الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب 34. باب فَضَائِلِ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: باب: سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی فضیلت۔
سفیان بن عیینہ نے زہری سے، انھوں نے سعید (بن مسیب) سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے اور وہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے (معلوم ہوا کہ اشعار جو اسلام کی تعریف اور کافروں کی برائی یا جہاد کی ترغیب میں ہو مسجد میں پڑھنا درست ہے)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف (غصہ سے) دیکھا۔ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تو مسجد میں (اس وقت بھی) شعر پڑھتا تھا جب تم سے بہتر شخص (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) موجود تھے۔ پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اے حسان! میری طرف سے جواب دے، اے اللہ اس کی روح القدس (جبرائیل علیہ السلام) سے مدد کر۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں میں نے سنا ہے یا اللہ تو جانتا ہے۔
معمر نے زہری سے، انھوں نے ابن مسیب سے روایت کی کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے ایک حلقے میں کہا جس میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ موجود تھے: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ!میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا؟اس کے بعد اس کے مانند یوں بیان کیا۔
زہری نے کہا: مجھے ابو سلمہ بن عبدالرحمان نے بتایا کہ انھوں نے حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے گواہی طلب کررہے تھے، (کہہ رہے تھے:) میں تمھارے سامنے اللہ کا نام لیتا ہوں! کیاتم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناتھا۔"حسان!اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جواب دو۔اےاللہ!روح القدس کے ذریعے سے اس کی تائید فرما!"؟ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں۔
معاذ نے کہا: ہمیں شعبہ نے عدی بن ثابت سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت براء بن عاذب رضی اللہ عنہ سے سنا، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے یہ فرماتے ہوئے سنا: "ان (کافروں) کی ہجو کرو، یا (فرمایا:) ہجو میں ان کا مقابلہ کرو جبرائیل تمھارے ساتھ ہیں۔"
محمد بن جعفر غندر اور عبدا الرحمان (بن مہدی) دونوں نے شعبہ سے اسی سندک سا تھ اسی کے مانند روایت کی۔
ابو اسامہ نے ہشام (بن عروہ) سے، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق بہت کچھ کہا تھا (تہمت لگانے والوں کے ساتھ شامل ہوگئے تھے)، میں نے ان کو برا بھلا کہا توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: بھتیجے!ان کو کچھ نہ کہو، کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کافروں کو جواب دیتے تھے۔
عبدہ نے ہشام سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی۔
محمد بن جعفر نے شعبہ سے، انھوں نے سلیمان سے، انھوں نے ابو ضحیٰ سے، انھوں نے مسروق سے روایت کی کہا: کہ میں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا تو ان کے پاس سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بیٹھے اپنی غزل میں سے ایک شعر سنا رہے تھے جو چند بیتوں کی انہوں نے کہی تھی۔ وہ شعر یہ ہے کہ: ”پاک ہیں اور عقل والی ان پہ کچھ تہمت نہیں۔ صبح کو اٹھتی ہیں بھوکی غافلوں کے گوشت سے“ (یعنی کسی کی غیبت نہیں کرتیں کیونکہ غیبت کرنا گویا اس کا گوشت کھانا ہے)۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا حسان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ لیکن تو ایسا نہیں ہے (یعنی تو لوگوں کی غیبت کرتا ہے)۔ مسروق نے کہا کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ حسان رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس کیوں آنے دیتی ہو حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی شان میں فرمایا ہے کہ ”وہ شخص جس نے ان میں سے بڑی بات (یعنی ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے) کا بیڑا اٹھایا اس کے واسطے بڑا عذاب ہے۔ (حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں شریک تھے جنہوں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حد لگائی) ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اس سے زیادہ عذاب کیا ہو گا کہ وہ نابینا ہو گیا ہے اور کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کافروں کی جوابدہی کرتا تھا یا ہجو کرتا تھا۔ (اس لئے اس کو اپنے پاس آنے کی اجازت دیتی ہوں)۔
ابن ابی عدی نے شعبہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اورکہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مدافعت کرتے تھے، انھوں نے (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مدح والاحصہ) "وہ پاکیزہ ہیں، عقل مند ہیں"بیان نہیں کیا۔
یحییٰ بن زکریا نے ہمیں ہشام بن عروہ سے خبر دی، انھوں نے اپنے والد سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے ابو سفیان (مغیرہ بن حارث بن عبدالمطلب) کی ہجو کرنے کی اجازت دیجئے، آپ نے فرمایا: "اس کے ساتھ میری جو قرابت ہے اس کا کیا ہوگا؟"حضرت حسان رضی اللہ عنہ نےکہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو عزت عطا فرمائی!میں آپ کو ان میں سے اس طرح باہرنکال لوں گا جس طرح خمیر سے بال کو نکال لیا جاتاہے، پھر حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے یہ قصیدہ کہا: اور آل ہاشم میں سے عظمت ومجد کی چوٹی پر وہ ہیں جو بنت مخزوم (فاطمہ بنت عمرو بن عابد بن عمران بن مخزوم) کی اولاد ہیں (ابو طالب، عبداللہ اور زبیر) اورتیرا باپ تو غلام (کنیز کا بیٹا) تھا۔
عبدہ نے ہشام بن عروہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کی ہجو کرنے کی اجازت مانگی۔اور (عبدہ نے) ابو سفیان کا ذکر نہیں کیا اور۔۔۔خمیر کے بجائے۔گندھا ہوا آٹا کہا۔
ابو سلمہ بن عبدالرحمان نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"قریش کی ہجو کرو کیونکہ ہجو ان کو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ ناگوار ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو سیدنا ابن رواحہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور فرمایا کہ قریش کی ہجو کرو۔ انہوں نے ہجو کی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ آئی۔ پھر سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ پھر سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ جب سیدنا حسان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ تم پر وہ وقت آ گیا کہ تم نے اس شیر کو بلا بھیجا جو اپنی دم سے مارتا ہے (یعنی اپنی زبان سے لوگوں کو قتل کرتا ہے گویا میدان فصاحت اور شعر گوئی کے شیر ہیں)۔ پھر اپنی زبان باہر نکالی اور اس کو ہلانے لگے اور عرض کیا کہ قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے میں کافروں کو اپنی زبان سے اس طرح پھاڑ ڈالوں گا جیسے چمڑے کو پھاڑ ڈالتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے حسان! جلدی مت کر! کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ قریش کے نسب کو بخوبی جانتے ہیں اور میرا بھی نسب قریش ہی ہیں، تو وہ میرا نسب تجھے علیحدہ کر دیں گے۔ پھر حسان سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، پھر اس کے بعد لوٹے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب مجھ سے بیان کر دیا ہے، قسم اس کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش میں سے ایسا نکال لوں گا جیسے بال آٹے میں سے نکال لیا جاتا ہے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسان سے فرماتے تھے کہ روح القدس ہمیشہ تیری مدد کرتے رہیں گے جب تک تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جواب دیتا رہے گا۔ اور ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ حسان نے قریش کی ہجو کی تو مومنوں کے دلوں کو شفاء دی اور کافروں کی عزتوں کو تباہ کر دیا۔ حسان نے کہا کہ تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی برائی کی تو میں نے اس کا جواب دیا اور اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ دے گا۔ تو نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی برائی کی جو نیک اور پرہیزگار ہیں، اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور وفاداری ان کی خصلت ہے۔ میرے باپ دادا اور میری آبرو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو بچانے کے لئے قربان ہیں۔ اگر کداء (مکہ کے دروازہ پر گھاٹی) کے دونوں جانب سے غبار اڑتا ہو نہ دیکھو تو میں اپنی جان کو کھوؤں۔ ایسی اونٹنیاں جو باگوں پر زور کریں گی اور اپنی قوت اور طاقت سے اوپر چڑھتی ہوئیں، ان کے کندھوں پر وہ برچھے ہیں جو باریک ہیں یا خون کی پیاسی ہیں اور ہمارے گھوڑے دوڑتے ہوئے آئیں گے، ان کے منہ عورتیں اپنے دوپٹوں سے پونچھتی ہیں۔ اگر تم ہم سے نہ بولو تو ہم عمرہ کر لیں گے اور فتح ہو جائے گی اور پردہ اٹھ جائے گا۔ نہیں تو اس دن کی مار کے لئے صبر کرو جس دن اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا عزت دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ایک لشکر تیار کیا ہے جو انصار کا لشکر ہے، جس کا کھیل کافروں سے مقابلہ کرنا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ایک بندہ بھیجا جو سچ کہتا ہے اس کی بات میں کچھ شبہہ نہیں ہے۔ ہم تو ہر روز ایک نہ ایک تیاری میں ہیں، گالی گلوچ ہے کافروں سے یا لڑائی ہے یا کافروں کی ہجو ہے۔ تم میں سے جو کوئی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کرے اور ان کی تعریف کرے یا مدد کرے وہ سب برابر ہیں۔ اور (روح القدس) جبریل علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے ہم میں بھیجاگیا ہے اور روح القدس کا (کائنات میں) کوئی مد مقابل نہیں۔
|