الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
توبہ کا بیان
8. باب قَبُولِ تَوْبَةِ الْقَاتِلِ وَإِنْ كَثُرَ قَتْلُهُ:
8. باب: قاتل کی توبہ کا قبول ہونا خواہ اس نے زیادہ قتل کیے ہوں۔
حدیث نمبر: 7009
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني عبيد الله بن معاذ العنبري ، حدثنا ابي ، حدثنا شعبة ، عن قتادة ، انه سمع ابا الصديق الناجي ، عن ابي سعيد الخدري ، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " ان رجلا قتل تسعة وتسعين نفسا، فجعل يسال هل له من توبة؟، فاتى راهبا فساله، فقال: ليست لك توبة، فقتل الراهب، ثم جعل يسال ثم خرج من قرية إلى قرية فيها قوم صالحون، فلما كان في بعض الطريق ادركه الموت، فناى بصدره ثم مات، فاختصمت فيه ملائكة الرحمة وملائكة العذاب، فكان إلى القرية الصالحة اقرب منها بشبر، فجعل من اهلها "،حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا الصِّدِّيقِ النَّاجِيَّ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّ رَجُلًا قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا، فَجَعَلَ يَسْأَلُ هَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ؟، فَأَتَى رَاهِبًا فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: لَيْسَتْ لَكَ تَوْبَةٌ، فَقَتَلَ الرَّاهِبَ، ثُمَّ جَعَلَ يَسْأَلُ ثُمَّ خَرَجَ مِنْ قَرْيَةٍ إِلَى قَرْيَةٍ فِيهَا قَوْمٌ صَالِحُونَ، فَلَمَّا كَانَ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ، فَنَأَى بِصَدْرِهِ ثُمَّ مَاتَ، فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِكَةُ الْعَذَابِ، فَكَانَ إِلَى الْقَرْيَةِ الصَّالِحَةِ أَقْرَبَ مِنْهَا بِشِبْرٍ، فَجُعِلَ مِنْ أَهْلِهَا "،
معاذ بن عنبری نے کہا: ہمیں شعبہ نے قتادہ سے حدیث سنائی، انہوں نے ابو صدیق ناجی سے سنا، انہوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی: "ایک شخص نے ننانوے انسان قتل کیے، پھر اس نے یہ پوچھنا شروع کر دیا: کیا اس کی توبہ (کی کوئی سبیل) ہو سکتی ہے؟ وہ ایک راہب کے پاس آیا، اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا: تیرے لیے کوئی توبہ نہیں۔ اس نے اس راہب کو (بھی) قتل کر دیا۔ اس کے بعد اس نے پھر سے (توبہ کے متعلق) پوچھنا شروع کر دیا، پھر ایک بستی سے (دوسری) بستی کی طرف نکل پڑا جس میں نیک لوگ رہتے تھے۔ وہ راستے کے کسی حصے میں تھا کہ اسے موت نے آن لیا، وہ (اس وقت) اپنے سینے کے ذریعے سے (پچھلی گناہوں بھری بستی سے) دور ہوا، پھر مر گیا۔ تو اس کے بارے میں رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں نے آپس میں جھگڑا کیا۔ تو وہ شخص ایک بالشت برابر نیک بستی کی طرف قریب تھا، اسے اس بستی کے لوگوں میں سے (شمار) کر لیا گیا۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتےہیں ایک آدمی نے ننانوے آدمی قتل کر ڈالے پھر پوچھنے لگا، کیا اس کی توبہ کی کوئی گنجائش ہے؟ چنانچہ وہ ایک راہب کے پاس آیا اور اس سے پوچھا اس نے جواب دیا۔ تیرے لیے توبہ کا امکان نہیں ہے تو اس نے راہب کو بھی قتل کر دیا۔ پھر پوچھنے لگا پھر وہ اپنی بستی سے اس بستی کی طرف نکل کھڑا ہوا۔ جس میں نیک لوگ رہتے تھے تو جب اس نے کچھ راستہ طے کر لیا اسے موت نے آلیا سو وہ اپنے سینے سے آگے بڑھا،پھر مر گیا تو اس کے بارے میں رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں جھگڑا شروع ہو گیا تو وہ اچھی بستی کی طرف ایک بالشت زیادہ قریب تھا، اس لیے اس کو اس کے باشندوں میں سے شمار کیا گیا۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2766

   صحيح البخاري3470سعد بن مالكرجل قتل تسعة وتسعين إنسانا ثم خرج يسأل فأتى راهبا فسأله فقال له هل من توبة قال لا فقتله فجعل يسأل فقال له رجل ائت قرية كذا وكذا فأدركه الموت فناء بصدره نحوها فاختصمت فيه ملائكة الرحمة وملائكة العذاب فأوحى الله إلى هذه أن تقربي
   صحيح مسلم7008سعد بن مالكرجل قتل تسعة وتسعين نفسا فسأل عن أعلم أهل الأرض فدل على راهب فأتاه فقال إنه قتل تسعة وتسعين نفسا فهل له من توبة فقال لا فقتله فكمل به مائة ثم سأل عن أعلم أهل الأرض فدل على رجل عالم فقال إنه قتل مائة نفس فهل له من توبة فقال نعم ومن يحول بينه وبين التوبة ان
   صحيح مسلم7009سعد بن مالكرجلا قتل تسعة وتسعين نفسا فجعل يسأل هل له من توبة فأتى راهبا فسأله فقال ليست لك توبة فقتل الراهب ثم جعل يسأل ثم خرج من قرية إلى قرية فيها قوم صالحون فلما كان في بعض الطريق أدركه الموت فنأى بصدره ثم مات فاختصمت فيه ملائكة الرحمة وملائكة العذاب فكان إلى الق

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7009  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بعض حضرات نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی گناہ گار اولیائے کرام کے پاس جا کر توبہ کرنے کا ارادہ کر لے،
ابھی وہاں گیا نہ ہو اور توبہ نہ کی،
تب بھی بخش دیا جاتا ہے تو اگر ان کے پاس جا کر،
ان کے ہاتھ پر بیعت کرلے،
توبہ کرے اور ان کے وظائف پر عمل کرے تو اس کا مرتبہ و مقام کیا ہوگا،
مگر صورت حال یہ ہے،
اس میں کسی بزرگ کے پاس جا کر،
تو بہ کرنے کا ذکر ہی نہیں ہے،
توبہ تو وہ کرچکا ہے،
پھر بری بستی اور برے لوگوں کی رفاقت سے بچانے کے لیے،
اس کو یہ طریقہ بتایا گیا ہے کہ تم نیک بستی اوراچھے لوگوں کے ساتھ رہو،
تاکہ اپنی توبہ پر قائم رہ سکو اور ان کے ساتھ مل کر عبادت و اطاعت کرسکو،
اس میں کسی بزرگ کے پاس جاکر توبہ کرنا یا بیعت کرنا کہاں سے ثابت ہو گیا؟ صحیح بات یہی ہے،
ساون کے اندھے کو ہر چیز ہری ہی نظر آتی ہے اور ڈوبتا انسان تنکے کو سہارا بناتا ہے،
جو اس کو کبھی ڈوبنے سے بچانہیں سکتا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 7009   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.