الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اخلاق کے بیان میں
The Book of Al-Adab (Good Manners)
74. بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ إِكْفَارَ مَنْ قَالَ ذَلِكَ مُتَأَوِّلاً أَوْ جَاهِلاً:
74. باب: اگر کسی نے کوئی وجہ معقول رکھ کر کسی کو کافر کہا یا نادانستہ تو وہ کافر ہو گا۔
(74) Chapter. Whoever does not consider as Kafir the person who says that (i.e., O Kafir), if he thinks that what he says is true, or if he is ignorant of the seriousness of such saying.
حدیث نمبر: 6108
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ليث، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، انه ادرك عمر بن الخطاب في ركب وهو يحلف بابيه، فناداهم رسول الله صلى الله عليه وسلم" الا إن الله ينهاكم ان تحلفوا بآبائكم، فمن كان حالفا فليحلف بالله وإلا فليصمت".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ أَدْرَكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ فِي رَكْبٍ وَهُوَ يَحْلِفُ بِأَبِيهِ، فَنَادَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَلَا إِنَّ اللَّهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ، فَمَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ بِاللَّهِ وَإِلَّا فَلْيَصْمُتْ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے جو چند سواروں کے ساتھ تھے، اس وقت عمر رضی اللہ عنہ اپنے والد کی قسم کھا رہے تھے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکار کر کہا، خبردار! یقیناً اللہ پاک تمہیں منع کرتا ہے کہ تم اپنے باپ دادوں کی قسم کھاؤ، پس اگر کسی کو قسم ہی کھانی ہے تو اللہ کی قسم کھائے، ورنہ چپ رہے۔

Narrated Ibn `Umar: that he found `Umar bin Al-Khattab in a group of people and he was swearing by his father. So Allah's Apostle called them, saying, "Verily! Allah forbids you to swear by your fathers. If one has to take an oath, he should swear by Allah or otherwise keep quiet."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 129


   صحيح البخاري7401عبد الله بن عمرلا تحلفوا بآبائكم من كان حالفا فليحلف بالله
   صحيح البخاري2679عبد الله بن عمرمن كان حالفا فليحلف بالله أو ليصمت
   صحيح البخاري6647عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   صحيح البخاري3836عبد الله بن عمرمن كان حالفا فلا يحلف إلا بالله كانت قريش تحلف بآبائها فقال لا تحلفوا بآبائكم
   صحيح البخاري6108عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   صحيح البخاري6646عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   صحيح البخاري6648عبد الله بن عمرلا تحلفوا بآبائكم
   صحيح مسلم4257عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   صحيح مسلم4259عبد الله بن عمرمن كان حالفا فلا يحلف إلا بالله كانت قريش تحلف بآبائها فقال لا تحلفوا بآبائكم
   صحيح مسلم4254عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   جامع الترمذي1535عبد الله بن عمرحلف بغير الله فقد كفر أو أشرك
   جامع الترمذي1534عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   جامع الترمذي1533عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   سنن أبي داود3249عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   سنن أبي داود3251عبد الله بن عمرمن حلف بغير الله فقد أشرك
   سنن النسائى الصغرى3795عبد الله بن عمرمن كان حالفا فلا يحلف إلا بالله كانت قريش تحلف بآبائها فقال لا تحلفوا بآبائكم
   سنن النسائى الصغرى3797عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   سنن النسائى الصغرى3796عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   سنن النسائى الصغرى3799عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   سنن النسائى الصغرى3798عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   سنن ابن ماجه2101عبد الله بن عمرلا تحلفوا بآبائكم من حلف بالله فليصدق ومن حلف له بالله فليرض ومن لم يرض بالله فليس من الله
   سنن ابن ماجه2094عبد الله بن عمرالله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم543عبد الله بن عمرإن الله ينهاكم ان تحلفوا بآبائكم، فمن كان حالفا فليحلف بالله او ليصمت
   بلوغ المرام1171عبد الله بن عمر ألا إن الله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم فمن كان حالفا فليحلف بالله أو ليصمت
   مسندالحميدي637عبد الله بن عمر ألا إن الله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم
   مسندالحميدي703عبد الله بن عمرألا إن الله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم، فمن كان حالفا فليحلف بالله أو ليصمت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 3251  
´غیر اللہ کی قسم کھانا شرک`
«. . . إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ أَشْرَكَ . . .»
. . . میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی قسم کھائی تو اس نے شرک کیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ: 3251]

فوائد و مسائل
SR سوال: بعض لوگ اپنی گفتگو میں اولاد، اولیاء اور نیک بندوں کی قسم کھاتے ہیں، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ ER
جواب: اسلامی تعلیمات میں غیر اللہ کی قسم کھانے سے روکا گیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر اللہ کی قسم کو کفر و شرک قرار دیا ہے۔
❀ سعد بن عبداللہ فرماتے ہیں: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کو قسم کھاتے ہوئے سنا، اس نے کہا: کعبہ کی قسم! تو اسے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے: «من حلف بغير الله فقد كفر او اشرك» جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے شرک کیا۔ [ابوداود، كتاب الايمان و النذور: باب كراهية الحلف بالاباء: 3251، ترمذي: 1535]
❀ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک قافلے میں باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إن الله ينهاكم ان تحلفوا بآبائكم، ‏‏‏‏‏‏فمن كان حالفا، ‏‏‏‏‏‏فليحلف بالله او ليسكت» بیشک اللہ تمہیں تمہارے باپوں کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے، جو شخص قسم کھانا چاہے اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔ [ابوداود، كتاب الايمان و النذور: باب كراهية الحلف بالاباء: 3249، بخاري: 6646، مسلم: فواد عبدالباقي ترقيم1646، دارالسلام ترقيم4257]
↰ مذکورہ بالا حدیث صحیحہ سے معلوم ہو ا کہ غیر اللہ کی قسم کھانا حرام و شرک ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے، جو لوگ اپنی گفتگو میں دودھ پتر کی قسم، پیر کی قسم، مرشد کی قسم، سید کی قسم، ماں باپ کی قسم، محبت کی قسم وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں انہیں اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا احادیث پر سنجیدگی و متانت سے غور و حوض کرنا چاہیے اور ناجائز و حرام قسموں سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔
   احکام و مسائل، حدیث\صفحہ نمبر: 22   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 543  
´غیر اللہ کی قسم کھانا حرام ہے`
«. . . 218- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أدرك عمر بن الخطاب وهو يسير فى ركب وهو يحلف بأبيه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله ينهاكم أن تحلفوا بآبائكم، فمن كان حالفا فليحلف بالله أو ليصمت. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایک قافلے میں سفر کرتے ہوئے اپنے باپ کی قسم کھا رہے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تمہیں تمہارے والدین کی قسمیں کھانے سے منع کرتا ہے لہٰذا جو شخص قسم کھانا چاہے تو اللہ کی قسم کھائے یا چپ رہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 543]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 6646، من حديث مالك به، ورواه مسلم 3/1646، من حديث نافع به]
تفقه:
➊ غیر اللہ کی قسم کھانا ممنوع اور حرام ہے۔
➋ اگر کسی سے لاعلمی میں کتاب وسنت کی مخالفت میں کوئی کام سرزد ہوجائے تو وہ معذور سمجھا جائے گا تاوقتیکہ اسے علم ہوجائے لیکن اگر کوئی ممانعت ثابت ہونے کے باوجود باطل تاویل کے ساتھ دلیل کی مخالفت پر اڑا رہے تو مجرم ہے۔
➌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سننے کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! جب سے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے تو پھر میں نے کبھی ایسی قسم نہیں کھائی، نہ خود اور نہ کسی دوسرے سے نقل کرتے ہوئے۔ [صحيح بخاري: 6647، صحيح مسلم: 1646، ترقيم دارالسلام: 4254]
معلوم ہوا کہ اتباعِ سنت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اعلیٰ مقام پر تھے۔
➍ ایک روایت میں آیا ہے، «وأفلح وأبيه» اس کا مطلب یہ ہے کہ اور وہ کامیاب ہوگیا، اس کے باپ (کے رب) کی قسم! یہاں «وأبيه» سے مراد «ورب أبيه» ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 218   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2094  
´اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانے کی ممانعت۔`
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں باپ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو فرمایا: اللہ تمہیں باپ دادا کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے، اس کے بعد میں نے کبھی باپ دادا کی قسم نہیں کھائی، نہ اپنی طرف سے، اور نہ دوسرے کی نقل کر کے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2094]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  اہل عرب کی عادت تھی کہ باپ کی قسم کھا لیا کرتے تھے، اس لیے نبی ﷺ نے منع فرمایا دیا۔

(2)
  اللہ کے سوا کسی کی قسم کھانا جائز نہیں، خواہ باپ کی ہو یا دادا کی، یا استاد کی یا پیر کی یا بزرگ کی یا کسی ولی کی یا نبی کی جیسے بعض لوگ حضرت علی کی یا پنجتن پاک کی قسم کھا لیتے ہیں۔
یہ سب حرام ہیں۔

(3)
  نقل کا مطلب یہ ہے کہ مثال کے طور پر کسی کی بات کرتے ہوئے کہا جائے کہ فلاں نے کہا:
قسم ہے پیرودستگیر کی! میں سچ کہہ رہا ہوں۔
حضرت عمر نے حکم کی اس حد تک تعمیل کی کہ کسی کی بات بیان کرتے ہوئے بھی یہ نہیں کہا:
فلاں کہہ رہا تھا:
قسم ہے لات وعزی کی! (4)
  نامناسب الفاظ کو زبان سے نکالنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
کسی کی بات سنانے کی ضرورت پڑ جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس نے لات وعزی کی قسم کھا کر یوں کہا:
جیسے ہم کسی کی گالی نقل کرنے سے اجتناب کرتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں:
فلاں نے ماں کی گالی دی، گالی کے الفاظ نہیں دہراتے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2094   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1171  
´(قسموں اور نذروں کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ایک کارواں میں اپنے باپ کی قسم اٹھاتے سنا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا کر فرمایا اللہ نے تمہیں تمہارے آباء و اجداد کی قسم کھانے سے منع فرمایا ہے۔ پس اب جو قسم کھانا چاہے تو اسے اللہ کے نام کی قسم کھانی چاہیئے ورنہ خاموش رہے۔ (بخاری و مسلم) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ابوداؤد اور نسائی کی ایک مرفوع روایت میں ہے اپنے باپ دادوں، اپنی ماؤں اور اللہ کے شریکوں کی قسم نہ کھاؤ۔ اللہ کی قسم بھی صرف اس حالت میں کھاؤ کہ جب تم سچے ہو۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1171»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأيمان والنذور، باب لا تحلفوا بآبائكم، حديث:6108، ومسلم، الأيمان، باب النهي عن الحلف بغير الله تعالي، حديث:1646، وحديث أبي هريرة: أخرجه أبوداود، الأيمان والنذور، حديث:3249، والنسائي، الأيمان والنذور، حديث:3797، 3798، وسنده صحيح.»
تشریح:
1. یہ حدیث دلیل ہے کہ غیر اللہ کے نام کی قسم کھانا حرام ہے۔
جامع الترمذی میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کسی نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے کفر یا شرک کا ارتکاب کیا۔
(جامع الترمذي‘ النذور والأیمان‘ حدیث:۱۵۳۵) امام ابوداود رحمہ اللہ نے یہی روایت ان الفاظ سے نقل کی ہے: جس کسی نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے شرک کیا۔
(سنن أبي داود‘ الأیمان والنذور‘ حدیث:۳۲۵۱) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی کے نام کی قسم کھانا اس کی عظمت کی دلیل ہوتی ہے اور عظمت فی الحقیقت صرف اللہ کے لیے ہے۔
2. قدیم ترین زمانے سے لوگوں کا یہ عقیدہ چلا آرہا ہے کہ جس کے نام کی قسم کھائی جائے اس کا قسم کھانے والے پر غلبہ ہوتا ہے اور وہ مافوق الاسباب بھی نفع و نقصان دینے کی طاقت رکھتا ہے‘ چنانچہ جب قسم کھانے والا اپنی قسم پوری کرتا ہے تو جس کی قسم کھائی گئی ہوتی ہے وہ خوش ہوتا اور اسے نفع دیتا ہے، اور جب قسم کھانے والا اپنی قسم پوری نہیں کرتا تو وہ اس پر ناراض ہوتا اور اسے نقصان پہنچاتا ہے۔
بلاشبہ ایسا عقیدہ غیراللہ کے بارے میں رکھنا کھلا شرک و کفر ہے اور غیر اللہ کے نام کی قسم اور غیراللہ کے نام کی نذر شرک ہی کی ایک صورت ہے‘ لہٰذا جب کوئی اس اعتقاد کے ساتھ قسم کھائے تو اس نے حقیقت میں شرک کا ارتکاب کیا، اور جب قسم کھائے اور یہ اعتقاد و نظریہ نہ ہو تو پھر اس نے کم از کم شرک کی ایک ظاہری صورت کا ارتکاب ضرور کر لیا ہے۔
3. شریعت نے شرک کی ظاہری صورتوں سے بھی اسی طرح منع کیا ہے جیسے حقیقی شرک سے منع فرمایا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1171   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3251  
´باپ دادا کی قسم کھانا منع ہے۔`
سعد بن عبیدہ کہتے ہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو کعبہ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی قسم کھائی تو اس نے شرک کیا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3251]
فوائد ومسائل:

غیر اللہ کی قسم کھانا۔
خواہ وہ کعبہ کی ہو یا فرشتے یا نبیاء یا اولیاء صالحین یا آبائواجداد وغیر کی۔
اسے گویا اللہ کے ہم پلہ ٹھرانا ہے۔
یا اس کی سی صفات سے موصوف سمجھنا ہے۔
جو کہ واضح شرک ہے۔
جس سے ایسا ہوجائے اسے چاہیے کہ وہ ایمان کی تجدید کرلے۔
اور لا الہ الا اللہ پڑھے۔
جیسے کہ (حدیث 3247)میں گزرا ہے۔

خیال رہے کہ قرآن مجید کی قسم کھانا اللہ کے رسول ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔
تاہم اگر کوئی اٹھا لے تو مباح اور جائز ہے۔
اس لئے کہ قرآن مجید اللہ ذو الجلال کا کلا م اور اس کی صفت ہے اور اللہ کی صفات کی قسم کھانا ثابت اور صحیح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3251   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6108  
6108. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو ایک قافلے میں پایا جبکہ وہ اپنے باپ کی قسم اٹھا رہے تھے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے انہیں آواز دے کر فرمایا: خبردار! اللہ تعالٰی نے تمہیں اپنے آباؤ اجداد کی قسم کھانے سے منع کیا ہے لہذا اگر کسی نے قسم کھانی ہو ہے وہ صرف کی قسم کھائے یا پھر خاموش رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6108]
حدیث حاشیہ:
دوسری حدیث میں آیا ہے کہ غیر اللہ کی قسم کھانا منع ہے اگر کسی کی زبان سے غیرا للہ کی قسم نکل گئی تو اسے کلمہ توحید پڑھ کر پھر ایمان کی تجدید کرنا چاہیئے اگر کوئی عمداً کسی پیر یا بت کی عظمت مثل عظمت الہٰی کے جان کر ان کے نام کی قسم کھائے گا تو وہ یقینا مشرک ہوجائے گا ایک حدیث میں جو افلح وابیہ ان صدق کے لفظ آئے ہیں۔
یہ حدیث پہلے کی ہے۔
لہٰذا یہاں قسم کا جواز منسوخ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6108   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6108  
6108. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو ایک قافلے میں پایا جبکہ وہ اپنے باپ کی قسم اٹھا رہے تھے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے انہیں آواز دے کر فرمایا: خبردار! اللہ تعالٰی نے تمہیں اپنے آباؤ اجداد کی قسم کھانے سے منع کیا ہے لہذا اگر کسی نے قسم کھانی ہو ہے وہ صرف کی قسم کھائے یا پھر خاموش رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6108]
حدیث حاشیہ:
(1)
غیراللہ کی قسم اٹھانا کفر یا شرک ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
''جس نے اللہ کے سوا کسی اور چیز کی قسم اٹھائی اس نے کفر یا شرک کا ارتکاب کیا۔
''(مسند احمد: 2/125)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دوران سفر میں اپنے باپ کی قسم اٹھائی لیکن ان کا یہ اقدام لاعلمی کی وجہ سے تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی لاعلمی اور جہالت کے پیش نظر انہیں کافر یا مشرک قرار نہیں دیا اور نہ انہیں تجدید ایمان ہی کے متعلق کہا بلکہ ان کی لاعلمی دور کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے غیراللہ کی قسم اٹھانے سے منع فرمایا ہے۔
(2)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص معقول تاویل یا جہالت کی وجہ سے کافرانہ کام کرتا ہے یا کفریہ بات کہتا ہے تو اسے معذور خیال کرتے ہوئے کافر نہیں کہا جائے گا۔
اس سلسلے میں ہم نے ایک مضمون ''امام بخاری اور فتنۂ تکفیر'' کے عنوان سے لکھا ہے جو ہماری تالیف ''مسئلۂ ایمان و کفر'' کے آخر میں مطبوع ہے، قارئین کرام اس کا ضرور مطالعہ کریں۔
واللہ المستعان الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. كيفية الاستحلاف (الأقضية والأحكام)
2. الحلف بالله (العبادات)
3. الحلف بغير الله (العبادات)
4. الحلف بالآباء (العبادات)
موضوعات 1. قسم لینے کا طریقہ (عدالتی احکام و فیصلے)
2. اللہ کے نام کے ساتھ قسم اٹھانا (عبادات)
3. غیر اللہ کی قسم اٹھانا (عبادات)
4. اباؤ اجداد کی قسم کھانا (عبادات)
Topics 1. The way to swear (Legal Orders and Verdicts)
2. Taking Oath by the Name of Allah (Prayers/Ibadaat)
3. Taking oath of other than Allah (Prayers/Ibadaat)
4. Taking oath of forefathers (Prayers/Ibadaat)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/6108 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت عمر ؓ نے حاطب بن ابی بلتعہ کے متعلق کہا کہ وہ منافق ہے اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا عمر! تو کیا جانے اللہ تعالیٰ نے تو بدر والوں کو عرش پر سے دیکھا اور فرمادیا کہ میں نے تم کو بخش دیا۔
حاطب کا مشہور واقعہ ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ پوشیدہ طور پر مکہ والوں کو جنگ سے آگاہ کردیا تھا اس پر یہ اشارہ ہے۔
تشریح:
جنگ بدر ماہ رمضان2ھ میں مقام بدر پر برپا ہوئی، ابو جہل ایک ہزار کی فوج لے کر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوا جب مدینہ کے قریب آگیا تو مسلمانوں کو ان کے ناپاک ارادے کی خبر ہوئی چنانچہ رسول اللہﷺصرف 313 فدائیوں کے ساتھ مدینہ منورہ سے باہر نکلے۔
313 میں صرف 13 تلواریں تھیں اور راشن وسواریوں کا کوئی انتظام نہ تھا ادھر مکہ والے ہزار مسلح فوج کے ساتھ ہر طرح سے لیس ہو کر آئے تھے۔
اس جنگ میں22 مسلمان شہید ہوئے کفار کے 70 آدمی قتل ہوئے اور70 ہی قید ہوئے۔
ابو جہل جیسا ظالم ا س جنگ میں دو نو عمر مسلمان بچوں کے ہاتھوں سے مارا گیا، بدر مکہ سے سات منزل دور اور مدینہ سے تین منزل ہے، مفصل حالات کتب تواریخ وتفاسیر میں ملاحظہ ہوں بخاری میں بھی کتاب الغزوات میں تفصیلات دیکھی جا سکتی ہیںحدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ کو ایک قافلے میں پایا جبکہ وہ اپنے باپ کی قسم اٹھا رہے تھے۔
اس پر رسول اللہ ﷺ نے انہیں آواز دے کر فرمایا:
خبردار! اللہ تعالٰی نے تمہیں اپنے آباؤ اجداد کی قسم کھانے سے منع کیا ہے لہذا اگر کسی نے قسم کھانی ہو ہے وہ صرف کی قسم کھائے یا پھر خاموش رہے۔
حدیث حاشیہ:
(1)
غیراللہ کی قسم اٹھانا کفر یا شرک ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
''جس نے اللہ کے سوا کسی اور چیز کی قسم اٹھائی اس نے کفر یا شرک کا ارتکاب کیا۔
''(مسند احمد: 2/125)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دوران سفر میں اپنے باپ کی قسم اٹھائی لیکن ان کا یہ اقدام لاعلمی کی وجہ سے تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی لاعلمی اور جہالت کے پیش نظر انہیں کافر یا مشرک قرار نہیں دیا اور نہ انہیں تجدید ایمان ہی کے متعلق کہا بلکہ ان کی لاعلمی دور کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے غیراللہ کی قسم اٹھانے سے منع فرمایا ہے۔
(2)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص معقول تاویل یا جہالت کی وجہ سے کافرانہ کام کرتا ہے یا کفریہ بات کہتا ہے تو اسے معذور خیال کرتے ہوئے کافر نہیں کہا جائے گا۔
اس سلسلے میں ہم نے ایک مضمون ''امام بخاری اور فتنۂ تکفیر'' کے عنوان سے لکھا ہے جو ہماری تالیف ''مسئلۂ ایمان و کفر'' کے آخر میں مطبوع ہے، قارئین کرام اس کا ضرور مطالعہ کریں۔
واللہ المستعان ترجمۃ الباب:
حضرت عمر بن خطاب ؓ نے حاطب بن ابی بلتعہ ؓکے متعلق کہا:
وہ منافق ہے تو نبیﷺنے فرمایا:
تمہیں کیا معلوم اللہ تعالٰی نے تو اہل بدر کو عرش پر سے دیکھا اور فرمایا:
میں نے تمہیں بخش دیا ہے؟حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعیدنے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے ابن عمر ؓ نے کہ وہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس پہنچے جو چند سواروں کے ساتھ تھے، اس وقت حضرت عمر ؓ اپنے والد کی قسم کھا رہے تھے۔
اس پر رسول کریم ﷺ نے انہیں پکار کر کہا، آگاہ ہو، یقینا اللہ پاک تمہیں منع کرتا ہے کہ تم اپنے باپ دادوں کی قسم کھاؤ، پس اگر کسی کو قسم ہی کھا نی ہے تو اللہ کی قسم کھائے، ورنہ چپ رہے۔
حدیث حاشیہ:
دوسری حدیث میں آیا ہے کہ غیر اللہ کی قسم کھانا منع ہے اگر کسی کی زبان سے غیرا للہ کی قسم نکل گئی تو اسے کلمہ توحید پڑھ کر پھر ایمان کی تجدید کرنا چاہیئے اگر کوئی عمداً کسی پیر یا بت کی عظمت مثل عظمت الہٰی کے جان کر ان کے نام کی قسم کھائے گا تو وہ یقینا مشرک ہوجائے گا ایک حدیث میں جو افلح وابیہ ان صدق کے لفظ آئے ہیں۔
یہ حدیث پہلے کی ہے۔
لہٰذا یہاں قسم کا جواز منسوخ ہے۔
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA)
:
that he found 'Umar bin Al-
Khattab (RA)
in a group of people and he was swearing by his father. So Allah's Apostle (ﷺ) called them, saying, "Verily! Allah forbids you to swear by your fathers. If one has to take an oath, he should swear by Allah or otherwise keep quiet." حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
دوسری حدیث میں آیا ہے کہ غیر اللہ کی قسم کھانا منع ہے اگر کسی کی زبان سے غیرا للہ کی قسم نکل گئی تو اسے کلمہ توحید پڑھ کر پھر ایمان کی تجدید کرنا چاہیئے اگر کوئی عمداً کسی پیر یا بت کی عظمت مثل عظمت الہٰی کے جان کر ان کے نام کی قسم کھائے گا تو وہ یقینا مشرک ہوجائے گا ایک حدیث میں جو افلح وابیہ ان صدق کے لفظ آئے ہیں۔
یہ حدیث پہلے کی ہے۔
لہٰذا یہاں قسم کا جواز منسوخ ہے۔
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم6162٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
6108٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
5643٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
6108٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
5757٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5882٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6108٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6108١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6108 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے پہلے یہ وضاحت کی تھی کہ اگر کوئی تاویل کے بغیر کسی کو کافر کہتا ہے تو اگر وہ درحقیقت کافر نہیں تو کہنے والا کافر ہو جاتا ہے۔
اب اس مسئلے کا دوسرا پہلو بیان کیا ہے کہ اگر اس میں کوئی مانع حائل ہو تو کافر نہیں ہو گا۔
بعض دفعہ تکفیر کے اسباب و شرائط کے باوجود کسی متعین شخص کو کافر قرار دینے میں کوئی رکاوٹ حائل ہو جاتی ہے، اس رکاوٹ کو مانع کہا جاتا ہے۔
وہ موانع اور رکاوٹیں حسب ذیل ہیں:
٭ اکراہ ٭ تقیہ ٭ معقول تاویل ٭ جہالت ٭ شدت جذبات ٭ حالت نشہ ٭ مرفوع القلم ٭ نقل و حکایت۔
ان تمام موانع کی تفصیل ہم نے اپنی تالیف مسئلۂ ایمان و کفر میں بیان کی ہے، اس کا مطالعہ مفید رہے گا۔
ان شاءاللہ۔
البتہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان میں دو موانع ذکر کیے ہیں:
ایک تاویل اور دوسرا جہالت۔
ان کی ہم یہاں تفصیل بیان کرتے ہیں:
٭ معقول تاویل:
کسی کفر یہ کام یا بات کا مرتکب شخص اپنے پاس اگر کوئی معقول تاویل رکھتا ہے تو اسے معذور تصور کیا جائے گا لیکن تاویل کے لیے ضروری ہے کہ الفاظ میں عربی قاعدے کے مطابق اس کی گنجائش ہو اور علمی طور پر اس عمل یا بات کی توجیہ ممکن ہو۔
اگر کسی کو اس کی تاویل سے اتفاق نہ ہو تو اسے کافر کہنے کے بجائے اس تاویل کا بودا پن واضح کیا جائے۔
واضح رہے کہ ہر تاویل تکفیر کے لیے مانع نہیں بن سکتی بلکہ وہ تاویل، تکفیر کے لیے رکاوٹ کا باعث ہو گی جس کی بنیاد کسی شرعی دلیل میں غوروفکر پر ہو لیکن اس شرعی دلیل کو سمجھنے میں اسے غلطی لگ جائے۔
اس قسم کی تاویل کرنے والا معذور ہو گا اور اسے کافر نہیں کہا جائے گا، ہاں اگر تاویل کی بنیاد کوئی شرعی دلیل نہیں بلکہ محض عقل و قیاس اور خواہشات نفس ہیں تو اس قسم کی تاویل کرنے والا معذور نہیں ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے لعین ابلیس سے سوال کیا کہ تو نے آدم کو سجدہ کیوں نہیں کیا؟ تو اس نے جواب دیا:
''میں اس سے بہتر ہوں کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے بنایا ہے۔
'' (الاعراف7: 12)
اللہ تعالیٰ نے ابلیس کی اس تاویل کو کوئی اہمیت ہی نہ دی بلکہ اس کا بودا پن واضح کر کے اسے ہمیشہ کے لیے اپنی رحمت سے دور کر دیا۔
اسی طرح باطنی حضرات کی تاویلات ہیں جن کی بنیاد پر انہوں نے شرعی واجبات سے راہ فرار اختیار کی ہے۔
قادیانی حضرات نے تاویلات کا سہارا لے کر مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی تسلیم کیا ہے لیکن انہیں کسی شرعی دلیل کو سمجھنے میں غلطی نہیں لگی کہ انہیں معذور خیال کرتے ہوئے کافر قرار نہ دیا جائے بلکہ یہ مرتدین کا ٹولہ ہے اور ان کی تاویلات محض خواہشات نفس کا پلندہ ہیں، پھر علمائے امت نے ان تاویلات کا بودا پن ان پر واضح کر دیا ہے اور حکومت پاکستان نے بھی قانونی طور پر انہیں خارج از اسلام قرار دیا ہے۔
٭ جہالت اور لاعلمی:
اگر کسی انسان سے جہالت و لاعلمی کی بنا پر کوئی کفریہ کام یا بات سر زد ہو جائے تو اسے بھی معذور تصور کیا جائے گا اور اسے کافر قرار دینے کے بجائے اس کی جہالت دور کی جائے گی، لیکن اس جہالت کی کچھ حدود و قیود ہیں۔
مطلق جہل کو مانع قرار نہیں دیا جا سکتا، بلکہ اس سے مراد وہ جہالت و لاعلمی ہے جسے کسی وجہ سے انسان دور نہ کر سکتا ہو، خواہ وہ خود مجبور و لاچار ہو یا مصادر علم تک اس کی رسائی ناممکن ہو۔
لیکن اگر کسی انسان میں جہالت دور کرنے کی صلاحیت ہے اور اسے اس قدر ذرائع اور وسائل میسر ہیں کہ وہ اپنی جہالت دور کر سکتا ہے اس کے باوجود وہ کوتاہی کا مرتکب ہے تو ایسے انسان کی جہالت کو کفر سے مانع قرار نہیں دیا جا سکتا، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''ہم اس وقت تک عذاب نہیں دیا کرتے جب تک اپنا رسول نہ بھیج لیں۔
'' (بنی اسرائیل17: 15)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وضاحت کی ہے کہ جب تک ہم انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے لوگوں کی جہالت کو دور نہیں کرتے انہیں عذاب سے دوچار کرنا ہمارا دستور نہیں ہے۔
اس آیت کے تحت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بندوں پر اتمام حجت کے لیے دو چیزوں کا ہونا لازمی ہے:
٭ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ تعلیمات کو حاصل کرنے کی ہمت و استعداد رکھتے ہوں۔
٭ ان پر عمل کرنے کی قدرت ہو، یعنی وہ عاقل، بالغ ہوں۔
(فتاوٰی ابن تیمیۃ: 12/478)
اس سے معلوم ہوا کہ جہالت و لاعلمی کو اتمام حجت کے سلسلے میں ایک رکاوٹ شمار کیا گیا ہے۔
اس عنوان کو ثابت کرنے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ پیش کیا ہے جسے آپ نے متصل سند کے ساتھ دوسرے مقام پر تفصیل سے بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاری، المغازی، حدیث: 3983)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کو منافق قرار دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کا دفاع تو کیا لیکن ردعمل کے طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کافر یا منافق قرار نہیں دیا کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک معقول تاویل کی بنا پر منافق کہا تھا کہ انہوں نے اہل مکہ کے نام ایک خط لکھا تھا جس میں اسلام اور اہل اسلام کے متعلق ایک اہم راز کی اطلاع دی تھی۔
ایسا کرنا کفار سے دوستی رکھنے کے مترادف ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6108   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.