الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
The Book of the Merits of the Companions
34. باب فَضَائِلِ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
34. باب: سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6386
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي ، اخبرنا ابو اليمان ، اخبرنا شعيب ، عن الزهري ، اخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن ، انه سمع حسان بن ثابت الانصاري يستشهد ابا هريرة : انشدك الله، هل سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: يا حسان، اجب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، اللهم ايده بروح القدس، قال ابو هريرة: نعم ".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ سَمِعَ حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ يَسْتَشْهِدُ أَبَا هُرَيْرَةَ : أَنْشُدُكَ اللَّهَ، هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: يَا حَسَّانُ، أَجِبْ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اللَّهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: نَعَمْ ".
زہری نے کہا: مجھے ابو سلمہ بن عبدالرحمان نے بتایا کہ انھوں نے حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے گواہی طلب کررہے تھے، (کہہ رہے تھے:) میں تمھارے سامنے اللہ کا نام لیتا ہوں! کیاتم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناتھا۔"حسان!اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جواب دو۔اےاللہ!روح القدس کے ذریعے سے اس کی تائید فرما!"؟ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں۔
ابوسلمہ بن عبدالرحمان رحمۃ ا للہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ اس نے حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا،وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گواہی طلب کررہے تھے،میں تمھیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں،کیاتو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے،"اے حسان!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جواب دے،اے اللہ،اس کی روح القدس سے تائید فرما،"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہاں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2485

   صحيح البخاري453أجب عن رسول الله اللهم أيده بروح القدس
   صحيح البخاري6152يا حسان أجب عن رسول الله اللهم أيده بروح القدس
   صحيح البخاري3212أجب عني اللهم أيده بروح القدس
   صحيح مسلم6386اللهم أيده بروح القدس قال اللهم نعم
   صحيح مسلم6386يا حسان أجب عن رسول الله اللهم أيده بروح القدس
   سنن النسائى الصغرى717أجب عني اللهم أيده بروح القدس
   بلوغ المرام198 مر بحسان ينشد في المسجد،‏‏‏‏ فلحظ إليه،‏‏‏‏ فقال: قد كنت انشد فيه،‏‏‏‏ وفيه من هو خير منك
   صحيح البخاري453أجب عن رسول الله اللهم أيده بروح القدس
   صحيح البخاري6152يا حسان أجب عن رسول الله اللهم أيده بروح القدس
   صحيح البخاري3212أجب عني اللهم أيده بروح القدس
   صحيح مسلم6386اللهم أيده بروح القدس قال اللهم نعم
   صحيح مسلم6386يا حسان أجب عن رسول الله اللهم أيده بروح القدس
   سنن النسائى الصغرى717أجب عني اللهم أيده بروح القدس
   بلوغ المرام198 مر بحسان ينشد في المسجد،‏‏‏‏ فلحظ إليه،‏‏‏‏ فقال: قد كنت انشد فيه،‏‏‏‏ وفيه من هو خير منك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 198  
´مسجد میں اشعار پڑھنا جائز ہے`
«. . . وعنه ان عمر رضي الله عنه مر بحسان ينشد في المسجد،‏‏‏‏ فلحظ إليه،‏‏‏‏ فقال: قد كنت انشد فيه،‏‏‏‏ وفيه من هو خير منك . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی یہ حدیث بھی مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا گزر سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کے پاس سے ہوا، وہ مسجد میں اشعار پڑھ رہے تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف گھور کر دیکھا (اس پر) سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے کہا (گھورتے کیوں ہیں؟) میں تو اس وقت مسجد میں شعر پڑھا کرتا تھا جب مسجد میں وہ ذات گرامی موجود ہوتی تھی جو آپ سے افضل تھی . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 198]

لغوی تشریح:
«يُنْشِدُ» «إِنْشَاد» سے ماخوذ ہے۔ یاء پر ضمہ اور شین کے نیچے کسرہ ہے۔ اشعار پڑھنا۔
«فَلَحَظَ إِلَيْهِ» ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھنا، یعنی گھور کر۔
«فَقَالَ» سے مراد سیدنا حسان رضی اللہ عنہ ہیں۔
«وَفِيْهِ» اس میں واؤ حالیہ ہے یعنی اس حالت میں کہ وہ مسجد میں تھے۔
«مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ» اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی مراد ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث کی رو سے مسجد میں اشعار پڑھنا جائز ہے مگر ایسے اشعار نہ ہوں جو توحید و رسالت کے خلاف ہوں، جن سے شرک و بدعت کی بو آتی ہو یا مذموم اور برے ہوں یا نمازیوں کے لیے خلل اور حرج کا باعث ہوں کہ نماز سے ان کی توجہ منتشر کر دیں۔ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ مسجد میں ایسے اشعار پڑھتے تھے جن میں کفار کی ہجو ہوتی تھی۔ آپ سن کر فرماتے تھے: روح القدس تیری مدد فرمائے۔ [صحيح بخاري، الصلاة، باب الشعر فى المسجد، حديث: 453]

وضاحت:
(سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ) انصار کے قبیلہ خزرج میں سے تھے۔ شاعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لقب سے مشہور تھے۔ ابوعبیدہ کا قول ہے کہ عرب متفق ہیں کہ شہری شعراء میں سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سب سے بڑے شاعر تھے۔ 40 ہجری سے قبل سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی۔ بعض کے نزدیک 50 ہجری میں فوت ہوئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر ایک سو بیس سال تھی۔ ساٹھ سال دور جاہلیت میں گزارے اور ساٹھ سال حالت اسلام میں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 198   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 198  
´مسجد میں اشعار پڑھنا جائز ہے`
«. . . وعنه ان عمر رضي الله عنه مر بحسان ينشد في المسجد،‏‏‏‏ فلحظ إليه،‏‏‏‏ فقال: قد كنت انشد فيه،‏‏‏‏ وفيه من هو خير منك . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی یہ حدیث بھی مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا گزر سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کے پاس سے ہوا، وہ مسجد میں اشعار پڑھ رہے تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف گھور کر دیکھا (اس پر) سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے کہا (گھورتے کیوں ہیں؟) میں تو اس وقت مسجد میں شعر پڑھا کرتا تھا جب مسجد میں وہ ذات گرامی موجود ہوتی تھی جو آپ سے افضل تھی . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 198]

لغوی تشریح:
«يُنْشِدُ» «إِنْشَاد» سے ماخوذ ہے۔ یاء پر ضمہ اور شین کے نیچے کسرہ ہے۔ اشعار پڑھنا۔
«فَلَحَظَ إِلَيْهِ» ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھنا، یعنی گھور کر۔
«فَقَالَ» سے مراد سیدنا حسان رضی اللہ عنہ ہیں۔
«وَفِيْهِ» اس میں واؤ حالیہ ہے یعنی اس حالت میں کہ وہ مسجد میں تھے۔
«مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ» اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی مراد ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث کی رو سے مسجد میں اشعار پڑھنا جائز ہے مگر ایسے اشعار نہ ہوں جو توحید و رسالت کے خلاف ہوں، جن سے شرک و بدعت کی بو آتی ہو یا مذموم اور برے ہوں یا نمازیوں کے لیے خلل اور حرج کا باعث ہوں کہ نماز سے ان کی توجہ منتشر کر دیں۔ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ مسجد میں ایسے اشعار پڑھتے تھے جن میں کفار کی ہجو ہوتی تھی۔ آپ سن کر فرماتے تھے: روح القدس تیری مدد فرمائے۔ [صحيح بخاري، الصلاة، باب الشعر فى المسجد، حديث: 453]

وضاحت:
(سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ) انصار کے قبیلہ خزرج میں سے تھے۔ شاعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لقب سے مشہور تھے۔ ابوعبیدہ کا قول ہے کہ عرب متفق ہیں کہ شہری شعراء میں سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سب سے بڑے شاعر تھے۔ 40 ہجری سے قبل سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی۔ بعض کے نزدیک 50 ہجری میں فوت ہوئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر ایک سو بیس سال تھی۔ ساٹھ سال دور جاہلیت میں گزارے اور ساٹھ سال حالت اسلام میں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 198   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 453  
´مسجد میں اشعار پڑھنا ثابت ہے`
«. . . أَنَّهُ سَمِعَ حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ يَسْتَشْهِدُ أَبَا هُرَيْرَةَ،" أَنْشُدُكَ اللَّهَ، هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: يَا حَسَّانُ أَجِبْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اللَّهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ؟ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: نَعَمْ . . .»
. . . حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس بات پر گواہ بنا رہے تھے کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا تھا کہ اے حسان! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے (مشرکوں کو اشعار میں) جواب دو اور اے اللہ! حسان کی روح القدس کے ذریعہ مدد کر۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہاں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ: 453]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے مسجد میں اشعار پڑھنا ثابت فرمایا ہے مگر دلیل کے طور پر جو حدیث ذیل میں پیش کی ہے اس میں مسجد کا ذکر موجود نہیں ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے موافق حدیث کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جیسا کہ ابن بطال فرماتے ہیں:
«ليس فى حديث الباب أن حسان أنشد شعرا فى المسجد بحضرة النبى - صلى الله عليه وسلم - لكن رواية البخاري فى بدء الخلق من طريق سعيد تدل على أن قوله - صلى الله عليه وسلم - لحسان أجب عني كان فى المسجد» [فتح الباري ج1، ص 721]
اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے مسجد میں شعر پڑھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں لیکن ایک اور روایت جو کہ صحیح بخاری کتاب بدء الخلق میں بطریق سعید سے منقول ہے کہ جس میں یہ واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ حسان جواب دو میری طرف سے اور وہ اس وقت مسجد میں تھے۔

◈ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مراد البخاري الاشارة إلى جواز الشعر المقبول فى المسجد» [عمدة القاري، ج3، ص487]
امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد مسجد میں مقبول شعر کے جواز کی طرف اشارہ ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت فرما رہے ہیں کہ ضرورت کے وقت مسجد میں اچھے شعر پڑھنا جائز ہے۔ کیونکہ بلاوجہ مسجد میں اشعار کہنے کی ممانعت بھی موجود ہے۔

◈ صاحب او جزا المسالک رقمطراز ہیں:
«وقد ورد النهي عنه فى عدة أحاديث كما فى رواية ابي داؤد والترمذي، ولعل الغرض انه جائز عند الضرورة» [الابواب والتراجم لصحيح البخاري، ج2، ص753]
یقیناًً «نهي» پر کئی احادیث وارد ہیں جس کو ابوداؤد اور ترمذی نے روایت فرمایا ہے۔ شاید امام بخاری رحمہ اللہ کی (اس حدیث سے) غرض یہ ہو کہ ضرورت کے وقت اشعار کہنا جائز ہے۔

◈ بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ (المتوفی 733ھ) فرماتے ہیں:
ابوسلمہ کی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ وہ مسجد میں (اشعار پڑھ رہے) تھے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے روایت کیا ہے ایک اور طریق سے جس میں صراحت ہے کہ وہ مسجد میں تھے۔ پس امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ پر اکتفا فرمایا۔۔۔ اور احتمال یہ ہے کہ آپ نے ارادہ کیا ہے کہ اشعار حق پر مشتمل ہوتے ہیں۔ کلام حق کے ساتھ جو حق کی دلیل کے ساتھ ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان رضی اللہ عنہ کو دعا دی ان اشعار پر۔ پس دلالت ہے اس پر کہ اگر (اشعار) حق پر ہیں تو اسے ادا کرنا جائز ہو گا۔ [مناسبات تراجم البخاري۔ ص4846]
پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔

فائدہ:
امام ابن خذیمہ رحمہ اللہ اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے:
«نهيٰ رسول الله صلى الله عليه وسلم عن تناشد اشعار فى المسجد» [صحيح ابن خذيمة رقم الحديث 1304]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں اشعار کہنے کو منع فرمایا ہے۔ [قال شيخ الالباني رحمه الله أسناده حسن] [أخرجه الترمذي رقم الحديث 322] [والبغوي فى شرح السنة 485]
مذکورہ حدیث نے مسجد میں اشعار کہنے سے منع فرمایا ہے اور اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض جہلاء نے بھی مطلق اشعار سے روکا ہے (میرا اشارہ منکرین حدیث کی طرف ہے) لیکن جب غور کیا جاتا ہے تو روکنے کا حکم کسی چیز کے ساتھ مقید ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«فالجمع بينهما وبين حديث الباب أن يحمل النهي على تناشد اشعار الجاهلية و المبطلين .» [فتح الباري، ج1، ص722]
نھی اور اجازت والی حدیث میں تطبیق یہ ہے کہ جو حدیث نھی پر دلالت کرتی ہے اس کا تعلق ان اشعار کے ساتھ ہے جو جہالت اور مبطلین کے ساتھ خاص ہوتی (اور اجازت ان کے لیے ہے جن کے اشعار اسلام کے تائید میں ہوں اور صحیح اشعار ہوں)۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 162   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 453  
´مسجد میں اشعار پڑھنا ثابت ہے`
«. . . أَنَّهُ سَمِعَ حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ يَسْتَشْهِدُ أَبَا هُرَيْرَةَ،" أَنْشُدُكَ اللَّهَ، هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: يَا حَسَّانُ أَجِبْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اللَّهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ؟ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: نَعَمْ . . .»
. . . حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس بات پر گواہ بنا رہے تھے کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا تھا کہ اے حسان! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے (مشرکوں کو اشعار میں) جواب دو اور اے اللہ! حسان کی روح القدس کے ذریعہ مدد کر۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہاں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ: 453]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے مسجد میں اشعار پڑھنا ثابت فرمایا ہے مگر دلیل کے طور پر جو حدیث ذیل میں پیش کی ہے اس میں مسجد کا ذکر موجود نہیں ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے موافق حدیث کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جیسا کہ ابن بطال فرماتے ہیں:
«ليس فى حديث الباب أن حسان أنشد شعرا فى المسجد بحضرة النبى - صلى الله عليه وسلم - لكن رواية البخاري فى بدء الخلق من طريق سعيد تدل على أن قوله - صلى الله عليه وسلم - لحسان أجب عني كان فى المسجد» [فتح الباري ج1، ص 721]
اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے مسجد میں شعر پڑھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں لیکن ایک اور روایت جو کہ صحیح بخاری کتاب بدء الخلق میں بطریق سعید سے منقول ہے کہ جس میں یہ واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ حسان جواب دو میری طرف سے اور وہ اس وقت مسجد میں تھے۔

◈ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مراد البخاري الاشارة إلى جواز الشعر المقبول فى المسجد» [عمدة القاري، ج3، ص487]
امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد مسجد میں مقبول شعر کے جواز کی طرف اشارہ ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت فرما رہے ہیں کہ ضرورت کے وقت مسجد میں اچھے شعر پڑھنا جائز ہے۔ کیونکہ بلاوجہ مسجد میں اشعار کہنے کی ممانعت بھی موجود ہے۔

◈ صاحب او جزا المسالک رقمطراز ہیں:
«وقد ورد النهي عنه فى عدة أحاديث كما فى رواية ابي داؤد والترمذي، ولعل الغرض انه جائز عند الضرورة» [الابواب والتراجم لصحيح البخاري، ج2، ص753]
یقیناًً «نهي» پر کئی احادیث وارد ہیں جس کو ابوداؤد اور ترمذی نے روایت فرمایا ہے۔ شاید امام بخاری رحمہ اللہ کی (اس حدیث سے) غرض یہ ہو کہ ضرورت کے وقت اشعار کہنا جائز ہے۔

◈ بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ (المتوفی 733ھ) فرماتے ہیں:
ابوسلمہ کی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ وہ مسجد میں (اشعار پڑھ رہے) تھے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے روایت کیا ہے ایک اور طریق سے جس میں صراحت ہے کہ وہ مسجد میں تھے۔ پس امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ پر اکتفا فرمایا۔۔۔ اور احتمال یہ ہے کہ آپ نے ارادہ کیا ہے کہ اشعار حق پر مشتمل ہوتے ہیں۔ کلام حق کے ساتھ جو حق کی دلیل کے ساتھ ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان رضی اللہ عنہ کو دعا دی ان اشعار پر۔ پس دلالت ہے اس پر کہ اگر (اشعار) حق پر ہیں تو اسے ادا کرنا جائز ہو گا۔ [مناسبات تراجم البخاري۔ ص4846]
پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔

فائدہ:
امام ابن خذیمہ رحمہ اللہ اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے:
«نهيٰ رسول الله صلى الله عليه وسلم عن تناشد اشعار فى المسجد» [صحيح ابن خذيمة رقم الحديث 1304]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں اشعار کہنے کو منع فرمایا ہے۔ [قال شيخ الالباني رحمه الله أسناده حسن] [أخرجه الترمذي رقم الحديث 322] [والبغوي فى شرح السنة 485]
مذکورہ حدیث نے مسجد میں اشعار کہنے سے منع فرمایا ہے اور اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض جہلاء نے بھی مطلق اشعار سے روکا ہے (میرا اشارہ منکرین حدیث کی طرف ہے) لیکن جب غور کیا جاتا ہے تو روکنے کا حکم کسی چیز کے ساتھ مقید ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«فالجمع بينهما وبين حديث الباب أن يحمل النهي على تناشد اشعار الجاهلية و المبطلين .» [فتح الباري، ج1، ص722]
نھی اور اجازت والی حدیث میں تطبیق یہ ہے کہ جو حدیث نھی پر دلالت کرتی ہے اس کا تعلق ان اشعار کے ساتھ ہے جو جہالت اور مبطلین کے ساتھ خاص ہوتی (اور اجازت ان کے لیے ہے جن کے اشعار اسلام کے تائید میں ہوں اور صحیح اشعار ہوں)۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 162   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 717  
´مسجد میں اچھے اشعار پڑھنے کی رخصت کا بیان۔`
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، وہ مسجد میں اشعار پڑھ رہے تھے، تو عمران رضی اللہ عنہ کی طرف گھورنے لگے، تو انہوں نے کہا: میں نے (مسجد میں) شعر پڑھا ہے، اور اس میں ایسی ہستی موجود ہوتی تھی جو آپ سے بہتر تھی، پھر وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے، اور پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (مجھ سے) یہ کہتے نہیں سنا کہ تم میری طرف سے (کافروں کو) جواب دو، اے اللہ! روح القدس کے ذریعہ ان کی تائید فرما!، تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا! ہاں (سنا ہے)۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 717]
717 ۔ اردو حاشیہ: اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تائید و حمایت اور دیگر اسی قسم کی باتوں کے لیے مساجد میں اشعار پڑھنا جائز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 717   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 717  
´مسجد میں اچھے اشعار پڑھنے کی رخصت کا بیان۔`
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، وہ مسجد میں اشعار پڑھ رہے تھے، تو عمران رضی اللہ عنہ کی طرف گھورنے لگے، تو انہوں نے کہا: میں نے (مسجد میں) شعر پڑھا ہے، اور اس میں ایسی ہستی موجود ہوتی تھی جو آپ سے بہتر تھی، پھر وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے، اور پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (مجھ سے) یہ کہتے نہیں سنا کہ تم میری طرف سے (کافروں کو) جواب دو، اے اللہ! روح القدس کے ذریعہ ان کی تائید فرما!، تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا! ہاں (سنا ہے)۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 717]
717 ۔ اردو حاشیہ: اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تائید و حمایت اور دیگر اسی قسم کی باتوں کے لیے مساجد میں اشعار پڑھنا جائز ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 717   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.