الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
The Book of Al-Ahkam (Judgements)
51. بَابُ الاِسْتِخْلاَفِ:
51. باب: ایک خلیفہ مرتے وقت کسی اور کو خلیفہ کر جائے تو کیسا ہے؟
(51) Chapter. The appointment of a caliph (to succeed another).
حدیث نمبر: 7218
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، اخبرنا سفيان، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال: قيل لعمر: الا تستخلف، قال:" إن استخلف، فقد استخلف من هو خير، مني ابو بكر، وإن اترك، فقد ترك من هو خير مني، رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاثنوا عليه، فقال: راغب راهب، وددت اني نجوت منها كفافا لا لي ولا علي لا اتحملها حيا ولا ميتا".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قِيلَ لِعُمَرَ: أَلَا تَسْتَخْلِفُ، قَالَ:" إِنْ أَسْتَخْلِفْ، فَقَدِ اسْتَخْلَفَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ، مِنِّي أَبُو بَكْرٍ، وَإِنْ أَتْرُكْ، فَقَدْ تَرَكَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي، رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَثْنَوْا عَلَيْهِ، فَقَالَ: رَاغِبٌ رَاهِبٌ، وَدِدْتُ أَنِّي نَجَوْتُ مِنْهَا كَفَافًا لَا لِي وَلَا عَلَيَّ لَا أَتَحَمَّلُهَا حَيًّا وَلَا مَيِّتًا".
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ جب زخمی ہوئے تو ان سے کہا گیا کہ آپ اپنا خلیفہ کسی کو کیوں نہیں منتخب کر دیتے، آپ نے فرمایا کہ اگر کسی کو خلیفہ منتخب کرتا ہوں (تو اس کی بھی مثال ہے کہ) اس شخص نے اپنا خلیفہ منتخب کیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ اور اگر میں اسے مسلمانوں کی رائے پر چھوڑتا ہوں تو (اس کی بھی مثال موجود ہے کہ) اس بزرگ نے (خلیفہ کا انتخاب مسلمانوں کے لیے) چھوڑ دیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ پھر لوگوں نے آپ کی تعریف کی، پھر انہوں نے کہا کہ کوئی تو دل سے میری تعریف کرتا ہے کوئی ڈر کر۔ اب میں تو یہی غنیمت سمجھتا ہوں کہ خلافت کی ذمہ داریوں میں اللہ کے ہاں برابر برابر ہی چھوٹ جاؤں، نہ مجھے کچھ ثواب ملے اور نہ کوئی عذاب میں نے خلافت کا بوجھ اپنی زندگی بھر اٹھایا۔ اب مرنے پر میں اس بار کو نہیں اٹھاؤں گا۔

Narrated `Abdullah bin `Umar: It was said to `Umar, "Will you appoint your successor?" `Umar said, "If I appoint a Caliph (as my successor) it is true that somebody who was better than I (i.e., Abu Bakr) did so, and if I leave the matter undecided, it is true that somebody who was better than I (i.e., Allah's Apostle) did so." On this, the people praised him. `Umar said, "People are of two kinds: Either one who is keen to take over the Caliphate or one who is afraid of assuming such a responsibility. I wish I could be free from its responsibility in that I would receive neither reward nor retribution I won't bear the burden of the caliphate in my death as I do in my life."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 325


   صحيح البخاري7218عبد الله بن عمرإن أستخلف فقد استخلف من هو خير مني أبو بكر إن أترك فقد ترك من هو خير مني

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7218  
7218. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سیدنا عمر ؓ سے کہا گیا: آپ کسی کو خلیفہ کیوں نہیں نامزد کردیتے؟ انہوں نے فرمایا: اگر میں کسی کو خلیفہ نامزد کرتا ہوں تو اس شخص نے خلیفہ نامزد کیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے۔ یعنی ابو بکر ؓ اور اگر میں اسے مسلمانوں کی رائے پر چھوڑتا ہوں تو اس بزرگ نے اسے مسلمانوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا جو مجھ سے بہت بہتر تھے، یعنی رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی۔ لوگوں نے اس موقف پر ان کی تعریف کی تو انہوں نے فرمایا: کوئی تو میری دل سے تعریف کرتا ہے اور کوئی ڈرتے ہوئے ایسا کرتا ہے۔ اب تو میں یہی غنیمت سمجھتا ہوں کہ خلافت کی ذمہ داریوں سے برابر برابر نجات پاجاؤں نہ مجھے اس کا کوئی ثواب ملے اور نہ مجھ سے اس کے متعلق کوئی باز پرس ہی ہو، میں نے خلافت کا بوجھ زندگی بھر اٹھایا لیکن مرتے وقت اس بار کو نہیں اٹھاؤں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7218]
حدیث حاشیہ:
سبحان اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی احتیاط انہوں نے جب دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کسی کو خلیفہ نہیں کیا‘ مسلمانوں کی رائے پر چھوڑا اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ کر گئے تو وہ ایسے رستے چلے جس میں دونوں کی پیروی ہو جاتی ہے یعنی کچھ مشورہ پر چھوڑا کچھ مقرر کردیا۔
انہوں نے چھ آدمیوں کو اس وقت افضل اور اعلیٰ تھے‘ معین کیا پھر ان چھ میں سے کسی کی تعیین مسلمانوں کی رائے پر چھوڑدی۔
گویا دونوں سنتوں پر عمل کیا۔
دوسرے تقویٰ شعاری دیکھئے کہ عشرہ مبشرہ میں سے سعید بن زید بھی زندہ تھے مگر ان کا نام تک نہ لیا‘ اس خیال سے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کچھ رشتہ رکھتے تھے۔
ہائے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرح مسلمانوں میں کون بے نفس اور عادل مصنف پیدا ہوا ہے۔
ان کا ایک ایک کام ایسا ہے جو ان کی فضیلت پہچاننے کے لیے کافی ہے اور افسوس ہے ان عقل کے اندھوں پر جو ایسے فرد فرید کو جسکا نظیر اسلام میں نہیں ہوا برا جانتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7218   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7218  
7218. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سیدنا عمر ؓ سے کہا گیا: آپ کسی کو خلیفہ کیوں نہیں نامزد کردیتے؟ انہوں نے فرمایا: اگر میں کسی کو خلیفہ نامزد کرتا ہوں تو اس شخص نے خلیفہ نامزد کیا تھا جو مجھ سے بہتر تھے۔ یعنی ابو بکر ؓ اور اگر میں اسے مسلمانوں کی رائے پر چھوڑتا ہوں تو اس بزرگ نے اسے مسلمانوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا جو مجھ سے بہت بہتر تھے، یعنی رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی۔ لوگوں نے اس موقف پر ان کی تعریف کی تو انہوں نے فرمایا: کوئی تو میری دل سے تعریف کرتا ہے اور کوئی ڈرتے ہوئے ایسا کرتا ہے۔ اب تو میں یہی غنیمت سمجھتا ہوں کہ خلافت کی ذمہ داریوں سے برابر برابر نجات پاجاؤں نہ مجھے اس کا کوئی ثواب ملے اور نہ مجھ سے اس کے متعلق کوئی باز پرس ہی ہو، میں نے خلافت کا بوجھ زندگی بھر اٹھایا لیکن مرتے وقت اس بار کو نہیں اٹھاؤں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7218]
حدیث حاشیہ:

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کے سلسلے میں انتہائی محتاط طریقہ اختیار فرمایا۔
انھوں نے جب دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا بلکہ مسلمانوں کی صوابدید پر اسے چھوڑ دیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نامزدگی کی تھی تو انھوں نے ایک ایسا راستہ اختیار کیا جس میں دونوں حضرات کی پیروی تھی۔
کچھ لوگوں کے مشورے پر چھوڑدیا اور کچھ نامزدگی کر دی۔
انھوں نے چھ آدمیوں کی کمیٹی بنادی جو اس وقت تمام مسلمانوں سے افضل تھے، پھر ان چھ میں کسی کا تعین مسلمانوں کی صوابدید پر چھوڑدیا۔

بہرحال خلافت کے سلسلے میں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں حضرات کے طریقے کو اختیار فرمایا۔
۔
۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
۔
۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7218   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.