الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
The Book of Holding Fast To The Qur’An and The Sunna
3. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ كَثْرَةِ السُّؤَالِ وَتَكَلُّفِ مَا لاَ يَعْنِيهِ:
3. باب: بےفائدہ بہت سوالات کرنا منع ہے۔
(3) Chapter. What is disliked of asking too many questions and of troubling oneself with what does not concern one.
حدیث نمبر: 7297
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد بن ميمون، حدثنا عيسى بن يونس، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن ابن مسعود رضي الله عنه، قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في حرث بالمدينة" وهو يتوكا على عسيب، فمر بنفر من اليهود، فقال بعضهم: سلوه عن الروح، وقال بعضهم: لا تسالوه لا يسمعكم ما تكرهون، فقاموا إليه، فقالوا: يا ابا القاسم، حدثنا عن الروح، فقام ساعة ينظر، فعرفت انه يوحى إليه، فتاخرت عنه حتى صعد الوحي، ثم قال: ويسالونك عن الروح قل الروح من امر ربي سورة الإسراء آية 85".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرْثٍ بِالْمَدِينَةِ" وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ، فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنْ الْيَهُودِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَسْأَلُوهُ لَا يُسْمِعُكُمْ مَا تَكْرَهُونَ، فَقَامُوا إِلَيْهِ، فَقَالُوا: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، حَدِّثْنَا عَنِ الرُّوحِ، فَقَامَ سَاعَةً يَنْظُرُ، فَعَرَفْت أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، فَتَأَخَّرْتُ عَنْهُ حَتَّى صَعِدَ الْوَحْيُ، ثُمَّ قَالَ: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي سورة الإسراء آية 85".
ہم سے محمد بن عبید بن میمون نے بیان کیا، کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے، ان سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے ایک کھیت میں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی ایک شاخ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ یہودی ادھر سے گزرے تو ان میں سے بعض نے کہا کہ ان سے روح کے بارے میں پوچھو۔ لیکن دوسروں نے کہا کہ ان سے نہ پوچھو۔ کہیں ایسی بات نہ سنا دیں جو تمہیں ناپسند ہے۔ آخر آپ کے پاس وہ لوگ آئے اور کہا: ابوالقاسم! روح کے بارے میں ہمیں بتائیے؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کھڑے دیکھتے رہے میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ میں تھوڑی دور ہٹ گیا، یہاں تک کہ وحی کا نزول پورا ہو گیا، پھر آپ نے یہ آیت «ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي‏» پڑھی اور آپ روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہئے کہ روح میرے رب کے حکم میں سے ہے۔

Narrated Ibn Masud: I was with the Prophet at one of the farms of Medina while he was leaning on a date palm leaf-stalk. He passed by a group of Jews and some of them said to the other, Ask him (the Prophet) about the spirit. Some others said, "Do not ask him, lest he should tell you what you dislike" But they went up to him and said, "O Abal Qasim! Inform us bout the spirit." The Prophet stood up for a while, waiting. I realized that he was being Divinely Inspired, so I kept away from him till the inspiration was over. Then the Prophet said, "(O Muhammad) they ask you regarding the spirit, Say: The spirit its knowledge is with my Lord (i.e., nobody has its knowledge except Allah)" (17.85) (This is a miracle of the Qur'an that all the scientists up till now do not know about the spirit, i.e, how life comes to a body and how it goes away at its death) (See Hadith No. 245, Vol. 6)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 400


   صحيح البخاري7297عبد الله بن مسعودمر بنفر من اليهود قال بعضهم سلوه عن الروح وقال بعضهم لا تسألوه لا يسمعكم ما تكرهون فقاموا إليه فقالوا يا أبا القاسم حدثنا عن الروح فقام ساعة ينظر فعرفت أنه يوحى إليه فتأخرت عنه حتى صعد الوحي ثم قال ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي
   صحيح البخاري4721عبد الله بن مسعودمر اليهود قال بعضهم لبعض سلوه عن الروح قال ما رأيكم إليه وقال بعضهم لا يستقبلكم بشيء تكرهونه فقالوا سلوه فسألوه عن الروح فأمسك النبي فلم يرد عليهم شيئا فعلمت أنه يوحى إليه فقمت مقامي فلما نزل الوحي قال ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر
   صحيح البخاري7456عبد الله بن مسعودمر بقوم من اليهود قال بعضهم لبعض سلوه عن الروح وقال بعضهم لا تسألوه عن الروح فسألوه فقام متوكئا على العسيب وأنا خلفه فظننت أنه يوحى إليه قال ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا
   صحيح البخاري7462عبد الله بن مسعودمررنا على نفر من اليهود قال بعضهم لبعض سلوه عن الروح قال بعضهم لا تسألوه أن يجيء فيه بشيء تكرهونه قال بعضهم لنسألنه فقام إليه رجل منهم قال يا أبا القاسم ما الروح فسكت عنه النبي فعلمت أنه يوحى إليه قال ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ر
   صحيح البخاري125عبد الله بن مسعودمر بنفر من اليهود قال بعضهم لبعض سلوه عن الروح وقال بعضهم لا تسألوه لا يجيء فيه بشيء تكرهونه قال بعضهم لنسألنه فقام رجل منهم قال يا أبا القاسم ما الروح فسكت فقلت إنه يوحى إليه فقمت فلما انجلى عنه قال ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي وما أوتيتم من الع
   صحيح مسلم7059عبد الله بن مسعودمر بنفر من اليهود قال بعضهم لبعض سلوه عن الروح فقالوا ما رابكم إليه لا يستقبلكم بشيء تكرهونه فقالوا سلوه فقام إليه بعضهم فسأله عن الروح قال فأسكت النبي فلم يرد عليه شيئا فعلمت أنه يوحى إليه قال فقمت مكاني فلما نزل الوحي قال ويسألونك عن
   جامع الترمذي3141عبد الله بن مسعودمر بنفر من اليهود قال بعضهم لو سألتموه قال بعضهم لا تسألوه فإنه يسمعكم ما تكرهون فقالوا له يا أبا القاسم حدثنا عن الروح فقام النبي ساعة ورفع رأسه إلى السماء فعرفت أنه يوحى إليه حتى صعد الوحي ثم قال الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إ
   المعجم الصغير للطبراني58عبد الله بن مسعود ما الروح ؟ ، فأنزل الله عز وجل ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي سورة الإسراء آية 85

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 125  
´اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تشریح میں کہ تمہیں تھوڑا علم دیا گیا ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَرِبِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ مَعَهُ، فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنْ الْيَهُودِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَسْأَلُوهُ، لَا يَجِيءُ فِيهِ بِشَيْءٍ تَكْرَهُونَهُ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَنَسْأَلَنَّهُ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَالَ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، مَا الرُّوحُ؟ فَسَكَتَ، فَقُلْتُ: إِنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، فَقُمْتُ، فَلَمَّا انْجَلَى عَنْهُ، قَالَ: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا . . .»
. . . عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے کھنڈرات میں چل رہا تھا اور آپ کھجور کی چھڑی پر سہارا دے کر چل رہے تھے، تو کچھ یہودیوں کا (ادھر سے) گزر ہوا، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ آپ سے روح کے بارے میں کچھ پوچھو، ان میں سے کسی نے کہا مت پوچھو، ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو تمہیں ناگوار ہو (مگر) ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم ضرور پوچھیں گے، پھر ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا، اے ابوالقاسم! روح کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی، میں نے (دل میں) کہا کہ آپ پر وحی آ رہی ہے۔ اس لیے میں کھڑا ہو گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (وہ کیفیت) دور ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (قرآن کی یہ آیت جو اس وقت نازل ہوئی تھی) تلاوت فرمائی (اے نبی!) تم سے یہ لوگ روح کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اور تمہیں علم کا بہت تھوڑا حصہ دیا گیا ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً: 125]

تشریح:
چونکہ توارۃ میں بھی روح کے متعلق یہ ہی بیان کیا گیا کہ وہ خدا کی طرف سے ایک چیز ہے، اس لیے یہودی معلوم کرنا چاہتے تھے کہ ان کی تعلیم بھی توراۃ کے مطابق ہے یا نہیں؟ یا روح کے سلسلہ میں یہ بھی ملاحدہ وفلاسفہ کی طرح دور از کار باتیں کہتے ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال آپ سے مکہ شریف میں بھی کیا گیا تھا، پھر مدینہ کے یہودی نے بھی اسے دہرایا۔ اہل سنت کے نزدیک روح جسم لطیف ہے جو بدن میں اسی طرح سرایت کئے ہوئے ہے، جس طرح گلاب کی خوشبو اس کے پھول میں سرایت کئے ہوتی ہے۔ روح کے بارے میں ستر اقوال ہیں۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے کتاب الروح میں ان پر خوب روشنی ڈالی ہے۔ واقعہ یہی ہے کہ روح خالص ایک لطیف شئے ہے، اس لیے ہم اپنی موجودہ زندگی میں جو کثافت سے بھرپور ہے کسی طرح روح کی حقیقت سے واقف نہیں ہو سکتے، اکابر اہل سنت کی یہی رائے ہے کہ ادب کا تقاضا یہی ہے کہ روح کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے، بعض علماء کی رائے ہے کہ «من امر ربي» سے مراد روح کا عالم امر سے ہونا ہے جو عالم ملکوت ہے، جمہور کا اتفاق ہے کہ روح حادث ہے جس طرح دوسرے تمام اجزا حادث ہیں۔ حضرت امام قدس سرہ کا منشائے باب یہ ہے کہ کوئی شخص کتنا ہی بڑا عالم فاضل محدث مفسر بن جائے مگر پھر بھی انسانی معلومات کا سلسلہ بہت محدود ہے اور کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ وہ جملہ علوم پر حاوی ہو چکا ہے۔ «الا من شاءالله»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 125   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7297  
7297. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک مرتبہ نبی ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ کے کسی کھیت میں تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ کھجور کی ایک شاخ کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ اس دوران میں آپ یہودیوں کے گروہ کے پاس سے گزرے تو ان میں سے کسی نے کہا: ان سے روح کے متعلق سوال کرو؟ لیکن دوسروں نے کہا: ان سے کچھ نہ پوچھو، ایسا نہ ہو کہ وہ ایسی بات سنا دیں جو تمہیں ناگوار ہو۔ آخر وہ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے ابو القاسم! ہمیں روح کے متعلق بتائیں۔ آپ ﷺ تھوڑی دیر کھڑے دیکھتے رہے۔ میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ میں تھوڑی دور ہٹ گیا یہاں تک کہ وحی کا نزول پورا ہوگیا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں۔آپ فر دیں کہ روح میرے رب کا امر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7297]
حدیث حاشیہ:
ان یہودیوں نے آپس میں یہ صلاح کی تھی کہ ان سے روح کا پوچھو۔
اگر یہ روح کی کچھ حقیقت بیان کریں جب تو سمجھ جائیں گے کہ یہ حکیم ہیں‘ پیغمبر نہیں ہیں۔
چونکہ کسی پیغمبر نے روح کی حقیقت بیان نہیں کی۔
اگر یہ بھی بیان نہ کریں تو معلوم ہوگا کہ پیغمبر ہیں۔
اس پر بعضوں نے کہا نہ پوچھو‘ اس لیے کہ اگر انہوں نے بھی روح کی حقیقت بیان نہیں کی تو ان کی پیغمبری کا ایک اور ثبوت پیدا ہوگا اور تم کو نا گوار گزرے گا۔
روح کی حقیقت میں آدم علیہ السلام سے لے کر تا ایں دم ہزارہا حکیموں نے غور کیا اور اب تک اس کی حقیقت معلوم نہیں ہوئی۔
اب امریکہ کے حکیم روح کے پیچھے پڑے ہیں لیکن ان کو بھی اب تک پوری حقیقت دریافت نہ ہو سکی‘ پر اتنا تو معلوم ہو گیا کہ بیشک روح ایک جوہر ہے جس کی صورت ذی روح کی صورت کی سی ہوتی ہے۔
مثلاً آدمی کی روح اس کی صورت پر‘ کتے کی روح اس کی صورت پر اور یہ جو ہر ایک لفطیف جوہر ہے جس کا ہر جزو جسم حیوانی کے ہر جز میں سما جاتا ہے اور بوجہ شدت لطافت کے اس کو نہ پکڑ سکتے ہیں نہ بند کر سکتے ہیں۔
روح کی لطافت اس درجہ ہے کہ شیشہ میں سے بھی پار ہو جاتی ہے حالانکہ ہوا اور پانی دوسرے اجسام لطیفہ اس میں سے نہیں نکل سکتے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے۔
اس نے روح کو اپنی ذات مقدس کا ایک نمونہ اس دنیا میں رکھا ہے تا کہ جو لوگ صرف محسوسات کو مانتے ہیں وہ روح پر غور کر کے مجردات یعنی جنوں اور فرشتوں اور پروردگار کا بھی مانیں کیونکہ روح کے وجود سے انکار کرنا یہ ممکن نہیں ہو سکتا ہے۔
ہر آدمی جانتا ہے کہ ساٹھ برس ادھر میں فلانے ملک میں گیا تھا میں نے یہ یہ کام کئے تھے حالانکہ اس ساٹھ برس میں اس کا بدل کئی بار بدل گیا۔
یہاں تک کہ اس کا کوئی جزو قائم نہیں رہا‘ پھر وہ چیز کیا ہے جو نہیں بدلی اور جس پر میں کا اطلاق ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آدمیوں کا عجز دکھانے کے لیے روح کی حقیقت پوشیدہ کر دی۔
پیغمبروں کو اتنا ہی بتلایا گیا کہ وہ پروردگار کا امر یعنی حکم ہے۔
مثلاً ایک آدمی کہیں کا حاکم ہوا تعلق دار یا تحصیلدار ڈپٹی کلکٹر پر اس کی موقوفی کا حکم بادشاہ پاس سے صادر ہو جائے۔
دیکھو وہ شخص وہی رہتا ہے جو پہلے تھا اس کی کوئی چیز نہیں بدلتی لیکن موقوفی کے بعد اس کو تعلقدار یا تحصیلدار یا ڈپٹی کلکٹر نہیں کہتے۔
آخر کیا چیز اس میں سے جاتی رہی‘ وہی حکم بادشاہ کا جاتا رہا۔
اسی طرح روح بھی پروردگار کا ایک حکم ہے یعنی حیوۃ کی صفت کا ظہور ہے۔
جہاں یہ حکم اٹھ گیا‘ حیوان مر گیا اس کا جسم وغیرہ سب ویسا ہی رہتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7297   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7297  
7297. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک مرتبہ نبی ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ کے کسی کھیت میں تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ کھجور کی ایک شاخ کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ اس دوران میں آپ یہودیوں کے گروہ کے پاس سے گزرے تو ان میں سے کسی نے کہا: ان سے روح کے متعلق سوال کرو؟ لیکن دوسروں نے کہا: ان سے کچھ نہ پوچھو، ایسا نہ ہو کہ وہ ایسی بات سنا دیں جو تمہیں ناگوار ہو۔ آخر وہ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے ابو القاسم! ہمیں روح کے متعلق بتائیں۔ آپ ﷺ تھوڑی دیر کھڑے دیکھتے رہے۔ میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ میں تھوڑی دور ہٹ گیا یہاں تک کہ وحی کا نزول پورا ہوگیا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں۔آپ فر دیں کہ روح میرے رب کا امر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7297]
حدیث حاشیہ:

یہودیوں نے باہمی مشورے سے یہ بات طے کی کہ نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وسلم)
سے روح کے متعلق سوال کیا جائے، اگرروح کی حقیقت بیا ن کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دانشور اور حکیم ہیں پیغمبر نہیں ہیں کیونکہ کسی پیغمبر نے روح کی حقیقت بیان نہیں کی۔
اگر روح کی حقیقت بیان نہ کریں تو پیغمبر ہیں۔
کچھ یہودیوں نے کہا:
ان سے یہ سوال نہ کیا جائے کیونکہ اگر انھوں نےروح کی حقیقت بیان نہ کی تو یہ ان کے رسول ہونے کا ایک اور ثبوت مل جائے گا جو تمھیں ناگوار گزرے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس روح کی ماہیت کا علم کسی کو نہیں ہو سکا۔
مغربی دانشور اس کے متعلق تحقیق کر رہے ہیں لیکن ابھی تک انھیں کوئی سراہا ہاتھ نہیں آسکا، بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ علم کسی کو نہیں ہو سکا۔
مغربی دانشور اس کے متعلق تحقیق کر رہے ہیں لیکن ابھی تک انھیں کوئی سراہا ہاتھ نہیں آسکا، بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ روح ایک ایسا لطف جوہر ہے جوذی روح کی شکل وصورت جیسا ہوتا ہے اور اس کا ہر جز جسم حیوانی کے ہرجز میں سما جاتا ہے۔
بہرحال یہ اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا راز ہے جس پر کوئی بھی مطلع نہیں ہو سکتا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
کہہ دیجئے!روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمھیں تو بس تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔
(بني إسرائیل: 85)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اس قسم کے سوالات محض تکلفات ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ انسان کی عملی زندگی ہی سے اس کا کوئی تعلق ہے، اس لیے ایسے سوالات پوچھنے سے بچنا چاہیے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7297   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.