الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
The Book of Tauhid (Islamic Monotheism)
4. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {عَالِمُ الْغَيْبِ فَلاَ يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا} :
4. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الجن میں) ارشاد کہ ”وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب کو کسی پر نہیں کھولتا“۔
(4) Chapter. The Statement of Allah: “(He Alone is) the All-Knower of the Unseen, and He reveals to none His Unseen.” (V.72:26)
حدیث نمبر: 7380
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن إسماعيل، عن الشعبي، عن مسروق، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" من حدثك ان محمدا صلى الله عليه وسلم راى ربه فقد كذب، وهو يقول: لا تدركه الابصار سورة الانعام آية 103 ومن حدثك انه يعلم الغيب فقد كذب، وهو يقول: لا يعلم الغيب إلا الله".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ، وَهُوَ يَقُولُ: لا تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ سورة الأنعام آية 103 وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ الْغَيْبَ فَقَدْ كَذَبَ، وَهُوَ يَقُولُ: لَا يَعْلَمُ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ".
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے شعبی نے بیان کیا، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اگر تم سے کوئی یہ کہتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تو وہ غلط کہتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں خود کہتا ہے کہ نظریں اس کو دیکھ نہیں سکتیں اور جو کوئی کہتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے تھے تو غلط کہتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود کہتا ہے کہ غیب کا علم اللہ کے سوا اور کسی کو نہیں۔

Narrated Masruq: `Aisha said, "If anyone tells you that Muhammad has seen his Lord, he is a liar, for Allah says: 'No vision can grasp Him.' (6.103) And if anyone tells you that Muhammad has seen the Unseen, he is a liar, for Allah says: "None has the knowledge of the Unseen but Allah."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 93, Number 477


   صحيح البخاري7531عائشة بنت عبد اللهمن حدثك أن النبي كتم شيئا من الوحي فلا تصدقه إن الله يقول يأيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك وإن لم تفعل فما بلغت رسالته
   صحيح البخاري3234عائشة بنت عبد اللهمن زعم أن محمدا رأى ربه فقد أعظم لكن قد رأى جبريل في صورته وخلقه ساد ما بين الأفق
   صحيح البخاري4612عائشة بنت عبد اللهمن حدثك أن محمدا كتم شيئا مما أنزل الله عليه فقد كذب والله يقول يأيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك
   صحيح البخاري7380عائشة بنت عبد اللهمن حدثك أن محمدا رأى ربه فقد كذب وهو يقول لا تدركه الأبصار
   صحيح البخاري4855عائشة بنت عبد اللهلقد قف شعري مما قلت أين أنت من ثلاث من حدثكهن فقد كذب من حدثك أن محمدا رأى ربه فقد كذب قرأت لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير ما كان لبشر أن يكلمه الله إلا وحيا أو من وراء حجاب وم
   صحيح مسلم439عائشة بنت عبد اللهإنما هو جبريل لم أره على صورته التي خلق عليها غير هاتين المرتين رأيته منهبطا من السماء سادا عظم خلقه ما بين السماء إلى الأرض فقالت أولم تسمع أن الله يقول لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير
   جامع الترمذي3068عائشة بنت عبد اللهإنما ذاك جبريل ما رأيته في الصورة التي خلق فيها غير هاتين المرتين رأيته منهبطا من السماء سادا عظم خلقه ما بين السماء والأرض ومن زعم أن محمدا كتم شيئا مما أنزل الله عليه فقد أعظم الفرية على الله يقول الله يأيها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3234  
´شب معراج نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: مَنْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ أَعْظَمَ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جس نے یہ گمان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تھا تو اس نے بڑی جھوٹی بات زبان سے نکالی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/بَابُ إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ آمِينَ...: 3234]

تخريج الحديث:
[112۔ البخاري فى: 59 كتاب بدي الخلق: 7 باب إذا قال أحدكم آمين۔۔۔۔ 3234]

فھم الحدیث:
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ شب معراج نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شب معراج اللہ کو دیکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تو نور ہے (یا نور کے پردے میں ہے) میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں؟ [مسلم: كتاب الايمان 178]
سابق مفتی اعظم سعودیہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دینا میں بیداری کی حالت میں کبھی بھی اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا۔ [مجموع فتاويٰ ابن باز 27/ 118]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 112   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3068  
´سورۃ الانعام سے بعض آیات کی تفسیر۔`
مسروق کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے پاس ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا، انہوں نے کہا: اے ابوعائشہ! تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں سے کسی نے ایک بھی کیا تو وہ اللہ پر بڑی بہتان لگائے گا: (۱) جس نے خیال کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے (معراج کی رات میں) اللہ کو دیکھا ہے تو اس نے اللہ کی ذات کے بارے میں بڑی بہتان لگائی۔ کیونکہ اللہ اپنی ذات کے بارے میں کہتا ہے «لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير» کہ اسے انسانی نگاہیں نہیں پا سکتی ہیں، اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے (یعنی اسے کوئی نہیں دیکھ سکتا اور وہ سبھی کو دیکھ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3068]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بے شک محمد نے اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا (النجم: 13)

2؎:
بے شک انہوں نے اسے آسمان کے روشن کنارے پر دیکھا (التکویر: 23)

3؎:
جو چیز اللہ کی جانب سے تم پر اتاری گئی ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو (النساء: 67)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3068   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7380  
7380. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا: اگر کوئی تم سے یہ کہے کہ سیدنا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے جھوٹ بولا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: نظریں اسے نہیں دیکھ سکتیں اور جو تجھے یہ کہے کہ آپﷺ غیب جانتے تھے تو اس نے بھی غلط کہا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7380]
حدیث حاشیہ:
سچ ہے علم غیبی کس نمی داند بجز پروردگار گر کسے دعویٰ کند ہر گزازو باور مدار جو غالی لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علم غیب ثابت کرتے ہیں وہ قرآن مجید کی تحریف کرتے ہیں اور از خود ایک غلط عقیدہ گھڑتے ہیں۔
لوگوں کو ایسے خناس لوگوں سے دور رہ کر اپنے دین وایمان کی حفاظت کرنی چاہئیے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی غائبانہ خبر دی ہیں وہ سب وحی الٰہی سے ہیں۔
ان کو غیب کہنا لوگوں کو دھوکا دینا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7380   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7380  
7380. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا: اگر کوئی تم سے یہ کہے کہ سیدنا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو اس نے جھوٹ بولا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: نظریں اسے نہیں دیکھ سکتیں اور جو تجھے یہ کہے کہ آپﷺ غیب جانتے تھے تو اس نے بھی غلط کہا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7380]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کا سبب ورود یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کعب احبار سے ملے تو آپ نے ان سے فرمایا:
ہم بنو ہاشم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے۔
یہ بات سن کر کعب احبار نے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا شرف ودیدار اوراعزاز گفتگو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تقسیم کر دیا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ دو دفعہ ہم کلام ہوا ہے اور حضر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دفعہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنے کا شرف حاصل کیا ہے۔
حضرت مسروق کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آیا اور عرض کی:
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھاہے؟ تو انھوں نے مذکورہ حدیث بیان فرمائی۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3278)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا انکار کسی مرفوع حدیث کی بنیاد پر نہیں کیا۔
اس سلسلے میں انھوں نے صرف اجتہاد پر اکتفا کیا ہے جبکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے اس کے خلاف موقف منقول ہے۔
جب کوئی صحابی بات کہے اور دوسرا مخالفت کرے تو بالاتفاق حجت نہیں ہوتی۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ پر تعجب ہوتا ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق ایسی بات کیوں کہی، حالانکہ صحیح مسلم میں صراحت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث سن کر حضرت مسروق نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اور اس نے اس روشن افق پر دیکھا ہے۔
(التکویر 23)
نیز فرمایا:
ایک مرتبہ اور بھی اس نے اسے دیکھا۔
(النجم 13/53)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اس سے مراد جبرئیل علیہ السلام ہیں۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 439(177)
صحیح مسلم کی سند کے ساتھ ابن مردودیہ نے مزید نقل کیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:
میں نے سب سے پہلے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نہیں، میں نے تو حضرت جبرئیل علیہ السلام کو اترتے ہوئے دیکھا۔
(شرح کتاب التوحید للغنیمان: 116/1)
حضرت ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:
وہ تو نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 443(178)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے یہ آیت پڑھی:
آپ نے جو دیکھا دل نے اس کی تکذیب نہیں کی۔
(النجم11/53)
مزید فرمایا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل کی آنکھ سے دیکھا تھا۔
(جامع الترمذي، تفسیرالقرآن، حدیث: 3281)
ہمارے رجحان کے مطابق سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس صراحت کے بعد وجہ اختلاف از خود ختم ہو جاتی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا موقف ہی مبنی برحقیقت معلوم ہوتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں یہ وضاحت ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو (اس دنیا میں)
ان ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا، البتہ عالمِ آخرت میں اہل جنت اپنے رب کےدیدار سے ضرور فیض یاب ہوں گے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قیامت کے دن بہت سے چہرے تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کو دیکھتے ہوں گے۔
(القیامة: 23/75)
احادیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار جنت کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے۔
آمین یارب العالمین۔

اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ علم غیب اللہ تعالیٰ کا خاصا ہے، اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایسا علم حاصل نہیں۔
قرآن مجید میں اس بات کی صراحت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم!)
آپ ان سے کہہ دیں:
میں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں۔
(الأنعام 50)
نیز فرمایا:
اگرمیں غیب جانتا ہوتا تو بہت سی بھلائیاں حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔
(الأعراف: 188/7)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم نہیں تھا۔
البتہ اگر بذریعہ وحی کچھ غیب کی باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادی گئی ہوں تو وہ اس موضوع سے خارج ہیں۔
اس کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وہ غیب دان ہے اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا سوائے ایسے رسول کے سے جسے وہ (کوئی غیب کی بات بتانا)
پسند کرے، پھر وہ اس (وحی)
کے آگے اور پیچھے محافظ لگا دیتا ہے۔
(الجن 26۔
27)

علامات قیامت، امورآخرت، حشر نشر، حساب کتاب اور جنت دوزخ سے متعلقہ حقائق غیب سے تعلق رکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیے اور انھوں نے ان کو اُمت تک پہنچا دیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں۔
اس سے پہلے انھیں نہ تو آپ جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم کو ان کا علم تھا۔
(ھود 49)
اس بات پر اہل علم کاا تفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم نہیں تھا مگرجو بات اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیتا وہ معلوم ہو جاتی، چنانچہ ابن اسحاق نے اپنی تالیف "مغازی" میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی گم ہوگئی تو ابن صلیت کہنے لگا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود کو پیغمبر کہتے ہیں اور آسمان کے حالات تم سے بیان کرتے ہیں لیکن انھیں اپنی اونٹنی کے متعلق معلومات نہیں ہیں کہ وہ کہاں ہے؟ یہ بات جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فلاں شخص ایسی ایسی بات کہتا ہے، اللہ کی قسم! میں تو وہی بات جانتا ہوں جو اللہ تعالیٰ مجھے بتلا دیتا ہے۔
اب اللہ تعالیٰ نے مجھے اونٹنی کے متعلق بتلا دیا ہے کہ وہ فلاں گھاٹی میں ایک درخت سے اٹکی ہوئی ہے۔
آخر کار صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین وہاں گئے اورآپ کی نشاندہی سے اسے لے آئے۔
(فتح الباري: 445/13)

ہمارے ہاں کچھ غالی قسم کے عقیدت مند ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علم غیب ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کو (مَا كَانَ وَمَا يَكُونُ)
کا علم تھا۔
ایسا عقیدہ سراسر غلط اور قرآن وسنت کے بالکل ہی خلاف ہے۔
اسی طرح کچھ شعبدہ باز اور مداری قسم کے لوگ بھی علم غیب رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور کچھ کشف والہام کا دعویٰ کرتے ہیں۔
اس قسم کے دعوؤں کی کیا حقیقت ہے؟ مثلاً:
ایک نجومی، جوتشی جو فٹ پاتھ پر بیٹھ کر لوگوں کی قسمت کا حال بتاتا ہے اور مختلف طریقوں سے لوگوں کو غیب کی خبریں دیتا ہے اگر وہ یہ علم جانتا ہوتا تو کیا اس کم بخت کی یہ حالت زار ہو سکتی تھی؟ کیا وہ چند دنوں میں امیر کبیر نہ بن سکتا تھا؟ کچھ صوفی حضرات کشف قبور کے قائل ہیں اور کچھ استخارے کے ذریعے سے چوری وغیرہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ہمارے نزدیک یہ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے۔
شریعت میں ایسے کاموں کی کوئی گنجائش نہیں۔
بہرحال غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا اور جو اس کا دعویٰ کرتا ہے وہ جھوٹا اور کذاب ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7380   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.