الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: علم کے بیان میں
The Book of Knowledge
15. بَابُ الاِغْتِبَاطِ فِي الْعِلْمِ وَالْحِكْمَةِ:
15. باب: علم و حکمت میں رشک کرنے کے بیان میں۔
(15) Chapter. Wish to be like the one who has knowledge and Al-Hikmah [wisdom i.e., the knowledge of the Quran and the Sunna (legal ways) of the Prophet ﷺ].
حدیث نمبر: Q73
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال عمر تفقهوا قبل ان تسودوا.وَقَالَ عُمَرُ تَفَقَّهُوا قَبْلَ أَنْ تُسَوَّدُوا.
‏‏‏‏ اور عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ سردار بننے سے پہلے سمجھدار بنو (یعنی دین کا علم حاصل کرو) اور ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ سردار بنائے جانے کے بعد بھی علم حاصل کرو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے بڑھاپے میں بھی دین سیکھا۔


Aur Umar Radhiallahu Anhu ka irshaad hai ke sardaar banne se pehle samajhdaar bano (yani deen ka ilm haasil karo) aur Abu Abdullah (Imam Bukhari Rahimahullah) farmaate hain ke sardaar banaaye jaane ke baad bhi ilm haasil karo, kiunki Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ke ashaab Radhiallahu Anhum ne budhaape mein bhi deen seekha.

حدیث نمبر: 73
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا الحميدي، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثني إسماعيل بن ابي خالد على غير ما حدثناه الزهري، قال: سمعت قيس بن ابي حازم، قال: سمعت عبد الله بن مسعود، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا حسد إلا في اثنتين، رجل آتاه الله مالا فسلط على هلكته في الحق، ورجل آتاه الله الحكمة فهو يقضي بها ويعلمها".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ عَلَى غَيْرِ مَا حَدَّثَنَاهُ الزُّهْرِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ، رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا".
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے دوسرے لفظوں میں بیان کیا، ان لفظوں کے علاوہ جو زہری نے ہم سے بیان کئے، وہ کہتے ہیں میں نے قیس بن ابی حازم سے سنا، انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت (کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور (لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو۔


Hum se Humaidi ne bayan kiya, un se Sufyan ne, un se Ismail bin Abi Khalid ne doosre lafzon mein bayan kiya, un lafzon ke alawah jo Zohri ne hum se bayan kiye, woh kehte hain main ne Qais bin Abi Haazim se suna, unhon ne Abdullah bin Mas’ood Radhiallahu Anhu se suna, woh kehte hain ke Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ka irshaad hai ke hasad sirf do baaton mein jaaiz hai. Ek to us shakhs ke baare mein jise Allah ne daulat di ho aur woh us daulat ko raah-e-haq mein kharch karne par bhi qudrat rakhta ho aur ek us shakhs ke baare mein jise Allah ne hikmat (ki daulat) se nawaaza ho aur woh us ke zariye se faisla karta ho aur (logon ko) us hikmat ki ta’leem deta ho.

Narrated `Abdullah bin Mas`ud: The Prophet said, "Do not wish to be like anyone except in two cases. (The first is) A person, whom Allah has given wealth and he spends it righteously; (the second is) the one whom Allah has given wisdom (the Holy Qur'an) and he acts according to it and teaches it to others." (Fath-al-Bari page 177 Vol. 1)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 73


   صحيح البخاري7316عبد الله بن مسعودلا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فسلط على هلكته في الحق وآخر آتاه الله حكمة فهو يقضي بها ويعلمها
   صحيح البخاري73عبد الله بن مسعودلا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فسلط على هلكته في الحق ورجل آتاه الله الحكمة فهو يقضي بها ويعلمها
   صحيح البخاري7141عبد الله بن مسعودلا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فسلطه على هلكته في الحق آخر آتاه الله حكمة فهو يقضي بها ويعلمها
   صحيح البخاري1409عبد الله بن مسعودلا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فسلطه على هلكته في الحق رجل آتاه الله حكمة فهو يقضي بها ويعلمها
   صحيح مسلم1896عبد الله بن مسعودلا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فسلطه على هلكته في الحق رجل آتاه الله حكمة فهو يقضي بها ويعلمها
   سنن ابن ماجه4208عبد الله بن مسعودلا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فسلطه على هلكته في الحق رجل آتاه الله حكمة فهو يقضي بها ويعلمها
   مشكوة المصابيح202عبد الله بن مسعودا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فسلطه على هلكته في الحق ورجل آتاه الله الحكمة فهو يقضي بها ويعلمها
   المعجم الصغير للطبراني1098عبد الله بن مسعود لا تنافس بينكم إلا فى اثنتين : رجل أعطاه الله عز وجل القرآن فهو يقوم به الليل والنهار ، فيتتبع ما فيه ، فيقول الرجل لو أعطاني الله مثل ما أعطى فلانا ، فأقوم به مثل ما يقوم فلان ، ورجل أعطاه الله مالا ينفق ويتصدق ، فيقول رجل مثل ذلك
   مسندالحميدي99عبد الله بن مسعود

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 73  
´علم اور حکمت کی باتوں پر رشک کرنا`
«. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ، رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت (کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور (لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 73]

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا ہے کہ علم اور حکمت کی باتوں پر رشک کرنا چاہئیے اور حدیث لائیں ہیں کہ دو آدمیوں کے علاوہ کسی پر حسد نہیں کرنا چاہیے، لہٰذا حدیث میں جو «حسد» کے الفاظ ہیں اس سے مراد رشک کرنے کے ہی ہیں کیوں کہ حسد کرنا بہت بڑی خرابی اور گناہ ہے، گویا حدیث سے رشک کرنا مراد لیا جائے گا اور باب میں بھی یہی مذکور ہے۔ مزید اگر غور کیا جائے تو اس باب سے قبل امام بخاری رحمہ اللہ نے باب «الفهم فى العلم» قائم فرمایا تھا اور اب «باب الاغتباط فى العلم والحكمة» قائم فرمایا ہے دونوں میں مناسبت ظاہر ہے کہ جتنا کسی شخص کے فہم علم میں اضافہ ہو گا اسی قدر اس کی خوشی اور غبطہ میں اضافہ ہو گا کیونکہ جب کسی شخص کے فہم میں اضافہ ہو گا تو اس کی نظر آگے بڑھتی جائے گی اور اس شخص کو پیش نظر رکھے گا جو فہم کے اعتبار سے قوی ہو اس کی خواہش ہو گی کہ وہ اس جیسا ہو جائے۔ یہی غبطہ ہے۔ [عمدة القاري ج2 ص 54، الكواكب الدراري ج 1 ص 43]

◈حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والذي يظهرلي أن مراد البخاري: ان الرياسة وان كانت مما يغبط بها صاحبها فى العادة لكن الحديث دل على ان الغبطة لا تكون الابأحد أمرين . . . . .»
میرے نزدیک مطابقت یوں ہے کہ ریاست اگرچہ عادۃ غبطہ کا سبب بنتی ہے (یعنی رشک کا) لیکن حدیث اس مسئلے پر دال ہے کہ غبطہ کی بنیاد دو ہی چیزیں ہیں ایک علم اور ایک جود، پھر جود بھی اس وقت محمود ہے جب علم کے ساتھ ہو، گویا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان کہ حصول ریاست و سیادت سے پہلے علم حاصل کر لو جب تک کہ تم پر رشک کیا جائے تو یہ رشک کرنا برحق ہو گا۔ [فتح الباري ج1 ص444]

◈ علامہ محمود حسن صاحب فرماتے ہیں:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہے کہ قبل السیادۃ علم حاصل کرنے میں سعی ضروری ہے۔ یہ غرض نہیں کہ اگر کوئی قبل سیادت تحصیل علم سے محروم رہا، تو وہ بعد سیادت تحصیل نہ کرے، دیکھ لو خود سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور علی العموم حضرات صحابہ نے بڑے ہو کر علم حاصل کیا۔ [الابواب التراج، ص48]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 102   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 73  
´کبھی حسد غبطہ رشک کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے`
«. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ، رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت (کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور (لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 73]

تشریح:
شارحین حدیث لکھتے ہیں: «اعلم ان المراد بالحسد، ههنا الغبطة فان الحسد مذموم قدبين الشرع باوضح بيان وقد يجي الحسد بمعني الغبطة وان كان قليلا» یعنی حدیث 73 میں حسد کے لفظ سے غبطہ یعنی رشک کرنا مراد ہے کیونکہ حسد بہرحال مذموم ہے۔ جس کی شرع نے کافی مذمت کی ہے۔ کبھی حسد غبطہ رشک کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے بہت سے نافہم لوگ حضرت امام بخاری سے حسد کر کے ان کی توہین و تخفیف کے درپے ہیں، ایسا حسد کرنا مومن کی شان نہیں۔ «اللهم احفظنا آمين»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 73   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 73  
73. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا ہے: رشک جائز نہیں مگر دو (آدمیوں کی) خصلتوں پر: ایک اس شخص (کی عادت) پر جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہو۔ اور دوسرے اس شخص (کی عادت) پر جسے اللہ نے (قرآن و حدیث کا) علم دے رکھا ہو اور وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہو اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:73]
حدیث حاشیہ:
شارحین حدیث لکھتے ہیں:
إعلم أن المراد بالحسد، ههنا الغبطة فإن الحسد مذموم قد بین الشرع بأوضح بیان وقد یجی الحسد بمعنی الغبطة و إن کان قليلا۔
یعنی حدیث (73)
میں حسد کے لفظ سے غبطہ یعنی رشک کرنا مراد ہے کیونکہ حسد بہرحال مذموم ہے۔
جس کی شرع نے کافی مذمت کی ہے۔
کبھی حسد غبطہ رشک کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے بہت سے نافہم لوگ حضرت امام بخاری سے حسد کر کے ان کی توہین وتخفیف کے درپے ہیں، ایسا حسد کرنا مومن کی شان نہیں۔
اللهم احفظنا آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 73   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 202  
´رشک کی جائز صورت`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٍ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ وَرَجُلٍ آتَاهُ اللَّهُ - [71] - الْحِكْمَة فَهُوَ يقْضِي بهَا وَيعلمهَا) . . .»
. . . سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو شخصوں پر دو اچھی عادت کی وجہ سے حسد کرنا یعنی غبطہ و رشک کرنا درست ہے۔ ایک وہ شخص جس کو اللہ نے مال دے رکھا ہے اور اس کو راہ حق میں خرچ کرنے کی توفیق دے رکھی ہے اور دوسرا وہ جس کو اللہ تعالیٰ نے حکمت اور علم دے رکھا ہے وہ اسی علم کے موافق فیصلہ کرتا اور لوگوں کو سکھاتا ہے۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 202]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 73]،
[صحيح مسلم 1896]

فقہ الحدیث:
➊ کسی شخص کی خوشحالی یا نیکی سے متاثر ہو کر اپنے لیے ویسی خواہش و تمنا کرنا «غبطه» (رشک) کہلاتا ہے اور حدیث مذکور میں حسد سے مراد «غبطه» ہے۔
➋ وہ انسان افضل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کتاب و سنت کا علم عطا فرمایا ہے اور وہ اسے تحریر، تدریس اور تقریر وغیرہ کے ذریعے سے لوگوں میں پھیلا رہا ہے۔
➌ خوش قسمت ہے وہ امیر آدمی جو خلوص نیت اور اتباع سنت سے اپنے مال و دولت کو کتاب و سنت کی دعوت پھیلانے اور غرباء و مساکین کی مدد کرنے میں صرف کر رہا ہے۔
➍ حسد حرام اور رشک جائز ہے، بشرطیکہ دوسرے شخص کی نعمت کے زوال اور خاتمے کی خواہش نہ ہو۔
➎ ہر وقت کتاب و سنت کا علم سیکھنے، اس پر عمل کرنے اور اسے لوگوں میں حسب استطاعت پھیلانے میں مصروف رہنا چاہئیے۔
➏ اگر شرعی عذر مانع نہ ہو تو سارے مال کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر دینا جائز ہے۔

فائدہ:
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا تو اُس وقت میرے پاس مال تھا، میں نے کہا: اگر میں ابوبکر (صدیق رضی اللہ عنہ) سے کبھی آگے بڑھ سکتا ہوں تو آج بڑھ جاؤں گا۔ میں اپنا آدھا مال لے آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: آپ نے اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ میں نے کہا: آدھا مال گھر چھوڑ آیا ہوں۔ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے آئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: اے ابوبکر! آپ نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ انہوں نے فرمایا: میں ان کے لیے اللہ اور رسول (کی محبت) کو چھوڑ آیا ہوں۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں کبھی ابوبکر (رضی اللہ عنہ) پر سبقت نہیں لے سکوں گا۔ [سنن ترمذي: 3675، وقال: "هذا حديث حسن صحيح" وسنده حسن وصححه الحاكم على شرط مسلم 414/1 ووافقه الذهبي]
نیز دیکھئے: سنن ابی داود [1678] اور اضواء المصابیح [6021]
◄ اس حدیث کے جملے «أبقيت لهم الله ورسوله» کی تشریح میں ملا علی قاری (حنفی) نے کہا: «أى رضاهما» یعنی اللہ اور رسول کی رضامندی چھوڑ کر آیا ہوں۔ دیکھئے: مرقاۃ المفاتیح [ج1۔ ص379 ح6۔ 3۔]
◄ معلوم ہوا کہ عند الضرورت اور شرعی عذر کے ساتھ سارا مال بھی اللہ کے راستے میں قربان کیا جا سکتا ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 202   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4208  
´حسد کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رشک و حسد کے لائق صرف دو لوگ ہیں: ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا، اور پھر اس کو راہ حق میں لٹا دینے کی توفیق دی، دوسرا وہ جس کو علم و حکمت عطا کی تو وہ اس کے مطابق عمل کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4208]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حسد کا اصل مفہوم یہ ہے کہ کسی کو اللہ کی طرف سے نعمت ملی ہو تو اسے دیکھ کر یہ خواہش پیدا ہوکہ اس کی یہ نعمت ختم ہوجائے۔
یہ جذبہ رکھنا بہت بڑا گناہ ہے۔
اس حدیث میں حسد سے مراد رشک ہے یعنی یہ خواہش کرنا کہ جیسی نعمت اس کے پاس ہے ویسے مجھے بھی مل جائے یہ جائز ہے۔

(2)
حسد تو کسی پر بھی جائز نہیں۔
رشک بھی دنیا کی دولت، شہرت اور حکومت پر نہیں ہونا چاہیے بلکہ کسی کا نیک عمل ہی اس قابل ہے کہ اس طرح کا عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔

(3)
خوبیوں میں سب سے زیادہ قابل رشک دو خوبیاں ہیں:
سخاوت اور علم۔
یہ عمل بھی تب خوبیوں میں شمار ہوسکتے ہیں جب اللہ کی رضا کے لیے خلوص کے ساتھ انجام دیے جائیں ورنہ شہرت کے لیے حاصل کیا جانے والا علم اور خرچ کیا جانے والا مال سخت ترین سزا اور شدید عذاب کا باعث ہوگا۔
اللہ محفوظ رکھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 4208   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:73  
73. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا ہے: رشک جائز نہیں مگر دو (آدمیوں کی) خصلتوں پر: ایک اس شخص (کی عادت) پر جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہو۔ اور دوسرے اس شخص (کی عادت) پر جسے اللہ نے (قرآن و حدیث کا) علم دے رکھا ہو اور وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہو اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:73]
حدیث حاشیہ:

رشک یہ ہے کہ کسی میں اچھی صفت یا نعمت دیکھ کر انسان خوش ہو اور اپنے لیے اس کی تمنا کرے۔
اگر مقصود یہ ہو کہ اس سے وہ نعمت چھن جائے اور مجھے مل جائے تو اسے حسد کہتے ہیں اور یہ قابل مذمت ہے نیز حسد ہمیشہ کسی خوبی اور کمال ہی پر ہوا کرتا ہے خواہ کمال علمی ہو یا عملی۔
حدیث کے پہلے جملے کا تعلق کمال عملی سے ہے اور دوسرے کا کمال علمی سے۔
اسی طرح فضائل بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔
ظاہری اور باطنی، ظاہری فضائل میں اصل اصول مالداری ہے اور باطنی فضائل میں اصل اصول علم ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں لفظ غبطہ بڑھا دیا جس کے معنی رشک کے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث میں لفظ حسد اپنے معنی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ وہ غبطہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی اس حدیث میں یہ اضافہ موجود ہے کہ جب اس کا پڑوسی اس کا قرآن پڑھنا پڑھانا دیکھتا ہے تو کہتا ہے۔
کاش! مجھے بھی قرآن کی یہ دولت ملے تو میں بھی اسی طرح کروں، جس طرح وہ کرتا ہے۔
(صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5026)
اور جب اس کی جود وسخا کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے بھی اس جیسی مال کی فراوانی ملے تو میں بھی اسی طرح خرچ کروں جس طرح وہ خرچ کرتا ہے۔
(صحیح البخاري، التمني، حدیث: 7232)
اس حدیث میں جس طرح پڑوسی نے اپنی تمنا کا اظہار کیا ہے یہ صرف غبطے میں ہو سکتا ہے حسد میں یہ انداز نہیں ہوتا۔
(فتح الباري: 220/1)

حدیث میں حسد کو اپنے حقیقی معنی میں رکھا جا سکتا ہے۔
اس صورت میں مستثنیٰ منقطع ہوگا یعنی اگر کوئی چیز قابل حسد ہو سکتی تو وہ صرف دو تھیں۔
ایک کمال علمی اور دوسرا کمال عملی جو جودوسخا سے متعلق ہے جب یہ بھی جائز نہیں تو باقی چیزوں میں تو یقینی طور پر حرام ہے۔
(فتح الباري: 220/1)

حسد حرام اور ناجائز ہے لیکن علمائے امت نے ایک مقام پر حسد جائز رکھا ہے وہ یہ کہ اگر کسی کافر یا فاسق کے پاس علم اور مال کی دولت ہو اور وہ اسے اللہ کی نافرمانی میں استعمال کرتا ہو اور لوگوں کو ان کے ذریعے سے گمراہ کرتا ہو تو ایسے حالات میں اس سے اس نعمت کے چھن جانے کی تمنا جائز ہی نہیں بلکہ باعث ثواب بھی ہے۔
(فتح الباري: 219/1)

مال دار کا عموماً یہ حال ہوتا ہے کہ مال اس کے دل پر حاوی ہو جاتا ہے بلکہ بعض اوقات اس کی کمزوری بن جاتا ہے، لیکن اگر وہ اسے پورے طور پر خرچ کرتا ہے تو دنیا و آخرت میں اس کی عزت کا باعث ہے۔
اس میں(فِي الْحَقِّ)
کی قید اس لیے لگائی ہے تاکہ اسراف و تبذیر کا گمان نہ ہو۔
(فتح الباري: 219/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 73   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.