الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
The Book of Al-Ahkam (Judgements)
S0. بَابُ مَنْ نَكَثَ بَيْعَةً:
S0. باب: اس کا گناہ جس نے بیت توڑی۔
(S0) Chapter. Whoever violates a Baia (pledge).
حدیث نمبر: Q7216
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقوله تعالى: {إن الذين يبايعونك إنما يبايعون الله يد الله فوق ايديهم فمن نكث فإنما ينكث على نفسه ومن اوفى بما عاهد عليه الله فسيؤتيه اجرا عظيما}.وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَنْ نَكَثَ فَإِنَّمَا يَنْكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهِ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا}.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الفتح میں) فرمان «إن الذين يبايعونك إنما يبايعون الله يد الله فوق أيديهم فمن نكث فإنما ينكث على نفسه ومن أوفى بما عاهد عليه الله فسيؤتيه أجرا عظيما‏» یقیناً جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ سے بیعت کرتے ہیں۔ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔ پس جو کوئی اس بیعت کو توڑے گا بلا شک اس کا نقصان اسے ہی پہنچے گا اور جو کوئی اس عہد کو پورا کرے جو اللہ سے اس نے کیا ہے تو اللہ اسے بڑا اجر عطا فرمائے گا۔

حدیث نمبر: 7216
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن محمد بن المنكدر، سمعت جابرا، قال:" جاء اعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: بايعني على الإسلام، فبايعه على الإسلام، ثم جاء الغد محموما، فقال: اقلني، فابى، فلما ولى، قال: المدينة كالكير تنفي خبثها وينصع طيبها".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، سَمِعْتُ جَابِرًا، قَالَ:" جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: بَايِعْنِي عَلَى الْإِسْلَامِ، فَبَايَعَهُ عَلَى الْإِسْلَامِ، ثُمَّ جَاءَ الْغَدَ مَحْمُومًا، فَقَالَ: أَقِلْنِي، فَأَبَى، فَلَمَّا وَلَّى، قَالَ: الْمَدِينَةُ كَالْكِيرِ تَنْفِي خَبَثَهَا وَيَنْصَعُ طِيبُهَا".
ہم سے ابونعیم (فضل بن دکین) نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے، انہوں نے کہا میں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے ایک گنوار (نام نامعلوم) یا قیس بن ابی حازم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، کہنے لگا: یا رسول اللہ! اسلام پر مجھ سے بیعت لیجئے۔ آپ نے اس سے بیعت لے لی، پھر دوسرے دن بخار میں ہلہلاتا آیا کہنے لگا میری بیعت فسخ کر دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا (بیعت فسخ نہیں کی) جب وہ پیٹھ موڑ کر چلتا ہوا، تو فرمایا مدینہ کیا ہے (لوہار کی بھٹی ہے) پلید اور ناپاک (میل کچیل) کو چھانٹ ڈالتا ہے اور کھرا ستھرا مال رکھ لیتا ہے۔

Narrated Jabir: A bedouin came to the Prophet and said, "Please take my Pledge of allegiance for Islam." So the Prophet took from him the Pledge of allegiance for Islam. He came the next day with a fever and said to the Prophet "Cancel my pledge." But the Prophet refused and when the bedouin went away, the Prophet said, "Medina is like a pair of bellows (furnace): It expels its impurities and brightens and clears its good."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 323


   صحيح البخاري7209جابر بن عبد اللهالمدينة كالكير تنفي خبثها وينصع طيبها
   صحيح البخاري7216جابر بن عبد اللهالمدينة كالكير تنفي خبثها وينصع طيبها
   صحيح البخاري7211جابر بن عبد اللهالمدينة كالكير تنفي خبثها وينصع طيبها
   صحيح البخاري7322جابر بن عبد اللهالمدينة كالكير تنفي خبثها وينصع طيبها
   صحيح البخاري1883جابر بن عبد اللهالمدينة كالكير تنفي خبثها وينصع طيبها
   صحيح مسلم3355جابر بن عبد اللهالمدينة كالكير تنفي خبثها وينصع طيبها
   جامع الترمذي3920جابر بن عبد اللهالمدينة كالكير تنفي خبثها وتنصع طيبها
   سنن النسائى الصغرى4190جابر بن عبد اللهالمدينة كالكير تنفي خبثها وتنصع طيبها
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم634جابر بن عبد اللهالمدينة كالكير تنفي خبثها وينصع طيبها
   مسندالحميدي1277جابر بن عبد اللهلا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 634  
´اسلام میں صرف دو بیعتوں کا ثبوت ملتا ہے`
«. . . عن جابر بن عبد الله: ان اعرابيا بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم على الإسلام، فاصاب الاعرابي وعك بالمدينة، فاتى النبى صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، اقلني بيعتي. فابى النبى صلى الله عليه وسلم ثم جاءه فقال: اقلني بيعتي. فابى ثم جاءه فقال: اقلني بيعتي، فابى فخرج الاعرابي فقال النبى صلى الله عليه وسلم: إنما المدينة كالكير تنفي خبثها وينصع طيبها . . .»
. . . سیدنا جابر بن عبداللہ (الانصاری رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے اسلام پر (مدینہ میں قائم رہنے پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی، پھر اس اعرابی کو مدینے میں بخار ہو گیا تو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: یا رسول اللہ! میری بیعت فسخ کر دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا تو اس نے دوبارہ آ کر کہا: میری بیعت فسخ کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا تو اس نے تیسری بار آ کر کہا: میری بیعت فسخ کر دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا پھر وہ اعرابی (مدینے سے) نکل کر چلا گیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ تو زرگر کی بھٹی کی طرح ہے، زنگار اور میل کو نکال دیتا ہے اور عمدہ کو نکھارتا اور چمکاتا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 634]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 7211، ومسلم 1383، من حديث مالك به]

تفقه
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی بیعت شروط اسلام و فرائض و حدود و ہجرت وغیرہ بھی لیتے تھے۔ دیکھئے: [التمهيد 12/224]
➋ اسلام میں صرف دو بیعتوں کا ثبوت ملتا ہے:
① نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت۔
② اور خلیفہ کی بیعت۔
ان کے علاوہ تیسری بیعت مثلاً سلاسل صوفیہ کے شیوخ اور نام نہاد کاغذی تنظیموں کی بیعت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
➌ مدینہ طیبہ فضیلت والا شہر ہے اور اس کے عام باشندے دوسرے لوگوں کی بہ نسبت افضل و پسندیدہ ہیں۔
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت فرض ہے اور اطاعت سے انکار کرنے والا خبیث ہے۔
➎ متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ مدینہ حرم ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 85   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7322  
´ مکہ اور مدینہ کے عالموں کے اجماع کا بیان`
«. . . عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ السَّلَمِيِّ،" أَنَّ أَعْرَابِيًّا بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَأَصَابَ الْأَعْرَابِيَّ وَعْكٌ بِالْمَدِينَةِ، فَجَاءَ الْأَعْرَابِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَقِلْنِي بَيْعَتِي، فَأَبَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جَاءَهُ، فَقَالَ: أَقِلْنِي بَيْعَتِي فَأَبَى، ثُمَّ جَاءَهُ، فَقَالَ: أَقِلْنِي بَيْعَتِي فَأَبَى، فَخَرَجَ الْأَعْرَابِيُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا الْمَدِينَةُ كَالْكِيرِ تَنْفِي خَبَثَهَا وَيَنْصَعُ طِيبُهَا . . .»
. . . جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں بیمار پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ عیادت کے لیے تشریف لائے۔ یہ دونوں بزرگ پیدل چل کر آئے تھے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تو مجھ پر بے ہوشی طاری تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، اس سے مجھے افاقہ ہوا تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اور بعض اوقات سفیان نے یہ الفاظ بیان کئے کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ! میں اپنے مال کے بارے میں کس طرح فیصلہ کروں، میں اپنے مال کا کیا کروں؟ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ میراث کی آیت نازل ہوئی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ: 7322]

دوسری حدیث:
«. . . عَنْ الْجُعَيْدِ، سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ، يَقُولُ:" كَانَ الصَّاعُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُدًّا وَثُلُثًا بِمُدِّكُمُ الْيَوْمَ"، وَقَدْ زِيدَ فِيهِ سَمِعَ الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ الْجُعَيْدَ . . .»
. . . جعید نے، انہوں نے سائب بن یزید سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صاع تمہارے وقت کی مد سے ایک مد اور ایک تہائی مد کا ہوتا تھا، پھر صاع کی مقدار بڑھ گئی یعنی عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ میں وہ چار مد کا ہو گیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ: 7330]

تیسری حدیث:
«. . . عَنْ ابْنِ عُمَرَ،" أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ وَامْرَأَةٍ زَنَيَا، فَأَمَرَ بِهِمَا، فَرُجِمَا قَرِيبًا مِنْ حَيْثُ تُوضَعُ الْجَنَائِزُ عِنْدَ الْمَسْجِدِ . . .»
. . . ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودی ایک مرد اور ایک عورت کو لے کر آئے جنہوں نے زنا کیا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے رجم کا حکم دیا اور انہیں مسجد کی ایک جگہ کے قریب رجم کیا گیا جہاں جنازے رکھے جاتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ: 7332]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7322 کا باب: «بَابُ مَا ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَضَّ عَلَى اتِّفَاقِ أَهْلِ الْعِلْمِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب کئی ایک مسائل کو ثابت کرنے کے لیے قائم فرمایا ہے جس کے کئی اجزاء ہیں۔ مثلا مکہ اور مدینہ کے علماء کے اجماع کا بیان، مہاجرین اور انصار کے متبرک مقامات کا بیان، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھنے کی جگہ اور اس کا متبرک ہونا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کا بیان، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کا بیان وغیرہ۔

اس ایک باب کے ذریعے امام بخاری رحمہ اللہ کئی ایک مسائل کو حل فرمانے کا قصد رکھتے ہیں جن کی طرف اشارہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب پیش کی گئی احادیث کے ذریعے فرمایا ہے، آپ نے تحت الباب تقریبا چوبیس احادیث پیش فرمائی ہیں جن کا باب سے تعلق جزء یا چند اجزاء کے ساتھ قائم ہے لیکن کوئی ایک حدیث مکمل طور پر باب کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ جو بات ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اہل مدینہ کی خبر معتبر ہے کیوں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مشاہدہ کیا ہے، جیسے مہاجرین اور انصار اور جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر اور قبر کا مشاہدہ کرنے والے حضرات جن کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں فرمایا ہے، وہ تمام چیزیں مراد ہیں۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے باب کی مناسبت اس جہت سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی فضیلت بیان فرمائی ہے کہ مدینہ تمام شہروں میں افضل ہے جہاں برے لوگ نہیں ٹھہر سکتے، وہاں کے لوگ حتی کہ علماء بھی اچھے ہی ہوں گے، مگر یہ فضیلت حیات نبوی کے ساتھ خاص تھی۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«قال ابن بطال عن المهلب: فيه تفضيل المدينة على غيرها بما خصها الله به من أنها تنفي الخبث، و رتب على ذالك القول بحجية إجماع أهل المدينة، و تعقب بقول ابن عبدالبر أن الحديث دال على فضل المدينة، و لكن ليس الوصف المذكور لها فى جميع الأزمنه، بل هو خاص بزمن النبى صلى الله عليه وسلم لأنه لم يكن يخرج منها رغبة من الإقامة معه إلا من لا خير فيه.» [فتح الباري لابن حجر: 261/14]
ابن بطال رحمہ اللہ مہلب رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ اس حدیث سے مدینہ کی دیگر علاقوں پر تفضیل ظاہر ہوتی ہے اس امر کے ساتھ جو اللہ تعالی نے اسے خاص فرمایا کہ وہ مدینہ خبث کی نفی کرتا ہے اس پر اہل مدینہ کی حجیت کا قول مترتب ہے۔ اس کا جواب ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے قول سے تعاقب کیا جائے گا کہ حدیث مدینہ کی فضیلت پر دال تو ہے لیکن یہ اس کی صفت مذکور تمام زمانے میں عام نہیں ہے بلکہ یہ صفت عہد نبوی کے ساتھ خاص ہے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے اس میں اقامت اختیار کرنے سے وہی شخص اعراض کر سکتا ہے جس میں بھلائی نہ ہو۔
علامہ مہلب رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے باب اور حدیث میں مناسبت بھی معلوم ہوئی اور ساتھ ہی ایک مسئلے کی وضاحت بھی۔ باب سے حدیث کا تعلق یہی ہے کہ مذکورہ بالا حدیث میں مدینہ منورہ کو فضیلت دی گئی ہے، یہی مطابقت باب کے ایک جزء سے ہے۔
اب جہاں تک اہل مدینہ کے عمل کا تعلق ہے تو اس پر تفصیلی گفتگو ہم ان شاء اللہ اس باب کے اختتام پر فائدے میں درج کریں گے۔ دوسری حدیث جو سائب بن یزید سے مروی ہے اس کا باب سے مناسبت کچھ اس طرح سے ہے کہ فتح الباری میں موجود ہے:
«ومناسة هذا الحديث للترجمة أن قدر الصاع مما اجتمع عليه أهل الحرمين بعد العهد النبوي و استمر، فلما ذار بنو أمية فى الصاع لم يتركوا اعتبار الصاع النبوي.» [فتح الباري لابن حجر: 263/14]
حدیث کی ترجمۃ الباب سے مناسبت یہ ہے کہ صاع کی مقدار وہی رہی جس پر عہد نبوی کے اہل حرمین متفق ہو گئے تھے، تو جب بنو امیہ نے صاع میں زیادتی کی تو (اس کے باوجود بھی) عہد نبوی والے صاع کا اعتبار کرنا چھوڑا نہ گیا (بلکہ باقی رہا)۔
لہذا باب اور حدیث میں مناسبت کی جہت ان تفصیلات کی روشنی میں یہ قرار پائی کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں اس (صاع) کی مقدار بڑھ گئی ہو گی مگر احکام شرعیہ میں جیسے صدقہ فطر وغیرہ ہے اسی صاع کے اعتبار سے ہو گا جو اہل مدینہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھا۔

جو حدیث سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اس کا باب سے مناسبت اس طرح سے ہے کہ مسجد کے قریب یہ مقام جہاں انہیں رجم کیا گیا تھا تاریخی طور پر متبرک ہے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر نماز جنازہ بھی اسی جگہ ادا کیا کرتے تھے، لہٰذا یہاں سے اس جگہ کا متبرک ہونا ثابت ہوتا ہے اور یہیں سے باب کے جزء کے ساتھ مناسبت بھی قائم ہوتی ہے۔ [ارشاد الساري: 89/12]، [عمدة القاري للعيني: 88/25]
فائدہ:
کیا اہل مدینہ کا ہر عمل حجت ہے؟
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ اہل مدینہ کا عمل مطلق حجت ہے حالانکہ یہ بات محل نظر ہے بلکہ خود امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ بات معتمد نہ تھی، امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک بھی اصل اہمیت قرآن و حدیث ہی کو حاصل تھی، ایک واقعہ اس بات کا واضح ثبوت فراہم کرتا ہے، ہارون رشید نے جب امام مالک رحمہ اللہ کو پیش کش کی تھی کہ آپ کی مؤطا کو قانون قرار دیا جائے، چنانچہ لکھا گیا ہے:
«انه شاور مالكا فى أن يعلق الموطأ فى الكعبة، و يحمل الناس على ما فيه، فقال: لا تفعل، فان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم اختلفوا فى الفروع، و تفرقوا فى البلدان، و كل سنة مضت، قال: وفقك الله يا أبا عبدالله.» [حجة الله البالغه: 116/1]، [مفتاح السعادة 87/2]
خلیفہ ہارون رشید نے امام مالک رحمہ اللہ سے مشورہ کیا کہ مؤطا کو ملک کا قانون قرار دے کر کعبہ میں لٹکا دیا جائے تاکہ لوگ اس کی اتباع پر مجبور ہوں، امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فروع میں اختلاف تھا اور وہ مختلف ممالک میں پھیل گئے، جو کچھ ان سے منقول ہے سب سنت ہے، ہارون نے معاملہ سمجھ کر فرمایا: اللہ تعالی آپ کو خیر کی توفیق عطا کرے۔
اس حوالے سے یہ واضح ہوا کہ امام مالک رحمہ اللہ مطلق مدینے کے عمل کو حجت قرار نہیں دیتے تھے، بلکہ ہر صحابی کی حدیث کو دین سمجھتے تھے۔

امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب «الأحكام فى أصول الأحكام» میں اس مسئلے پر بھی تفصیلی بحث فرمائی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ صرف اہل مدینہ کو سنت کا علم رکھنے والا قرار دینا ناجائز ہے، چنانچہ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«و أما قولهم: إن أهل المدينة أعلم بأحكام رسول الله صلى الله عليه وسلم ممن سواهم، فهو كزب و باطل، و إنما الحق أن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم و هم العالمون بأحكامه سواء بقي منهم من بقي بالمدينة أو خرج منهم من خرج.» [الاحكام فى اصول الاحكام: 684/4]
اور ان کا کہنا ہے کہ اہل مدینہ احکام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ جانتے تھے اپنے سے علاوہ کے، تو یہ جھوٹ ہے اور باطل ہے، لہٰذا جو صحیح اور حق بات ہے تو وہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دین کے احکامات کو جانتے تھے چاہے وہ مدینے میں باقی رہے یا وہ وہاں سے کوچ کر گئے ہوں۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ موطا کی سرکاری حیثیت کو شمولیت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«وهذا يدل على أن عمل أهل المدينة ليس عنده حجة لازمة لجميع الأمة . . . . .» [اعلام الموقعين: 297/2]
یہ اس بات پر دال ہے کہ اہل مدینہ کا عمل حجت نہیں ہے اور نہ ہی جمیع امت پر اسے قبول کرنا ضروری ہے، اور یہ بات کہ (اہل مدینہ کا عمل حجت ہے) امام مالک رحمہ اللہ نے نہ ہی مؤطا میں یہ بات کی ہے اور نہ کسی اور جگہ، بلکہ مطلب صرف ایک واقع کا اظہار ہے۔
لہٰذا یہ کہنا کہ عمل اہل مدینہ تمام امت پر مطلق حجت ہے سراسر غلط اور باطل ہے بلکہ جمہور اس کے مخالف ہیں، صاحب فقہ الاسلام نے بڑی عمدہ بات کہی، آپ رقمطراز ہیں:
جمہور کا خیال ہے کہ مدینہ کو عمل میں باقی شہروں پر کوئی مرتبہ حاصل نہیں ہے، اختلاف کے وقت سنت ہی کی اتباع اصل شئی ہے، کسی عالم کا قول دوسرے پر حجت نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مختلف ممالک میں پھیل گئے تھے، سب صاحب علم تھے، اصل چیز سنت ہے، کسی شہر کا علم تشریع کی بنیاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔ [فقه الاسلام از شيخ احمد: ص 170]
بلکہ اگر غور کیا جائے تو امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک بھی اہل مدینہ کا عمل حجت نہیں تھا، کیونکہ آپ رحمہ اللہ نے اپنی مؤطا میں ایسی روایات پیش کی ہیں جو اہل مدینہ کے عمل کے خلاف ہیں، دوسری مضبوط دلیل یہ بھی ہے کہ آپ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
«عمن أخذ بحديث حدثه ثقة عن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم أتراه من ذالك فى سعة؟ فقال: لا والله يصيب الحق، و ما الحق الا واحد، قولان مختلفان يكونان صوابًا جميعًا؟ و ما الحق و الصواب الا واحد.» [جامع بيان العلم وفضله عن اشهب: 102/2]
حدیث کسی سے لی جائے؟ آپ رحمہ اللہ نے فرمایا: جو ثقہ ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے روایت کرتا ہو، پھر پوچھا گیا کہ کیا اس بارے میں آپ کے نزدیک کوئی وسعت ہے؟ آپ رحمہ اللہ نے انکار کرتے ہوئے فرمایا: نہیں! اللہ کی قسم نہیں ہے حتی کہ حق تک رسائی نہ ہو جائے، اور حق تو صرف ایک ہی ہوتا ہے، بھلا دو مختلف اقوال بھی باہم درست ہو سکتے ہیں؟ نہیں، حق اور صواب تو صرف ایک ہی ہو سکتا ہے۔

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خلفائے راشدین کے بعد اہل مدینہ کے کیا معاملات تھے، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اہل مدینہ کا عمل مفتیوں، امراء اور بازاروں پر «محتسبين» کے حکم کے مطابق تھا، رعیت ان لوگوں کی مخالفت نہیں کر سکتی تھی، پس اگر مفتی فتوی دیتے تو والی اسے نافذ کرتا اور محتسب اس کے مطابق عمل کرتا، اسی طرح وہ فتوی معمول بہ ہو جاتا، لیکن یہ چیز قابل التفات نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اعمال سنت ہیں، لہٰذا ان دونوں میں سے ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا جائے گا، پس ہمارے نزدیک اس عمل پر تحکیما زیادہ شدید ہے اور اس کے مقابلے میں دوسری چیز (متاخرین اہل مدینہ ان کا عمل) اگر خلاف سنت ہو تو ترک کیے جانے کے شدید مستحق ہے۔

نواب صدیق حسن خان بھوپالی رحمہ اللہ اس مسئلے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے متعین کے برخلاف اہل مدینہ کا عمل بھی کسی صحیح حدیث کے خلاف حجت نہیں ہوتا، کیوں کہ وہ بھی امت میں سے بعض ہیں (یعنی کل نہیں ہیں)، لہٰذا اس بات کا جواز موجود ہے کہ وہ صحیح خبر ان تک نہ پہنچی ہو۔ [حصول المامول من علم الاصول: ص 59]
ان تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ کسوٹی صرف سنت نبوی ہی ہو گی، اس کے خلاف اہل مدینہ کا عمل، کوفہ، بصرہ، شام، یمن، مصر، دمشق، بالفرض کوئی بھی معروف یا غیر معروف علمی شہر یا غیر علمی شہر ہو، کسوٹی ہرگز نہیں بن سکتا۔

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«كيف أترك الخبر لأقوال أقوام لو عامرتهم لما حجتهم بالحديث .» [الاحكام فى اصول الاحكام للامدی: 165/2]
میں خبر (یعنی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم) کو اقوال سے کس طرح ترک کر سکتا ہوں، اگر میں ان لوگوں کے مابین موجود ہوتا تو ان سے حدیث کی حجت پر بحث کرتا۔
بس کسوٹی صرف قرآن و حدیث ہی ہے یہی گفتگو کا حاصل ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 303   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3920  
´مدینہ کی فضیلت کا بیان`
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کی، پھر اسے مدینہ میں بخار آ گیا تو وہ اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پاس آیا اور کہنے لگا، آپ مجھے میری بیعت پھیر دیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا، پھر وہ دوبارہ آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: آپ میری بیعت مجھے پھیر دیں تو پھر آپ نے انکار کیا، پھر وہ اعرابی مدینہ چھوڑ کر چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ ایک بھٹی کے مثل ہے جو دور کر دیتا ہے اپنے کھوٹ کو اور خالص کر دیتا ہے پاک کو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3920]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی لوہار کی بھٹی جس طرح لوہے کے میل اور اس کے زنگ کو دور کر دیتی ہے اسی طرح مدینہ اپنے یہاں سے برے لوگوں کو نکال پھینکتا ہے۔
اور مدینہ کی یہ خصوصیت کیا صرف عہد نبوی تک کے لیے تھی (جیساکہ قاضی عیاض کہتے  ہیں) یاعہد نبوی کے بعد بھی باقی ہے؟ (جیساکہ نووی وغیرہ کہتے ہیں) نووی نے حدیث دجال سے استدلال کیا ہے کہ اس وقت بھی مدینہ ایسا کرے گا،
کہ برے لوگوں کو اپنے یہاں سے نکال باہر کرے گا،
اب اپنی یہ بات کہ بہت سے صحابہ  و خیارتابعین بھی مدینہ سے باہر چلے گئے،
تو کیا وہ لوگ بھی برے تھے؟ ہرگز نہیں،
اس حدیث کا مطلب ہے: جو مدینہ کو برا جان کر وہا ں سے نکل جائے وہ اس حدیث کا مصداق ہے،
اور رہے صحابہ کرام تو وہ مدینہ کی سکونت کو افضل جانتے تھے،
مگر دین اور علم دین کی اشاعت کے مقصد عظیم کی خاطر باہر گئے تھے،
(رَضِیَِ اللہُ عَنْهُمْ)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3920   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7216  
7216. سیدنا جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک دیہاتی نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: آپ مجھے اسلام پہ بیعت کرلیں، آپ نے اسے اسلام پر بیعت کرلیا۔ دوسرے دن بخار کی حالت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میری بیعت واپس کرلیں۔ آپﷺ نے انکار فرمایا۔ جب وہ واپس ہوا تو آپ نے فرمایا: مدینہ طیبہ بھٹی کی طرح ہے جو گندگی اور ناپاکی کو دور کردیتا ہے، خالص اور پاکیزہ کو رکھ لیتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7216]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بیعت توڑنے کی سنگینی کو بیان کیا گیا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بلاشبہ اس سے بڑی غداری اور کوئی خیال نہیں کرتا کہ ایک آدمی اللہ کے نام پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر بیعت کرتا ہے پھر اس کے خلاف جنگ وقتال پر اُترآتا ہے۔
(صحیح البخاري، الفتن، حدیث: 7111)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7216   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.