الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں
The Book of Tricks
4. بَابُ الْحِيلَةِ فِي النِّكَاحِ:
4. باب: نکاح میں حیلہ کرنے کا بیان۔
(4) Chapter. Tricks in marriages.
حدیث نمبر: 6960
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله، قال: حدثني نافع، عن عبد الله رضي الله عنه" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الشغار"، قلت لنافع: ما الشغار؟، قال: ينكح ابنة الرجل وينكحه ابنته بغير صداق، وينكح اخت الرجل وينكحه اخته بغير صداق، وقال بعض الناس: إن احتال حتى تزوج على الشغار فهو جائز، والشرط باطل، وقال في المتعة: النكاح فاسد والشرط باطل، وقال بعضهم: المتعة والشغار جائز، والشرط باطل.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الشِّغَارِ"، قُلْتُ لِنَافِعٍ: مَا الشِّغَارُ؟، قَالَ: يَنْكِحُ ابْنَةَ الرَّجُلِ وَيُنْكِحُهُ ابْنَتَهُ بِغَيْرِ صَدَاقٍ، وَيَنْكِحُ أُخْتَ الرَّجُلِ وَيُنْكِحُهُ أُخْتَهُ بِغَيْرِ صَدَاقٍ، وَقَالَ بَعْضُ النَّاسِ: إِنِ احْتَالَ حَتَّى تَزَوَّجَ عَلَى الشِّغَارِ فَهُوَ جَائِزٌ، وَالشَّرْطُ بَاطِلٌ، وَقَالَ فِي الْمُتْعَةِ: النِّكَاحُ فَاسِدٌ وَالشَّرْطُ بَاطِلٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: الْمُتْعَةُ وَالشِّغَارُ جَائِزٌ، وَالشَّرْطُ بَاطِلٌ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا، اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع فرمایا۔ میں نے نافع سے پوچھا شغار کیا ہے؟ انہوں نے کہا یہ کہ کوئی شخص بغیر مہر کسی کی لڑکی سے نکاح کرتا ہے یا اس سے بغیر مہر کے اپنی لڑکی کا نکاح کرتا ہے پس اس کے سوا کوئی مہر مقرر نہ ہو اور بعض لوگوں نے کہا اگر کسی نے حیلہ کر کے نکاح شغار کر لیا تو نکاح کا عقد درست ہو گا اور شرط لغو ہو گی (اور ہر ایک کو مہر مثل عورت کا ادا کرنا ہو گا) اور ہاں بعض لوگوں نے متعہ میں کہا ہے کہ وہاں نکاح بھی فاسد ہے اور شرط بھی باطل ہے اور بعض حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ متعہ اور شغار دونوں جائز ہوں گے اور شرط باطل ہو گی۔

Narrated 'Abdullah: Nafi narrated to me that 'Abdullah said that Allah's Apostle forbade the Shighar. I asked Nafi', "What is the Shighar?" He said, "It is to marry the daughter of a man and marry one's daughter to that man (at the same time) without Mahr (in both cases); or to marry the sister of a man and marry one's own sister to that man without Mahr." Some people said, "If one, by a trick, marries on the basis of Shighar, the marriage is valid but its condition is illegal." The same scholar said regarding Al-Mut'a, "The marriage is invalid and its condition is illegal." Some others said, "The Mut'a and the Shighar are permissible but the condition is illegal."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 86, Number 90


   صحيح البخاري5112عبد الله بن عمرالشغار الشغار أن يزوج الرجل ابنته على أن يزوجه الآخر ابنته ليس بينهما صداق
   صحيح البخاري6960عبد الله بن عمرالشغار
   صحيح مسلم3468عبد الله بن عمرلا شغار في الإسلام
   صحيح مسلم3465عبد الله بن عمرنهى عن الشغار والشغار أن يزوج الرجل ابنته على أن يزوجه ابنته وليس بينهما صداق
   صحيح مسلم3467عبد الله بن عمرالشغار
   جامع الترمذي1124عبد الله بن عمرالشغار
   سنن أبي داود2074عبد الله بن عمرالشغار
   سنن النسائى الصغرى3336عبد الله بن عمرالشغار
   سنن النسائى الصغرى3339عبد الله بن عمرالشغار
   سنن ابن ماجه1883عبد الله بن عمرنهى رسول الله عن الشغار والشغار أن يقول الرجل للرجل زوجني ابنتك أو أختك على أن أزوجك ابنتي أو أختي وليس بينهما صداق
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم355عبد الله بن عمرنهى عن الشغار. والشغار ان يزوج الرجل ابنته الرجل على ان يزوجه الرجل الآخر ابنته، ليس بينهما صداق
   بلوغ المرام840عبد الله بن عمرنهى رسول الله عن الشغار،‏‏‏‏ والشغار ان يزوج الرجل ابنته على ان يزوجه الآخر ابنته

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 355  
´وٹے سٹے (شغار) کی شادی منع ہے`
«. . . 230- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الشغار. والشغار أن يزوج الرجل ابنته الرجل على أن يزوجه الرجل الآخر ابنته، ليس بينهما صداق. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار (وٹے سٹے کے نکاح) سے منع فرمایا ہے۔ (نافع نے کہا:) اور شغار اسے کہتے ہیں کہ آدمی اپنی بچی کا نکاح دوسرے آدمی سے اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بچی کا نکاح اس سے کرے گا (اور) دونوں کے درمیان حق مہر نہیں ہو گا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 355]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 5112، ومسلم 1415/57، من حديث مالك به]
تفقه
➊ شغار (ادلا بدلا کی شادی، بٹے کی شادی) جائز نہیں ہے۔ حافظ ابن عبدالبر نے فرمایا: «وأجمع العلماء علٰي أن نكاح الشغار مكروه لا يجوز واختلفوا فيه إذا وقع هل يصح بمهر المثل أم لا؟» علماء کا اجماع ہے کہ شغار مکروہ ہے جائز نہیں ہے اور انہوں نے اس میں اختلاف کیا کہ اگر یہ نکاح کردیا جائے تو کیا مہرِ مثل سے صحیح ہے یا نہیں؟ [التمهيد 14/72]
➋ عبد الرحمن بن ہرمز الاعرج رحمہ الله سے روایت ہے کہ عباس بن عبد اللہ بن عباس نے اپنی بیٹی کا نکاح عبد الرحمن بن حکم سے کیا اور عبد الرحمن نے اپنی بیٹی کا نکاح ان سے کیا۔ [و قد كانا جعلاه صداقاً] اور دونوں نے اس (نکاح) کو (ہی) حق مہر قرار دیا تو خلیفہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے مروان (بن الحکم الاموی) کی طرف لکھ کر بھیجا کہ ان دونوں کے درمیان جدائی ڈال دو۔ انہوں نے اس خط میں بھی لکھا تھا کہ یہ شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ [صحيح ابن حبان، الاحسان: 4141 يا 4153 وسنده حسن، مسند ابي يعلي: 7370 و سنده حسن]
➌ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع کیا ہے۔ ابن نمیر (راوی) نے یہ اضافہ روایت کیا ہے: اور شغار یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی سے کہے: تم اپنی بیٹی کا نکاح میرے ساتھ کرو اور میں اپنی بیٹی کا نکاح تمھارے ساتھ کرتا ہوں یا اپنی بہن کا نکاح میرے ساتھ کرو اور میں اپنی بہن کا نکاح تمھارے ساتھ کرتا ہوں۔ [صحيح مسلم: 1416، دارالسلام: 3469]
➍ بعض علماء کہتے ہیں کہ مطلقا نکاح شغار ممنوع ہے چاہے اس میں حق مہر ہو یا نہ ہو۔ یہ قول مرجوح ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 230   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1883  
´نکاح شغار کی ممانعت۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شغار سے منع فرمایا ہے۔ اور شغار یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی سے کہے: آپ اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح مجھ سے اس شرط پر کر دیں کہ میں اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح تجھ سے کر دوں گا، اور ان دونوں کے درمیان کوئی مہر نہ ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1883]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نکاح شغار یا متبادل شادیوں سے مراد وہی صورت ہے جو پنجاب میں وٹہ سٹہ کے نام سے معروف ہے۔
اس کی تفسیر روایت میں ذکر ہو چکی ہے۔

(2)
نکاح شغار میں یہ خرابی ہے کہ اگر ایک طرف میاں بیوی میں ناچاقی ہوئی ہے تو دوسری طرف اس کا بدلہ چکانے کی کوشش کی جاتی ہے حتیٰ کہ دونوں میں سے اگر ایک مرد کسی وجہ سے اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو دوسرا بھی اپنی بے قصور بیوی کو طلاق دے دیتا ہے۔

(3)
جاہلیت میں نکاح شغار میں حق مہر کا تعین نہیں کیا جاتا تھا۔
نہ مہر مثل ہی ادا کیا جاتا تھا۔
گویا عورت کا عورت سے تبادلہ ہوتا تھا۔
آج کل اگرچہ حق مہر مقرر کرتے ہیں لیکن پھر بھی وہ خرابی بددستور رہتی ہے کہ ایک مرد کی زیادتی کا بدلہ اس کی بیٹی پر زیادتی کر کے اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس لیے اس صورت سے بھی اجتناب ہی کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1883   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2074  
´نکاح شغار کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح شغار سے منع فرمایا۔ مسدد نے اپنی حدیث میں اتنا اضافہ کیا ہے: میں نے نافع سے پوچھا: شغار ۱؎ کیا ہے؟ انہوں نے کہا آدمی کسی کی بیٹی سے نکاح (بغیر مہر کے) کرے، اور اپنی بیٹی کا نکاح اس سے بغیر مہر کے کر دے اسی طرح کسی کی بہن سے (بغیر مہر کے) نکاح کرے اور اپنی بہن کا نکاح اس سے بغیر مہر کے کر دے ۲؎۔ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2074]
فوائد ومسائل:
دورجاہلیت میں یہ نکاح شغار کے نام سے رائج تھا، اس صورت یہ تھی کہ ایک شخص اپنی بہن، بیٹی کی اس شرط پر دوسرے شخص سے شادی کرتا کہ وہ شخص بھی اپنی بہن یا بیٹی کی اس شخص سے شادی کرے اور ایک کا مہر دوسرے کا نکاح ہوتا،علیحدہ سے مہر ادا نہ کیا جاتا۔
گویا یہ نکاح ایسا تھا کہ جیسا کہ آج کل بٹے یا ادلے بدلے (بٹاسٹا) کے طور پر بعض جگہ نکاح کیے جاتے ہیں ایسا نکاح جس میں مہر نہ ہو تو یہ بالکل ناجائز اور حرام ہے اگر ہر لڑکی کا حق مہر الگ سے مقرر کیا گیا ہو تو نکاح کے صحیح ہونے میں کوئی شبہ نہیں مگر بدلے کی یہ شرط اور اس طرح کے نکاح بالعموم خاندانوں میں فساد کا ذریعہ بنتے ہیں اس لیے کچھ علما متشدد ہیں اور کہتے ہیں کہ خواہ حق مہر بھی کر لیا گیا ہو تو ناجائز ہے مگر یہ فتوی محل نظر ہے۔
درج ذیل حدیث کے واقعہ میں آرہا ہے کہ عباس بن عبداللہ بن عباس اورعبدالرحمن بن حکم نے اس قسم کا نکاح (شغار) کیا اور اس نکاح ہی کو حق مہر قرار دیا تو حضرت معاویہ رضی اللہ نے ان میں تفریق کروا دی۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2074   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6960  
6960. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شغار سے منع فرمایا ہے، (راوی حدیث عبید اللہ نے کہا) میں نے حضرت نافع سے شغار کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا: کوئی آدمی دوسرے کی بیٹی سے نکاح کرتا ہے اور وہ اس کے نکاح میں اپنی بیٹی دیتا ہے، اس (تبادلے) کے علاوہ اور کوئی حق مہر نہیں ہوتا۔ اور مہر کے بغیر کسی آدمی کی بہن سے نکاح کرے اور وہ اس کو اپنی بہن کا نکاح حق مہر کے بغیر کر دے۔ بعض لوگوں نے کہا: اگر کسی نے حیلہ کر کے نکاح شغار کر لیا تو عقد نکاح درست البتہ شرط باطل ہے۔ پھر نکاح متعہ کے متعلق کہا کہ یہ نکاح بھی فاسد ہے اور شرط بھی باطل ہے بعض حضرات کا خیال ہے کہ نکاح متعہ اور نکاح شغار دونوں جائز ہیں البتہ شرط باطل ہوگی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6960]
حدیث حاشیہ:

کسی کے ساتھ اپنی بہن یا بیٹی کا نکاح اس شرط پر کرنا کہ وہ اپنی بیٹی یا بہن کا نکاح اس سے کر دے، نکاح شغار کہلاتا ہے، چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث میں شغار کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:
ایک آدمی دوسرے سے کہے کہ تو اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کر دے میں اپنی بیٹی کی شادی تجھ سے کر دیتا ہوں یا کہے کہ تو اپنی بہن کی شادی مجھ سے کر دے، میں اپنی بہن کی شادی تجھ سے کر دیتا ہوں۔
(مسند أحمد: 439/2)
شریعت میں ایسا نکاح کرنا حرام ہے بلکہ اسلام اس قسم کے نکاح کو تسلیم نہیں کرتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
نکاح شغار اسلام میں نہیں ہے۔
(صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3465(1415)
لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نکاح شغار اپنے اصل کے اعتبار سے مشروع ہے لیکن ایک خاص وصف کی بنا پر فاسد ہے کیونکہ اس میں حق مہر نہیں ہوتا، لہذا مہرمثل واجب قرار دے کر اسے بحال رکھا جا سکتا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے لوگوں پر تین اعتراض کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
اس طرح کے نکاح کو حیلے کے ذریعے سے جائز قرار دینا صحیح احادیث کے خلاف ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے نکاح سے منع فرمایا ہے اور آپ کی نہی منع کردہ چیز کے فساد کا تقاضا کرتی ہے بلکہ اسلام نے تو اس کے وجود سے انکار کیا ہے۔
۔
ان حضرات کے اقوال میں تناقض ہے۔
اسلام میں جس طرح شغار منع ہے، اسی طرح متعہ بھی ممنوع ہے، لہذا ان دونوں کا حکم بھی ایک ہونا چاہیے لیکن یہ لوگ حیلے سے شغار کو جائز قراردیتے ہیں لیکن متعے کو حیلے سے جائز قرار نہیں دیتے، یہ واضح تضاد ہے۔
۔
خود ان حضرات کے اقوال میں تضاد پایا جاتا ہے۔
اکثر کے نزدیک نکاح شغار جائز اور متعہ ناجائز ہے لیکن ان میں سے بعض کے نزدیک شغار اور متعہ دونوں ہی جائز ہیں، البتہ شرط باطل ہے۔

ہمارے رجحان کے مطابق متعے اور شغار کی ممانعت یکساں طور پر احادیث سے ثابت ہے بلکہ نکاح متعہ تو بعض حالات میں حلال تھا مگر شغار کبھی حلال نہیں ہوا۔
اب متعہ بھی قیامت تک کے لیے حرام ہے۔

نکاح شغار کی ممانعت مہر کے نہ ہونے کی بنا پر نہیں کہ مہر مثل سے اسے برقرار رکھا جاسکے گا بلکہ باہمی شرط لگانے اور تبادلے کی وجہ سے حرام ہے۔
اس میں معاشرتی خرابی یہ ہے کہ اگر ایک آدمی دوسرے کی بیٹی چھوڑدیتا ہے تو دوسرا بھی اس کی بیٹی کوچھوڑ دے گا۔
اس میں اگرحق مہر رکھ بھی دیا جائے تب بھی حرام ہے جیسا کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبداللہ بن عباس نے عبدالرحمان بن حکم سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا اور عبدالرحمان نے اپنی بیٹی کا نکاح عباس سے کردیا، ان دونوں نے حق مہر بھی مقرر کیا تھا۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب اس کی خبر ہوئی تو انھوں نے مروان بن الحکم کی طرف ایک مکتوب کے ذریعے سے ان دونوں کے درمیان جدائی کاحکم بھیج دیا۔
اس مکتوب میں یہ بھی تھا کہ یہی وہ نکاح شغار ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔
(سنن أبي داود، النکاح، حدیث 2075)
اس نکاح میں حق مہر بھی ادا کردیا گیا تھا اس کے باوجود حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے ختم کردیا،لہذا اس قسم کے نکاح کو کسی حیلے کے ذریعے دے جائز قراردینا شریعت کے ضابطے کو اپنے ہاتھ میں لینے کے مترادف ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بروقت اس قسم کے حیلوں سے آگاہ کرکے امت کو خبردار کیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو وہ ان میں گرفتار ہوجائے۔
واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان حضرات پر کوئی الزام نہیں لگایا بلکہ امر واقعی یہ ہے کہ ان حضرات کے نزدیک نکاح شغار اور نکاھ موقت جائز ہے،چنانچہ شرح وقایہ میں ہے:
"بیع توفاسد شرطوں سے باطل ہوجاتی ہے لیکن نکاح میں فاسد شرائط مؤثر نہیں ہوتیں،لہذا شغار اور نکاح موقت دونوں جائز ہیں۔
"(شرح وقایة، کتاب النکاح)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6960   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.