الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: علم کے بیان میں
The Book of Knowledge
18. بَابُ مَتَى يَصِحُّ سَمَاعُ الصَّغِيرِ:
18. باب: اس بارے میں کہ بچے کا (حدیث) سننا کس عمر میں صحیح ہے؟
(18) Chapter. At what age may a youth be listened to (i.e. quotation of the Hadith from a boy be acceptable).
حدیث نمبر: 76
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن ابي اويس، قال: حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن عبد الله بن عباس، قال:" اقبلت راكبا على حمار اتان، وانا يومئذ قد ناهزت الاحتلام، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بمنى إلى غير جدار، فمررت بين يدي بعض الصف، وارسلت الاتان ترتع فدخلت في الصف، فلم ينكر ذلك علي".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" أَقْبَلْتُ رَاكِبًا عَلَى حِمَارٍ أَتَانٍ، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ قَدْ نَاهَزْتُ الِاحْتِلَامَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِمِنًى إِلَى غَيْرِ جِدَارٍ، فَمَرَرْتُ بَيْنَ يَدَيْ بَعْضِ الصَّفِّ، وَأَرْسَلْتُ الْأَتَانَ تَرْتَعُ فَدَخَلْتُ فِي الصَّفِّ، فَلَمْ يُنْكَرْ ذَلِكَ عَلَيَّ".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے مالک نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ میں (ایک مرتبہ) گدھی پر سوار ہو کر چلا، اس زمانے میں، میں بلوغ کے قریب تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کے سامنے دیوار (کی آڑ) نہ تھی، تو میں بعض صفوں کے سامنے سے گزرا اور گدھی کو چھوڑ دیا۔ وہ چرنے لگی، جب کہ میں صف میں شامل ہو گیا (مگر) کسی نے مجھے اس بات پر ٹوکا نہیں۔


Hum se Ismail ne bayan kiya, un se Malik ne, un se Ibn-e-Shihaab ne, un se Ubaidullah bin Abdullah bin ’Utbah ne, woh Abdullah bin Abbas Radhiallahu Anhuma se riwayat karte hain ke main (ek martaba) gadhi par sawaar ho kar chala, us zamaane mein, main buloogh ke qareeb tha. Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam Minaa mein Namaz padh rahe the aur Aap ke saamne deewaar (ki aad) na thi, to main baaz safon ke saamne se guzra aur gadhi ko chor diya. Woh charne lagi, jab ke main saf mein shaamil ho gaya (magar) kisi ne mujhe us baat par toka nahi.

Narrated Ibn `Abbas: Once I came riding a she-ass and had (just) attained the age of puberty. Allah's Apostle was offering the prayer at Mina. There was no wall in front of him and I passed in front of some of the row while they were offering their prayers. There I let the she-ass loose to graze and entered the row, and nobody objected to it.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 76


   صحيح البخاري861عبد الله بن عباسأقبلت راكبا على حمار أتان وأنا يومئذ قد ناهزت الاحتلام ورسول الله يصلي بالناس بمنى إلى غير جدار فمررت بين يدي بعض الصف فنزلت وأرسلت الأتان ترتع ودخلت في الصف فلم ينكر ذلك علي أحد
   صحيح البخاري76عبد الله بن عباسيصلي بمنى إلى غير جدار فمررت بين يدي بعض الصف وأرسلت الأتان ترتع فدخلت في الصف فلم ينكر ذلك علي
   صحيح البخاري4412عبد الله بن عباسأنه أقبل يسير على حمار ورسول الله قائم بمنى في حجة الوداع يصلي بالناس فسار الحمار بين يدي بعض الصف ثم نزل عنه فصف مع الناس
   صحيح البخاري1857عبد الله بن عباسأقبلت وقد ناهزت الحلم أسير على أتان لي ورسول الله قائم يصلي بمنى حتى سرت بين يدي بعض الصف الأول ثم نزلت عنها فرتعت فصففت مع الناس وراء رسول الله
   صحيح مسلم1125عبد الله بن عباسأقبل يسير على حمار ورسول الله قائم يصلي بمنى في حجة الوداع يصلي بالناس قال فسار الحمار بين يدي بعض الصف ثم نزل عنه فصف مع الناس
   صحيح مسلم1124عبد الله بن عباسيصلي بالناس بمنى فمررت بين يدي الصف فنزلت فأرسلت الأتان ترتع ودخلت في الصف فلم ينكر ذلك علي أحد
   سنن أبي داود715عبد الله بن عباسلم ينكر ذلك أحد
   سنن النسائى الصغرى753عبد الله بن عباسجئت أنا والفضل على أتان لنا ورسول الله يصلي بالناس بعرفة ثم ذكر كلمة معناها فمررنا على بعض الصف فنزلنا وتركناها ترتع فلم يقل لنا رسول الله شيئا
   سنن ابن ماجه947عبد الله بن عباسيصلي بعرفة فجئت أنا والفضل على أتان فمررنا على بعض الصف فنزلنا عنها وتركناها ثم دخلنا في الصف
   مسندالحميدي481عبد الله بن عباسجئت أنا والفضل على أتان ورسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة فمررنا على بعض الصف فنزلنا فتركناها ترتع، ودخلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلاة فلم يقل لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 77  
´بچے کا (حدیث) سننا کس عمر میں صحیح ہے`
«. . . قَالَ:" عَقَلْتُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَجَّةً مَجَّهَا فِي وَجْهِي، وَأَنَا ابْنُ خَمْسِ سِنِينَ مِنْ دَلْوٍ . . .»
. . . انہوں نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول سے منہ میں پانی لے کر میرے چہرے پر کلی فرمائی، اور میں اس وقت پانچ سال کا تھا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 77]

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں کسی عمر کی کوئی قید نہیں لگائی صرف اشارہ فرمایا کہ کس عمر میں سماعت درست ہو گی اور دلیل کے طور پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث جو کہ جوانی کے قریب ہونے پر دلالت کرتی ہے پیش فرمائی اور اس کے بعد دوسری حدیث سیدنا محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ کی پیش فرمائی جب کہ وہ پانچ برس کے تھے۔ اب مناسبت یہ ہو گی کہ جب لڑکا سمجھداری اور تحمل سے حدیث نقل فرمائے تو بغیر عمر کی قید کے روایت درست مانی جائے گی، اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں کسی عمر کا تعین نہیں فرمایا اور نہ ہی بلوغیت کا۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں۔
«مقصود الباب الاستدلال على ان البلوغ ليس شرطا فى التحمل .» [فتح الباري ج1 ص226]
یعنی باب کا مقصود اس بات پر استدلال ہے کہ تحمل کے لیے بلوغیت کی کوئی قید نہیں۔

◈ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لا اختلاف فى أن أداء الحديث و تبليغه لا يغني الا من العاقل البالغ، وأما تحمله فيجوز من الصبي بعد ان يناهذ الاحتلام و اذا عقل فميز بين الخير و الشر، فأثبت مؤلف رحمه الله ذالك .» [شرح تراجم ابواب البخاري ص49]
اس مسئلے میں تو کوئی اختلاف نہیں کہ اداء حدیث کے لیے عاقل اور بالغ ہونا ضروری ہے، البتہ تحمل کے لیے بالغ ہونا ضروری نہیں، «صبي» جو کہ بلوغیت کے قریب ہو اور برائی اور اچھائی کے درمیان تمیز کر سکے اس کا تحمل درست ہے مؤلف (امام بخاری رحمہ اللہ) کا مقصد اسی کا اثبات ہے۔

◈ علامہ سندھی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں دو جزئی واقعات ذکر کیے ہیں۔ ان کے مجموعہ سے معلوم ہوتا ہے صحت تحمل و سماع کے لیے کوئی حد معین نہیں بلکہ مطلق سن تمیز و تعقل سن صحت سماع و تحمل ہے۔ [حاشية السندي على صحيح البخاري، ج1، ص46]
علامہ محمود حسن کی بھی یہی رائے ہے، دیکھئے: [الابواب و التراجم۔ ص 49]

فائدہ:
محدثین کا اس مسئلہ پر اختلاف رہا ہے کہ آیا کون سی عمر میں حدیث کا سماع معتبر رہے گا مختلف محققین نے مختلف آراء کو نقل فرمایا اور اپنے اپنے علم کے جوہر دکھلائے۔
◈ امام ابن معین رحمہ اللہ کے نزدیک پندرہ سال اور بعض علماء کے نزدیک بیس سال کے سماع کو معتبر مانا جاتا ہے اور بعض نے دس سال کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ دیکھئے تفصیل کے لیے: [الكفاية فى علم الرواية ص 73]
◈ امام ابن معین رحمہ اللہ کا مؤقف پندرہ سال سماع حدیث کے لیے معتبر ہے اس مؤقف کو کئی محدثین نے مجروح قرار دیا ہے، اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے سختی سے اس مؤقف کا رد فرمایا ہے۔ دیکھئے: [الكفاية ص 73]
◈ امام یزید بن ھارون رحمہ اللہ تیرہ سال کی تحدید کرتے ہیں۔ [الكفاية ص55]
◈ موسی بن ھارون حمال رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب بچہ گائے اور دوسرے جانوروں میں فرق کر سکے تو وہ سن تحمل ہے۔ [الكفاية ص65]
◈ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
تحدید کرنے کے بجائے یہ دیکھا جائے کہ وہ بچہ خطاب کو سمجھتا ہو اور جواب دے سکتا ہو، لہٰذا اگر کوئی بچہ جو پانچ سال کا بھی نہ ہوا ہو لیکن خطاب و جواب کی صلاحیت رکھتا ہو اس کا سماع درست ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ کوئی پانچ سال سے زائد ہو چکا ہو لیکن خطاب و جواب کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو ایسے شخص کے سماع کا اعتبار نہیں۔
↰ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اسی کو عقل و ضبط سے تعبیر کیا ہے کہ جب بچہ سمجھ جائے اور ضبط کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اس کا سماع درست ہے۔ [الكفاية ص 63]
◈ قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«قد حدد أهل الصنعة فى ذالك ان أقله سن محمود بن ربيع .» [ألالماع ص 58]
یعنی تحمل کی کم سے کم مدت محمود بن ربیع کی ہے۔

↰ جمہور جو بلوغیت کی قید نہیں لگاتے اور نہ ہی کسی سن کی تحدید کرتے ہیں ان کے دلائل وہ روایات ہیں جو صغار صحابہ رضی اللہ عنہم مثلاً سیدنا حسن و حسین، سیدنا عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب، سیدنا عبداللہ بن زبیر، سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا نعمان بن بشیر، سیدنا سائب بن یزید، سیدنا مسور بن محزمہ، سیدنا انس بن مالک، سیدنا مسلم بن مخلد، سیدنا ابی سلمہ، سیدنا یوسف بن عبد اللہ بن سلام، سیدنا ابوالطفیل، ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے مروی ہیں، محدثین نے ان کی روایات میں کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں کی کہ یہ روایات بلوغ سے قبل کی ہیں یا یہ روایات بلوغ کے بعد کی۔ [فتح المغيث السخاوي ج2 ص308۔ المحدث الفاصل للرامهرمزي ص189]

◈ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
پندرہ سال کی عمر قتال کے لیے تو بالکل درست ہے کیونکہ اس میں جسمانی قوت کی ضرورت ہے اور جنگی مہارت کی، جبکہ تحمل حدیث میں تو عقل و ضبط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کسی میں عقل و ضبط موجود ہے تو اس کے لیے سماع حدیث کی اجازت ہے اور اس کا سماع معتبر ہے۔ [فتح الباري ج1 ص171]

بعض محدثین کے نزدیک پانچ سال کا سماع بھی معتبر ہے جیسا کہ محمود بن ربیع کی حدیث اس مسئلے پر واضح دال ہے۔ اس کے باوجود اگر گہرائی سے محدثین رحمہ اللہ علیہم کے مؤقف کو دیکھا جائے تو جمہور نے کسی عمر کی کوئی قید نہیں لگائی بلکہ سماع حدیث کا معتبر ہونے کے لیے فہم، تمیز اور استفادہ اور اہلیت کا اعتبار کو راجح قرار دیا ہے۔

◈ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے صدقہ کی کھجور منہ میں ڈالی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نکال دیا اور فرمایا «كخ كخ» یعنی اسے پھینک دو۔ [صحيح البخاري كتاب الزكاة رقم 1491]
«كخ كخ» یہ وہ کلمہ ہے جو ایسے بچہ کے لیے بولا جاتا ہے جو رضاعت میں یا رضاعت کے قریب ہو۔ دیکھئے: [النكت اللزركشي 3/468]
↰ لہٰذا یہ راجح مؤقف ہے جس عمر میں بھی فہم و تمیز برقرار ہو وہ عمر سماع حدیث کے لیے معتبر ہے یہی قول امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی ہے۔ ديكهئے: [فتح المغيث 216/2، الكفاية62، مقدمه ابن الصلاح73]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 103   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 753  
´نمازی کے سامنے سترہ نہ ہو تو کون سی چیز نماز توڑ دیتی ہے اور کون سی نہیں توڑتی؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں: میں اور فضل دونوں اپنی ایک گدھی پر سوار ہو کر آئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے (پھر انہوں نے ایک بات کہی جس کا مفہوم تھا:) تو ہم صف کے کچھ حصہ سے گزرے، پھر ہم اترے اور ہم نے گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کچھ نہیں کہا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 753]
753 ۔ اردو حاشیہ: امام بخاری رحمہ اللہ کی رائے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سترہ تھا جیسا کہ دیگر مفصل روایات سے واضح ہوتا ہے، لہٰذا امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہوتا ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 493]
اس لیے یہ روایت اس باب کے تحت نہیں آنی چاہیے تھی۔ بعض لوگوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے کہ گدھے کا گزرنا نماز نہیں توڑتا، مگر یہ استدلال کمزور ہے کیونکہ توڑنے نہ توڑنے کی بحث اس وقت ہے جب آگے سترہ نہ ہو اور وہ سترے اور نمازیوں کے درمیان سے گزری ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 753   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث947  
´کس چیز کے نمازی کے سامنے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مقام عرفہ میں نماز پڑھا رہے تھے، میں اور فضل ایک گدھی پر سوار ہو کر صف کے کچھ حصے کے سامنے سے گزرے، پھر ہم سواری سے اترے اور گدھی کو چھوڑ دیا، پھر ہم صف میں شامل ہو گئے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 947]
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس سے معلوم ہواکہ نمازی کے آگے سے گدھا گزر جائے تو نماز نہیں ٹوٹتی جب کہ حدیث 950 تا 952 میں آرہا ہے۔
کہ گدھے کے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔
لیکن نماز نہ ٹوٹنے پر اس حدیث سےاستدلال قوی نہیں کیونکہ امام کا سترہ مقتدیوں کے لئے کافی ہوتا ہے اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے امام نبی اکرمﷺ کے سامنے سے نہیں گزرے تھے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 947   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:76  
76. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں ایک دن گدھی پر سوار ہو کر آیا۔ اس وقت میں قریب البلوغ تھا۔ اور رسول اللہ ﷺ منیٰ میں کسی دیوار کو سامنے کیے بغیر نماز پڑھا رہے تھے۔ میں ایک صف کے آگے سے گزرا اور گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور خود صف میں شامل ہو گیا۔ مجھ پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:76]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب بچہ سمجھ داراور ہوشیار ہو جائے تو حامل حدیث ہو سکتا ہے لیکن ادائے حدیث کے لیے اس کا بالغ ہونا شرط ہے۔
امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ تحمل حدیث کے لیے راوی کی عمر کم ازکم پندرہ سال ہونی چاہیےکیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو احد کے دن جنگ میں شریک نہیں ہونے دیا تھا اسی طرح حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی جنگ بدر کے موقع پر واپس کردیا تھا، کیونکہ ان دونوں کی عمریں پندرہ سال سے کم تھیں لیکن امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تحمل حدیث کے لیے سمجھدار اور ہوشیار ہونا تو ضروری ہے لیکن عمر کی قید نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن صحابہ کو جنگ میں شریک نہیں کیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ جنگ میں قوت اور معاملہ فہمی کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس لیے آپ نے چھوٹی عمر والوں کو واپس کردیا تھا البتہ تحمل حدیث کے لیے طاقت درکار نہیں ہوتی بلکہ اس کا مدار صرف ہوشیاری اورسمجھداری پر ہے۔
سمجھدار بچہ اگر بچپن کی کوئی بات بالغ ہونے کے بعد نقل کرتا ہے تو وہ معتبر ہوگی چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث سے محدثین نے کئی ایک مسائل کا استنباط کیا ہے۔
(فتح الباري: 225/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 76   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.