الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
The Book of Holding Fast To The Qur’An and The Sunna
3. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ كَثْرَةِ السُّؤَالِ وَتَكَلُّفِ مَا لاَ يَعْنِيهِ:
3. باب: بےفائدہ بہت سوالات کرنا منع ہے۔
(3) Chapter. What is disliked of asking too many questions and of troubling oneself with what does not concern one.
حدیث نمبر: 7294
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري. ح وحدثني محمود، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، اخبرني انس بن مالك رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم" خرج حين زاغت الشمس، فصلى الظهر فلما سلم قام على المنبر، فذكر الساعة وذكر ان بين يديها امورا عظاما، ثم قال: من احب ان يسال عن شيء، فليسال عنه، فوالله لا تسالوني عن شيء إلا اخبرتكم به ما دمت في مقامي هذا، قال انس: فاكثر الناس البكاء، واكثر رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يقول: سلوني، فقال انس: فقام إليه رجل، فقال: اين مدخلي يا رسول الله؟، قال: النار، فقام عبد الله بن حذافة، فقال: من ابي يا رسول الله؟، قال: ابوك حذافة، قال: ثم اكثر ان يقول: سلوني سلوني، فبرك عمر على ركبتيه، فقال: رضينا بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد صلى الله عليه وسلم رسولا، قال: فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قال عمر ذلك، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: والذي نفسي بيده لقد عرضت علي الجنة والنار آنفا في عرض هذا الحائط وانا اصلي فلم ار كاليوم في الخير والشر".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ. ح وحَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" خَرَجَ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ، فَصَلَّى الظُّهْرَ فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَذَكَرَ السَّاعَةَ وَذَكَرَ أَنَّ بَيْنَ يَدَيْهَا أُمُورًا عِظَامًا، ثُمَّ قَالَ: مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ عَنْ شَيْءٍ، فَلْيَسْأَلْ عَنْهُ، فَوَاللَّهِ لَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَخْبَرْتُكُمْ بِهِ مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هَذَا، قَالَ أَنَسٌ: فَأَكْثَرَ النَّاسُ الْبُكَاءَ، وَأَكْثَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقُولَ: سَلُونِي، فَقَالَ أَنَسٌ: فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ، فَقَالَ: أَيْنَ مَدْخَلِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: النَّارُ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، قَالَ: ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ: سَلُونِي سَلُونِي، فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا، قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَالَ عُمَرُ ذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا فِي عُرْضِ هَذَا الْحَائِطِ وَأَنَا أُصَلِّي فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھ سے محمود نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے کہا مجھ کو انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھلنے کے بعد باہر تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھی، پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا کہ اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات ہوں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص کسی چیز کے متعلق سوال کرنا چاہے تو سوال کرے۔ آج مجھ سے جو سوال بھی کرو گے میں اس کا جواب دوں گا جب تک میں اپنی اس جگہ پر ہوں۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس پر لوگ بہت زیادہ رونے لگے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باربار وہی فرماتے تھے کہ مجھ سے پوچھو۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر کوئی شخص کھڑا ہوا اور پوچھا، میری جگہ کہاں ہے۔ (جنت یا جہنم میں) یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ جہنم میں۔ پھر عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا میرے والد کون ہیں یا رسول اللہ؟ فرمایا کہ تمہارے والد حذافہ ہیں۔ بیان کیا کہ پھر آپ مسلسل کہتے رہے کہ مجھ سے پوچھو، مجھ سے پوچھو، آخر میں عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کہا: ہم اللہ سے رب کی حیثیت سے، اسلام سے دین کی حیثیت سے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے رسول کی حیثیت سے راضی و خوش ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات کہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کی ہاتھ میں میری جان ہے، ابھی مجھ پر جنت اور دوزخ اس دیوار کی چوڑائی میں میرے سامنے کی گئی تھی (یعنی ان کی تصویریں) جب میں نماز پڑھ رہا تھا، آج کی طرح میں نے خیر و شر کو نہیں دیکھا۔

Narrated Anas bin Malik: The Prophet came out after the sun had declined and offered the Zuhr prayer (in congregation). After finishing it with Taslim, he stood on the pulpit and mentioned the Hour and mentioned there would happen great events before it. Then he said, "Whoever wants to ask me any question, may do so, for by Allah, you will not ask me about anything but I will inform you of its answer as long as I am at this place of mine." On this, the Ansar wept violently, and Allah's Apostle kept on saying, "Ask Me! " Then a man got up and asked, ''Where will my entrance be, O Allah's Apostle?" The Prophet said, "(You will go to) the Fire." Then `Abdullah bin Hudhaifa got up and asked, "Who is my father, O Allah's Apostle?" The Prophet replied, "Your father is Hudhaifa." The Prophet then kept on saying (angrily), "Ask me! Ask me!" `Umar then knelt on his knees and said, "We have accepted Allah as our Lord and Islam as our religion and Muhammad as an Apostle." Allah's Apostle became quiet when `Umar said that. Then Allah's Apostle said, "By Him in Whose Hand my life is, Paradise and Hell were displayed before me across this wall while I was praying, and I never saw such good and evil as I have seen today."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 397


   صحيح البخاري6362أنس بن مالكلا تسألوني اليوم عن شيء إلا بينته لكم فجعلت أنظر يمينا وشمالا فإذا كل رجل لاف رأسه في ثوبه يبكي فإذا رجل كان إذا لاحى الرجال يدعى لغير أبيه فقال يا رسول الله من أبي قال حذافة ثم أنشأ عمر فقال رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا و بمحمد رسولا
   صحيح البخاري7295أنس بن مالكأبوك فلان ونزلت يأيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء
   صحيح البخاري7294أنس بن مالكمن أحب أن يسأل عن شيء فليسأل عنه فوالله لا تسألوني عن شيء إلا أخبرتكم به ما دمت في مقامي هذا قال أنس فأكثر الناس البكاء وأكثر رسول الله أن يقول سلوني فقال أنس فقام إليه رجل فقال أين مدخلي يا رسول الله قال النار فقام عبد الله
   صحيح البخاري7089أنس بن مالكلا تسألوني عن شيء إلا بينت لكم فجعلت أنظر يمينا وشمالا فإذا كل رجل لاف رأسه في ثوبه يبكي فأنشأ رجل كان إذا لاحى يدعى إلى غير أبيه فقال يا نبي الله من أبي فقال أبوك حذافة ثم أنشأ عمر فقال رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا نعوذ بالله من سوء الفتن
   صحيح البخاري93أنس بن مالكأبوك حذافة ثم أكثر أن يقول سلوني فبرك عمر على ركبتيه فقال رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا فسكت
   صحيح مسلم6120أنس بن مالكأبوك فلان ونزلت يأيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم
   صحيح مسلم6121أنس بن مالكخرج حين زاغت الشمس فصلى لهم صلاة الظهر ذكر الساعة وذكر أن قبلها أمورا عظاما من أحب أن يسألني عن شيء فليسألني عنه فوالله لا تسألونني عن شيء إلا أخبرتكم به ما دمت في مقامي هذا قال أنس بن مالك فأكثر الناس البكاء حين سمعوا
   جامع الترمذي3056أنس بن مالكأبوك فلان فنزلت يأيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 93  
´شاگرد کو استاد کا ادب ہمہ وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي؟ فَقَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي، فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيًّا"، فَسَكَتَ . . .»
. . . (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے تو عبداللہ بن حذافہ کھڑے ہو کر پوچھنے لگے کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حذافہ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باربار فرمایا کہ مجھ سے پوچھو، تو عمر رضی اللہ عنہ نے دو زانو ہو کر عرض کیا کہ ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں (اور یہ جملہ) تین مرتبہ (دہرایا) پھر (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 93]

تشریح:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عرض کرنے کی منشا یہ تھی کہ اللہ کو رب، اسلام کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مان کر اب ہمیں مزید کچھ سوالات پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ لوگ عبداللہ بن حذافہ کو کسی اور کا بیٹا کہا کرتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے آپ سے اپنی تشفی حاصل کر لی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دو زانو ہو کر بیٹھنے سے ترجمہ باب نکلا اور ثابت ہوا کہ شاگرد کو استاد کا ادب ہمہ وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ باادب بانصیب بے ادب بے نصیب، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مؤدبانہ بیان سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ جاتا رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 93   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3056  
´سورۃ المائدہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میرا باپ کون ہے ۱؎ آپ نے فرمایا: تمہارا باپ فلاں ہے، راوی کہتے ہیں: پھر یہ آیت نازل ہوئی: «يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم» اے ایمان والو! ایسی چیزیں مت پوچھا کرو کہ اگر وہ بیان کر دی جائیں تو تم کو برا لگے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3056]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ عبداللہ بن حذافہ سہمی ہیں،
سوال اس لیے کرنا پڑا کہ لوگ انہیں غیر باپ کی طرف منسوب کر رہے تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3056   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.