الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
زہد اور رقت انگیز باتیں
1ق. باب مَا جَاءَ أَنَّ الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ 
1ق. باب: دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہونے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 7438
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، عن سهيل بن ابي صالح ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، قال: قالوا: يا رسول الله، هل نرى ربنا يوم القيامة؟، قال: " هل تضارون في رؤية الشمس في الظهيرة ليست في سحابة؟، قالوا: لا، قال: " فهل تضارون في رؤية القمر ليلة البدر ليس في سحابة؟ "، قالوا: لا، قال: " فوالذي نفسي بيده لا تضارون في رؤية ربكم، إلا كما تضارون في رؤية احدهما "، قال: " فيلقى العبد، فيقول: اي فل، الم اكرمك، واسودك، وازوجك، واسخر لك الخيل والإبل، واذرك تراس وتربع؟، فيقول: بلى، قال: فيقول: افظننت انك ملاقي؟، فيقول: لا، فيقول: فإني انساك كما نسيتني ثم يلقى الثاني، فيقول اي فل: الم اكرمك، واسودك، وازوجك واسخر لك الخيل والإبل، واذرك تراس وتربع؟، فيقول: بلى اي رب، فيقول: افظننت انك ملاقي؟، فيقول: لا، فيقول: فإني انساك كما نسيتني، ثم يلقى الثالث، فيقول له: مثل ذلك، فيقول: يا رب آمنت بك وبكتابك وبرسلك، وصليت وصمت وتصدقت، ويثني بخير ما استطاع، فيقول: هاهنا إذا قال، ثم يقال له: الآن نبعث شاهدنا عليك، ويتفكر في نفسه من ذا الذي يشهد علي، فيختم على فيه، ويقال لفخذه ولحمه وعظامه انطقي، فتنطق فخذه ولحمه وعظامه بعمله، وذلك ليعذر من نفسه، وذلك المنافق، وذلك الذي يسخط الله عليه ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟، قَالَ: " هَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الشَّمْسِ فِي الظَّهِيرَةِ لَيْسَتْ فِي سَحَابَةٍ؟، قَالُوا: لَا، قَالَ: " فَهَلْ تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لَيْسَ فِي سَحَابَةٍ؟ "، قَالُوا: لَا، قَالَ: " فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ رَبِّكُمْ، إِلَّا كَمَا تُضَارُّونَ فِي رُؤْيَةِ أَحَدِهِمَا "، قَالَ: " فَيَلْقَى الْعَبْدَ، فَيَقُولُ: أَيْ فُلْ، أَلَمْ أُكْرِمْكَ، وَأُسَوِّدْكَ، وَأُزَوِّجْكَ، وَأُسَخِّرْ لَكَ الْخَيْلَ وَالْإِبِلَ، وَأَذَرْكَ تَرْأَسُ وَتَرْبَعُ؟، فَيَقُولُ: بَلَى، قَالَ: فَيَقُولُ: أَفَظَنَنْتَ أَنَّكَ مُلَاقِيَّ؟، فَيَقُولُ: لَا، فَيَقُولُ: فَإِنِّي أَنْسَاكَ كَمَا نَسِيتَنِي ثُمَّ يَلْقَى الثَّانِيَ، فَيَقُولُ أَيْ فُلْ: أَلَمْ أُكْرِمْكَ، وَأُسَوِّدْكَ، وَأُزَوِّجْكَ وَأُسَخِّرْ لَكَ الْخَيْلَ وَالْإِبِلَ، وَأَذَرْكَ تَرْأَسُ وَتَرْبَعُ؟، فَيَقُولُ: بَلَى أَيْ رَبِّ، فَيَقُولُ: أَفَظَنَنْتَ أَنَّكَ مُلَاقِيَّ؟، فَيَقُولُ: لَا، فَيَقُولُ: فَإِنِّي أَنْسَاكَ كَمَا نَسِيتَنِي، ثُمَّ يَلْقَى الثَّالِثَ، فَيَقُولُ لَهُ: مِثْلَ ذَلِكَ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ آمَنْتُ بِكَ وَبِكِتَابِكَ وَبِرُسُلِكَ، وَصَلَّيْتُ وَصُمْتُ وَتَصَدَّقْتُ، وَيُثْنِي بِخَيْرٍ مَا اسْتَطَاعَ، فَيَقُولُ: هَاهُنَا إِذًا قَالَ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: الْآنَ نَبْعَثُ شَاهِدَنَا عَلَيْكَ، وَيَتَفَكَّرُ فِي نَفْسِهِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْهَدُ عَلَيَّ، فَيُخْتَمُ عَلَى فِيهِ، وَيُقَالُ لِفَخِذِهِ وَلَحْمِهِ وَعِظَامِهِ انْطِقِي، فَتَنْطِقُ فَخِذُهُ وَلَحْمُهُ وَعِظَامُهُ بِعَمَلِهِ، وَذَلِكَ لِيُعْذِرَ مِنْ نَفْسِهِ، وَذَلِكَ الْمُنَافِقُ، وَذَلِكَ الَّذِي يَسْخَطُ اللَّهُ عَلَيْهِ ".
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا: انھوں نے (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے عرض کی، اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا دوپہر کے وقت جب بادل نہ ہوں تمھیں سورج کودیکھنے میں کوئی زحمت ہوتی ہے۔؟"انھوں (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے کہا: نہیں آپ نے فرمایا: "چودھویں کی رات کو جب بادل نہ ہوں تو کیا تمھیں چاند کو دیکھنے میں کوئی زحمت ہوتی ہے؟"انھوں نے (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے کہا: نہیں آپ نے فرمایا: " مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔!تمھیں اپنے رب کو دیکھنے میں اس سے زیادہ زحمت نہیں ہو گی جتنی زحمت تمھیں ان دونوں کو دیکھنے میں ہو تی ہے۔" آپ نے فرمایا: "وہ (رب) بندے سے ملا قات فرمائے گا تو کہے گا۔اے فلاں!کیا میں نے تمھیں عزت نہ دی تھی، تمھیں سردار نہ بنایا تھا تمھاری شادی نہ کرائی تھی گھوڑے اور اونٹ تمھارے اختیار میں نہ دیے تھے اور تمھیں ایسا نہیں بنا چھوڑا تھا کہ تم سرداری کرتے تھے اور لوگوں کی آمدنی میں سے چوتھائی حصہ لیتے تھے؟وہ جواب میں کہے گا۔ کیوں نہیں! (بالکل ایسا ہی تھا۔) تو وہ فرمائے گا۔ کیا تم سمجھتے تھے کہ تم مجھ سے ملوگے؟ وہ کہے گا۔ نہیں۔ تووہ فرمائے گا۔ آج میں اسی طرح تمھیں بھول جاؤں گا۔ جس طرح تم مجھے بھول گئے تھے پھر دوسرے سے ملاقات کرے گا۔اے فلاں!کیا میں نے تمھیں عز ت اور سیادت سے نہیں نوازا تھا تمھاری شادی نہیں کرائی تھی تمھارے لیے اونٹ اور گھوڑے مسخر نہیں کیے تھے اور تمھیں اس طرح نہیں بنا چھوڑا تھا کہ تم ریاست کے مزے لیتے تھے۔اور لوگوں کے مالوں میں سے چوتھا ئی حصہ وصول کرتے تھے۔؟وہ کہے گا کیوں نہیں میرے رب!تو وہ فرمائے گا۔تمھیں اس بات کا کوئی گمان بھی تھا کہ تم مجھ سے ملا قات کروگے؟ وہ کہے گا۔نہیں تو وہ فرمائے گا اب میں بھی اسی طرح تمھیں بھول جاؤں گا جس طرح تم مجھے بھول گئے تھے۔پھر تیسرے سے ملے گا۔ اس سے بھی وہی فرمائے گا۔وہ کہے گا۔اے میرے رب!میں تجھ پر تیری کتابوں اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا تھا اور نمازیں پڑھی تھیں روزے رکھے تھے اور صدقہ دیا کرتا تھا جتنا اس کے بس میں ہو گا (اپنی نیکی کی) تعریف کرے گا، چنانچہ وہ فرمائے گا۔تب تم یہیں ٹھہرو۔فرمایا: پھر اس سے کہا جا ئے گا۔ اب تم تمھارے خلاف اپنا گواہ لائیں گے۔ وہ دل میں سوچے گا میرے خلاف کون گواہی دے گا۔؟پھر اس کے منہ پر مہر لگادی جا ئے گیاور اس کی ران گوشت اور ہڈیوں سے کہا جائے گا۔بولو تو اس کی ران اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے عمل کے متعلق بتائیں گی۔ یہ (اس لیے) کہا جا ئے گا کہ وہ (اللہ) اس کی ذات سے اس کا عذر دور کردے۔اور وہ منافق ہو گا اور وہی شخص ہو گا جس پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہو گا۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،صحابہ کرام(رضوان اللہ عنھم اجمعین) نے پوچھا،اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا دوپہر کے وقت جب بادل نہ ہوں تمھیں سورج کودیکھنے میں کوئی زحمت ہوتی ہے۔؟"انھوں (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین)نے کہا:نہیں آپ نے فرمایا:"چودھویں کی رات کو جب بادل نہ ہوں تو کیا تمھیں چاند کو دیکھنے میں کو ئی زحمت ہوتی ہے؟"انھوں نے (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین)نے کہا: نہیں آپ نے فرمایا:" مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔!تمھیں اپنے رب کو دیکھنے میں اس سے زیادہ زحمت نہیں ہو گی جتنی زحمت تمھیں ان دونوں کو دیکھنے میں ہو تی ہے۔" آپ نے فرمایا:"وہ(رب)بندے سے ملا قات فرمائے گا تو کہے گا۔اے فلاں!کیا میں نے تمھیں عزت نہ دی تھی، تمھیں سردار نہ بنایا تھا تمھاری شادی نہ کرائی تھی گھوڑے اور اونٹ تمھارے اختیار میں نہ دیے تھے اور تمھیں ایسا نہیں بنا چھوڑا تھا کہ تم سرداری کرتے تھے اور لوگوں کی آمدنی میں سے چوتھائی حصہ لیتے تھے؟وہ جواب میں کہے گا۔ کیوں نہیں!(بالکل ایسا ہی تھا۔)تو وہ فرمائے گا۔ کیا تم سمجھتے تھے کہ تم مجھ سے ملوگے؟ وہ کہے گا۔ نہیں۔ تووہ فرمائے گا۔ آج میں اسی طرح تمھیں بھول جاؤں گا۔ جس طرح تم مجھے بھول گئے تھے پھر دوسرے سے ملاقات کرے گا۔اے فلاں!کیا میں نے تمھیں عز ت اور سیادت سے نہیں نوازا تھا تمھاری شادی نہیں کرائی تھی تمھارے لیے اونٹ اور گھوڑے مسخر نہیں کیے تھے اور تمھیں اس طرح نہیں بنا چھوڑا تھا کہ تم ریاست کے مزے لیتے تھے۔اور لوگوں کے مالوں میں سے چوتھا ئی حصہ وصول کرتے تھے۔؟وہ کہے گا کیوں نہیں میرے رب!تو وہ فرمائے گا۔تمھیں اس بات کا کوئی گمان بھی تھا کہ تم مجھ سے ملا قات کروگے؟ وہ کہے گا۔نہیں تو وہ فرمائے گا۔اب میں بھی اسی طرح تمھیں بھول جاؤں گا جس طرح تم مجھے بھول گئے تھے۔پھر تیسرے سے ملے گا۔ اس سے بھی وہی فرمائے گا۔وہ کہے گا۔اے میرے رب!میں تجھ پر تیری کتابوں اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا تھا اور نمازیں پڑھی تھیں روزے رکھے تھے اور صدقہ دیا کرتا تھا جتنا اس کے بس میں ہو گا (اپنی نیکی کی)تعریف کرے گا،چنانچہ وہ فرمائے گا۔تب تم یہیں ٹھہرو۔فرمایا: پھر اس سے کہا جا ئے گا۔ اب تم تمھارے خلاف اپنا گواہ لائیں گے۔ وہ دل میں سوچے گا میرے خلاف کون گواہی دے گا۔؟پھر اس کے منہ پر مہر لگادی جا ئے گیاور اس کی ران گوشت اور ہڈیوں سے کہا جائے گا۔بولو تو اس کی ران اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے عمل کے متعلق بتائیں گی۔ یہ(اس لیے) کہا جا ئے گا کہ وہ (اللہ)اس کی ذات سے اس کا عذر دور کردے۔اور وہ منافق ہو گا اور وہی شخص ہو گا جس پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہو گا۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2968

   صحيح البخاري6573عبد الرحمن بن صخرهل تضارون في الشمس ليس دونها سحاب قالوا لا يا رسول الله قال هل تضارون في القمر ليلة البدر ليس دونه سحاب قالوا لا يا رسول الله قال فإنكم ترونه يوم القيامة كذلك يجمع الله الناس فيقول من كان يعبد شيئا فليتبعه فيتبع من كان يعبد الشمس ويتبع من كان يعب
   صحيح مسلم7438عبد الرحمن بن صخرهل تضارون في رؤية الشمس في الظهيرة ليست في سحابة قالوا لا قال فهل تضارون في رؤية القمر ليلة البدر ليس في سحابة قالوا لا قال فوالذي نفسي بيده لا تضارون في رؤية ربكم إلا كما تضارون في رؤية أحدهما قال فيلقى العبد فيقول أي فل ألم أكرمك وأسودك وأزوجك
   سنن أبي داود4730عبد الرحمن بن صخرهل تضارون في رؤية الشمس في الظهيرة ليست في سحابة قالوا لا قال هل تضارون في رؤية القمر ليلة البدر ليس في سحابة قالوا لا قال والذي نفسي بيده لا تضارون في رؤيته إلا كما تضارون في رؤية أحدهما
   سنن ابن ماجه178عبد الرحمن بن صخرتضامون في رؤية القمر ليلة البدر قالوا لا قال فكذلك لا تضامون في رؤية ربكم يوم القيامة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6573  
´دنیا کی آنکھ سے کوئی بھی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا`
«. . . قَالَ أُنَاسٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ . . .»
. . . کچھ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھ سکیں گے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/بَابُ الصِّرَاطُ جَسْرُ جَهَنَّمَ:: 6573]

تخريج الحديث:
[114۔ البخاري فى: 10 كتاب الاذان: 129 باب فضل السجود 6573 مسلم 182 عبدالرزاق 20856]

لغوی توضیح:
«تــمَــارُونَ» کا اصل معنی ہے تم جھگڑتے ہو یعنی تمہیں کوئی مشکل پیش آتی ہے۔
«الطَّوَاغِيتَ» جمع ہے طاغوت کی، اس سے شیطان یا بت یا گمراہی کی بنیاد مراد ہے۔
«ظَهْرَانَيْ جَهَنَّمَ» جہنم کے درمیان۔
«يَجُوزُ» مسافت طےکرے گا۔
«السَّعْدَان» کانٹے دار بوٹی۔
«يُوْبَقُ» ہلاک کیے جائیں گے۔
«يُخَرْدَلُ» چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیئے جائیں گے۔
«امْتَحَشُوْا» جل جائیں گے۔
«قَشَبَنِيْ» مجھے زہر آلود کر دے گی، مجھے ہلاک کر دے گی۔
«الْاَمَانِيّ» تمنائیں، آرزوئیں۔

فھم الحدیث:
ان احادیث میں یہ ثبوت ہے کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی آنکھوں میں ایسی قوت پیدا کر دیں گے جس سے وہ اپنے پروردگار کو بآسانی دیکھ سکیں گے۔ اور جس آیت مبارکہ میں یہ ارشاد ہے کہ «لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ» [الانعام: 103] اسے (یعنی اللہ عزوجل کو) کسی کی نگاہ محیط نہیں ہو سکتی۔ اس کا تعلق دنیا سے ہے، یعنی دنیا کی آنکھ سے کوئی بھی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا، جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی تمنا کی تو اللہ نے پہاڑ کے سامنے تجلی ظاہر کی جس سے وہ پہاڑ ہی ریزہ ریزہ ہو گیا اور موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 114   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث178  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں چودھویں رات کو چاند دیکھنے میں مشقت ہوتی ہے؟ صحابہ نے کہا: جی نہیں، فرمایا: اسی طرح قیامت کے دن تمہیں اپنے رب کی زیارت میں کوئی مشکل نہیں ہو گی۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 178]
اردو حاشہ:
حدیث میں لفظ  تَضَامُّونَ  وارد ہے۔
اس کا مفہوم بھیڑ اور ازدحام کی وجہ سے مشقت اور تکلیف کا پیش آنا ہے۔
جب بہت سے لوگ ایک چیز کو دیکھنے کی کوشش کر رہے ہوں، تو جو لوگ اس کے قریب ہوتے ہیں، وہ آسانی سے دیکھ لیتے ہیں جب کہ پیچھے ہونے والے لوگ آسانی سے نہیں دیکھ سکتے۔
یہ صورت اس وقت پیش آتی ہے جب وہ چیز چھوٹی ہو اور انسانوں کے ہجوم میں چھپ جائے۔
چاند بڑا اور بلند ہونے کی وجہ سے بھیڑ میں چھپ نہیں سکتا، اس لیے دیکھنے والوں کی تعداد جتنی بھی ہو، آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔
مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی زیارت میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی، جس طرح پورا چاند دیکھنے میں دشواری پیش نہیں آتی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 178   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4730  
´رویت باری تعالیٰ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا قیامت کے دن ہم اپنے رب کو دیکھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں دوپہر کے وقت سورج کو دیکھنے میں کوئی زحمت ہوتی ہے جب کہ وہ بدلی میں نہ ہو؟ لوگوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم چودہویں رات کے چاند کو دیکھنے میں دقت محسوس کرتے ہو، جب کہ وہ بدلی میں نہ ہو؟ لوگوں نے عرض کیا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تمہیں اللہ کے دیدار میں کوئی دقت نہ ہو گی مگر اتنی ہی جتنی ان دونوں میں سے کسی ای۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4730]
فوائد ومسائل:
سورج کے دیکھنے سے مراد محض دیکھنا ہے، ٹکٹکی لگا کر مسلسل اسی طرف دیکھتے ہی رہنا نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4730   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7438  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
هل تضارون:
یہ باب مفاعلہ اور باب تفاعل دونوں سے بن سکتا ہے اور اس کا مادہ ضرر ہے،
یعنی باہمی بھیڑ اور ٹکراؤ سے تکلیف نہیں ہوگی۔
(2)
تراس:
توقوم کا رئیس اور چودھری بنے،
(3)
تربع:
جاہلیت کے دور کے قانون کے مطابق،
ان سے غنیمت(لوٹاہوامال)
کا چوتھا حصہ وصول کرے یا بقول قاضی عیاض،
راحت وآرام کی زندگی گزارے۔
(4)
يثني بجيرما استطاع:
مقدوربھر اپنی نیکیاں بیان کرے گا،
اپنے منہ میاں مٹھوبنےگا۔
(5)
ليعذر من نفسه:
تاکہ اس کی طرف اس کا عذر اور بہانہ ختم کردے،
وہ کوئی عذر پیش نہ کرسکے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسان کے ہر قسم کے عذر اور بہانے ختم کردے گا اور انسانوں کے اعمال کی گواہی،
عمل کرنے والے اعضاء بھی دیں گے،
تاکہ انسان اپنی گواہی سے ہی مجرم ثابت ہوجائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 7438   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.