الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
The Book of Holding Fast To The Qur’An and The Sunna
3. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ كَثْرَةِ السُّؤَالِ وَتَكَلُّفِ مَا لاَ يَعْنِيهِ:
3. باب: بےفائدہ بہت سوالات کرنا منع ہے۔
(3) Chapter. What is disliked of asking too many questions and of troubling oneself with what does not concern one.
حدیث نمبر: 7295
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الرحيم، اخبرنا روح بن عبادة، حدثنا شعبة، اخبرني موسى بن انس، قال: سمعت انس بن مالك، قال: قال رجل:" يا نبي الله، من ابي؟، قال: ابوك فلان، ونزلت: يايها الذين آمنوا لا تسالوا عن اشياء سورة المائدة آية 101.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ أَنَسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ:" يَا نَبِيَّ اللَّهِ، مَنْ أَبِي؟، قَالَ: أَبُوكَ فُلَانٌ، وَنَزَلَتْ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ سورة المائدة آية 101.
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم کو روح بن عبادہ نے خبر دی، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا مجھ کو موسیٰ بن انس نے خبر دی کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ایک صاحب نے کہا: یا نبی اللہ! میرے والد کون ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے والد فلاں ہیں۔ اور یہ آیت نازل ہوئی «يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء‏» اے لوگو! ایسی چیزیں نہ پوچھو۔ الآیہ۔

Narrated Anas bin Malik: A man said, "O Allah's Prophet! Who is my father?" The Prophet said, "Your father is so-and-so." And then the Divine Verse:-- 'O you who believe! Ask not questions about things..(5.101)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 398


   صحيح البخاري6362أنس بن مالكلا تسألوني اليوم عن شيء إلا بينته لكم فجعلت أنظر يمينا وشمالا فإذا كل رجل لاف رأسه في ثوبه يبكي فإذا رجل كان إذا لاحى الرجال يدعى لغير أبيه فقال يا رسول الله من أبي قال حذافة ثم أنشأ عمر فقال رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا و بمحمد رسولا
   صحيح البخاري7295أنس بن مالكأبوك فلان ونزلت يأيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء
   صحيح البخاري7294أنس بن مالكمن أحب أن يسأل عن شيء فليسأل عنه فوالله لا تسألوني عن شيء إلا أخبرتكم به ما دمت في مقامي هذا قال أنس فأكثر الناس البكاء وأكثر رسول الله أن يقول سلوني فقال أنس فقام إليه رجل فقال أين مدخلي يا رسول الله قال النار فقام عبد الله
   صحيح البخاري7089أنس بن مالكلا تسألوني عن شيء إلا بينت لكم فجعلت أنظر يمينا وشمالا فإذا كل رجل لاف رأسه في ثوبه يبكي فأنشأ رجل كان إذا لاحى يدعى إلى غير أبيه فقال يا نبي الله من أبي فقال أبوك حذافة ثم أنشأ عمر فقال رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا نعوذ بالله من سوء الفتن
   صحيح البخاري93أنس بن مالكأبوك حذافة ثم أكثر أن يقول سلوني فبرك عمر على ركبتيه فقال رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا فسكت
   صحيح مسلم6120أنس بن مالكأبوك فلان ونزلت يأيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم
   صحيح مسلم6121أنس بن مالكخرج حين زاغت الشمس فصلى لهم صلاة الظهر ذكر الساعة وذكر أن قبلها أمورا عظاما من أحب أن يسألني عن شيء فليسألني عنه فوالله لا تسألونني عن شيء إلا أخبرتكم به ما دمت في مقامي هذا قال أنس بن مالك فأكثر الناس البكاء حين سمعوا
   جامع الترمذي3056أنس بن مالكأبوك فلان فنزلت يأيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 93  
´شاگرد کو استاد کا ادب ہمہ وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي؟ فَقَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي، فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيًّا"، فَسَكَتَ . . .»
. . . (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے تو عبداللہ بن حذافہ کھڑے ہو کر پوچھنے لگے کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حذافہ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باربار فرمایا کہ مجھ سے پوچھو، تو عمر رضی اللہ عنہ نے دو زانو ہو کر عرض کیا کہ ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں (اور یہ جملہ) تین مرتبہ (دہرایا) پھر (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 93]

تشریح:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عرض کرنے کی منشا یہ تھی کہ اللہ کو رب، اسلام کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مان کر اب ہمیں مزید کچھ سوالات پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ لوگ عبداللہ بن حذافہ کو کسی اور کا بیٹا کہا کرتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے آپ سے اپنی تشفی حاصل کر لی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دو زانو ہو کر بیٹھنے سے ترجمہ باب نکلا اور ثابت ہوا کہ شاگرد کو استاد کا ادب ہمہ وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ باادب بانصیب بے ادب بے نصیب، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مؤدبانہ بیان سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ جاتا رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 93   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7295  
7295. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے نبی! میرا باپ کون ہے؟ فرمایا: تیرا باپ فلاں ہے۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی: اے ایمان والو! ایسی اشیاء کے متعلق مت سوال کرو (اگر انہیں ظاہر کر دیا جائے تو تمہیں برا لگے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7295]
حدیث حاشیہ:
خدا نخواستہ کسی کا باپ صحیح نہ ہو اور آپ پوچھنے پر اس حقیقت کو ظاہر کر دیں تو پوچھنے والے کی کتنی رسوائی ہو سکتی ہے۔
اس لیے احتیاطاً بیجا سوال کرنے سے منع کیا گیا۔
آپ کو اللہ پاک وحی کے ذریعہ سے آگاہ کر دیتا تھا۔
یہ کوئی غیب دانی کی بات نہیں بلکہ محض اللہ کا عطیہ ہے جو وہ اپنے رسولوں نبیوں کو بخشتا ہے (قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّـٰهُ ۚ الخ)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7295   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3056  
´سورۃ المائدہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میرا باپ کون ہے ۱؎ آپ نے فرمایا: تمہارا باپ فلاں ہے، راوی کہتے ہیں: پھر یہ آیت نازل ہوئی: «يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم» اے ایمان والو! ایسی چیزیں مت پوچھا کرو کہ اگر وہ بیان کر دی جائیں تو تم کو برا لگے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3056]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ عبداللہ بن حذافہ سہمی ہیں،
سوال اس لیے کرنا پڑا کہ لوگ انہیں غیر باپ کی طرف منسوب کر رہے تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3056   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7295  
7295. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے نبی! میرا باپ کون ہے؟ فرمایا: تیرا باپ فلاں ہے۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی: اے ایمان والو! ایسی اشیاء کے متعلق مت سوال کرو (اگر انہیں ظاہر کر دیا جائے تو تمہیں برا لگے)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7295]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث ذکر کی ہیں، ان کے پیش نظر تین مقاصد ہیں:
۔
کثرت سوالات کی ممانعت بیان کرنا۔
۔
لا یعنی اور بے فائدہ تکلفات سے بچنا۔
۔
سورۃ المائدۃ کی آیت: 101 کا پس منظر بیان کرنا۔
ان دونوں احادیث میں آیت کریمہ کا پس منظر بیان کیا گیا ہے۔
جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ٹھکانے کے متعلق سوال کیا تھا وہ منافقین میں سے تھا۔
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے ہولناک واقعات کے رونما ہونے کا ذکر کیا تھا، اس لیے انصار پر خوف طاری ہوا اور وہ بہت روئے۔

حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوال کو بھی اچھا خیال نہیں کیا گیا کیونکہ خدانخواستہ اگر کسی کا باپ صحیح نہ ہو اور سوال کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حقیقت کو ظاہر کر دیں تو سوال کرنے والے کی کس قدر رسوائی ہوتی، اس لیے بے جا قسم کے سوالات پوچھنے سے منع کر دیا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب دان نہیں تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کےذریعے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا جاتا تھا۔
دعوائے غیب دانی کی نفی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7295   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.