الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں
The Book of Tricks
3. بَابٌ في الزَّكَاةِ وَأَنْ لاَ يُفَرَّقَ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، وَلاَ يُجْمَعَ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ:
3. باب: زکوٰۃ میں حیلہ کرنے کا بیان۔ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) زکوٰۃ کے ڈر سے جو مال اکٹھا ہو اسے جدا جدا نہ کریں اور جو جدا جدا ہو اسے اکٹھا نہ کریں۔
(3) Chapter. (Tricks) in Zakat and (the order that) one should neither divide property into various portions nor collected various portions together in order to avoid Zakat.
حدیث نمبر: 6958
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا ما رب النعم لم يعط حقها، تسلط عليه يوم القيامة، فتخبط وجهه باخفافها"، وقال بعض الناس: في رجل له إبل، فخاف ان تجب عليه الصدقة، فباعها بإبل مثلها، او بغنم، او ببقر، او بدراهم، فرارا من الصدقة بيوم احتيالا، فلا باس عليه، وهو يقول: إن زكى إبله قبل ان يحول الحول بيوم او بستة، جازت عنه.(مرفوع) وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا مَا رَبُّ النَّعَمِ لَمْ يُعْطِ حَقَّهَا، تُسَلَّطُ عَلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَتَخْبِطُ وَجْهَهُ بِأَخْفَافِهَا"، وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: فِي رَجُلٍ لَهُ إِبِلٌ، فَخَافَ أَنْ تَجِبَ عَلَيْهِ الصَّدَقَةُ، فَبَاعَهَا بِإِبِلٍ مِثْلِهَا، أَوْ بِغَنَمٍ، أَوْ بِبَقَرٍ، أَوْ بِدَرَاهِمَ، فِرَارًا مِنَ الصَّدَقَةِ بِيَوْمٍ احْتِيَالًا، فَلَا بَأْسَ عَلَيْهِ، وَهُوَ يَقُولُ: إِنْ زَكَّى إِبِلَهُ قَبْلَ أَنْ يَحُولَ الْحَوْلُ بِيَوْمٍ أَوْ بِسِتَّةٍ، جَازَتْ عَنْهُ.
‏‏‏‏ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانوروں کے مالک جنہوں نے ان کا شرعی حق ادا نہیں کیا ہو گا قیامت کے دن ان پر وہ جانور غالب کر دئیے جائیں گے اور وہ اپنی کھروں سے اس کے چہرے کو نوچیں گے۔ اور بعض لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ اگر ایک شخص کے پاس اونٹ ہیں اور اسے خطرہ ہے کہ زکوٰۃ اس پر واجب ہو جائے گی اور اس لیے وہ کسی دن زکوٰۃ سے بچنے کے لیے حیلہ کے طور پر اسی جیسے اونٹ یا بکری یا گائے یا دراہم کے بدلے میں بیچ دے تو اس پر کوئی زکوٰۃ نہیں اور پھر اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر وہ اپنے اونٹ کی زکوٰۃ سال پورے ہونے سے ایک دن یا ایک سال پہلے دیدے تو زکوٰۃ ادا ہو جاتی ہے۔

Allah's Apostle added, "If the owner of camels does not pay their Zakat, then, on the Day of Resurrection those camels will come to him and will strike his face with their hooves." Some people said: Concerning a man who has camels, and is afraid that Zakat will be due so he sells those camels for similar camels or for sheep or cows or money one day before Zakat becomes due in order to avoid payment of their Zakat cunningly! "He has not to pay anything." The same scholar said, "If one pays Zakat of his camels one day or one year prior to the end of the year (by the end of which Zakat becomes due), his Zakat will be valid."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9 , Book 86 , Number 89



تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6958  
6958. رسول اللہ ﷺ نے مزید فرمایا: جب حیوانات کا مالک ان کا شرعی حق ادا نہیں کرے گا تو قیامت کے دن وہ جانور اس پر مسلط کر دیے جائیں گے اور وہ اپنے گھروں سے اس کے چہرے کو نوچیں گے۔ بعض لوگوں نے ایسے شخص کے متعلق کہا ہے کہ جس کے پاس اونٹ ہیں اور اسے اندیشہ ہے کہ اس پرزکاۃ واجب ہو جائے گی تو اگر اس نے اونٹوں کو ان کی مثل دوسرے اونٹوں کے عوض یا بکریوں کے عوض یا گایوں کے عوض یا دراہم کے عوض سال پورا ہونے سے ایک دن قبل زکاۃ سے بچنے کے لیے فروخت کر دیا تو اس پر کوئی زکاۃ نہیں، حالانکہ یہی لوگ کہتے ہیں کہ اگر سال گزرنے سے ایک دن یا چھ دن پہلے زکاۃ ادا کر دی جائے تو جائز ہے، یعنی اس سے زکاۃ ادا ہو جائے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6958]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کو امام بخاری اس لیے لائے کہ زکوٰہ نہ دینے والے کی سزا اس میں مذکور ہے اور یہ عام ہے اس کو بھی شامل ہے جو کوئی حیلہ نکال کر زکوٰۃ اپنے اوپر سے ساقط کر دے۔
حضرت امام بخاری کا مطلب بعض لوگوں کا تناقض ثابت کرنا ہے کہ آپ ہی تو زکوٰۃ کا دینا سال گزرنے سے پہلے درست جانتے ہیں اس سے یہ نکلتا ہے کہ زکوٰہ کا وجوب سال گزرنے سے پہلے ہی ہو جاتا ہے گو وجوب ادا سال گزرنے پر ہوتا ہے جب سال سے پہلے ہی زکوٰۃ کا وجوب ہوگیا تو اب مالک کا بدل ڈالنا اس کے لیے کیوں کر زکوٰۃ کو ساقط کر دے گا۔
اہل حدیث کا یہ قول ہے کہ ان سب صورتوں میں اس کے ذمہ سے زکوٰۃ ساقط نہ ہوگی اور ایسے حیلے بہانے کرنے کو اہل حدیث قطعاً حرام کہتے ہیں۔
مااہل حدیثیم و غارانہ شناسیم صد شکر کہ در مذہب ماحیلہ و فن نیست
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6958   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6958  
6958. رسول اللہ ﷺ نے مزید فرمایا: جب حیوانات کا مالک ان کا شرعی حق ادا نہیں کرے گا تو قیامت کے دن وہ جانور اس پر مسلط کر دیے جائیں گے اور وہ اپنے گھروں سے اس کے چہرے کو نوچیں گے۔ بعض لوگوں نے ایسے شخص کے متعلق کہا ہے کہ جس کے پاس اونٹ ہیں اور اسے اندیشہ ہے کہ اس پرزکاۃ واجب ہو جائے گی تو اگر اس نے اونٹوں کو ان کی مثل دوسرے اونٹوں کے عوض یا بکریوں کے عوض یا گایوں کے عوض یا دراہم کے عوض سال پورا ہونے سے ایک دن قبل زکاۃ سے بچنے کے لیے فروخت کر دیا تو اس پر کوئی زکاۃ نہیں، حالانکہ یہی لوگ کہتے ہیں کہ اگر سال گزرنے سے ایک دن یا چھ دن پہلے زکاۃ ادا کر دی جائے تو جائز ہے، یعنی اس سے زکاۃ ادا ہو جائے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6958]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں زکاۃ نہ دینے کی سزا بیان کی گئی ہے۔
یہ سزا اس شخص کے لیے بھی ہے جو کوئی حیلہ نکال کر زکاۃ کو اپنے ذمے سے ساقط کر دے۔
امام محمد رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
اگر کوئی شخص حرام سے بچنے یا حلال تک پہنچنے کے لیے حیلہ کرتا ہے تو ایسا حیلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر کسی کا حق باطل کرنے کے لیے یا کسی باطل کو ثابت کرنے کے لیے حیلہ کرتا ہے تو ایسا کرنا مکروہ ہے اور ان کے نزدیک مکروہ حرام کے قریب ہے۔
(فتح الباري: 415/12)
اس کے باوجود یہ حضرات زکاۃ سے بچنے کے لیے لوگوں کو مختلف حیلوں کی تلقین کرتے ہیں۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان حضرات کے اقوال میں تناقض ثابت کیا ہے کہ ایک طرف تو یہ حضرات سال گزرنے سے پہلے زکاۃ ادا کرنے کے جواز کے قائل ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زکاۃ کے وجوب کے لیے سال کا پوراہونا ضروری نہیں، پھر سال پورا ہونے سے پہلے حیلہ اسقاط زکاۃ کے جواز سے معلوم ہوتا ہے کہ زکاۃ کے لیے سال کا پورا ہونا لازمی ہے پھر ان حضرات کی طرف سے جواب دیا جاتا ہے کہ اگر کسی نے سال کے بعد قرض واپس کرنا ہے تو وہ سال گزرنے سے پہلے قرض ادا کر دے تو فرض ادا ہو جاتا ہے۔
اسی طرح زکاۃ بھی سال سے پہلے ادا کی جا سکتی ہے لیکن یہ قیاس صحیح نہیں کیونکہ قرض لینے والا اگر معاف کر دے تو ایسا ممکن ہے لیکن زکاۃ لینے والے کو زکاۃ معاف کر دینے کا اختیار نہیں ہے۔
بہرحال حیلوں بہانوں سے زکاۃ ساقط نہیں ہوگی۔
اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو قیامت کےدن اس سے باز پرس ہوگی۔
ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے وہ سزا بھی دے جو حدیث میں بیان کی گئی ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6958   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.