہ رہے، اللہ تعالٰی تیری عمر لمبی کرے تمہاری زندگی دراز ہو۔ عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ انہوں نے بہت طویل عمر پائی حتٰی کہ لوگوں میں ان کا چرچا ہونے لگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5993]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ام خالد رضی اللہ عنہما حضرت خالد بن سعید بن عاص اموی کی والدہ ماجدہ ہیں۔
وہ حبشہ میں پیدا ہوئیں اور ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آئیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنے ہاتھ سے ایک قمیص پہنائی تھی اور فرمایا:
اسے خوب پرانی کرو۔
وہ قمیص دیر تک ان کے پاس رہی۔
ایک روایت میں ہے کہ وہ قمیص عرصۂ دراز ان کے پاس رہی حتی کہ وہ سیا ہو گئیں، یعنی ام خالد رضی اللہ عنہما بہت مدت تک زندہ رہیں حتی کہ ان کی رنگت سیاہ ہو گئی۔
(2)
جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو ان کی عمر بہت چھوٹی تھی حتی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت سے کھیلنے لگیں اور آپ نے بطور مزاح سنه سنه کہا۔
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کسی بچی سے مزاح کرسکتا ہے اگرچہ وہ محرمہ نہ ہو۔
اگر مزاح کرتے وقت نیت میں فتور ہو تو اس سے بچنا چاہیے۔
(3)
امام بخاری رحمہ اللہ نے مبنی برحقیقت مزاح پر بوسے کو قیاس کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ چھوٹی بچی سے قولی اور عملی مزاح سے مراد بچی کو اپنے ساتھ مانوس کرنا ہوتا ہے۔
اور بوسہ لینا بھی اسی قسم سے ہے۔
(فتح الباري: 10/522)
امام بخاری رحمہ اللہ کا عنوان میں تقبیل کے بعد مزاح کا ذکر کرنا، خاص کے بعد عام ذکر کرنے کی طرح ہے۔
والله أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5993   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.