الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
The Book of Al-Ahkam (Judgements)
13. بَابُ هَلْ يَقْضِي الْحَاكِمُ أَوْ يُفْتِي وَهْوَ غَضْبَانُ:
13. باب: قاضی کو فیصلہ یا فتویٰ غصہ کی حالت میں دینا درست ہے یا نہیں۔
(13) Chapter. Can a judge give a judgement or a formal legal opinion while he is in an angry mood?
حدیث نمبر: 7158
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا عبد الملك بن عمير، سمعت عبد الرحمن بن ابي بكرة، قال: كتب ابو بكرة إلى ابنه، وكان بسجستان، بان لا تقضي بين اثنين وانت غضبان، فإني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا يقضين حكم بين اثنين وهو غضبان".(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ: كَتَبَ أَبُو بَكْرَةَ إِلَى ابْنِهِ، وَكَانَ بِسِجِسْتَانَ، بِأَنْ لَا تَقْضِيَ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَأَنْتَ غَضْبَانُ، فَإِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا يَقْضِيَنَّ حَكَمٌ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَهُوَ غَضْبَانُ".
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن عمیر نے کہا کہ میں نے عبدالرحمٰن ابن ابی بکرہ سے سنا کہا کہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے لڑکے (عبیداللہ) کو لکھا اور وہ اس وقت سجستان میں تھے کہ دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ اس وقت نہ کرنا جب تم غصہ میں ہو کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ کوئی ثالث دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ اس وقت نہ کرے جب وہ غصہ میں ہو۔

Narrated `Abdur Rahman bin Abi Bakra: Abu Bakra wrote to his son who was in Sijistan: 'Do not judge between two persons when you are angry, for I heard the Prophet saying, "A judge should not judge between two persons while he is in an angry mood."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 272


   صحيح البخاري7158نفيع بن الحارثلا يقضين حكم بين اثنين وهو غضبان
   صحيح مسلم4490نفيع بن الحارثلا يحكم أحد بين اثنين وهو غضبان
   جامع الترمذي1334نفيع بن الحارثلا يحكم الحاكم بين اثنين وهو غضبان
   سنن أبي داود3589نفيع بن الحارثلا يقضي الحكم بين اثنين وهو غضبان
   سنن النسائى الصغرى5408نفيع بن الحارثلا يحكم أحد بين اثنين وهو غضبان
   سنن ابن ماجه2316نفيع بن الحارثلا يقضي القاضي بين اثنين وهو غضبان
   المعجم الصغير للطبراني1153نفيع بن الحارثلا يقضي القاضي بين اثنين وهو غضبان
   مسندالحميدي810نفيع بن الحارثلا ينبغي للحاكم أن يحكم بين اثنين وهو غضبان

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2316  
´غصہ کی حالت میں حاکم و قاضی فیصلہ نہ کرے۔`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قاضی غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے ۱؎۔ ہشام کی روایت کے الفاظ ہیں: حاکم کے لیے مناسب نہیں کہ وہ غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2316]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
  غصے کی حالت میں انسان کی ذہنی حالت درست نہیں رہتی اور جذبات کی وجہ سے معاملات کے تمام پہلوؤں پر غور کرنا ممکن نہیں رہتا اس لیے خطرہ ہوتا ہے کہ اس حالت میں دیا ہوا فیصلہ درست نہیں ہو گا۔

(2)
نبی اکرمﷺ اس بات سے معصوم تھے کہ جذبات یا غصے میں غلط فیصلہ دیں اس لیے نبی ﷺ ناراضی محسوس فرما رہے تھے دیکھیے: (صحیح البخاري، الأحکام، باب ھل یقضی القاضی او یفتی وھو غضبان؟حدیث: 7159)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2316   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1334  
´قاضی غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرے۔`
عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ کہتے ہیں کہ میرے باپ نے عبیداللہ بن ابی بکرہ کو جو قاضی تھے خط لکھا کہ تم غصہ کی حالت میں فریقین کے بارے میں فیصلے نہ کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: حاکم غصہ کی حالت میں فریقین کے درمیان فیصلے نہ کرے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1334]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس لیے کہ غصے کی حالت میں فریقین کے بیانات پرصحیح طورسے غوروفکرنہیں کیا جا سکتا،
اسی پرقیاس کرتے ہوئے ہر اس حالت میں جوفکرانسانی میں تشویش کا سبب ہو فیصلہ کرنا مناسب نہیں اس لیے کہ ذہنی تشویش کی حالت میں صحیح فیصلہ تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1334   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3589  
´غصے کی حالت میں قاضی کا فیصلہ کیسا ہے؟`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے اپنے بیٹے کے پاس لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: غصے کی حالت میں قاضی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3589]
فوائد ومسائل:
فائدہ: طیش کی حالت میں انسان بالعموم حد اعتدال سے تجاوز کرجاتا ہے۔
تو اس کیفیت میں فیصلہ عین ممکن ہے کہ عدل کے خلاف ہو، لہذا اس سے بچنا ضروری ہے۔
انتہائی غم۔
شدید فکرمندی۔
کسی بیماری کے سبب تکلیف۔
اور درد اور اسی طرح کی کیفیتیں جن میں یکسوئی متاثر ہو غصے پر قیاس کی جایئں گی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3589   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7158  
7158. سیدنا عبدالرحمن بن ابو بکرہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدنا ابوبکرہ ؓ نے اپنے بیٹے کو لکھا جبکہ وہ سجستان میں تھا کہ بحالت غصہ دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرنا کیونکہ میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے، آپ نے فرمایا: کوئی حاکم،بحالت غصہ دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7158]
حدیث حاشیہ:
جج صاحبان کے لیے بہت بڑی نصیحت ہے، غصہ کی حالت میں انسانی ہوش و حواس مختلف ہوجاتے ہیں اس لیے اس حالت میں فیصلہ نہیں دینا چاہئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7158   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7158  
7158. سیدنا عبدالرحمن بن ابو بکرہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: سیدنا ابوبکرہ ؓ نے اپنے بیٹے کو لکھا جبکہ وہ سجستان میں تھا کہ بحالت غصہ دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرنا کیونکہ میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے، آپ نے فرمایا: کوئی حاکم،بحالت غصہ دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7158]
حدیث حاشیہ:

غصے کی حالت میں فیصلہ کرنا یا فتوی دینا اس لیے منع ہے کہ غصے کی وجہ سے طبیعت میں تبدیلی آجاتی ہے اور حواس پوری طرح کام نہیں کرتے جبکہ فیصلہ کرنے کے لیےانسان کا ہراعتبار سے یکسو ہونا ضروری ہے۔
غصے کی حالت میں غلطی کا امکان ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت میں فیصلہ کرنے سے منع فرمایاہے ہر وہ چیز جس سے طبیعت میں اس قسم کی تبدیلی آجائے۔
جو سوچ بچار کو متاثر کردے مثلاً:
بھوک کا غلبہ نیند کی شدت یا بیماری کی حالت وغیرہ وہ غصے کے حکم میں ہے لیکن اگر کوئی غصے کی حالت میں صحیح فیصلہ کردے تو وہ نافذ العمل ہوگا۔

اس حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مستثنیٰ ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حالت میں حق کے مطابق ہی فیصلہ کرتے تھے جیسا کہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک انصاری سے پانی کی باری کے متعلق جھگڑا ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےغصے کی حالت میں حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں فیصلہ کیا تھا۔
اس کی وضاحت آئندہ حدیث میں آئے گی۔
الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. عدم القضاء حال الغضب (الأقضية والأحكام)
موضوعات 1. غصے کی حالت میں فیصلہ کرنے سے اجتناب کرنا (عدالتی احکام و فیصلے)
Topics 1. Not to decide the case in anger (Legal Orders and Verdicts)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/7158 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
حدیث ترجمہ:
سیدنا عبدالرحمن بن ابو بکرہ سے روایت ہے انہوں نے کہا:
سیدنا ابوبکرہ ؓ نے اپنے بیٹے کو لکھا جبکہ وہ سجستان میں تھا کہ بحالت غصہ دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرنا کیونکہ میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے، آپ نے فرمایا:
کوئی حاکم،بحالت غصہ دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے۔
حدیث حاشیہ:

غصے کی حالت میں فیصلہ کرنا یا فتوی دینا اس لیے منع ہے کہ غصے کی وجہ سے طبیعت میں تبدیلی آجاتی ہے اور حواس پوری طرح کام نہیں کرتے جبکہ فیصلہ کرنے کے لیےانسان کا ہراعتبار سے یکسو ہونا ضروری ہے۔
غصے کی حالت میں غلطی کا امکان ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت میں فیصلہ کرنے سے منع فرمایاہے ہر وہ چیز جس سے طبیعت میں اس قسم کی تبدیلی آجائے۔
جو سوچ بچار کو متاثر کردے مثلاً:
بھوک کا غلبہ نیند کی شدت یا بیماری کی حالت وغیرہ وہ غصے کے حکم میں ہے لیکن اگر کوئی غصے کی حالت میں صحیح فیصلہ کردے تو وہ نافذ العمل ہوگا۔

اس حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مستثنیٰ ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حالت میں حق کے مطابق ہی فیصلہ کرتے تھے جیسا کہ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک انصاری سے پانی کی باری کے متعلق جھگڑا ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےغصے کی حالت میں حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں فیصلہ کیا تھا۔
اس کی وضاحت آئندہ حدیث میں آئے گی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن عمیر نے کہا کہ میں نے عبدالرحمن ابن ابی بکرہ سے سنا، کہا کہ ابوبکرہ ؓ نے اپنے لڑکے (عبیداللہ)
کو لکھا اور وہ اس وقت بحستان میں تھے کہ دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ اس وقت نہ کرنا جب تم غصہ میں ہو کیوں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے کہ کوئی ثالث دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ اس وقت نہ کرے جب وہ غصہ میں ہو۔
حدیث حاشیہ:
جج صاحبان کے لیے بہت بڑی نصیحت ہے، غصہ کی حالت میں انسانی ہوش و حواس مختلف ہوجاتے ہیں اس لیے اس حالت میں فیصلہ نہیں دینا چاہئے۔
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdur Rahman bin Abi Bakra (RA)
:
Abu Bakra (RA)
wrote to his son who was in Sijistan:
'Do not judge between two persons when you are angry, for I heard the Prophet (ﷺ) saying, "A judge should not judge between two persons while he is in an angry mood." حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
جج صاحبان کے لیے بہت بڑی نصیحت ہے، غصہ کی حالت میں انسانی ہوش و حواس مختلف ہوجاتے ہیں اس لیے اس حالت میں فیصلہ نہیں دینا چاہئے۔
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم7224٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
7158٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
6625٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
7158٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
6739٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6895٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7158٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
7158١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
7158 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × احکام،حکم کی جمع ہے۔
فقہی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کے وہ اوامرونواہی احکام کہلاتے ہیں جن کی بجاآوری اس نے اپنے بندوں پر عائد کی ہے لیکن اس مقام پر حکومت اور قضاء کے آداب وشرائط مراد ہیں کیونکہ حاکم کا لفظ خلیفہ اور قاضی ہردورپرمشتمل ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت نظام عدالت اور نظام حکومت کو بیان فرمایا ہے اور ان کے متعلق ضروری امور کی وضاحت کی ہے۔
واضح رہے کہ دین اسلام انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔
ان کا تعلق عقائد وایمانیات سے ہویاعبادات واخلاقیات سے یا دیگر معاملات سے،اسلام ان تمام کی وضاحت کرتا ہے اور ان کے متعلق ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے پھر لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنے اورحقداروں کو ان کا حق دلوانے،نیز تعزیر وسزا کے مستحق جرائم پیشہ لوگوں کو سزادینے کے لیے نظام عدالت کا قیام بھی انسانی معاشرے کے لیے ایک ناگزیر ضرورت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہاں اجتماعیت اور مل جل کر رہنے کی ایک شکل پیدا ہوگئی تو اس وقت نظام عدالت بھی اپنی ابتدائی سادہ شکل میں قائم ہوگیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اللہ تعالیٰ کا نبی ہونے کے ساتھ اسلامی مملکت کے سربراہ اور حاکم عدالت بھی تھے۔
اختلافی معاملات آپ کے سامنے آتے اور آپ ان کا فیصلہ فرماتے۔
جن پر زیادتی ہوتی انھیں ان کا حق دلواتے اورحق غصب کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق سزادیتے۔
اللہ تعالیٰ نے براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے حکم دیا ہے:
"آپ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ اللہ کی نازل کردہ ہدایات کے مطابق کریں۔
"(المآئدۃ 5/49)
جب یمن کا علاقہ اسلامی اقتدار کے دائرے میں آگیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وہاں قاضی بنا کر بھیجا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ہدایات دیں کہ وہ اس ذمہ داری کو عدل وانصاف کے ساتھ ادا کرنے کے کوشش کریں اور ایسا کرنے والوں کو آخرت میں عظیم انعامات اوربلند درجات کی بشارتیں دیں،نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر ایسےی لوگوں سے نادانستہ طور پر کوئی اجتہادی غلطی ہوجائے تو اس پر انھیں کوئی مواخذہ نہیں ہوگا بلکہ ا پنی نیک نیتی قاور حق بینی کی کوشش اور محنت کااجروثواب ملے گا اور اس کے مقابلے میں آپ نے جانبداری اور بے انصافی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے قہر وغضب سے ڈرایا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:
"فیصلہ کرنے والے تین طرح کے ہوتے ہیں،جن میں سے دو جہنمی اور ایک جنتی ہے:
ایک تو وہ شخص جس نے حق کو پہچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا وہ جنتی ہے۔
دوسرا وہ جس نے حق کی پہچان کرلی مگر اس کے مطابق فیصلہ نہ کیا بلکہ فیصلہ کرتے وقت ظلم وزیادتی سے کام لیا،ایسا شخص دوزخی ہے۔
تیسرا وہ جس نے نہ حق کو پہچانا اور نہ حق کے مطابق فیصلہ کیا بلکہ اس نے لوگوں میں جہالت اور نادانی سے فیصلہ کیا یہ شخص بھی دوزخی ہے۔
"(سنن ابن ماجہ الاحکام حدیث 2315)
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سربراہ مملکت کی حیثیت سے نظام حکومت کے ایسے اصول مقرر فرمائے جن سے اسلامی حکومتوں اور ان کے سربراہوں کو پوری پوری رہنمائی ملتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدحکومتی نظام چلانے والے خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اپنے دور کے تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے پوری کوشش کی کہ حکومت کے متعلق تمام معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طور طریقوں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کی پوری پابندی اور پاسداری کی جائے۔
اسی امتیازی خصوصیت کی وجہ سے انھیں خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کہا جاتاہے۔
ان تمہیدی گزارشات کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوانات اور ان کے تحت پیش کردہ احادیث کو پورے غوروفکر اور انہماک سے پڑھا جائے۔
آپ نے نظام عدالت اور نظام حکومت کے متعلق امت کی بھر پور رہنمائی کی ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ چند عنوانات حسب ذیل ہیں:
اسلامی سربراہ اگر خلاف شرع حکم نہ دے تو اس کی بات سننا اور اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔
۔
حکومتی عہدہ خود نہیں مانگنا چاہیے،اس طرح اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال ہوگی۔
۔
جو شخص حکومتی عہدہ طلب کرے گا وہ اس کے حوالے کردیا جائے گا۔
۔
حکومتی عہدے کی حرص کرنا منع ہے۔
۔
جو شخص لوگوں کو تنگ کرے گا،اللہ تعالیٰ اسے مشقت میں ڈالے گا۔
۔
جو شخص رعایا کی خیر خواہی نہ کرے،اسے سخت ترین عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔
چلتے چلتے راستے میں کوئی فیصلہ کرنا۔
۔
قاضی کو غصے کی حالت میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔
۔
جج بننے کی کیا شرائط ہیں؟
۔
حکام اور عُمال کا تنخواہیں لینا۔
۔
فیصلے کرنے والوں کا تحفے قبول کرنا۔
۔
یک طرفہ فیصلہ کرنے کی شرعی حیثیت۔
حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ اپنے ماتحت کا محاسبہ کرتا رہے۔
ان کے علاوہ اور بہت سے اصول وضوابط ہیں جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے۔
آمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7158   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.